عالم نقوی
اتر پردیش کی راجدھانی
لکھنؤ میں گذشتہ روز سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے پھر سے وہی
”معاملہ“ اٹھایا جس نے انہیں یوپی میں مسند اقتدار پر براجمان کرنے سے لے کر ملک
کا وزیر دفاع بننے تک کئی اہم سرکاری عہدوں پر بھی پہنچا یا تھا اور وہ ملک کے بے
حد طاقتور سیاسی رہنما بھی بن گئے تھے۔ یعنی بابری مسجد کا معاملہ۔ ملائم سنگھ
یادو نے کہا کہ آئند 6دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کی 18 ویں برسی پر بابری مسجد
کی تعمیر نو کی تحریک شروع کی جائے گی اور اس کے لئے سڑکوں پر اتراجائے گا۔ یہ سچ
ہے کہ مسلمان اور اس ملک کے سیکولر ذہن مسلم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ایودھیا میں
تاریخی بابری مسجد دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کی جائے جہاں وہ تھی لیکن یہ بالکل سچ
نہیں ہے کہ مسلمان او را س مسلک کے سیکولر ذہن غیر مسلم اس کے حق میں ہیں کہ بابری
مسجد کی تعمیر نو کے لئے کوئی جذباتی تحریک شروع کی جائے اور سڑکوں پر اترا جائے۔
ہندوستانی شہری، چاہے وہ مسلمان ہوں کہ ہندو اب سیاسی طور پر اس قدر باشعور ہوچکے
ہیں کہ وہ ملائم سنگھ یادو کے مذکورہ اعلان کو تہہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکا
چھپا معاملہ نہیں ہے کہ ملائم سنگھ یاد و اپنی سیاسی چمک و دمک کھوچکے ہیں، ان کے
اقلیت مخالف سیاسی فیصلے انہیں لے ڈوبے ہیں اور اب وہ دوبارہ اپنی سیاسی دوکان
چمکانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے بابری مسجد سے بہتر کوئی ایشو نہیں ہوسکتا۔ وہ کسی
دور میں بابری مسجد کے ایشو پر ہی مسلمانوں کے مقبول لیڈر بنے تھے۔ اور سچ تو یہ
ہے کہ مسلمانوں نے انہیں خوب نوازا بھی تھا لیکن جب ملائم سنگھ یادو کا ’اصلی
چہرہ‘ نظر آیا تو مسلمانوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی، آج یہ حالت ہے کہ
الیکشن پر الیکشن ہار تے جارہے ہیں۔ وہ اپنی بہو ڈمپل یاد وتک کو الیکشن کے میدان
میں کامیابی نہیں دلا سکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کی نظروں میں اب ملائم
سنگھ ’سیاسی اچھوت‘ ہوچکے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ ساراعذاب ملائم پر صرف اس لئے
آیا ہے کہ وہ اسی بابری مسجد کے مجرموں کو جسے دوبارہ تعمیر کرانے کے لئے وہ آج
سڑکوں پر اترنے کو تیار ہیں، ساتھ لئے لئے گھوم رہے تھے۔۔ انہیں یہ لگ رہا ہے کہ
مسلمان کیا کرلیں گے۔و ہ جب چاہیں کسی ساکشی مہاراج کو ایم پی بنوا سکتے ہیں اور
جب چاہیں کلیان سنگھ کا ہاتھ پکڑکر انہیں مسلمانوں کے سینوں پر مونگ دلنے کیلئے
سماج وادی پارٹی میں اہم عہدے دے سکتے ہیں۔ بہر حال وہ یہ سب کرسکتے ہیں، سماج
وادی پارٹی ان کی اپنی پارٹی ہے مگر مسلمان اور غیر مسلم سیکولر عوام بھی یہ
کرسکتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی کو ووٹ نہ دیں کیونکہ یہ ووٹ ان کے اپنے ہیں۔ کلیان
سنگھ کی دوستی کچھ اتنی گاڑھی تھی کہ ملائم نے سماج وادی پارٹی کے ایک بنیادی رکن
محمد اعظم خان کو پارٹی سے چلتا کردیا تھا۔۔انہیں اس وقت مسلمانوں کے غم و غصے کی
کوئی پرواہ نہ تھی۔ اب وہ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کیلئے’تحریک‘چلانے کی باتیں
کررہے ہیں، وہ بابری مسجد کے نام پردوبارہ سیکولر ازم کا ڈھونگ رچانے کے لئے تیار
کررہے ہیں۔”بابری مسجد کا معامہ“ سیکولرزم کا ڈھونگ ہی ہے۔ مسلمان بخوبی جانتے ہیں
کہ یہ سب صرف مسلمانوں کے ووٹ بٹور نے کے لئے ہورہا ہے او رمسلمان اب ملائم کو گلے
لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔۔۔ مگر ملائم، ابھی ہمت نہیں ہارے ہیں۔ ہمیں یقین ہے
کہ وہ بابری مسجد کا معاملہ اٹھائیں گے۔کلیان سنگھ ادھر رام مندر کا معاملہ اٹھا
رہے ہیں۔ کل کے دونوں دوست آج ایک دوسرے کے حریف بن کر مسجد مند ر کے معاملے کو
گرم کریں گے اور مستقبل قریب کے حالات جو نظر آرہے ہیں وہ بے حد تشویشناک
ہیں۔بابری مسجد اور رام مندر کے قضیہ پر پھر فسادات بھڑک سکتے ہیں۔ بی جے پی کو
پھر ’سیاسی طاقت‘ مل سکتی ہے۔ اقلیت کو بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ حالات
اگر خراب ہوئے تو سب سے زیادہ نقصان میں اقلیت بالخصوص مسلم اقلیت ہی رہے گی۔
مسلمانوں کو نہ ہی تو ملائم سنگھ یاد کے ”بابری مسجد“ کے نام پر جذبات میں آنے کی
ضرورت ہے اور نہ ہی سڑکوں پر اترکر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ بابری مسجد کامقدمہ
ہائی کورٹ میں آخری مراحل میں ہے اور فیصلہ جلد ہی ممکن ہے۔ مسلمان بس عدالت کے
فیصلے کا انتظار کریں اور فیصلہ آئے تو اس کا احترام کریں یا آئندہ کی قانونی جنگ
کی تیاری کریں۔۔۔ دوسری جانب غیر مسلم
سیکولر افراد کو چاہئے کہ وہ کلیان سنگھ کے ”مندر“ کے نعرے کے اثر سے خود کو بھی
بچائیں او راپنے لوگوں کو بھی اس کے اثر سے محفوظ رکھیں کہ اسی میں ملک کا بھلا
ہے۔۔ حکومت کو بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاملہ امن و امان کا ہے او ر یہ
مندر او رمسجد کے نام پر سیاست کر کے اقتدار کی کرسیوں پربراجمان ہونے کا خواب
دیکھنے والے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/vote-bank-politics-mulayam-calls/d/2134