ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام
2 اپریل 2025
قرآن کی نوعیت اور نزول کے تصور کے حوالے سے، بڑی بصیرت افراز اور بااثر شخصیات میں عبدالکریم سروش کا نام آتا ہے، جو ایک ایرانی فلسفی ہیں اور امریکہ میں تعلیم دیتے ہیں۔ ابو زید کی طرح، سروش کے نظریات بھی ایک جامد اور خارجی ترسیل کے معنی میں، وحی کے روایتی نقطہ نظر سے ہٹ کر ہیں، اس کے بجائے انہوں نے اس عمل میں محمد کے زندہ تجربات، اور اس کی ظاہر ہونے والی نوعیت کے اہم کردار پر زور دیا ہے۔
سروش کے علمی و فکری کارنامے اس یقین پر مبنی ہیں، کہ وحی کی ایک جامد اور خالصتاً مابعدالطبیعیاتی تفہیم، اکثر ایک ایسی دنیا میں بامعنی رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام ہوتی ہے، جس کی خصوصیات تیز رفتار تبدیلی اور بڑھتی ہوئی پیچیدگیاں ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے معاشروں میں جہاں مذہبی روایت نمایاں طور پر اثر انداز ہوتی ہے، وحی کے روایتی تصورات کو بغیر تنقیدی نظر سے دیکھے، کھلے دل سے قبول کر لینا، نادانستہ طور پر فکری حرکیات کو دبا سکتا ہے، اور مذہبی تفہیم کے لیے ضروری موافقت پذیری کا راستہ بند کر سکتا ہے۔
(Photo Credit: From Files)
روایت پسند اسلام کو سروش نے جو چیلنج پیش کیا ہے، اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مذہبی تجربہ نبوت کی نمایاں خصوصیت ہے۔ الغزالی جیسی شخصیات سے متاثر ہوکر، سروش دلیل دیتے ہیں، کہ انبیاء کو بنیادی طور پر معجزات ظاہر کرنے کی صلاحیت سے نہیں، بلکہ ذات باری کے ساتھ ان کے ذاتی رابطوں کی گہرائی اور اس کی انقلابی قوت کی بنا پر مقبولیت ملتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد کی پیشین گوئی، دوسرے انبیاء کی طرح، بنیادی طور پر، ایک گہرے اور منفرد انفرادی انسانی تجربے کا نتیجہ ہے۔ یہ نقطہ نظر حکمِ الہی کے خالص خارجی عمل سے توجہ کو، پیغمبر کے شعور کے اندر ایک داخلی اور انقلابی واقعے کی طرف منتقل کرتا ہے، جس سے وحی کے حصول میں انسانی عمل دخل نمایاں ہوتا ہے۔
اس بنیاد پر، سروش نے نبوی تجربے کی توسیع کا ایک اہم تصور متعارف کرایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پیغمبر کے وحی کے تجربات، جامد اور غیر متبدل نہیں تھے، بلکہ وہ ان کے نبوی مشن کے دوران ترقی، عروج اور انحصار کا موضوع تھے۔ تاریخی واقعات اور ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ جیسے مفکرین کی علمیت سے استفادہ کرتے ہوئے، سروش نے اس بات کی وضاحت کی ہے، کہ کس طرح پیغمبر کی وحی کو برداشت کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت بتدریج بڑھتی گئی۔ وحی کا یہ متحرک نظریہ، یک سنگی اور فوری طور پر مکمل پیغام الہی وصول کرنے کے تصور کو چیلنج کرتا ہے، اس کے بجائے وہ اس کا ایک لچکدار نظریہ پیش کرتے ہیں، جو پیغمبر کی ابھرتی ہوئی تفہیم اور ان کے مشن کے سامنے پیدا ہونے والے حالات کے ساتھ تعامل پر مبنی ہے۔
مزید برآں، سوروش وسیع معنوں میں وحی کے تسلسل کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ نئے مذاہب کے ظہور کے لحاظ سے ختم نبوت کو تسلیم کرتے ہوئے، وہ یہ کہتے ہیں کہ مذہبی تجربہ اور معرفت الہی کا عمل، صرف انبیاء تک محدود نہیں ہے، بلکہ مختلف شکلوں اور درجات میں بھی مومنین کی جماعت میں جاری رہ سکتا ہے۔ یہ نظریہ صوفیانہ روایات اور مذہبی نقطہ نظر سے موافقت رکھتا ہے، جس میں روحانی مشق اور مقدس نصوص کے ساتھ مشغولیت کے ذریعہ، معرفت الہی کے حصول اور مذہبی تفہیم کو گہرا کرنے کے جاری امکان پر زور دیا جاتا ہے۔
سروش کے فریم ورک کی بنیاد، مذہب کے جواہر اور عوارض کے درمیان فرق ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ اسلام کے بنیادی، ناقابل تبدیل پہلو، بنیادی روحانی اور اخلاقی اصولوں سے متعلق ہیں، جو پیغمبر کے تجربے سے ظاہر ہوئے ہیں، جیسے خدا کی وحدانیت، انصاف کی اہمیت، اور محبت و ہمدردی۔ اس کے برعکس، "عوارض" سے مراد تاریخی طور پر سماجی-قانونی اصول اور مذہب کے ثقافتی اثرات ہیں، جو ساتویں صدی کے عرب کے مخصوص سیاق و سباق کے ردعمل میں ظہور پذیر ہوئے۔ یہ امتیاز، قرآن اور اس کے قانونی احکامات کے حوالے سے، روایت پسند اسلام کے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنے کے لیے کافی اہم ہے۔
مزید برآں، سروش مذہبی تجربے اور وحی کی فطری تاریخی اور سیاق و سباق پر مبنی نوعیت پر زور دیتے۔ ان کے نزدیک پیغمبر کا ذات باری کے ساتھ ربط، جو کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ماورائی ہے، لیکن اس میں انسانی شعور، ان کے ثقافتی پس منظر اور لسانی صلاحیتوں اور ان مخصوص چیلنجوں اور مواقع کا بھی دخل ہے، جن کا انہیں سامنا تھا۔ اس تاریخی صورتحال کو تسلیم کرنا، قرآن کی اس انداز میں تشریح کرنے کے لیے بہت ضروری ہے، جو عصری تناظر میں افادیت بخش اور انصاف پر مبنی ہو۔ روایت پسند اسلام، جس میں کہ اکثر ہر آیت کے ابدی اور براہ راست اطلاق پر زور دیا جاتا ہے، اس سلسلے میں اس کے تشریحی طریقہ کار کے لیے، اس تاریخی بنیاد کے مضمرات کی بھی تحقیق و تنقید کی ضرورت ہے۔
سروش مذہبی علم کی متحرک اور ارتقا پذیر نوعیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ قرآن سمیت مذہب کے بارے میں ہماری تفہیم جامد نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف شعبوں میں انسانی علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور ارتقا کے بھی تابع ہے۔ یہ نقطہ نظر اس تصور کو چیلنج کرتا ہے، کہ اسلام کی مکمل تفہیم کسی خاص تاریخی دور یا گروہ میں محدود ہے۔ اس سے یہ تجویز بھی نکل کر سامنے آتی ہے، کہ روایت پسند اسلام کو نئے علم اور اخلاقی تحفظات کے ارتقاء کی روشنی میں، وراثت میں چلی آ رہی تشریحات کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جس سے مقدس متون کے ساتھ فکری اور علمی تحقیق و تنقید کے جاری عمل کا فروغ ہو گا۔
مذہبی تفہیم کو گہرا کرنے کے جاری امکان، اور مذہبی علم کی ترقی پذیر نوعیت پر سوروش کا زور دینا، روایت پسند حلقوں میں فکری گفتگو کو زندہ کر سکتا ہے، جس سے وراثت میں چلی آ رہی تشریحات کی تحقیق و تنقید کی حوصلہ افزائی ہو گی، اور نئے نئے افکار و نظریات کو فروغ مل سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ، مذہبی تجربات کے تنوع کے بارے میں سروش کے خیالات، اور بعض قرآنی اعلانات کی تاریخی طور پر مشروط نوعیت، اسلام کے اندر اور دیگر مذہبی روایات کے سلسلے میں، مذہبی حقائق کی مزید جامع اور تکثیری تفہیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔
آخر میں، عبدالکریم سروش کا قرآن کے حوالے سے بطور وحی نقطہ نظر، روایت پسند اسلام کے سامنے فکری تجدید کے لیے، ایک اہم عمل کو شروع کرنے کا ایک مضبوط مطالبہ پیش کرتا ہے۔ کلام الہٰی کے خالصتاً خارجی اور جامد نمونے کو ایسے نمونے میں بدل کر، جس میں محمد کے بدلتے ہوئے مذہبی تجربے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، سروش نے فکری طور پر ایک مزید مضبوط، سماجی طور پر افادیت بخش، اور عالمی سطح قابل عمل اسلام کی طرف ایک راستہ پیش کیا ہے۔
-----
English Article: Abdolkarim Soroush on Qur’an and/as Revelation
URL: https://newageislam.com/urdu-section/abdolkarim-soroush-quran-revelation/d/135247
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism