عبدالعزیز
3جولائی،2019
ہجومی تشدد یا دہشت گردی کی وبا سارے ملک میں پھوٹ پڑی ہے۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کی تشویش اور فکر مندی فطری بات ہے۔ کیونکہ ان پر ناحق حملے کسی نہ کسی بہانے سے کئے جارہے ہیں۔ آج کل ’جئے شری رام‘ کے نہ بولنے سے مسلمانوں پر حملے پے در پے کئے جارہے ہیں۔ جہاں جہاں سنگھ پریوار کی حکومتیں ہیں وہاں حملہ آوروں کی پزیرائی ہو رہی ہے۔مجرموں کو گلے لگایا جارہا ہے اور پھولوں کا ہار پہنا کر استقبال کیا جارہا ہے۔اب تو حالت یہ ہے کہ حکمراں طبقے کے بیٹے، بھتیجے سرکاری افسروں کوبھی جب چاہتے ہیں زد و کوب کرتے ہیں اوراس پر بے دریغ حملے کرتے ہیں۔ جب غیر بی جے پی حکومت میں ان کو گرفتاری کے بعدجیل سے رہائی ہوتی ہے تو جیل کے سامنے اور ان کے گھر میں ان کا پرجوش استقبال ہوتا ہے۔
اندور میں بی جے پی ایم ایل اے آکاش وجئے ورگیہ (بی جے پی جنرل سیکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ کا بیٹا) نے کئی روز پہلے ایک میونسپل آفیسر دھریندر ا سنگھ بیس کو کرکٹ کے بلے سے اس وقت مارا پیٹا جب وہ میونسپل کے قاعدے اور قانون کے کے مطابق ایک بلڈنگ کو جس کے گرجانے کا خطرہ تھا منہدم کررہا تھا۔ گزشتہ اتوار کو جب آکاش کی جیل سے ضمانت پر رہائی ہوئی تو بی جے پی کے لوگوں نے جیل کے سامنے اس کا پرجوش استقبال کیا او رپھولوں کا ہار پہنایا اور اس کے گھر میں خوشی کے اظہار کے لئے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ آکاش نے اپنے سوال کے جواب میں کہا کہ ”میں نے جو کچھ کیا تھا وہ صحیح کیا اور سوچ سمجھ کر کیا تھا۔مجھے اس کے لئے کوئی ندامت یا شرمندگی نہیں ہے“۔اب غور کرنے کی بات ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ کمزور اور ناتواں پر حملے کررہے ہیں، نشہ اقتدار میں اندھے ہوگئے ہیں۔
مسلمان بد قسمتی سے کئی لحاظ سے کمزور ناتواں ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے بھی اور معاشی اعتبار سے بھی۔ اس پسماندگی کی بھی ایک وجہ ہے کہ حملہ کرنے سے ڈرتے نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس اور قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور تیسری بڑی وجہ ہے کہ حکومت کے عہدوں پر جو فائز ہیں حملہ آوروں کی پذیرائی کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس مسلمان جو مظلوم ہیں وہ خوف و دہشت کی وجہ سے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ کچھ بھی کرتے ہیں تو پولس ان پر ایک دو نہیں بلکہ کئی الزامات گھڑ کر لگا سکتی ہے اور برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ دے گی۔اس خوف سے وہ اپنی جان دے دیتے ہیں مزاحمت نہیں کرتے جو ایک طرح سے سخت بزدلی ہے۔ بزدل ایک بار نہیں بار بار مرتا ہے لیکن بہادر ایک بار مرتا ہے۔ مسلمانوں کو ملکی اور شرعی قانون سے اچھی طرح واقف ہوناچاہئے۔ ملک کا قانون ہے کہ جب بھی کوئی اس کے جان و مال پر حملہ کرے تو وہ اس کا دفاع کرسکتا ہے۔ دفاع کرنا غیر قانونی نہیں ہے بلکہ اس کا قانونی اور جمہوری حق ہے۔ شریعت اسلامی نے بھی دفاع کرنے کا حق دیا ہے۔ کوئی بھی شخص اگر کسی مسلمان پر حملہ کرتاہے مسلمان اگر مقابلہ کرتے ہوئے مارا جاتاہے وہ شہید کہلاتا ہے۔ اگر بچ جاتا ہے تو اسے غازی کہا جاتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر مسلمان ایمان اور اسلام کے ساتھ حملہ آور کامقابلہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد ہوتی ہے۔ مولاناظفر خاں نے صحیح کہا ہے کہ۔
اٹھ باندھ کمر کیا کرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے اور برادران وطن میں جو انصاف پسند ہیں ان کی طرف سے ہجومی تشدد یا ہجومی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ مسلمان نوجوان اور کچھ تنظیموں نے پر امن احتجاج کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ چند اچھے اور حق پسند قومی اخبارات میں بھی ہجومی دہشت گردی کے خلاف سخت طریقے سے لکھا جا رہا ہے۔ اگر چہ ان سب کو حکومت وقت پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے لیکن نا انصافی،زیادتی، جبر و ظلم کے خلاف حتی المقدور آواز اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عام طور پر جو بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ احتجاج کررہے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر کرر ہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کلکتہ یا کسی بھی شہر میں جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی بڑے پیمانے پر مجتمع ہوکر ظالموں کے خلاف احتجاج کریں۔ ممکن ہو تو غیر مسلم بھائیوں کوبھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں اجتماعی احتجاج میں شریک کریں۔ اس کا اثر کچھ زیادہ ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی ایک کمزوری یہ ہے کہ کسی بھی احتجاجی جلسے یا مظاہرے کے لئے بڑے پیمانے پر تیاری نہیں کرتے۔ چندلوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر کسی تیاری کے جلسے جلوس اور مظاہرے کرتے ہیں۔ حالانکہ مظاہرے اور احتجاج اور مخالفت کی بات ہر مسلمان اور ہر انصاف پسندانسان میں پائی جاتی ہے۔ اگر اسے اچھے طریقے سے ترغیب دلائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑے پیمانے کاجلوس یا مظاہرہ نہ ہوسکے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جس کااحساس عام طور پر کیاجارہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت سی چھوٹی تنظیمیں ہیں ان کی طرف سے بھی مشترکہ طورپر کوئی لائحہ عمل مرتب ہونا چاہئے تھا اور ایک ایسی آواز اٹھنی چاہئے تھی جو سارے مسلمانوں کے دل کی آواز ہوتی۔ افسوس ناک بات ہے اس کے لئے جو مشترکہ وفاقی تنظیم ’مسلم مجلس مشاورت‘ مشترکہ کوششوں کے لئے قائم کی گئی تھی وہ آج بستر مرگ پر ہے۔ مسلمان خود اس کے وجود اور زندگی کے درپے ہیں جب کہ اسی حالت میں اس وفاقی تنظیم کی سخت ضرورت تھی۔اگر وہ زندہ ہوتی تو یا اس کے اندر زندگی کی کوئی رمق ہوتی تو ہر شہر ہر قریے میں اس کی میٹنگ ہوتی۔ اس طرف سے کوئی کارروائی کی جاتی۔ مسلمانوں کادلاسہ اور تسلی دینے کی کوشش کی جاتی اور ان کی بزدلی سے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ علماء میں بہت سے لوگ مسلمانوں کو دفاعی اسکیم کی ترغیب دلارہے ہیں اور پھر چیدہ لوگ بھی مسلمان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کررہے ہیں کہ مسلمان کمزوری نہ دکھائیں،بزدلی کامظاہرہ نہ کریں کیونکہ۔’جرم ضعیفی کی سزا ہے مرگ مفاجات‘ (علامہ اقبال)
جب لوگ ایک ہوں یا دو ہوں حملہ آور کے خلاف ڈھیلے،پتھر یا لاٹھی یا کسی قانونی اوزار کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو حملہ آور کی جان پر بن آتی ہے اور وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں کہ گھر کی عورتوں نے اگر شجاعت اور بہادری سے ڈکیتوں کا مقابلہ کیا تو ڈکیت یا تو بھاگ کھڑے ہوئے یا ان کو اپنی جان گنوانی پڑی۔کچھ لوگوں نے مسلمانوں کو مسلم تنظیموں کو تو جہ دلائی ہے کہ جہاں وہ حج کی تربیت اور دیگر تربیتیں دیتے ہیں وہیں جسمانی تربیت کا بھی بندوبست کریں۔ میرے خیال سے یہ کوئی خراب بات نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ کو طاقتور، تندرست وتوانا رکھے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ”طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہوتا ہے“۔
آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ ساری تدبیریں اس وقت فیل ہوجاتی ہیں جب مسلمان ایمانی قوت سے محروم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو ساری چیزوں سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنے اندر ایمانی،اخلاقی اورروحانی قوت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہوذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ذوق یقین سے مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی ایمان و یقین اور غیر معمولی خدا دند قدوس پر بھروسہ۔ علامہ اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ۔
یقین محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
دراصل اعلی سیرت اور اعلیٰ اخلاق ظالموں کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
ہم اگر مشتعل نہ ہوں، خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، متزلزل اور منتشر بھی نہ ہوں تو ہم ظالموں کا آسانی سے بے خوف ہوکر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہماری کوئی جان لے رہا ہے یا ہماری جان پر حملہ کررہا ہے تو ہم آسانی سے بغیر لڑے ہوئے، مزاحمت کرتے ہوئے اپنے زندہ رہنے کا ثبوت دیں۔ ’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔
مصاف زندگی میں سیرت فولاد کر
شبستان محبت میں حریرو پرنیاں ہوجا
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک شعر میں مومن کی پوری صفات بیان کردی ہیں۔
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
3جولائی،2019 بشکریہ: روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/we-be-neither-angry-nor/d/119082
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism