عبدالحمید نعمانی
8 جنوری ، 2013
ایک بہتر او رمثالی معاشرے کی تشکیل میں انصاف کا انتہائی اہم رول ہوتا ہے
۔ بہت سے ایسے معاشرتی او رسماجی امور ہوتے
ہیں ،جن کو انجام دینے کے لیے انصاف اولین شرط ہے۔ وہ سماج کی عمارت کے لیے بنیاد ہے،
مطلب یہ ہے کہ انصاف ایک مثالی اور بہتر معاشرے میں ایک اعلیٰ قدر کا درجہ رکھتا ہے۔ شادی جیسے معاملے میں بھی جس کا انسانی سماج
کے بقا و تحفظ اور اسے آگے لے جانے کے عمل سے از حد تعلق ہے،انصاف بنیاد اور اعلیٰ قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔
جہاں فطری جنسی خواہش کے غلبے کے سبب آدمی کے لیے شادی واجب اور زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہوتو شادی فرض ہوجاتی ہے ، وہیں دوسری طرف اگر اسے اپنے خاص
مزاج کی وجہ سے یہ اندیشہ و خیال ہوکہ ہونے
والی بیوی زیادتی کی زد میں آجائے گی، تو
اس کے لیے نکاح کرنا مکروہ اور اگر یقین ہو کہ بیوی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا اور
وہ ظلم و زیادتی کی شکار ہوجائے گی ، تو شادی کرنا حرام ہے۔ ایک سے زائد شادی کے معاملے
میں بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دوسری بیوی
،بیویوں کے ساتھ انصاف ہو۔ اس کے سلسلے میں قرآن و سنت اور فقہ اسلامی میں واضح
احکام پائے جاتے ہیں ۔ اگر اپنے حالات اور ضرورت کے مد نظر ایک سے زائد (4 تک) شادی
کی ضرورت محسوس کرتا ہے، تو وہ ایسا کرسکتا
ہے۔ اس کی اسلامی شریعت نے اجازت دی ہے۔ آج کی تاریخ میں یہاں یہ سوال قابل
توجہ ہوگیا ہے کہ کیا دوسری شادی کے لیے آدمی کو پہلی بیوی کی اجازت اور رضامندی حاصل کرنا ضروری ہوگا اور یہ شرط پوری کیے بغیر
دوسری شادی نہیں کرسکتا ہے۔ یہ سوال دہلی کی ایک ٹرائل عدالت کے ایک فیصلے سے سامنے
آیا ہے، کورٹ کی ایڈیشنل سیشن جج محترمہ کامنی
لاء نے دوسری شادی کرانے والےنکاح خواں کی پیشگی
ضمانت کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا ہے، اس کے کئی امور او رپہلو توجہ اور بحث و گفتگو کے متقاضی ہیں۔
مسئلے کا ایک حصہ تو وہ ہے جو جج محترمہ کامنی لاء کے فیصلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور
دوسرا حصہ وہ ہے جو دوسری شادی اور اس کی اصل نوعیت سےتعلق رکھتا ہے ۔ اصل فیصلے میں
کن دلائل و حقائق کے حوالے سے مسئلے کو پیش کیا گیا ہے، ا س کی اصل کی کاپی کے مطالعے
اور جائز ے کے بعد ہی حتمی طور سے اظہار خیال
کیا جاسکتا ہے۔ مشہور ماہر قانون جناب ڈاکٹر طاہر محمود صاحب نے ایک بیان میں کہا ہے
کہ ٹرائل کورٹ کی جج نے جو کچھ کہا ہے، وہ سو فیصد ٹھیک کہا ہے۔ انہوں نے یہ سب اپنی طرف سے نہیں، بلکہ کتابوں کا حوالہ دے کر کہا ہے،
البتہ میڈیا میں جج کے ذریعے کہی گئی تمام
باتیں نہیں آئی ہیں، اگر وہ بھی شائع کی جاتیں ،تو ان کا موقف مزید واضح ہوجاتا۔
لیکن میڈیا (ٹائمز آف انڈیا
،دینک جاگرن 2 جنوری 2013 وغیرہ)میں جتنا کچھ آیا ہے، اس کو ڈاکٹر طاہر محمود نے غلط قرار نہیں دیا ہے۔ میڈیا میں فیصلے کا جو حصہ شائع
ہوا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ قرآن مقدس نے کسی مسلمان کو بیک وقت ایک سے زیادہ شادی
کرنے کی اجازت ضرور دی ہے ، لیکن اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ اسلامی شریعت میں
مخصوص حالات میں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی گئی ہے ۔ جن ممالک میں اسلامی قانون
رائج ہے، وہاں بھی دوسری شادی کی اجازت خاص
حالات میں دی گئی ہے، جیسے پہلی بیوی کی بیماری یا اس کا بانجھ ہونا۔ ایسے حالات میں
پہلی بیوی کی اجازت لےکر دوسری شادی کی جاسکتی
ہے۔ بہت سے مسلم ممالک میں ایک سے زیادہ شادی کو پابند ضابطہ بنایا گیا ہے، یا سرے
سے ختم کردیا گیا ہے ۔ ان تغیرات و تبدیلیوں کی روشنی میں ہندوستان جیسی روشن خیال
جمہوریت میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے’’۔
جہاں تک بالغ لڑکی کی زبردستی
شادی کرنے کا مسئلہ ہے تو وہ شرعاً سرے سے قابل تسلیم نہیں ہے ۔ اگر اس کے اولیا (سرپرست
) باپ دادا بھی زبردستی شادی کرادیں تو وہ
اسلامی شریعت کی رو سے قابل رد ہے ، جب کہ موجود ہ معاملے میں کہا جاتا ہے کہ لڑکی کی مرضی کے خلاف زبردستی ،اس کے سر پرستوں
کو بتائے بغیر اس کا نکاح، ایک شادی شدہ تین بچوں کے باپ سے کرادیا گیا تھا۔ ایسی شادی
کو لاز ماً رد کردیا جانا چاہئے ، کیونکہ شریعت
کایہی تقاضا و منشا ہے، لیکن اس میں نکاح خواں کا کیا قصور ہے، جب کہ اس کو بے خبر
رکھ کر ایسا کچھ کیا گیا ہو، گواہوں کے بغیر
تو وہ نکاح نہیں پڑھا سکتا ہے ۔ ہاں اگر نکاح خواں کی ملی بھگت
سے زبردستی کی شادی کی گئی ہوتو دوسری
بات ہے۔ لیکن ایسے معاملے میں نکاح
خواں کی ضمانت نہ دینا ناقابل فہم ہے، اس صورت
میں وہ بھی یقیناً قصور وار قرار پائے گا، سر دست موجودہ حالات میں معاملے کے موافق
و مخالف سارے گوشے سامنے نہیں آئے ہیں، اس لیے صورت حال کا نتیجہ خیز تجزیہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، مگر فیصلے میں دوسری شادی کی ضرورت
کا اظہار جس شکل میں سامنے آیا ہے، اسے نہ تو مسئلے کی مکمل او ربہتر تعبیر و توضیح
قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ڈاکٹر سید طاہر محمود صاحب کی اس رائے سےاتفاق کیا جاسکتا ہے کہ جج نے جو کچھ کہا ہے وہ سوفیصد ٹھیک کہا ہے۔ انہوں نے مسلم پرسنل
لاء کے سلسلے میں مسلم ممالک میں کیے گئے اقدامات اور اختیار کردہ پالیسیوں پر اہم
کام کیا ہے، اس کے متعلق ان کی تحریریں کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے کچھ میں دوسری شادی کو پہلی بیوی کی اجازت سے مشروط
کردیا گیا ہے، لیکن یہ ڈاکٹر طاہر محمود صاحب بھی جانتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کے بارے میں کچھ مسلم ممالک کی انحرافی روش ، شریعت اسلامی کی
بہتر نمائندگی نہیں ہے۔ اس کے متعلق ماہرین فقہ و شریعت نے تفصیلی تبصرے کیے ہیں، اسلامی شریعت نے جس مقصد او رضرورت کے تحت
ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی ہے( ترغیب و حکم نہیں ) ترکی جیسے ممالک، جہاں لا دینیت
او رمذہب بیزاری کا ایک زمانے میں بول بالا رہا ہے، کی پالیسی اس کے مخالف و منافی ہے، اس کے متعلق مسلم پر سنل لاء کے تناظر میں ان کا حوالہ نہ تو
راست رویہ ہوسکتا ہے او رنہ ہی یہ کوئی دلیل
ہے، شرعی معاملے میں شرعی دلیل ہی معتبر اور
قابل قبول ہوتی ہے او رمسلم پرسنل لاء کا تعلق
اسلامی شریعت ہی سے ہے۔ شریعت ایکٹ کی روسے
ہندوستان کی عدالتیں ، اس کی پابند
ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لاء : نکاح، طلاق وقف
وغیرہ میں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں۔ دہلی کی ٹرائل عدالت کی جج
کامنی لاء نے اپنے فیصلے میں دوسری شادی کی وجوہات اور حالات کے تناظر میں جو باتیں کہی
ہیں، وہ زیادہ تر شرعی لحاظ سے قریب قریب صحیح اور منشا ء شریعت پرمبنی ہیں، لیکن ضرورت
کے تحت دوسری شادی کو پہلی بیوی کی اجازت سے
مشروط کرنا اسلامی شریعت کے مقصد و منشا کے منافی ہے۔ اس کے لیے قرآن و سنت اور اسلامی
فقہ میں سرے سے ہی کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔مخصوص
حالات میں پہلی بیوی کی طرف دوسری شادی کو مشروط قرار دینا شوہر کی ضرورت و قوامیت
کو نظر انداز کردینے کے ہم معنی ہے، اس سے جہا ں مسئلہ پیدا ہوگا ، وہیں ضرورت کے تحت شرعی اجازت سے استفادے کا راستہ بھی
مسدود ہوکر سماج میں جنسی بے راہ روی پیداہوگی
۔ اسلامی شریعت میں اس کی گنجائش یقیناً نہیں
ہے کہ کوئی آدمی اجازت سے ضرورت کی حد تک استفادہ کے بجائے محض عیاشی اور مستی کے لیے ،ایک سے زیادہ شادی کرے اور پہلی
بیوی کے ساتھ کسی بھی درجے میں ناانصافی اور
ظلم و زیادتی کرے۔ ایک سے زیادہ نکاح بیویوں
کے درمیان ممکنہ حد تک اختیاری امور میں انصاف اور ضروری و واجب حقوق کی ادائیگی سے مشروط ہے ، جیسا کہ قرآن حکیم کی سورہ النساء
کی آیت 3 میں کہا گیا ہے، ‘‘ اور اگر تم کو اس بات کا احتمال (بھی
) ہو( اور یقین ہوتو بدرجہ اولیٰ) کہ تم یتیم
لڑکیوں کےبارے میں (بابت ان کے مہر کے) انصاف ( کی رعایت) نہیں کرسکوگے، تو
( ان سے نکاح مت کرو، بلکہ ) اور عورتوں سے جو تم کو (اپنی کسی مصلحت کے اعتبار سے
) پسند ہوں، نکاح کرلو ( کیونکہ وہ مجبور نہیں ، آزادی سے اپنی رضا ظاہر کرسکتی ہیں
اور نکاح اس قید کے ساتھ ہو کہ جو ایک عورت
سے زیادہ کرنا چاہے ، تو ان صورتوں میں سے کوئی صورت ہو، ایک صورت یہ ہے کہ ایک ایک
مرد )دو دو عورتوں سے (نکاح کرے) اور (دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ایک مرد) تین تین عورتوں
سے (نکاح کرے) اور (تیسری صورت یہ کہ ایک ایک
مرد) چار چار عورتوں سے (نکاح کرے)۔ پس اگر تم کو (غالب )احتمال ہو اس کا کہ (کئی بیویاں
کرکے ) عدل نہ رکھو گے (بلکہ کسی بیوی کے حقوق
واجبہ ضائع ہوں گے) تو ایک ہی بی بی (بیوی) پربس کرو۔’’
(ترجمہ مع تفسیر بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ
علیہ)
ایک سے زیادہ شادی میں اصل
قابل لحاظ بات بیویوں کے درمیان عدل و انصاف اور واجب حقوق کی ادائیگی ہے، نہ کہ پہلی بیوی کی اجازت ۔ یہ شرط غیر ضروری اضافہ ہے، اس سلسلے میں غلام احمد پرویز (مفہوم
القرآن) پروفیسر رفیع اللہ شہاب (احکام الفرقان ) جیسے حضرات نےقرآنی آیات اور احادیث کی جس من مانے طریقے سےتفسیر و تو ضیح کی ہے، وہ تحریف کے ذیل آتی ہے،
شہاب صاحب نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کے ایک واقعہ سے غلط استدلال کرتےہوئے
مزید شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت کولازمی قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ فقہا ء نے ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز کردیا
ہے، حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسے مفروضات
سے قرآن وحدیث اور تمام فقہی مسالک کی کتب
فقہ خالی ہیں، اسی تناظر میں یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ دہلی ٹرائل عدالت کے فیصلے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سوفیصد
ٹھیک ہے، ایک سے زیادہ شادی کرنے والے مرد کو بالغ لڑکی کی اجازت اور سرپرستوں کی مرضی
سے نکاح کرنے اور بیویوں کے مابین انصاف و
عدل اور ضروری حقوق کی ادائیگی کا قانوناً و شرعاً پابند کیا جاسکتا ہے ، نہ کہ دوسری
شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کا ۔ موجودہ
صورت حال نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لیے ایک بار پھر یہ ضرورت اجاگر کردی ہے کہ وہ
بہتر مطلوبہ شکل میں مسئلے کو سامنے لانے کا کام کرے۔
8 جنوری، 2013 بشکریہ : روز
نامہ ہمارا سماج ، نئی دہلی
URL: