ڈاکٹر راشد شاز
مسلمانوں نے اپنے زوال کے مداوا کےلئے جس چیز سے سب سے زیادہ توقع وابستہ کر رکھی ہے وہ قضیہ اجتہاد ہے۔ گذشتہ کئی صدیوں سے ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ سقوط بغداد (1285ء) کے بعد خارجی فکری یورشوں سے بچنے کےلیے اجتہاد کےجس عمل کو منجمد کردیا گیا تھا اگر اسے دو بارہ جاری کردیا جائے تو امّت میں زندگی کی نئی رمق پھر سے پیدا ہوجائے گی۔ ہمارے وہ اہل نظر جو ہمارے سیاسی زوالہ کی وجہ ہمارے تصور حیات کی تبدیلی میں تلاش کرتے رہے ہیں وہ بھی کم و بیش اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اجتہاد کے بند دروازوں کو از سر نو کھول دینا امت کےلئے تقلیب فکر و نظر کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی مسلم فکر بنیادی طور پر اجتہاد کےاسی مبہم خاکے میں رنگ بھرنے کی ایک کوشش کہی جاسکتی ہے جس میں محمد اقبال کے خطبات کو نمایاں مقام حاصل ہے اور جس کےاثرات عصر حاضر کی مسلم فکر پرمسلسل پڑتے رہے ہیں ۔ البتہ اجتہاد کی یہ لے اپنی مزعومہ فکری بلند آہنگی کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ کسی واقعی تقلیب فکر و نظر ( Paradingm Shift) میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ خطبات اقبال کی طباعت کو کوئی پون صدی بیت چکی ہے لیکن اب بھی مسلم اہل فکر کے مابین اجتہاد کی حیثیت ایک عملی ادارے کے بجائے ایک رجائی علمی مطالبے کی ہے اور بس ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس اجتہاد کی شدید ضرورت پر ہمارے اہل فکر متفق نظر آتےہیں اور جس باب اجتہاد کو کھولنے کی مہم کم از کم گذشتہ دو صدیوں سے زور و شعور سےچلا ئی جاتی رہی ہے وہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود ہنوز بند نظر آتا ہے۔ اگر صدیوں پر مشتمل اجتہادی کاوشیں ہمیں کوئی واضح فکر ی رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام ہیں اور اگر ان کے نتیجے میں کوئی نئی دنیا پیدا نہیں ہوتی تو ضرورت اس بات کی ہےکہ اجتہاد کے سلسلے میں مروّجہ تصورات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تب ہی یہ پتہ چل سکتا ہے کہ پانی مرتاکہاں ہے۔
اجتہاد بنیادی طور پر ایک فقہی تصور ہے ۔ یہ سمجھنا کہ نئے اجتہاد سےہمارے فکری بحران کا مداوا ہوسکتاہے دراصل اس خلط مبحث کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے فکری بحران کو بنیادی طور ایک فقہی قضیہ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ حالانکہ ہمارا نظری بحران جس نے ہمارے اجتماعی سفر کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے بنیادی طور پر فکر ی ہے فقہی نہیں ۔ ہم اس حقیقت سےمسلسل نگاہیں بچاتے رہے ہیں کہ اجتہاد کےجس مروّجہ ادارے کوہم مہمیز کرناچاہتے ہیں وہ اپنی سرشت میں ایسے عوامل رکھتاہے جہاں ایک قدم آگے بڑھانا اور دو قدم پیچھے کی طرف چلنااس فکر ی رویئے کا شیوہ ہے پھربھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اجتہاد کی بیل منڈھے چڑھے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک سراب مسلسل ہماری فکر ی زندگی کاعلامیہ بن کر رہ گیا ہے ۔ آئیے اس نکتے کی قدرے وضاحت کی جائے ۔
اجتہاد کا مروّجہ تصور راسخ العقیدہ فقہی ذہن کا سیعہ صدیاں گزریں ہمارا فقہی منہج و اصل بن عطا کےاصول اربعہ کا اسیر ہے جہاں قرآن مجید کے بالمقابل مآخذ کے طور پر احادیث ، اجماع اور قیاس کو یکساں اہمیت دے دی گئی ہے۔ اجتہاد جو دراصل قیاس یا رائے کی ہی ایک شاخ ہے۔ دیکھا جائے تو بڑی حد تک اس پرُانے فکری ڈھانچے کا مرہون منّت ہے۔ نئے مجتہدین اگر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی نیا ذہن بنانے میں ناکام رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ صدیوں سے رائج اصول اربعہ کے اس شاکلے کو توڑنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے ۔ جس فکری چوکھٹے میں قرآن مجید کے بالمقابل آثار و روایات قدماء کےاجماع اور ان کے قیاس کو تقدس کا درجہ حاصل ہوگیا ہوبھلا اس سےکیوں کر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی نیا ذہن اور نئے آسمان کی تشکیل پر منتج ہوگا۔
مسئلہ کی تفہیم کےلئے لازم ہے کہ ہم کسی قدر گہرائی سےاس سوال کا جائزہ لیں کہ اجتہاد جس فکری شاکلے کا جزولا نیفک ہے اس کی تعمیر و تشکیل میں کن عوامل نے حصہ لیا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلم فکر جو پندرہ صدیوں کے تاریخی سفر کے بعد ہم تک پہنچی ہے اور جو یہ سمجھتی ہےکہ فقہائے قدیم کے اصول اربعہ کو برقرار رکھتے ہوئے بعض جزوی اصلاحات کے ذریعہ صورت حال میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے اپنے تاریخی سفر میں اخذ و اکتساب کے اتنے مراحل سے گزری ہے کہ آج اس کااپنے اصل پرواپس لے جاناایک خیال عبث معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جب تک صدیوں کے تاریخی انحرافات کی بے لاگ نشاندہی نہ کی جائے اجتہاد کی تمام تر کاوشیں تقلید و انجماد کا تو سیعہ بن کر رہ جائیں گی۔
اس خیال کی صداقت سےانکار مشکل ہے کہ مروّجہ اسلام کی جو تصویر آج ہمیں نظر آتی ہے اسلام کےاس قالب کی تشکیل میں اقوام مسلم کے تہذیبی سفر کو بھی خاصا دخل رہاہے۔اسلام کی وہ آفاقی دعوت جو محمد رسول اللہ کےذریعے جزیرۃ العرب میں گونجی تھی وہ انبیائی لب و لہجہ وحی ربّانی کے صفحات میں اپنی تمام ترابعاد کے ساتھ آج بھی موجود ہے البتہ مروّجہ اسلام جو فقہا کےدو اوین ، متصوفین کے ملفوظات ’ مفسرین کی لاطائل تعبیرات اور محدثین کی ثقہ و غیر ثقہ معلومات کے ذریعہ تشکیل پایا ہے اس نے آفاقی پیمبرانہ پیغام کا قالب بڑی حد تک بدل کر رکھ دیا ہے ۔لہٰذا یہ سمجھنا کہ فقہائے قدیم کی تعبیرات میں حکّ و ترمیم کے ذریعہ ہم نئی صورت حال کا مقابلہ کرسکتےہیں، دراصل اسلام کی اصل قوت سے ناواقفیت اور انبیائی لب و لہجے سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
ابتدائی عہد میں حالات نے جو رُخ اختیار کیا اس کے نتیجے میں جنگ ردّہ قتل عثمان ، جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات پیش آئے ۔ آنے والے دنوں میں اموی اور عباسی حکومتوں کی راہ ہموار ہوئی ۔ ان دل گرفتہ واقعات سے متوحش ہوکر ہمارے متکلمین اور مؤرخین نے اکثر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ سیاست میں اس بنیادی تبدیلی کےباوجود اسلام کو بحیثیت پیغام زوال نہیں آیا ۔ہوسکتا ہے یہ خیال کسی حد تک صحیح ہو، البتہ اس خیال کو تقویت پہنچانے کےلیے لازم نہیں کہ ہم ان حکومتوں کو بھی پیغمبرانہ اسلام کا نقیب باور کرائیں ۔ ہمارے خیال میں بالکل ابتدائی عہد میں اس قسم کے دل گرفتہ واقعات دراصل اس بات کی غمازی کرتےہیں کہ پیمبرانہ دعوت اور قدسی نفسوں کا گروہ تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں ملائک جیسی خصلتوں کا اظہار نہیں کرسکتا کہ اگر ایسا ہوتا تو مستقبل کے بشری معاشرے کےلے اس پیغام کی قدر وقیمت مشکوک ہوجاتی ۔ پچھلے بھی ہماری طرح انسان تھے جنہوں نے حتی المقدور اپنے حالات میں انبیائی پیغام کو برتنے اور اس کی تکمیل کا خاطر خواہ شرف حاصل کیا ۔ ہم ان کے گرد تقدس کا ہالہ تعمیر نہ کریں تو ان کی لغزشیں ہمارے راستے میں فکری رکاوٹیں پیدا نہیں کریں گی او رہم اپنے اندر وحی ربّانی سے اسی طرح اخذ و اکتساب کی ہمت پائیں گے جس طرح پچھلوں نے کیا ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں تاریخ Canonization کا شکار ہوجائے اور راسخ العقیدہ فکر اس بات پر مُصر ہو کہ محمد رسول اللہ کے ساتھ ہی خلفا ئے اربعہ ، ائمہ اربعہ، ائمہ اثنا عشر ، ائمہ سبعہ وغیرہ کو بھی راسخ العقیدگی کا اظہار سمجھا جائے او رجہاں تاریخ لکھنے کا یہ انداز ہوکہ سلسلۂ خلفاء میں اموی خلیفہ عبدالملک کی حکمرانی کا ذکر تو ملتا ہو لیکن عبداللہ بن زبیر کی ساڑھے نو سال کی حکمرانی طاق نسیاں کی زینت بنا دی گئی ہو اور جہاں بیک وقت اموی، عبّاسی اورفاطمی خلافتوں کو نظری استحقاق فراہم کیا گیا ہو اور یہ سب کچھ راسخ العقیدہ مذہبی ذہن کی تشکیل میں قابل استناد سمجھے گئے ہوں بھلا ایک ایسی راسخ العقیدگی کو وحی ربّانی کا صحیح شارح اور ترجمان کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟۔
واصل کے اصول اربعہ پر ایک او رپہلو سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ واصل جن کا معتزلی ہونا کبھی باعث اعتراض سمجھا جاتا تھا ایک ایسے عہد کی پیداوار تھے جب دانش یونانی کےاثرات نے مسلم فکر میں ہلچل کی کیفیت پیدا کردی تھی ۔ کلاس بحثیں ایسا محسوس ہوتا تھا انبیائی پیغام کا قالب بدل کر رکھ دیں گی۔ مرجیہ ،قدریہ ، جبریہ ، معتزلہ اور ان جیسے بے شمار فرقوں نے عقائد کے سلسلے میں دقیق پیچیدہ بحثوں کا سلسلہ جاری کر رکھاتھا ۔ حتی کہ قرآن جیسے بنیادی و ثیقے کے سلسلے میں یہ بات معرض بحث تھی آیا وہ مخلوق ہے یا قدیم ۔ آنے والے دنوں میں گوکہ اس کلامی طرز فکر پر کسی حد تک روک لگادی البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان مباحث کے زیر اثر روحی ربّانی کے سلسلے میں عام ذہنوں میں مختلف نوعیتوں کے التباسات پیدا ہوگئے ۔ یہ سوال کہ ترسیل وحی کی ماہیت کیا ہے، خدا کا کلام ( Divine Intent) انسانی زبان میں کس طرح متشکل ہوتاہے ۔ کلمۃ اللہ بمعنی Logos سے متعلق یونانی ، عیسائی مباحث بھی ہمارے اہل فکر کی توجہ کا باعث بنے ۔ وحی کی ماہئیت کے سلسلے میں قرآن مجید نے امر ربیّ کہہ کر جس غیر ضروری بحث کا دروازہ بند کردیا تھا اسے دوبارہ کھولنے سے ہوا یہ کہ عام ذہنوں میں وحی ربّانی کی وہ مرکزی اور ناقابل چیلنج حیثیت غیر ضروری متزلزل ہوگئی ۔ قرآن مجید کو Supreme Authority کے بجائے دوسرے قابل اعتماد ماخذ کی طرح ایک ماخذ کی حیثیت دے دی گئی ۔واصل بن عطا جو اپنے عہدے کے کلامی مباحث کا گہرا شعور رکھتے تھے ،انہوں نے غور و فکر کے لے جو شاکلہ ترتیب دیا اس میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سنت اجماع اور قیاس کو بھی کلید ی اہمیت کا حامل بتایا ۔ رفتہ رفتہ واصل کایہ علمی منہج فقہاء کےمابین قبولیت عامہ اختیار کر گیا ۔ آنے والے دنوں میں جب اصول فقہ پر باقاعدہ کتابیں لکھی جانے لگیں کسی کو اس بات کا خیال کم ہی آیا کہ قرآن مجید کے علاوہ دوسرے تینوں ماخذ میں وحی ربّانی کی تابانی کے بجائے دانش انسانی کا ظہور پایا جاتا ہے۔ پھر یہ بات بھی نگاہوں سے اوجھل نہ رہے کہ تاریخ کے مختلف عہد میں سنت کا تصور تغیر پذیر رہا ہے۔ رہا اجماع تو کسی معاملے میں اجماع کا دعویٰ کسی مغالطے سے کم نہیں ۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلوں کا اجماع اگلوں کےلئے حق کی کسوٹی نہیں بن سکتا کہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت عمر کےلئے یہ کیسے ممکن ہوتاکہ وہ عہد رسول کی بہت سی نظیروں کے بر خلاف اپنے حالات کے مطابق نئے فیصلوں کی جرأت کرتے ۔ رہا قیاس جس کے ضمن میں اجتہاد استحسان ، مصالح مرسلہ اور دوسری فقہی اصطلاحات آتی ہیں تو ان کا متنازع فیہ ہونا اہل علم پر واضح ہے۔ ہماری بہترین فقہی کاوشیں چونکہ صدیوں سےاسی اصول اربعہ کے گرد گردش کرتی رہی ہیں جس میں وحی ربّانی کی تجلیوں کوکہیں روایات کا تابع کرنے کی کوشش ہے تو کہیں مقروضہ اجماع اس سے راست اکتساب پر روک لگا دیتا ہے ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ قیاس یا اجتہاد کےنام پر کوئی کوشش اس بنیادی شاکلے کو توڑ سکے جس کا وہ خود مرہون منّت ہو۔
ماضی میں فقہا ئے متکلین کی مروجہ فقہ کے مقابلے میں راست اکتساب کی جو تحریکیں چلی ہیں وہ وکوئی نیا شا کلہ بنانے میں اگر ناکام رہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اجماع اور قیاس سے بغاوت کے باوجود ان کےہاں بھی قرآن مجید کو اس مقام عظمت پرفائز کرنا ممکن نہ ہوا جس کا کہ قرآن سزاوار تھا ۔ اصلاح کا دعویدار یہ گروہ جو خود کو غیر مقلّد ین میں شمار کرتا تھا فقہائے متکلین کے بجاے فقہائے محدثین پر انحصار کےلئے خو د کو مجبور پاتا تھا ۔ کسی ابو حنیفہ یا کسی شافعی کےمقابلے میں صحاح ستہ یا کتب تسعہ پر انحصار سے یہ خوشگوار تاثر تو ضرور قائم ہوتا تھا کہ ہم اپنےجیسے انسانوں کی فہم و بصیرت پر انحصار کے بجائے راست عہد نبوی کے آثار ایّام سے اکتساب کررہے ہیں البتہ احادیث کے وسیع ذخیرے میں بعض نا قابل عمل متروک او ربسا اوقات نا قابل فہم روایتوں کے بیان سے یہ حضرات اس قدر متوحش ہوئے کہ ان روایتوں پر عمل تو درکنار ان کاتنقید ی محاکمہ کرنے کی بھی ان میں جرأت پیدا نہ ہوسکی ۔ اس طرح مقلّدین اپنے ائمہ فقہا کو تقدس کے ہالے میں گھرا دیکھتے تھے کچھ یہی کیفیت غیر مقلّدین کے ذہنوں میں فقہا ئے محدثین کے سلسلے میں پیدا ہوگئی تھی ۔ حدیث پر راست عمل کے دعوے داروں کےلئے صحیح مسلم میں موجود خمرۂ نماز یا متعہ کی روایتوں کو قبول کرنا ممکن نہ تھا او رنہ ہی ان کےلئے ممکن تھا کہ وہ عقل و شائستگی سےپرے بعض ایسے بیانات کو منشور عمل بنا سکیں جن پر وہ سنت سے راست اکتساب کےشوق میں ایمان لے آئے تھے ۔ مثال کے طور پر کس میں اس بات کا یارا تھا کہ وہ کسی بالغ آدمی کو اپنے گھر میں بلاروک ٹوک داخلے کےلئے اپنی ساس یا اپنی بیوی کا دودھ پلواتا کہ اس طرح وہ رشتے کی قربت کی وجہ سے گھر میں بلاروک ٹوک داخل ہوسکے ۔ روایتیں بتاتی ہیں جیسا کہ امام احمد اور امام مسلم نے نقل کیا ہے ایک مرتبہ ابو حذیفہ کی بیوی نے رسول اللہ سےپوچھا کہ سالم ہمارے گھر آتا ہے وہ بالغ آدمی ہے اور ابو حذیفہ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے۔ کتب احادیث کی ان روایتوں کےبقول رسول اللہ نے فرمایا کہ اسے دودھ پلا دو تاکہ وہ گھر میں داخل ہوسکے ۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جب حضرت عائشہ کسی شخص کے متعلق چاہتیں کہ وہ ان کے گھر میں بلا روک ٹوک داخل ہوسکے تو وہ اپنی بہن امّ کلثوم یا اپنی کسی بھتیجی کو حکم دیتیں کہ وہ پانچ مرتبہ اسے اپنا دودھ پلادیں ۔ ( فتح القدیر ۔7۔3)
جو لوگ سنت کے نام پر کتب احادیث کے مجموعوں پر ایمان لےآئے تھے اور جو راویان احادیث کو بمنزلہ جبرئیل سمجھنے پر مُصر تھے ان کےلئے ان جیسی بے شمار روایتوں کو مسترد کرنا ممکن نہ تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ قیاس اور اجماع کے استراد کے باوجود ان کی تمام ترتگ و تاز کا محور لا نیحل او رمتضاد روایتیں بن کر رہ گئیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ فقہ حنبلی میں ، جس کے خیمے سے روایتی فقہ کے خلاف تاریخ کے مختلف ادوار میں علم بغاوت بلند ہوتا رہا ہے فقہائے احناف اور شوافع کی طرح دقیق پیچیدگیاں نسبتاً کم پائی جاتی ہیں ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میدان فقہ میں ید طولیٰ رکھنےوالے حضرات احمد بن حنبل کو بحیثیت فقیہہ تسلیم کرنے پر کم ہی آمادہ نظر آتے ہیں ۔ لیکن سپاٹ لفظی تعبیر اور سادہ لب و لہجہ کے باوجود وحی ربّانی کو روایتوں کا تابع کردینے کی وجہ سے حنابلہ کے ہاں بھی کسی تخلیقی فہم یا راست اکتساب کی صورت حال پیدا نہیں ہو پائی ۔ ابن تیمیہ او رمحمد بن عبدالوہاب اگر مجدّدین کی حیثیت سے اپنے مشن میں ناکام نظر آتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ مروجہ منہج فقہ کی نکیر کے باوجود اجماع اور روایتوں کے حصار کو عبور کرنے کا یارا نہیں رکھتے ۔ تاریخ کی انسانی تحفیظ و تعبیر کو ان کے یہاں بھی تقدیسی مقام حاصل ہے جسے وہ پیرویٔ سلف صالح سے تعبیر کرتے ہیں ۔ دل و دماغ کواگر قدماء کی آرا اور ان کی فہم کا تابع کردیا جائے او ریہ خیال عام ہو کہ ہماری ہر تعبیر کی صحت کےلئے لازم ہے کہ وہ سلف صالحین کی پرُانی تعبیرات کا لازماً پر تو ہو تو پھر وحی ربّانی سے راست اکتساب کا موقع کہا ں رہ جاتا ہے؟
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ابتدائی دو صدیوں میں فقہ کی تشکیل او راس کا ارتقاء جس فکری ماحول میں ہوا اس عہد کے علمی منہج او رکلامی طریقۂ گفتگو پرفقہی اسلوب خاصا نمایاں ہے۔ اگر ایک طرف دائش یونانی اور Logos کے بارے میں عیسائی تصوّر مسلم فکر سے مزاحم ہورہی تھی تو دوسری طرف اہل یہود کا علمی سرمایہ اور ان کے یہاں مذہبی تشریح و تعبیر کی مستحکم روایت بھی مسلمانوں کے نو تعمیر شدہ علمی دبستانوں کو متاثر کررہی تھی ۔ کسی فقیہہ اور محدث کےلئے اپنے شاگردوں کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اب بذات خود مسندِ ارشاد پر فائز ہوسکتے ہیں یا یہ کہ انفرادی علماء کےلئے اس خیال کا قبول عام حاصل کر لینا کہ وہ اب کسی مسئلہ پر باضابطہ فتویٰ صادر کرسکتے ہیں ، اس قبیل کے ادارے اگر بعد کے عہد میں بمشکل ہوتے گئے تو اس کی ایک بڑی وجہ اہل کتاب کا علمی منہج او ران کے یہاں پائی جانے والی سلسلۂ شیوخ کی مستحکم روایت تھی ۔ ابتدائی عہد میں سیاسی نظام کے متزلزل ہوجانے اور موروثی حکومتوں کے قیام کے سبب جو اپنے استحقاق کے لئے علما کےپرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کا سہارا لینا مناسب سمجھتے تھے،اسلام میں سلسلۂ شیوخ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔ بہت جلد ان شخصی دبستانوں اور پرائیویٹ علماء نے ایک ایسے اسلام کی تشریح تھے اسلام میں سلسلۂ شیوخ کو لے لیا جس پرجمہور مسلمان متفق ہوسکیں ۔دیکھتے دیکھتے صرف دو صدیوں کے اندر دین مبین میں فرقوں کی بہار آگئی۔ فقہائے متکلین جب اپنے وضع کردہ پیمانوں سے دوسروں کا ایمان ناپنے کےلئے نکلے تو انہیں اپنے علاوہ کسی کو مسلمان باور کرنا مشکل ہوگیا ۔ کلامی بحثوں کے زیر اثر جہاں مختلف فرقے پیدا ہوئے وہیں ایک تعبیر کے رد میں مسلسل دوسری تعبیر بھی سامنے آتی رہی۔تحریک اعتزال کے پیدا کردہ فکری بحران پر بندھ باندھنے کےلئے ابوالحسن اشعری سامنے آئے جنہوں نے مروجہ کلامی اسلوب میں جمہور مسلمانوں کےلئے ایک قابل قبول اسلام کا منشور تیار کیا ۔ آنے والے دنوں میں اشعری کا تعبیر اسلام ایسی ثقاہت کا حامل ہوگیا کہ اس کی حیثیت راسخ العقیدہ مسلم فکرکی ہوگئی ۔مسلم فکر پر اشعری کے اثرات اتنے گہرے پڑے کہ آنے والی کئی صدیوں میں عرض او رجوہر کی بحث سے پیچھا چھڑا ناممکن نہ ہوسکا ۔ گوکہ بعد کے عہد میں بھی ایسے مواقع آئے جب اشعری کے مخالفین نے مسجد کے منبروں سے گاہے بگاہے ان پر لعن طعن کا سلسلہ جاری رکھا’ البتہ آنے والے دنوں میں غزالی (متوفی 505ھ) میں اور فخرالدین رازی (متوفی 606ھ) کی کاوشوں کے طفیل اشعریت کو بڑی حد تک فتح حاصل ہوگئی ۔ کتاب الابانہ عن اصول الذیانہ میں اشعری نے عقائد کا جو چارٹر تیار کیا اس میں کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ ، آثار صحابہ اور ائمہ محدثین کے ساتھ ہی خصوصیت کے ساتھ احمد بن حنبل کابھی تذکرہ ہے ، جنہیں ان کے خیال میں اللہ نے طریقۂ ہدایت سےنوازا ہے: جن کے ذریعے راہ حق کی وضاحت کی، بدعتوں کا قلع قمع کیا ، دین کو فرقہ بندی سےنجات دی وغیرہ وغیرہ ۔ متفقہ اسلام کی تلاش میں احمد بن حنبل پر غیر معمولی انحصار اگر ایک طرف اس خیال کی غمازی کرتا ہے کہ تددینی عہد کے متکلمین ، جنہوں نے تعبیر کا بنیادی فریضہ انجام دیا ہے وہ بھی متفذمین کے سلسلے میں اپنے اندر کسی محاکمے کا یارانہ رکھتے تھے ۔ آنے والے دنوں میں ساری معرکہ آرائی کا انحصار اس بات پر تھا کہ کس علمی دبستان اور کس تعبیر ی قالب کو زیادہ پر زور مبلغ ہاتھ آجاتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو اشعریت کی مکمل فتح الغزالی کی مرہون منت ہے جن کی احیاء العلوم عوامی اسلام کامنشور کہی جا سکتی ہے۔گوکہ غزالی کو اپنے عہد میں سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، مختلف بلادو امصار میں عوامی غیظ و غضب کی وجہ سے ان کی کتابیں جلائیں گئیں لیکن آنے والے دنوں میں انہیں اسلام کے عظیم شارح اور حجت الاسلام کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔
راسخ العقیدہ مسلم فکرکی تشکیل و تدوین میں ان خالص فلسفیانہ مباحث کے عمل دخل کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کا اجنبی ماخذ سے آنا ہر خاص و عام پرواضح تھا لیکن سماجی اعتبار سے ان کی توقیر اتنی بڑھ گئی تھی کہ اہل علم اپنے لئے اس کاحصول لازم خیال کرتے تھے کہا جاتاہے کہ عہد عبّاسی میں ایک لبنانی عیسائی نے Enneads کا عربی ترجمہ شائع کیا تو اسے علمی حلقوں میں اتنی اہمیت حاصل ہوگئی گویا وہ بھی کوئی آسمانی کتا ب ہو جس سے کما حقہ واقفیت کے بغیر اہل علم کا اعتبار قائم نہیں ہوسکتا ۔ ابتدائی چار صدیوں میں راسخ العقیدہ مسلم ذہن کا ایک بنیادی ڈھانچہ تشکیل پا چکا تھاجہاں علم کلام فلسفہ کا اسلامی قالب تھا جب کہ فلسفہ سیکولر دانشوروں کا میدان سمجھا جاتا تھا ۔ البتہ آگے چل کر فلسفہ او رکلام کے مابین حد فاصل برقرار نہ رہ سکا ۔ فلسفہ چوں کہ مختلف اسلوب میں مسلم فکر کا شارح بھی تھا اور اس سے مزاحم بھی اس لئے علمائے اسلام کےلئے اس سے دامن بچانا ممکن نہ تھا۔ دمشق کے ابن تیمیہ ( 1263۔1328) نے ارسطا تالیسی فلسفہ کی رد میں پرُ زور تحریریں لکھیں ۔ فلسفہ جو کندی (متوفی 870) اور فارابی (873۔950) کے عہد میں حاشیے پر تھا ، ابن سینا کی علمی اور سماجی حیثیت کے سبب اسے قبولیت عامہ مل گیا ۔ ابن سینا کے First Cause کی منطقی تعبیر نے ایسا محسوس ہوا، فلسفہ کو ایک معاون اسلامی علم کی حیثیت دےدی ۔ ابن حزم ( 995۔965) اور غزالی ( 1057۔1111)نے اس خیال کی عملی تصدیق کی کہ فلسفے کو تلاش حق میں ایک معاون علم کی حیثیت سے بطریق احسن برتا جاسکتا ہے ۔ ابن بجا (متوفی 1139) جن کی دانشوری ایک طرح کا متصوفانہ رنگ لئے ہوئے ہے اور ابن طفیل (متوفی 1185) جو اپنی تالیف حی بن یقظان میں عقل و فطرت کی روشنی میں علمی سفر کی وکالت کےلئے معروف ہیں راسخ العقیدہ ذہن کو متاثر کرتے رہے ہیں ۔ ابن رشد جنہیں تصوف کی مخالفت میں جلا وطنی اور عتاب کا سامنا کرنا پڑا، فلسفہ کو فکر اسلامی کےمرکز میں لے آئے۔ ان کاکہناتھا کہ قرآن مجید کی تشریح و تعبیر کاحق اوروں کے مقابلے میں اہل فلسفہ کو کہیں زیادہ ہے ، وحی اور انسانی علوم تلاش حق میں ایک دوسرے کے معاون ہیں، ایک دوسرے سےمزاحم نہیں ۔ ابن رشد کی کوششوں کے باوجود فلسفہ فکر میں وہ مقام تو حاصل نہ کرسکا البتہ غزالی نے جو اسے دیس نکال دیا تھا اس شدت میں کسی حد تک کمی آگئی ۔ ابن سینا کےدو اہم شارحین فخرالدین رازی اور ناصر الدین طوسی ( 1201۔1274) نے مسلم فکر میں اپنی جگہ بنائے رکھی ۔ بلکہ طوسی کی اخلاق ناصری کو تو اس حد تک اعتبار حاصل ہوگیا کہ وہ عرصہ ہائے دراز تک اسلامی درسگاہوں میں داخل نصاب رہی ۔ مسلم ذہن کے اس شاکلے کی تشکیل میں متصوفین کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ طوالت سےبچنے کی خاطر ہم یہاں سہروردی (1155۔1191) او رابن عربی (1165۔1240) کے تذکرے پر اکتفاکریں گے ۔ اوّل الذکر زرتشت افلاطون او رابن سینا نے اثر پذیری کےلئے معروف ہیں تو ثانی الذ کر بین المذاہب ماخذ سے عطر کشید کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔ راسخ العقیدہ حلقوں میں مختلف ادوار میں قوت القلوب احیاء العلوم ،عوارف المعارف او رمثنوی مولانا ئے روم کو مذہبی کتابوں کی حیثیت سےدیکھا جاتا رہا ہے۔ جس طرح معاصر دنیا میں ابن تیمیہ ، شوکانی او رابن عبدالوہاب کی تالیفات سلفی ذہن کی تشکیل میں مؤثر سمجھی جاتی ہیں، جس طرح قطب او رمودودی کی تالیفات اسلامیین کےلئے ذہنی غذا فراہم کرتی ہیں، جس طرح بزرگوں کےمحیر العقول ملفوظات خانقاہی ذہن کےلئے تیر بہ ہدف سمجھے جاتے ہیں او ر جس طرح فضائل اعمال کی خوش کن ضعیف روایتوں کے سہارے معصوم تبلیغی ذہن تشکیل پاتا ہے اسی طرح ماضی کی مسلم دانشوری اپنے تمام ابعاد و اثرات اور خارجی عوامل کے ساتھ راسخ العقیدہ مسلم شاکلے کی تشکیل میں ممدو معاون رہی ہے۔
مسلم ذہن کو اس کی اصل پر لوٹانے ، بالفاظ دیگر وحی ربّانی کی ضیاپاشیوں سے راست منور کرنے کےلئے لازم ہوگا کہ ہم اس مروّجہ ذہنی ڈھانچے او ر فکری شاکلے پر ضرب لگائیں جس کی تشکیل میں وحی ربّانی سےکہیں زیادہ مختلف خارجی عوامل و عناصر کار فرما رہے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ محض فقہی شاکلے میں معمولی ترمیم و تنسیخ ہمیں دوبارہ کتاب اللہ کی طرف لوٹا سکتی ہے ان تاریخی حقائق سے صرف نظری ہوگی جن کا ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے۔ اجتہاد اسی وقت کار گر اور نتائج افزاء ہوسکتا ہے جب وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں در آنے والے التباسات فکری کی بے لاگ نشان دہی کا یارا رکھتا ہو۔ اس کے برعکس جس اجتہاد میں سلف صالحین ، فقہائے متقدمین ، رادیان آثار و ایّام اور مزعومہ صلحائے متصوفین کے دعاوں کو چیلنج کرنے کا یارانہ ہو، وہ نئے نتائج پیدا نہیں کرسکتا ۔ اجتہاد کا یہ تصور کہ وہ روایتی فقہ کے اصول اربعہ کے ایک جڑ کی حیثیت سے متحرک رہے ایک انتہائی گمراہ کن مغالطہ ہے۔ جو لوگ واقعی اجتہاد کے خوگرہوں او رجو یہ چاہتے ہوں کہ ایک بار پھر وحی کی تجلّیاں ہماری راہوں کو منّور کریں انہیں چاہئے کہ وہ اجتہاد کے مروّجہ تصور پر ایک اجتہادی نگاہ ڈالیں ۔ اگر شافعی اور حنفی اصول فقہ بسا اوقات ایک دوسرے کے ناقد او رایک دوسرے سے متصادم ہوسکتےہیں او ر اگر ایک حلقے کا فقیہہ دوسرے حلقے کےاصول و مبادی کے سلسلے میں ناقد انہ طرز اختیار کرسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ عصر حاضر کے مجتہدین ان تمام مکتبہ ٔفکر کےاصول و منہج کےسلسلے میں اپنے اعتراضات میں تکلف سے کام لیں ۔ نئے مجتہدین کے لئے لازم ہوگا کہ وہ نہ صرف یہ کہ روایتی فقہ کے اراکین اربعہ کو تحلیل و تجزیہ کاموضوع بنائیں بلکہ انہیں اس بنیادی فکری شاکلے پر ضرب لگانی ہوگی جس کا ایک محدود اظہار ہماری روایتی فقہی ژوف بینی میں ہوتا رہا ہے۔
جون، 2016 بشکریہ : صوت الحق ،کراچی
URL: