اے رحمان
27جولائی،2018
(گذشتہ سے پیوستہ)
ویسے تو اردو صحافت میں پہلا انقلاب (بہتر اوربدتر دونوں واسطوں سے) اس وقت آیا جب خبر رساں اداروں (new agencies) کا دور دورہ ہوا ۔ اس سے قبل خبریں جمع کرنے ،یعنی رپورٹنگ اور ان کی اشاعت رپورٹر حضرات کی تگ و دو اور زیادہ سے زیادہ ریڈیو نشریات کی مرہون منت تھی ، جن کومعمولی اضافے اور ترمیم کے بعد اخباری خبر کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا تھا۔ جب دفاتر میں ایجنسیوں کے ٹیلی پرنٹر آئے تو ایک نئے کام یعنی ترجمے کی ابتدا ہوئی ۔ کیونکہ ٹیلی پرنٹر پر آنے والی خبریں انگریزی میں ہوتی تھیں۔ اب یہ کہنے کی تو ضرورت نہیں کہ کسی بھی زبان میں با محاورہ ترجمہ کرنے کے لئے دونوں زبانوں میں اعلیٰ درجے کی استعداد اور ترجمے کے فن سے واقفیت ہونا ضروری ہے، اور اس درجے کی استعداد ، خصوصاً اردو صحافیوں میں ، شاذ ہی تھی۔ اس کے باوجود 80کی دہائی تک زبان کا کچھ خاص نہیں بگڑا۔ لیکن پھر ایک نئی ابتداء ایسی ہوئی جس نے غیر محسوس طریقے سے اردو صحافت کے منظر نامے کو تبدیل کرنا شروع کردیا اور اس طرف اس معاملے کے تجزیہ کاروں کی نظر میں کم ہی جاتی ہے ۔ ہوا یہ کہ صحافت بطور پیشہ ایک نہایت منفعت بخش اور عزت و شہرت سے مربوط کرئیر (career) بنتا چلا گیا او رطلبا اس کو ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت خیال کر کے جوق در جوق صحافت میں ڈگریاں اور ڈپلومہ حاصل کرنے لگے ۔ ان میں اردو صحافت کی جانب رخ کرنے والے بیشتر حضرات ایسے تھے جو اردو میں بہت معمولی سطح کی استعداد رکھتے تھے اور جنہوں نے اپنی ’ کام چلاؤ‘ اردو سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ ایسے بھی کچھ تھے جنہوں نے صحافت کی تعلیم ہندی میں حاصل کی ، لیکن ارد ورسم الحظ کی محض پہچان رکھنے کی بناپر اردو اخبارات میں ملازم ہوئے۔ زمانہ قدیم کی مانند اعلیٰ درجے کی لسانی قابلیت اور ادبی ذوق کے حامل مدیران بھی عنقا ہوتے چلے گئے ،لہٰذا اردو صحافت میں صحت زبان اور حسن اظہار کے زاویوں سے پچھلے بیس سال میں جو زوال آیا ہے،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اب بات آتی ہے ٹی وی چینلوں کی، جن کا ( باستثنائے ڈی ڈی اردو اور ای ٹی وی) اردو زبان و ادب سے کوئی رشتہ نہیں تھا، لیکن جن کی ہمہ وقتی سمعی اور بصری موجودگی اور ان کی نشریات سے پیشہ ورارنہ اکتساب کی ضرورت او رعادت نے اردو سے کوئی جذباتی تعلق نہ رکھنے والے صحافیوں کو ان کا دست نگراں اور اس حد تک منت پذیر بنا دیا کہ ان کی بزعم خود ’ ہندوستانی‘ ( جو دراصل بے محاورہ او ربے مہار ہندی تھی اور ہے) کی لفظیات کو ان اردو صحافیوں نے غیر شعوری طریقے سے اپنی زبان دانی میں جذب کرلیا۔حالانکہ اس سلسلے میں ایک دلچسپ اور خوش کن بات یہ بھی سامنے آئی کہ کسی بھی تعلیمی ادارے یا یونیورسٹی میں چلائے جارہے جرنلزم اور ماس کمیو نکیشن کے کسی بھی کورس میں داخلہ مل جانے پر تمام مسلم اور غیر مسلم اردو ناخواندہ طالب علم اردو سیکھنے میں لگ جاتے ہیں، کیونکہ ان پر یہ روشن ہوا کہ ٹی وی او رفلم کی دنیا میں اردو تلفّظ اور لہجے پر قدرت کامیابی کی شروعات ہوتے ہی جن نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ان چینلوں پر فوراً ملازمتیں مل گئیں ان سب میں ایک چیزمشترک تھی ۔ اردو زبان سے کسی حد تک واقفیت ۔ او رآج بھی بڑے نیوز چینلوں کے مشہور ترین اینکر اور نیوز یڈر وہی خواتین و حضرات ہیں جو صاف تلفّظ او رشفّاف لہجے میں اردو بولتے ہیں ۔ لیکن اردو داں اینکروں اور نیوز ریڈروں کا یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہا اور اسے سیاست کہئے یا اردو کے تئیں تعصب کہ آہستہ آہستہ عام نیوز چینل ایک شعوری کوشش کے تحت اردو کا کم سے کم استعمال کرنے لگے ۔
ویسے بھی بریکنگ نیوز اور سنسنی خیز یت برپا کرنے کی ضرورت تحت ٹی وی پر صحت زبان کے خیال اوراحتیاط کی امید کرنابے معنی ہے ۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ ٹی وی پر مضحکہ خیز حد تک غلط العوام اور متروک الکلام اردو لفظیات کا استعمال دھڑلے سے ہوتا ہے۔ اور غالباً سبھی اردو داں حضرات واقف ہی ہوں گے کہ اس معاملے میں ٹی وی اور ریڈیو نشریات نیز ہندی اخبارات میں بھی جس اردو لفظ کے ساتھ سب سے زیادہ لسانی زنا کیا گیا وہ ہے ’ خلاصہ‘۔ اب اس لفظ کے لغوی معنی ہیں تفصیل کا اجمال کرنا یعنی لمبے چوڑے بیان کو چند جملوں میں پورے مفہوم کے ساتھ ادا کرنا۔ لیکن عام ٹی وی اور اخباری صحافت میں اس کا برعکس معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اجمال کی تفصیل کرنا۔ فلاں صاحب نے فلاں بات یا واقعے کا خلاصہ کیا،یعنی اس کو تفصیل سے بیان کیا ۔ سر پٹک پٹک کر صحافیوں اوردیگر متعلقہ لوگوں کو اس کے معنی سمجھانے کی کوشش کی گئی، لیکن مجال ہے جو ذرا بھی اثر ہوا ہو۔ ’ خلاصہ‘ بڑی تفصیل سے ہر قسم کی صحافت میں سرایت کر چکا ہے۔ رہی بات تلفظ کی تو اگر ہندی والے اردو ’ج‘ کو ’ز‘ ، قاف کو کاف اور غ کو گاف ادا کریں تو زیادہ شکایت یوں نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صوتیات کا مسئلہ ہے اور ’ ق‘ ’غ‘ ، ’ز‘، ’ض‘ اور ’ذ‘ کی آوازیں ہندی میں نہیں ہیں، جس طرح عربی ’ٹ‘ ’گاف‘ ’ڑ‘ ‘پ‘ ’ڈ‘ اور ’ٹھ‘ وغیرہ آوازوں سے محرم ہے۔ افسوس تو تب ہوتا جب اردو داں حضرات عام الفاظ کا تلفّظ بھی غلط ادا کریں۔اصطبل ، افطار او ر افق جیسے الفاظ تو غلط العوام ہیں ہی۔ (اصطبل بالکسر و فتح طائے مہملہ و سکون موحدہ ہے یعنی صاد کے نیچے زیر اور ط پر زبر ہے۔ افطار بالکسر یعنی ف کے نیچے زیر ہے اور اُفُق بضمتین ہے یعنی ف اور قاف دونوں پر پیش ہے) لیکن جب اردو کے پروفیسر ان اخذ کو بفحتیں (یعنی ف اور ذ دونوں پر زبر کے ساتھ اِبار کو بالفتح یعنی زبر کا ساتھ اور اُسلوب کوبھی زبر کے ساتھ اسلوب پڑھیں تو اردو کی حال زار کا بھی خیال آئے گا۔ اور اب تو ’ مفیدِ انام اور مددگارِ طلبائے مدارس و معینِ شعرائے عِظّام ‘‘ قسم کے رسالہ ہائے انیقہ کی اشاعت بھی معدوم ہوچکی ہے۔
زبان کوئی بھی ہو اس کے اجزائے ترکیبی میں محاورے (idiom) کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ لیکن محاورے کے استعمال کی بھی دو شرائط ہیں ایک تو قبولیت عام اور دوسری محل استعمال ۔ اگر کوئی شخص پوری لغت اور تمام مقبول عام محاورے رٹ لے تو یہ اس بات کی ضمانت نہیں ہوگی کہ وہ بہت عمدہ زبان لکھ سکے گا۔محل استعمال بڑی چیز ہے۔ اب صحافی حضرات اردو لکھتے ہوئے جب ’ میرا ماننا ہے‘، فلاں چیز کے چلتے‘ اور ’ آپ کو کیا لگتا ہے ؟‘ ( بمعنی آپ کا کیا خیال ہے) قسم کے ’ محاورے استعمال کرتے ہیں تو دل خون ہوجاتا ہے ۔ یہ عادات و لفظیات قبیحہ نیوز چینلوں کی دین ہیں اورعام تحریری اردو کا حصہ بن چکی ہیں ۔
ممکن ہے اس مضمون سے لسانی عصبیت کی بوآتی ہو، لیکن ہم دلّی والوں کے اردو کے تئیں جذبات کا حضرتِ داغ بڑا اچھا ’ خلاصہ‘ کرگئے ہیں :
غیروں کا اختراع و تصرّف ہے سب غلط
اردو ہی وہ نہیں ، جو ہماری زباں نہیں
27جولائی،2018 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL for Part-1:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism