New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 05:47 AM

Urdu Section ( 23 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Aa’ina-e-Hind—The Mirror of India and the Mystic of Bengal !آئینہ ہند - بنگال کا مرد قلندر

غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

20 مئی 2024

"الحق وی آئینۂ ہند بود کہ تمام ہند رونق ارشاد وہدایت بیفزود "

"حقیقت یہ ہے کہ وہ [اخی سراج] ہندوستان کا آئینہ ہے، جس کی حکمت اور رہنمائی سے پورا ہندوستان روحانیت کی روشنی میں جگمگاتا رہے گا۔"

~محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ

اہم نکتہ:

1. بنگال میں 14ویں صدی کے صوفی بزرگ، سید اخی عثمان سراج الدین کا تذکرہ، جو اخی سراج اور "آئینۂ ہند" کے نام سے مشہور ہیں، انتہائی ضروری ہے ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی، غیر منقسم بنگال کے آفاق و اکناف میں، پر امن صوفی تعلیمات اور چشتی روحانی تعلیمات، کی اشاعت میں بسر کی۔

بنگال — جو کہ قدیم وشنو مت، شاوزم، جین مت اور بدھ مت کی سرزمین  ہے— شیخ اخی سراج الدین عثمان جیسے چشتی صوفی بزرگ کی پیدائش اور ظہور کے ساتھ، ہم آہنگی  کی تعلیمات پر مبنی تصوف کا مرکز بن گیا۔ بنگال کے ایک قصبے گوڑ میں پیدا ہونے والے، اخی سراج، جو  "آئینہ ہند" کے اور "سلطان المشائخ" کے نام سے مشہور ہوئے، سلسلہ چشتیہ کے عظیم شیخ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی، کے  ممتاز خلفاء میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بلاشبہ حضرت نظام الدین اولیاء کے تمام خلفاء روحانیت کے اعلیٰ ترین مقامات پر فائز تھے۔ لیکن ان میں حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی، اور پھر آئینہ ہند حضرت اخی سراج کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتیہ انہیں دو بزرگوں سے جاری رہا۔ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء نے اپنے الفاظ میں، اپنے عظیم شاگردوں میں اخی سراج کی تعریف یوں بیان فر مائی: ’’وہ ہندوستان کا آئینہ ہے‘‘۔ فارسی میں تصوف کی مشہور کتاب "روضۃ  الاقطاب" میں، اخی سراج  کے حوالے سے، حضرت نظام الدین اولیاء کا قول یوں مذکور ہے:

"الحق وی آئینۂ ہند بود کہ تمام ہند رونق ارشاد وہدایت بیفزود "

"حقیقت یہ ہے کہ وہ [اخی سراج] ہندوستان کا آئینہ ہے، جس کی حکمت اور رہنمائی سے پورا ہندوستان، روحانیت کی روشنی میں جگمگاتا رہے گا۔"

اس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ اس بنگالی صوفی کے فیض سے، بے شمار عرفاء مستفیض  ہوئے۔ آپ چھوٹی سی عمر میں ہی، حضرت نظام الدین اولیاء سے مرید ہو گئے تھے۔ چند سال اپنے مرشد کی خدمت کرنے کے بعد، وہ لکھنوتی میں اپنی والدہ کی خدمت میں چلے گئے، جو اس وقت بنگال میں "گوڑ" کے نام سے مشہور ہے۔ جب آپ کو خلافت سے نوازے جانے کا وقت آیا، تو حضرت نظام الدین اولیاء نے فرمایا، کہ خلافت کی پہلی شرط، اتنا علم کا ہونا ضروری ہے، جو دینی اور دنیاوی معاملات میں کفایت کرے، لیکن اخی سراج کے پاس اتنا علم نہیں تھا۔ لہٰذا،  مولانا فخرالدین زرادی نے آپ کو چھ ماہ میں عالم بنانے کی ذمہ داری اٹھائی۔ چنانچہ مولانا زرادی نے، ان کی تعلیم کا آغاز کرنے سے قبل، صرف ان کے لیے ایک کتاب لکھی، جس کا نام "تصریفِ عثمان" رکھا۔ اس کتاب کو پڑھنے اور مکمل کرنے کے بعد ہی، حضرت نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ نے، آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا، اور انہیں مشرق کا روحانی گورنر (ولی دیارِمشرق) قرار دیا۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی مشہور زمانہ کتاب’’اخبار الاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں، کہ 14ویں صدی میں  بنگال کے صوفی بزرگ، سید اخی عثمان سراج الدین کو ’’آئینۂ ہند‘‘کہا جاتا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی خلفاء میں سے ایک، اخی سراج نے بھی بابا فرید الدین کی صحبت اختیار کی، اور شیخ فخر الدین زرادی سے مکمل روحانی تعلیم حاصل کی۔

اخی سراج نے بنگال میں سلسلہ چشتیہ کی بنیاد رکھی، جو بعد میں پورے برصغیر میں، مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کا مینارہ نور بن گئی۔ بنگال میں سب سے پہلی خانقاہ بھی اخی سراج نے ہی قائم کی تھی۔ بنگال میں ان کے ممتاز مریدوں اور جانشینوں میں، حضرت علاء الحق پنڈوی اور حضرت امیر خورد کے نام مشہور ہیں۔ ہندوستان کے چشتی بزرگوں کی فارسی سوانح عمری، سیر الاولیاء میں ہے، کہ اخی سراج نے "پورے خطہ کو اپنی روحانی روشنی سے منور کر دیا"۔ مقامی بنگالی لوگ ان سے اس قدر محبت اور عقیدت رکھتے تھے کہ وہ انھیں "پیرانِ پیر" کے نام سے پکارا کرتے تھے، جو کہ عام طور پر بغداد کے سب سے بڑے صوفی بزرگ، عبدالقادر جیلانی کے لیے خاص ہے۔

عاجزی و انکساری کے مجسمہ، اخی سراج نے اپنی پوری زندگی، بنگال کے آفاق و اکناف میں، روحانیت کی ترویج و اشاعت میں گزاری۔ ان کی تعلیمات نے بنگال میں، مسلمانوں کی ہم آہنگ ثقافت اور معتقدات پر انمٹ اثر چھوڑا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ، آج بھی زیادہ تر بنگالی مسلمان روحانی اسلام کی ہی اتباع کرتے ہیں ۔ سچے " آئینہ ہند" ہونے کے ناطے، ان کی روحانی روشنی نے پورے خطے کو منور کر دیا۔

بنگال کے بڑے بڑے اولیاء کرام نے، آئینہ ہند کے روحانی چشمے سے اپنی پیاس بجھائی۔ ان کے بعض مرید شاہی  خاندانوں سے بھی تھے، جن کے سلطان شمس الدین الیاس شاہ کی حکومت سے قریبی تعلقات تھے۔ لیکن آپ نے انہیں بھی، ایک صوفی کی طرح عام  زندگی گزارنا سکھایا۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنے اعلیٰ طبقے کے مریدوں کے، اشرافیہ طرز زندگی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر علاء الحق، جن کے والد بنگال کی صوبائی حکومت کے خزانچی تھے، انہیں آپ نے سر پر گرم دیگچی لے کر چلنے کا حکم دیا تھا۔ اپنے شیخ سے عقیدت اور محبت میں، علاء الحق اپنے سر پر گرم کھانے کی دیگچی لے کر چلا کرتے تھے، حالانکہ اس سے ان کے بال بھی جل جاتے تھے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تصوف پر مشہور زماہ فارسی کتاب "اخبار الاخیار" میں مذکور ہے: ایک دفعہ سہروردی سلسلہ کے ایک درویش، اخی سراج کی صحبت میں وقت گزارنے آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ عشاء کی نمازکے بعد، اخی سراج اپنےبستر پر چلے گئے، جب کہ سہروردی سلسلہ کے وہ درویش ساری رات عبادتوں میں مصروف رہے۔ لیکن صبح کے وقت وہ درویش کیا دیکھتے ہیں، کہ اخی سراج نمازِ فجر بغیر وضو کے پڑھ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر درویش نے کہا، مجھے حیرانی ہےکہ تم رات بھر سوئے رہے، اور اب بغیر وضو کے نماز پڑھ رہے ہو۔ سراج نے اس کا جواب، ایک شاندار فارسی شعر میں دیا:

اگر عاشق بہ مسجد در نیامد

دل عاشق ہمیشہ در نماز است

ترجمہ: عاشق کا دل ہمیشہ عبادت میں رہتا ہے، چاہے وہ نماز کے لیے مسجد میں آئے یا  نہ آئے۔

ان کے قریبی مریدوں میں سلطان المرشدین حضرت علاء الحق پنڈوی رحمۃ اللہ علیہ کو، خطہ بنگال میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ، وہ ہیں جنہوں نے اپنے مرید اور روحانی وارث، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کی، جو ہندوستان میں ایک عظیم ترین چشتی بزرگ بن کر ابھرے، اور  جو "قطب عالم"، "غوث العالم" اور محبوبِ یزدانی کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

ڈاکٹر عبداللطیف (شعبہ تاریخ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)، جن کی پی ایچ ڈی کا عنوان تھا، بنگال میں 14ویں سے 16ویں صدی عیسوی کے درمیان مسلم صوفی تحریکیں، لکھتے ہیں:

"14ویں صدی کے وسط میں، جو صوفی سلسلے بنگال کی سرزمین پر پھیلے ، شیخ اخی سراج کے بعد انہیں کبھی عروج حاصل نہیں ہوا۔ چنانچہ ان کے بعد کوئی اور بڑےبزرگ بنگال میں داخل نہیں ہوئے،  اور نہ ہی کوئی کام کیا۔ قادری، سہروردی، شطاری، فردوسی اور نقشبندی صوفی سلسلے، جو ہندوستان کے دیگر حصوں میں موجود تھے، اور جن کا سماج میں زبردست اثر و رسوخ تھا، بیک وقت بنگال میں اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع نہ کر سکے۔ یہ صرف چشتی سلسلہ کا ہی حصہ تھا، کہ جس نے  بنگال کی سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی میں اہم کردار ادا کیا، اور علاؤالحق پنڈوی اور نور قطب عالم جیسے اولیاء پیدا کیے، جنہوں نے اس خطے میں سلاسل طریقت کو خوب خوب فروغ دیا اور انہیں مقبول عام و خاص کیا۔

English Article: Aa’ina-e-Hind—The Mirror of India and the Mystic of Bengal!

URL: https://newageislam.com/urdu-section/aaina-hind-mirror-india-mystic-bengal/d/132370

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..