اے رحمان، نیو ایج اسلام
16مارچ،2018
مستقبل قریب یا بعید میں جب بابری مسجد تنازعے کی تاریخ رقم کی جائے گی تو اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جائے گا ۔ پہلا دور شروع ہوگا 1853ء سے ، جب نواب واجد علی شاہ کے دور میں نرموہی اکھاڑا کے پیروان نے دعویٰ کیا کہ بابری مسجد کی تعمیر کے لئے ایک مندر کو مسمار کیاگیا تھا۔1950ء میں گوپال سنگھ و شارد اور پرم ہنس رام چندر داس کے ذریعے دائر کئے گئے مقدموں سے باضابطہ اور باقاعدہ مستقل مقدمہ بازی کر کے مسجد میں رکھے گئے مجسموں کو چیلنج کرتے ہوئے متصل اراضی کے قبرستان ہونے کا دعویٰ دائر کیا۔1984ء ایل کے اڈوانی نے رام جنم بھومی سے موسوم کردی گئی متنازعہ اراضی پر رام مندر تعمیر کرنے کے لئے ملک گیر تحریک شروع کی ،جس مقصد کے تحت ہندو جماعتوں نے ایک ’کمیٹی‘ کی تشکیل کرلی تھی ۔ 1986ء میں جب ہری شنکر دوبے کی درخواست پر فیض آباد کے ضلع جج نے مندر کے دروازے پوجا کے لئے کھول دئے تو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور بابری مسجد تنازعے کی تاریخ کا دوسرا دور شرو ع ہوا۔ پوری امّت مسلمہ نے بڑے کرّوفر سے ایکشن کمیٹی کا استقبال کیا۔ لیکن دراصل کمیٹی صورت میں بعض حضرات نے شطرنج کی ایک بساط بچھائی تھی، جس کے مہروں او رکھلاڑیوں سے سبھی واقف ہیں۔ کمیٹی نے بڑے طمطراق سے وزیر اعظم اور کابینی وزراء کی سطح کی مٹینگیں اور عوامی سطح کے جلسے اور کانفرنسیں شروع کردیں، لیکن کوئی باقاعدہ اور منضبط قسم کی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ کمیٹی کی میٹنگیں اور کانفرنسیں ملکی سطح پر بڑی شان سے جاری رہیں ، حتیٰ کہ 6دسمبر، 1992ء کو بابری مسجد مسمار کردی گئی او ریوں یہ دوسرا دور اختتام کو پہنچا ۔الہٰ آبادہائی کورٹ نے 30ستمبر، 2010ء کو وہ بے بنیاد فیصلہ دیا جو کسی بھی فریق کو منظور نہیں ہوا ، لہٰذا سپریم کورٹ میں فریقین کی اپیلیں دائرہوگئیں۔ کئی افراد اور تنظیموں کی جانب سے مقدمے میں دخل اندازی کے ذریعے فریق بننے کی درخواستیں گزاری گئیں ۔ غلطیاں تو بے شمار ہیں ،لیکن دو ایسی غلطیاں ہیں جن کا مداوا ممکن نہیں ۔اگست 2017ء میں چیف جسٹس کبیر نے تنازعے میں ثالثی کا مشورہ دیتے ہوئے خود ریٹائر ہوتے ہی ثالث بننے کی پیشکش کی،جس کو فاضل وکیل اور مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن ظفریاب جیلانی صاحب نے ایک لمحے کی دیر کئے بغیر فوری طور پر مسترد کردیا،ء حالانکہ یہ مسئلے کے باعزت حل کا ایک سنہرا مو قعہ تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں مقدمے کی پیروی پر ایک مسلم پرسنل لابورڈ کا مکمل عمل دخل ہے او راب ایک افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ مسلم فریقین کی جانب سے مقدمے کے سلسلے میں ہار جیت کی پروا نہیں ہے، بلکہ محض oneupmanship(یعنی ایک دوسرے پر عارضی سبقت لے جانے) کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ دوسری غلطی یہ کہ بابری مسجد فاؤنڈیشن نام کی ایک رجسٹرڈ تنظیم نے بھی دخل اندازی کی درخواست دی ہوئی تھی او رایک غیر معمولی بات اس سلسلے میں یہ ہوئی تھی کہ ان لوگوں نے کسی سے بھی کوئی فنڈ یا چندہ لئے بغیر دہلی کی ایک بہت بڑی لافرم Equity Lexusکو انگیج کیا،جس نے شبانہ روز مشقت کے بعد نہ صرف الہٰ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر اس کے تمام نکات و نقائص قانونی اپنی درخواست میں شامل کئے بلکہ ان تمام دستاویزات کا ترجمہ بھی کرالیا جو سپریم کورٹ کو درکار تھے اور جن کی بنیاد پر اپیل کا فیصلہ ہوسکتا ہے ۔ راقم نے ان کی درخواست دخل اندازی کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ سنّی وقف بورڈ وغیرہ کی جانب سے داخل کی گئی اپیل اس درخواست کے سامنے ہلکی بھی ہے اور پھیکی بھی ۔ فاؤنڈیشن کی جانب سے بحث کے لئے سلمان خورشید مقرر کئے گئے ، جنہوں نے اس تنظیم کے خلوص و محنت کو دیکھتے ہوئے فیس نہ لینے کافیصلہ کیا ۔لیکن 14مارچ کی سماعت کے دوران جب ان کے وکیل امتیاز احمد نے درخواست کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس کو بتایا کہ سلمان خورشید بحث کے لئے موجود ہیں تو پرسنل لابورڈ کے وکیل اعجاز مقبول صاحب نے اتنی شدّت سے ان کی مخالفت کی کہ عدالت میں موجود تمام وکلا حیران رہ گئے ۔ نتیجتاً ان کی عرضی بھی نامنظور کردی گئی او ریہ مقدمے کو ایک ناقابل تلافی نقصان کے مترادف ہے۔ سلمان خورشید نے پیشکش کی کہ درخواست مسترد ہونے کے باوجود وہ تعاون دینے کے خواہشمند ہیں اور فاؤنڈیشن کے ذریعے مہیا کئے گئے دستاویز بھی استعمال کیلئے حاضر ہیں ، لیکن سنی وقف بورڈ کے وکیل اس پر بھی راضی نہیں ہوئے ۔
20کروڑ مسلمانوں کی نہ صرف امیدیں جس مقدمے پر لگی ہوں جس کیلئے ہزار وں قیمتی جانوں کا اتلاف ہوا اور اس کے لئے آج بھی تمام مسلمان دامے درمے جانے لبیک کہہ رہے ہوں ، اس کے سلسلے میں اس قسم کی شقی القلب اور خود غرضانہ سیاست کو کبھی درگزر نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک اور حیرت انگیز بات اس سماعت کے دوران یہ ہوئی کہ مسلمانوں کی جانب سے سینئر وکیل راجیو دھون نے پورے معاملے کی سماعت پانچ یا سات رکنی بنچ کے ذریعے کئے جانے کا مطالبہ کیا،جب کہ مقدمے میں کوئی آئینی نکتہ یا مسئلہ ملوث نہیں ہے اور چیف جسٹس نے نہایت واضح الفاظ کہہ بھی دیا کہ یہ ایک خالصتاً ملکیت آراضی کا مقدمہ ہے اور دستاویز ات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا ۔لیکن اگلی سماعت میں فریقین کی جانب سے دلائل پیش کئے جائیں گے کہ معاملہ زیادہ تعداد ی بنچ میں جائے اور چیف جسٹس کا میلان بھی ادھر ہی نظر آتا ہے،لہٰذا اگلے چھ ماہ تک تو مقدمے کے فیصلے کی اسٹیج تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ، کیونکہ گرمائی تعطیلات بھی سر پر ہیں ۔ ا ب ایک نئی بساط ہے او رایک نیا کھیل شروع ہوگیا ہے ۔ بابری مسجد مقدمے کی کیفیت اب ایک ایسی کشتی کی ہے جس کے خدا کے فضل سے درجنوں کھیون ہار ہیں ، لیکن جس کے کسی ساحل سے لگنے کی امید نہیں لیکن کیونکہ ہر شخص ایک مختلف سمت میں چپو چلارہا ہے ۔ اب نہایت شدّت سے اس بات کی ضرورت کہ کچھ ذمہ دار قانون داں حضرات یا کوئی تنظیم اب تک کم از کم سپریم کورٹ میں ہوچکی کارروائی کو قوم کے سامنے لائے اور آئندہ کاروائی کو زیر جائرہ (monitor) کرے۔
https://newageislam.com/urdu-section/babri-masjid-whatever-planned,-planned/d/114634
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism