اے رحمان، نیو ایج اسلام
30اپریل،2017
طلاق ثلاثہ کے معاملے پر اپنے جوابی حلف نامے میں پرسنل لابورڈ نے قرآن کا محض حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی طلاق قرآن سے جائز اور ثابت ہے۔ میں نے ایک پچھلے مضمون میں اس دعوے کو چیلنج کیا تھا، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ بورڈ ہر صورت میں اس مکرو ہ اور ناپسندیدہ فعل کو واقعی قرار دینے پر تلا ہوا ہے ۔ تیس مارچ کو داخلِ عدالت کئے گئے اپنے تحریری دلائل میں بورڈ نے یہی کیا ہے۔ ان کے حاملِ دلائل دستاویز کا پیراگراف نمبر 1:7 کہتا ہے : ’’ گزارش ہے کہ بنیادی طور پر اسلام میں طلاق نا پسندیدہ ہے، جب تک کوئی جائز اور مجبور کن وجہ نہ ہو۔ اس کی اجازت صرف اس وقت ہے جب یہ ناگریز ہوجائے ۔ عرض ہے کہ ایک مرتبہ میں تین طلاق کا اعلان نا پسندیدہ تو ہے ، لیکن طلاق غیر رجعی موثر ہوجاتی ہے ۔ چاروں سنّی مسالک یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی کے مطابق اعلان طلاق کتنی مرتبہ ہوا اس کا تعلق ایک یا ایک سے زائد نشستوں سے نہیں ہے۔ طلاق کتنی مرتبہ کہی گئی اس سے طلاق موثّر ( عائد) ہوتی ہے۔ اگر کوئی دو مرتبہ (طلاق ) کہے تو دو مرتبہ اور تین مرتبہ کہہ دے تو تین مرتبہ شمار ہوگی اور شادی ( نکاح) فوری طور پر تحلیل ہوجائے گا۔ قرآن بذاتِ خود اعلان کرتا ہے:‘‘
’’ طلاق ہے دوبار تک پھر رکھ لینا ہے بھلے طریقے سے یا چھوڑ دینا ہے بحسن و خوبی ۔ تمہارے لئے رو ا۔ (جائز) نہیں کہ لے لو تم اپنا کچھ دیا ہوا( عورتوں سے ) الاّ یہ کہ خوف ہو دونوں کو کہ قائم نہیں رکھ سکیں گے اللہ کی حدود کو۔ پھر اگر دونوں (خاوند اور بیوی) کو خدشہ ہو کہ قائم نہیں رکھ سکے گے اللہ کے احکامات تو پھر کچھ گناہ نہیں دونوں پر اس میں کہ ( عورت) بدلہ دے کہ چھٹکارا حاصل کرلے۔ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود ہیں سو مت تجاوز کرو ان حدود سے او رجو بھی تجاوز کریں ان حدود سے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں‘‘۔ ( سورۃ البقرہ۔ 229:2)
اس آیۃ کی علاّمہ ابن کثیر کے ذریعے کی گئی تفسیر ملاحظہ ہو:
’’ اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدّت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی غضب میں جان تھی، عدّت گزرنے کے قریب آئی، رجوع کرلیا، پھر طلاق دے دی۔ اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے پس اسلام نے حد بندی کردی کہ اس طرح کی طلاقیں دو ہی دے سکتے ہیں تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہیں رہے گا۔ سنن ابوداؤد میں باب ہیے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا ۔ اس نے کہا یہ کس طرح؟ کہا طلاق دے دوں گا او رجہاں عدّت ختم ہونے کاوقت آیا تو رجوع کر لوں گا۔ پھر طلاق دے دو ں گا ۔ پھر عدّت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا یونہی کرتا چلا جاوں گا عورت حضور کے پاس آئی اور اپنا یہ دکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ’ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدلوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے اور تیسری طلاق کے بعداس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہیں رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدّت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹا و اور عدّت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہوجائے اور تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو اس پر کوئی ظلم نہ کرو نہ اسے ضرر نقصان پہنچاؤ ، ایک شخص نے حضور سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہوچکی ہیں تیسری کا ذکر کہاں ہے۔ آپ نے فرمایا اوتسریح ۔احسان میں ، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا، اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے یہ مردوں پرحرام ہے ۔ اس آیت سے استدلال ہے،ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک ہی مرتبہ دینا حرام ہے۔ سنّت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ فرمایا گیا کہ یہ حدیں اللہ کی ہیں ان سے تجاوز مت کرو۔ اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوایک بار یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں آپ سخت غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا ، اگر حضور اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کردوں۔‘‘
تفسیرِ ابنِ کثیر کے درجِ بالا اقتباس سے ثابت ہے کے بورڈ نے سورۃ البقرہ کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ ایک نشست میں تین طلاقوں سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کی رد میں ہے۔ اگر جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے تو یہ عدالت ہی نہیں اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ورنہ اراکین بورڈ کی کم علمی پر سند ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تحریری دلائل میں بھی بورڈ نے طلاق ثلاثہ کا چاروں مسالک سے ثابت اور جائز ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جو قطعی غلط ہے ۔ اور شیعہ مسلک کو پھر قابل ذکر تک نہیں سمجھا گیا ۔ یہ حیرانی کی بات بھی ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، ایک مشہور شیعہ عالم مولانا کلب صادق بورڈ کے ممبر اور نائب صدر ہیں ۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پورے زور و شور سے ایک علاحدہ شیعہ پرسنل لا بورڈ کے قیام کا مطالبہ کردیا گیا ہے جو قطعی جائز ہے۔ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں ثابت کردیا تھا کہ خود بورڈ کی مطبوعہ کتاب ’’ نکاح اور طلاق‘‘ مصنفّہ منّت اللہ رحمانی میں طلاق ثلاثہ کو ’’ خلاف شریعت‘‘ کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات سپریم کورٹ کے سامنے جائے گی۔ اس پر طرّہ مذکورہ بالا غلط بیانی اور قرآن کی غلط تفسیر ، سپریم کورٹ کا کیا ردّ عمل ہوگا قانون کا ایک معمولی طالب علم بھی بتا سکتا ہے ۔
میڈیا کے ذریعے مسلم پرسنل لا بورڈ پر مستقل حملے جاری ہیں اور اب تو بورڈ کی قانونی اور آئینی حیثیت پر بھی سوال کھڑا کردیا گیا ہے۔ بورڈ کے انتظامی اور اندرونی امور کی بے قاعدگیوں کا اندازہ تو صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل جو لوگ اس کے ارباب حل و عقد سمجھے جاتے ہیں یہ یوں کہا جائے کہ زمام کار پوری طرح جن لوگوں کے ہاتھ ہے ان میں سے کوئی بھی عالمِ دین کے زمرے میں نہیں آتا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ایک خود ساختہ تنظیم ہے، جس کو کوئی آئینی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہندوستان کے تقریباً بیس کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے کے تعلق سے بورڈ نہ صرف ملّت بلکہ حکومت اور عدالت کو بھی جواب دینا ہے۔ حال ہی میں شروع کی گئی پرسنل لا بیداری مہم یہ ثابت کرتی ہے کہ پچھلے 44سال میں بورڈ نے اپنے تئیں عائد کئے گئے فرائض کے سلسلے میں کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کئے ، نہ ہی مسلم پرسنل لا یا شریعت کے تحفظ کے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے شرعی قوانین سے متعلق کوئی ٹھوس قدم اٹھایا جس کا نتیجہ موجودہ آئینی بحران کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اب یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اگر بورڈ اپنی پوزیشن نہ صرف حکومت و عدالت بلکہ پوری ملّت کی نظروں میں صاف کرنے میں ناکام رہا تو اس کا وجود لا یعنی قرار دیا جائے گایا ختم کردیا جائے گا۔ صرف ’’ شریعت میں مداخلت برداشت نہیں ‘‘ کانعرہ لگا کر شریعت کی حفاظت نہیں کی جاسکتی ۔ دنیا کو اس بات کا یقین دلانا بھی نہایت ضروری ہے کہ شریعت الہٰی مسلمانوں ہی کی میراث نہیں بلکہ کل کائنات پر محیط ہے۔ (جاری)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/interpretation-quran-submitted-supreme-court/d/110968
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism