New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:21 AM

Urdu Section ( 27 Apr 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Shariat Vs Constitution: Supreme Court Ready for the Hearing شریعت بنام آئین: سپریم کورٹ میں صف آرائی مکمل

اے رحمان، نیو ایج اسلام

09اپریل،2017

طلاق ثلاثہ اور دو دیگر شرعی مسائل پر قانونی اور آئینی جنگ نے بھی ثلاثی حیثیت اختیا رکرلی ہے۔ اس مثلّث کے تین زاویئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ذریعے از خود (suo motu) درج شدہ مفادِ عامہ کی عرض داشت بعنوان ’’مسلم خواتین برائے جستجو ئے مساوات بنام جمعیۃ علمائے ہند و دیگر‘‘ جس کے ساتھ سائرہ بانو اور دوسری بہت سی خواتین نیز بھارتیہ مسلم مہلا آندولن کی عرضیاں شامل ہیں فریق اوّل، یونین آف انڈیا یعنی مرکزی حکومت فریق دوئم، اور جمعیۃ علمائے ہند اورآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈمشترکہ طور پر فریق سوئم کی حیثیت میں ہیں۔ یہ سہ فریق تنازع اس لئے ہوگیا ہے کہ زیر بحث مسائل پر مرکزی حکومت اور اسلامی تنظیموں کے موقف نہ صرف مختلف بلکہ مسابقانہ اور قیبانہ ہیں۔ اس سلسلے میں جس عام تاثر کو بیشتر اسلامی تنظیموں اور علمائے دین نے مشتہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ دراصل پورا معاملہ حکومت وقت کی ایک گہری اور منظم سازش ہے، جس کے تحت ہندوستانی مسلمانوں کے عائلی اسلامی خواتین جن کو آئین ہند کی ضمانت اورتحفظ حاصل ہے ان کی تنسیخ کی نیت سے ان میں مداخلت کی جارہی ہے۔ نیز یہ سازش آخرش یونیفارم سول کوڈ کی تشکیل و نفاذ پر منتج ہوگی ۔

یہ تاثر حقیقت پر مبنی ہوسکتا ہے۔ لیکن اسلامی شریعت سے متعلق مباحثات،مذاکرات اورتنازعات موجودہ نہج تک کیسے پہنچے اس کا پس منظر معلوم کئے بغیر اس جنگ پر کوئی رائے او رلائحہ عمل طے کرنامشکل بھی ہے اور غیر منطقی بھی۔ سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو فریق اوّل کی فریاد یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم خواتین کے ساتھ صنفی بنیاد پر جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتاہے جس میں مسلم مردو ں کو حاصل خود مختار انہ اور یکطرفہ طریقے سے طلاق ( طلاق، طلاق، طلاق) دینے کا حق بھی شامل ہے( خصوصی طور پر ) آئین کی دفعہ 14(قانون کی نظر میں مساوی تحفظ کا حق)کی نفی کرتا ہے ۔ بھارتیہ مسلم مہلا آندولن اور چند دیگر تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان میں مروّجہ اسلام کے عائلی قوانین جس فقہ پر مبنی ہیں وہ دقیانوسی اور فرسودہ ہے،لہٰذا اس میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ترمیم کی جانی چاہئے ۔ اس نکتے پر پچھلے سال سپریم کورٹ نے رائے دیتے ہوئے کہا ’ ہمارانظریہ ہے کہ مسلم خواتین کے ساتھ کئے جارہے امتیاز ی سلوک کو عدالت کے گزشتہ فیصلوں کی روشنی میں زیر بحث لایا جانا چاہئے ‘‘۔ اس تبصرے کے ساتھ سپریم کورٹ نے دیگر فریقین بشمول اٹارنی جنرل اور نیشنل لیگل سروس اتھارٹی وغیرہ کو نوٹس جاری کرکے جواب دینے کا حکم صادر کیا۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر جو جوابی حلف نامے اور 30مارچ کی مقررہ تاریخ پر تحریری گزارشات او ردلائل داخل عدالت کئے گئے ان کا تجزیہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بھارتیہ مہلا آندولن کے موقف اور دعوے پر نظر ڈالی جائے ، جو دراصل سپریم کورٹ کی مفادِ عامہ والی پٹیشن کا محرک سمجھا جاناچاہئے ۔ (یاد رہے کہ زیر بحث مسائل میں نکاح حلالہ اور تکثیر ازواج بھی شامل ہیں حالانکہ قانونی لڑائی اور میڈیا میں بحث جس شدّ و مد سے طلاق ثلاثہ پر ہے اتنازور بقیہ دو مسائل پر نہیں دیا جارہا اور اس کی وجوہات کافی دلچسپ ہیں، لیکن وہ ذکر بعد میں ہوگا۔ اس وقت اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ان دو مسائل یعنی حلالہ اور تکثیر ازواج پر بڑے غیر واضح او رمتضاد جواب دیئے ہیں ۔) بھارتیہ مسلم مہلا آندولن کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلم خواتین کی ایک جمہوری تنظیم ہے جو مسلم خواتین کے ’ قرآنی حقوق‘ کے حصول کی لڑائی لڑرہی ہے ۔ یعنی قرآن نے مسلم خواتین کو جو حقوق دئے ہیں ان کا قانونی نفاذ اس تنظیم کا بنیادی مقصد سمجھا جاناچاہئے ۔

 بادی النظر میں یہ بات بہت منطقی اور قابل قبول محسوس ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے دعوے کی بنیاد قرآن اور قرآنی احکامات کو بنایا ہے۔ لیکن اس میں سقم یہ ہے کہ انہوں نے بعض مغربی اسکالرز کی طرز پر قرآن کو ایک ضابطہ قانون یا کسی مجلس قانون ساز کے ذریعے بنایا گیا قانون سمجھ لیا ہے۔ قرآن بذات خود قانون نہیں ، بلکہ قوانین کا مآخذ یعنی (Source) ہے جس کی تشریح اور تفسیر کے بعد قوانین اخذ کئے گئے ہیں ۔ اس تنظیم یعنی بھارتیہ مسلم مہلا آندولن نے دو تحقیقی سروے کرائے جن کی رپورٹیں یوں تو باہم دگر متضاد ہیں لیکن ان پر حکومت نے آنکھ بند کرکے یقین کرلیا اور میڈیا نے اتنا واویلا مچا یا کہ بات یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی مانگ تک پہنچ گئی ۔ پہلے سروے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستانی مسلم خواتین کی 88فیصد طلاقیں ایک طرفہ اور ثلاثہ (طلاق، طلاق، طلاق ) پائی گئیں ، جب کہ دوسرے سروے میں یہ تناسب محض 59فیصد بتایا گیا ۔پہلے سروے میں 117معاملات کا مطالعہ کیا گیا تھا حالانکہ تفاصیل صرف 88معاملات کی دی گئیں اور وہ بھی صرف ایک ریاست سے۔ دوسرے سروے میں چار ہزار سات سو دس مسلم خواتین کا جائزہ اور انٹرویو لے کر نتائج شائع کیے گئے او ربعد میں یہی نتائج مرکزی حکومت کے جوابی حلف نامے میں شامل کئے گئے ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے نتائج قانونی اور آئینی معاملات کے تصفیے کے لئے ۔۔۔ خصوصاً جب بنیادی مآخذ قرآن کو سمجھا جائے ۔۔۔ ناکافی ہیں اور ناقابل بھروسہ ۔

 دوسرا نکتہ جس پر بھارتیہ مسلم مہلا آندولن کا دعویٰ بے بنیاد ہے کئی ایسے حقوق کا مطالبہ ہے جن کا قرآن میں ذکر ہی نہیں ۔ مثال کے طور پر بیٹیوں کے حق میں تحائف اور وصیت کا وجوب ( فرضیت) تاکہ انہیں وراثت میں مساوی حق حاصل ہو سکے ۔ اس کے علاوہ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں بھی آندولن کا دعویٰ اسی بنیادی غلطی پر مبنی ہے جو سائرہ بانو کی پٹیشن میں کی گئی ہے۔ دونوں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ( شمیم آرا بنام اسٹیٹ آف یوپی) ایک نشست میں دی گئی تین طلاقوں کو محض ایک طلاق تسلیم کیا گیاہے، اس کے باوجود طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی قرار دینے کامطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف جوابی حلف نامہ داخل کرنے والی تنظیموں یعنی جمعیۃ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس سے بھی سنگین غلطی کی ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔ مہلا آندولن نے بڑے زور و شور سے تکثیر ازواج کو ممنوع قرار دینے کی وکالت کی ہے اور اس پر ہمیشہ کے لئے پابندی لگائے جانے کامطالبہ کیا ہے۔ لیکن کسی بھی چیز پر قانونی پابندی عائد کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو نہیں ہے۔ کوئی بھی عدالت کسی نئے ’ جرم‘ کی تخلیق نہیں کرسکتی ۔ یہ استحقاق صرف پارلیمنٹ کو ہے۔ سائرہ بانو حالانکہ تکثیر ازواج سے متاثرہ نہیں ، لیکن اس کی عرضی میں بھی تکثیر ازواج کے امتناع کا مطالبہ پہلے ہی پیرا گراف میں موجود ہے۔

اس پورے مناقشے کے قانونی اور آئینی پہلوؤں سے قطع نظر اگر ایک وسیع تناظر میں فریادوں اور عرضداشتوں کے بین السطور پڑھا جائے تو فی زمانہ بین الاقوامی سطح پر جاری و ساری سوال ( یا الزام) سامنے آتا ہے کہ اسلام نے عورت کو ثانوی حیثیت دی ہے او رمسلم عورت کے حقوق مسلم مرد کے حقوق کے مساوی نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے جس صنفی امتیاز کی بات کی ہے اس کے پس منظر میں یہی سوال موجود ہے۔ تمام فقہا او رعلمائے دین کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اسلام نے عورت کو قعرِ مذلّت سے نکالا اور اسے وہ حقوق اور سماجی درجہ دیا جو کسی مذہب یا معاشرے نے نہیں دیا۔ لہٰذا اس سوال یا الزام کے جواب میں محض یہ ثابت کرنا کافی تھا کہ قرآنی احکامات کی روشنی میں مردوزن خدا کی نظر میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں او رمعاشرتی معاملات میں صنفی امتیاز برتنے کی اجازت قرآن میں نہیں دی گئی ہے۔ قرآن کی تفسیر اور تشریح میں عالمانہ نظریات کے اختلاف کی بنا پر کچھ معاملے ایسے ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے نا انصافی کااحتمال ہوسکتا ہے یا ہے، توایسے معاملات کواجماع کے ذریعے اعتدال کے زرّیں اصول کی روشنی میں حل کرکے مستقبل کے تنازعات کا تدارک کیا جاسکتا ہے ۔

 لیکن ہوا وہی جو اب تک ہوتا آیا ہے۔ یعنی مسلم تنظیموں نے تصادم او رہٹ دھرمی کا طریقہ اپناتے ہوئے فقہ حنفیہ کی روشنی میں حکمی طور پر جواب دئے جن کا آئینی تجزیہ ہونا اس لئے بھی لازمی ہے کہ مالکی، شافعی اور حنبلی مسالک نیز اہل تشیع کے مذہبی اعتقادات کو نہ کہیں حساب میں لیا گیا نہ ان کے سلسلے میں کوئی صراحت کی گئی ۔ اس کی ایک مثال تو یہ جواب ہے( جو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علما دونوں کی طرف سے دیا گیا ہے) کہ طلاق ثلاثہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس کابراہِ است مفہوم یہ نکلتا ہے ( اور اس نکتے پر امام احمد بخاری راقم سے متفق ہیں) کہ جو لوگ ایسی طلاق کے قائل نہیں وہ نعوذ باللہ قرآن سے منکر ہیں ۔ جوابی حلف ناموں کے بعدسپریم کورٹ کی ہدایت پر فریقین نے اپنے دلائل اور گزارشات تحریری شکل میں داخل عدالت کردئے ہیں اس بنا پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے حلف نامے کا مزید تجزیہ غیر ضروری ہوجاتا ہے، کیونکہ اب تحریری گزارشات کو ہی کامل و خات دستاویز سمجھا جائیگا ۔ یہ ذہن نشین رہے کہ تحریری گزارشات کی ہدایت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ وضاحت کردی تھی کہ عدالت طلاق ثلاثہ، نکاح اورتکثیر ازواج کے صرف ’ قانونی‘پہلوؤں پر غور کرے گی اورطلاق عدالتوں کے زیر نگرانی ہوں اس مسئلے سے احتراز کرے گی کیونکہ وہ معاملہ قانون سازی کے ذیل میں آتا ہے ۔ (جاری)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/shariat-vs-constitution-supreme-court/d/110936


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..