New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 03:08 AM

Urdu Section ( 18 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Professor Hamid Rafi Abadi: پروفیسر حامد رفیع آبادی: مختلف ذرائع سے اسلامی نظریہ

 

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

13 مئی 2023

 ہمارے دور میں مختلف نظریات کے حملوں کے پیش نظر مذہب پر زبردست دباؤ رہا ہے۔ آئیڈیالوجی، اگر ہم دیکھیں تو اس کی ابتداء یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی پیداوار ہے۔ اسے فلسفے کے زوال کے ساتھ اہمیت حاصل ہوئی۔ گو کہ فلسفے اور نظریے کے درمیان بظاہر کوئی تنازعہ نظر نہیں آتا، لیکن ان کے درمیان حل نہ ہونے والے تنازعات موجود ہیں۔ مارکسزم کی اہمیت اور زندگی کے ہر پہلو پر اس کے مضبوط اثرات کے ساتھ، ایک اصطلاح کے طور پر نظریہ مارکسزم کے ساتھ منسلک ہوا، جس نے اس کی شکلیں بیان کیں۔ مذہبی اسکالروں اور دانشوروں نے بھی اس اصطلاح کا استعمال بنیادی طور پر مارکسی نظریے کی تردید کے لیے شروع کیا۔ گو کہ سرمایہ داری کی طرح مارکسزم کی بھی خوبیاں ہیں لیکن مذہبی طبقے اور چھوٹے ملاؤں نے مارکسی فلسفہ کائنات کو سمجھے بغیر اس پر تنقید شروع کردی، کیونکہ اس نے بہت سے لوگوں کو بے نقاب کردیا۔ لہٰذا، جس طرح اسلام کی ابتداء میں مخالفت کی گئی اور اب بھی کی جاتی ہے، مارکسزم کا بھی یہی انجام ہوا، کیونکہ وہ الحاد پر یقین رکھتا ہے، جب کہ اس کی انصاف اور مساوات کی اقدار کو فراموش کر دیا گیا، صرف اس وجہ سے کہ اس نے خدا کا انکار کیا۔ دوسری طرف، سرمایہ دارانہ نظام، جو برائے نام خدا کو تسلیم کیا، لامتناہی لالچ کے لیے انسانیت، مذہب اور کرۂ ارض کو تباہ کرنے کے لیے ہر وہ کام کر رہا بے جس کی دین میں کوئی گنجائش نہیں۔


 موجودہ کتاب، جو کہ ایک ہمہ گیر اسکالر، محقق اور مصنف پروفیسر حامد نسیم رفیع آبادی کی ایک بہترین کوشش ہے، اور اس میں اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں غور و فکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کہ جس میں اس کا نظریہ بھی شامل ہے۔ یہ ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ پہلے شائع ہوئے تھے اور اب پرانا ایڈیشن ختم ہو چکا تھا، اس نئے ایڈیشن نے پرانے مباحث کو نئے سرے سے زندہ کر دیا ہے۔ ان مضامین کی اہمیت ختم نہیں ہوئی ہے، حالانکہ وہ پہلے ایک نوجوان اسکالر تھے اور اب ایک ایک تجربہ کار فلسفی ہیں، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان کی فکر میں پختگی آ چلی ہے۔ اگر وہ اسی طرح کے موضوعات پر اس کتاب کو دوبارہ لکھتے تو ان کی فکری پختگی ضرور دیکھنے کو ملتی۔

 اس مجموعے میں ریڈیئنس ہفتہ وار کے سابق ایڈیٹر ایس امین الحسن رضوی نے ایک شاندار پیش لفظ لکھا ہے، جن کا کہنا ہے کہ رفیع آبادی کا ذہن ایک متجسس ذہن ہے جو صرف پرانے مکاتب فکر، خشک فلسفیانہ مباحث تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں قرآن اور علامہ اقبال، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور علی شریعتی پر غور وفکر بھی شامل پے۔ اپنے مجموعے کے تعارف میں پروفیسر رفیع آبادی ہمیں بتاتے ہیں کہ اپنے مضامین کے اس مجموعے کے ذریعے میں اس حقیقت کو ظاہر کرنا چاہتے ہوں کہ اسلام انسانی زندگی کے ہر پہلو میں انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔

 ایک ہی خدا، رسول اور کتاب پر ایمان رکھنے کے باوجود مسلمانوں کا اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ فرقوں، مکاتب فکر، علاقائیت اور لسانی تفریق نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلام نے اتحاد اور اجتماعیت پر زور دیا ہے۔ قبائلی دور میں ایک مضبوط اتحاد تھا جسے ابن خلدون نے عصبیت کا نام دیا ہے۔ اب قبائلی دور کے خاتمے کے ساتھ اس بات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کس حد تک مسلمانوں کے امیر کی پیروی کی ضرورت ہے اور اختلاف رائے کو کس حد تک برداشت کرنا چاہیے۔ کتاب میں دیگر موضوعات کی طرح اس موضوع پر بھی فلسفہ اور فلسفیوں کی روشنی میں بحث کی گئی ہے، لیکن اس موضوع پر اسلامی نقطئہ نظر کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ آیات قرآنی اور احادیث کا بڑے پیمانے پر حوالہ پیش کیا گیا ہے۔

 اس کتاب کی ایک اہم خوبی اسلامی فلسفہ کی روشنی میں انسانی فطرت کا تجزیہ ہے، کیونکہ اسلام یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ ہر شخص فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن بعد میں اس کے اردگرد کا ماحول اسے مسلمان یا غیر مسلم بنا دیتا ہے۔ لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے کہ مذہب پرستی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جیسا کہ ہر مذہب اپنے آپ کو سچائی کا واحد علمبردار سمجھتا ہے، لہٰذا جو لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت کے لیے سخت وعیدیں ہیں۔

 اسلام میں علم کا تصور کلی ہے، اور پروفیسر رفیع آبادی، دوسروں کے برعکس، سیکولر اور مذہبی کے درمیان اس کی تقسیم پر یقین نہیں رکھتے۔ اسلام میں علم نفع بخش ہے، زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنے اور بعد کی زندگی کی تیاری میں مدد کرتا ہے۔ تاہم علم نافع اور علم غیر نافع میں یا امام غزالی کی زبان میں علم فرض عین اور فرض کفایہ کی تقسیم کو قبول کرتے ہیں۔

 مادہ پرستی اور الحاد ایک مستقل موضوع ہے جس کی مسلم مفکرین نے ہمیشہ تردید کی ہے۔ کتاب میں الحاد اور اس کے چیلنج پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور مسلمانوں میں کٹر ملحدین کی تعداد بہت کم ہے، حالانکہ اپنے آپ کو سابق مسلمان کہنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ الحاد کے بھی مثبت پہلو ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ سب سے پہلے اس بات سے انکار کرتا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے، گویا کہ یہ لا الٰہ کو قبول کرتا ہے۔ الحاد کی وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں جن میں عقیدہ، توہم پرستی، عیسائی پادریوں کا کردار اور مذہبی علما کا ترقی پسند مخالف رویہ شامل ہیں۔ مارکسزم جیسے مادی فلسفے کی تردید کی گئی ہے، اگرچہ تنقید فلسفیانہ لحاظ سے علمی نہیں ہو سکتی، لیکن یقینی طور پر زیادہ تر مسلمانوں نے مادیت کو ایک طرز زندگی کے طور پر قبول کیا ہے، اگر فلسفیانہ طور پر اس کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے۔ یہ مسلم ممالک میں اسراف، شاہانہ طرز زندگی، غیر ازدواجی معاملات اور بدعنوانی سے ظاہر ہوتا ہے جس میں زیادہ تر مسلم ممالک غوطہ زن ہیں۔

 تحریروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو رفیع آبادی کمیونزم، طبقاتی کشمکش اور الحاد کے حملے سے پریشان نظر آتے ہیں جبکہ یہ حقیقت کہ کس طرح مسلمان سرمایہ داری کو سمجھنے میں ناکام رہے، اس نے کس طرح تشدد اور استعماری نظام اور ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ دیا اور نئے تنازعات کو جنم دیا، اور اس عمل میں مذہب کا استحصال کیسے ہوا، رفیع آبادی کی تنقیدی نظروں سے اوجھل ہے۔ بعض اوقات یہ کتاب کارل مارکس کی تنقید کرتی ہوئی نظر آتی ہے، حالانکہ علی شریعتی اور حسرت موہانی اس کی تعریف کرتے تھے، جب کہ مارکسزم سے بعض مسلمان متاثر ہوئے اور بعض نے اسے رد کیا ہے، جس سے ان کے اپنے ردعمل کو مضبوط کرنے میں مدد ملی، جس میں اسلامی بینکاری کا ناکام منصوبہ یا مستکبیرون اور مستدفون کے درمیان تنازعات کی وضاحت شامل ہے۔

 توحید اسلام کا مرکزی اور بنیادی ستون ہے اور اس کے جوہر کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے ساتھ سامی اور غیر سامی مذاہب کا سارا جھگڑا توحید کی بنیاد پر ہی ہے۔ پھر کتاب میں عید کے فلسفے پر بھی ایک باب ہے کہ یہ کیوں منائی جاتی ہے اور اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ علامہ اقبال کی فلسفیانہ گفتگو کا تمام مذہبی شخصیات اور دانشوروں پر کافی اثر رہا ہے، بعض نے اسے رد کیا، چند نے ان پر تنقید کی اور ایک بڑی اکثریت نے ان کی گفتگو اور بیانیے کو قبول کیا۔ ان کے حقیقی پیغام جیسا کہ ان کے فلسفہ، ڈاکٹریٹ کے مقالے، خطوط اور چھ لیکچروں جو بعد میں اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نو کے نام سے شائع ہوئے ہیں، کا اندھی تقلید کرنے والے مسلمانوں نے بہت کم تجزیہ کیا ہے۔ تصوف کے غلط معمولات پر ان کی تنقید پر شاذ و نادر ہی توجہ دی جاتی ہے یا سامنے لائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے خاص طور پر نوجوانوں کی کردار سازی پر بہت زور دیا۔ مسلم نوجوان ایک بار پھر ایک سلگتا ہوا موضوع ہے اور علماء مسلم نوجوانوں کے ایک طبقے میں غصے کی بنیادوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا کو مسلم نوجوانوں کے ایک فرقہ وارانہ گروہ کی بنیاد پرستی، پرتشدد اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے تقویت ملی ہے، حالانکہ یہ اس وقت ایسے مسائل نہیں تھے جب علامہ اقبال، مسلم نوجوانوں کو ماضی کا از سر نو جائزہ لینے اور ایک عظیم مستقبل کی تعمیر کی دعوت دے رہے تھے۔ علامہ کے فلسفے نے علی شریعتی کو بھی متاثر کیا۔ انسان کے حوالے سے وجودی فلسفی جین پال سارٹے کے نظریات پر علی شریعتی کی تنقید، انسان کے لیے آزادی کی مقدار اور خدا بھی اس کتاب کا ایک اہم حصہ ہے۔ علمائے کرام اور دانشوروں کے درمیان تعلقات صدیوں سے خراب رہے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق مختلف دنیا سے ہے اور ان کا نظریہ ایک دوسرے کے مخالف ہے۔ تقسیم کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن بہت کم مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

 ڈاکٹر رفیع آبادی کا اپنے استاذ مولانا تقی امینی کے ساتھ ان کے مدرسہ امینیہ تک کا سفرنامہ اس افسوسناک حالت پر نوحہ کناں ہے جس میں ہمارے مدارس چل رہے ہیں۔ انسانوں کو جن آزمائشوں اور مصائب کا سامنا ہے، لگتا ہے کہ وہ مدارس تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ مغرب اور نظریات کے حوالے سے تنقید مولانا مودودی اور دیگر سے متاثر نظر آتی ہے، جس میں مسلمانوں کے ساتھ غلط ہونے والی چیزوں کے بارے میں تھوڑی بہت اپنی خود شناسی بھی شامل ہے۔ مغرب اور سازشوں پر الزام تراشی نے یقیناً مسلم دنیا کی ترقی اور ارتقاء میں کوئی مدد نہیں کی۔ لہٰذا، اس قسم کی تنقید اب بھی زیادہ تر مسلمانوں کے لیے معنی خیز ہے، کیونکہ انہیں مغرب کی سازشوں کا شکار ہونے کی خوراک دی گئی ہے۔

 مجموعی طور پر، یہ کتاب اسلامی نظریات کی تعمیر کرنے والے چند اہم موضوعات پر ایک اچھا مطالعہ ہے۔ تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، کتاب میں دیے گئے دلائل اب بھی معنی خیز ہیں، حالانکہ یہ اس افسوسناک حقیقت کی طرف اشارہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے دلائل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اور مسلمانوں کو جمود کا شکار بنا دیا گیا ہے، جس سے مسلمانوں میں بہت کم نئے خیالات نے قدم جمائے ہیں۔

 -----

 

English Article:  Professor Hamid Rafi Abadi: Islamic Ideology from Variegated Sources

 

URL:   https://newageislam.com/urdu-section/abadi-islamic-ideology/d/129801


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..