اداریہ
پاکستان کو قیامتوں ،ابتلاؤں اور آفات کی آماجگاہ کہا جاتاہے ۔ سب سے بڑی اور پہلی قیامت یوں بپا ہوئی کہ وطن کے بانیوں کا شروع کے چند برسوں ہی میں صفایا کردیا گیا۔ پھر عنانِ اقتدار انگریز کے وفادارو ں نے سنبھال لی۔ اور حسب روایت وہی ازل سے قائم و دائم سرمایہ داری نظام پھر ایک بار اس نوزائیدہ مملکت میں بھی بحال کردیا گیا جو حقیقی اسلامی روح کو اجاگر کرنے کےلئے حاصل کی گئی تھی ۔پھر آفات نے اس پاک سرزمین کو راہ دیکھ لی۔ عزیز کو درپیش بہت سی قیامتوں میں سے ایک بڑی اور بنیادی قیامت قوم کے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی سوچی سمجھی پلاننگ ہے۔ یہ جہالت کا تسلط کوئی نئے دور کاالمیہ نہیں ہے۔ تاریخ کا ایک طائرانہ جائزہ یہ حقیقت خوب آشکار کردیتا ہے کہ مسلم بادشاہوں نے محلات ، حرم سرائیں اور قلعے تو بہت تعمیر کئے ، نئے شہر بھی آباد کئے گئے ، عظیم الشان لشکر اور چھاؤنیاں بھی قائم کی گئیں ،،، لیکن تعلیم اورتعلم کےنام پر ذرہ برابر مساعی پوری تاریخ میں کہیں سے ثابت نہیں ہے۔ دراصل عو ام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا غاصب اور ظالم حکمرانوں کی بقا کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ اس سبب سے وہ مذہبی مدرسے تو قائم کرتے اور ان کےلئے وسائل فراہم کرتے رہے ہیں ، کیونکہ یہ مذہبی پیشوائیت کی وہ نرسریاں ہیں جہاں سے آمریت کے غیر مشروط حامی اور آلہ کار پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن تاریخ میں کہیں شاذ ہی ایسا کوئی واقعی مندرج ملے گا کہ کسی مسلم بادشاہ نے عوام کے لئے اسکولوں او ر یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیا ہو اور اپنی قوم کو ترقی یافتہ او رخو شحال بنانے کےلئے علم کو راس المال قرار دے دیا ہو۔
آج کی پاکستانی جمہوریت بھی اسی قدیمی غاصب ڈکٹیٹر شپ کی ایک شکل ہے۔ ناجائز پیسے کے زور پر الیکشن خرید لئے جاتے ہیں ۔ سرمایہ دار طبقہ وسائل پر قابض ہے اور ظالمانہ سرمایہ داری نظام (Capitalism) نافذ ہے۔ فلہٰذا ، آج بھی آپ کا شعبہ تعلیم وطن عزیز کامسلمہ طور پر سب سے کرپٹ شعبہ ہے، جہاں سےہر ایسی منظم کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں او ران کے والدین کو ایسی مالی اورنفسیاتی آفات میں مبتلا کیا جائے کہ وہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ آج بھی تعلیم کی راہ میں حائل کردہ مشکلات اپنے حجم اور اپنی اقسام میں اتنی ہمہ گیر ہیں کہ ان پر قابو پانا، اور بچوں کو کسی نہ کسی طرح ڈگری کی سطح تک پہنچا دینا اب صرف معدود ے چند متوسط طبقے کے خوشحال لوگوں اور طبقہ امراء کے بس کی بات ہی رہ گئی ہے۔ آئیے ایک نظر موجودہ صورت حالات پر ڈال کر اس قیامت کی شدت اور اس کی مضمرات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں 2 کروڑ 50 لاکھ بچےتعلیم سےمحروم ہیں جن میں 5 سے 16 سال تک عمر کے بچے شامل ہیں ۔اور آپ حیران ہوں گے کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی میں موجود بچوں کی کل تعداد کا نصف ہے۔ یہ واحد ننگی حقیقت یہ جاننے کےلئے کافی ہے کہ قوم بحیثیت مجموعی پستی کے تحت الثریٰ میں دھکیلی جارہی ہے۔ کیونکہ جس قوم کی آئندہ نسل کا نصف نا مساعد حالات کے باعث تعلیم ہی حاصل نہیں کرسکتا ،اس کی تیرہ بختی اور زوال میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے !!! اسکول نہ جاسکنے والے بچوں میں نسبتاً زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے، جس کے اسباب و عوامل بہت اضح ہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بچوں کی جو نصف تعداد اسکول جاتی ہے ان کی ایک بڑی اکثریت نہایت گھٹیاں معیار حاصل کرتی ہے۔ ہمارے 48 فیصد سرکاری اسکول خطرناک یا ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہیں اور فرنیچر ، ٹوائلٹ ، چار دیواری ، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سےمحروم ہیں۔ کسی بھی ایک دن میں 18 فیصد اساتذہ کلاس روم سے غیر حاضرہوتے ہیں ۔ جسمانی سزا بالعموم دی جاتی ہے اور اس پر کوئی چیک یا نگرانی نہیں ہوتی۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک بڑی غیر سرکاری تنظیم نے منعقد تقریب میں اعداد و شمار جاری کردیئے ہیں ۔ ان کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں اسکولوں سےباہر بچوں کی تعداد حال ہی میں 2 کروڑ 50 لاکھ سے قدرے کم ہوکر 20 کروڑ 40 لاکھ ہوگئی ہے اور یہ موقع ہے کہ جب پاکستان ایجوکشن سٹیٹسٹکس رپورٹ (23 واں ایڈیشن)نے پاکستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کے بارےمیں دیئے جانے ولے تخمینوں کو تسلیم کیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ایجو کیشن سٹیٹسٹکس رپورٹ میں اسکولوں سےباہر بچوں کے اعداد و شمار شامل کر کے پاکستان کی تعلیم حالت زار کو سامنے لا یا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹ تعلیمی منصوبہ بندی میں اعداد و شمار کی اہمیت کو اجاگر بھی کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سے 16 سال کے عمر کےبچوں میں سے 47 فیصد یا چوبیش اعشاریہ صفر د و ملین بچے اسکولوں سے باہرہیں ۔ جب کہ 78 فیصد یا اٹھارہ اعشاریہ چھ ملین بچے ایسے ہیں جو کبھی بھی کسی اسکول میں داخل نہیں ہوئے۔ جب کہ 32 فیصد بچے ایسے ہیں جنہوں نے داخلہ لینے کے بعد اسکول چھوڑ دیا ۔ رپورٹ کے مطابق بھی لڑکوں کے مقابلے میں اسکولوں سےباہر لڑکیوں کی تعداد قدرے زیادہ ہے۔ اسکولوں سےباہر 24 ملین بچوں میں سے بارہ اعشاریہ آٹھ ملین لڑکیاں جب کہ گیارہ اعشاریہ دو ملین لڑکے ہیں۔
ہماری حکومت کے لئے ڈوب مرنے کامقام ہے کہ ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے جہاں سب سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ یعنی ہماری قوم جہالت میں پوری دنیا میں سر فہرست ہے۔ دوسرے لفظوں میں پوری دنیا میں اسکول نہ جانے والوں بچوں میں سے ہر بارہوا ں بچہ پاکستانی ہے۔ پرائمری اسکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی شرح نہایت کم یعنی صرف 57 فیصد ہے۔ اور یہ شرح مڈل اسکول کی سطح پر آکر صرف 22 فیصد رہ جاتی ہے۔ جب ہائی اسکول کی سطح پر 13 فیصد تک گر جاتی ہے ۔ 46 فیصد بچے وہ ہیں جو پانچویں جماعت پاس کرنے سے پہلے ہی حالات سےمجبور ہوکر اسکول چھوڑ جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہےکہ اوسطاً ایک پاکستانی اپنی زندگی میں صرف تین اعشاریہ نوسال (3.9) اسکول میں گزارتا ہے۔ دوسری جانب ملک کے ایک تہائی پرائمری اسکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے۔ اوسطاً پاکستان کے ہر گورنمنٹ پرائمری اسکول میں 3 سے کم استاد تعینات ہیں۔ پورے ملک میں سیکھنے کامعیار بہت پست ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں بچے پڑھنے اور ریاضی کےسوالات حل کرنے میں بہت کمزور ہیں ۔ پانچویں جماعت کے 52 فیصد طلباء اردو ،سندھی پاپشتو کی کہانی بھی نہیں پڑھ سکتے ۔ پانچویں جماعت کے 56 فیصد طلبا ء انگریزی کاایک جملہ بھی نہیں پڑھ سکتے ۔ پانچویں جماعت کے 58 فیصد طلباء ریاضی کے دو ہندسوں کی تقسیم والے سوال بھی حل نہیں کرسکتے ۔ 17 فیصد پرائمری اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔
دوسرے جانب سپریم کورٹ کے حالیہ سروے کےمطابق پاکستان میں کم از کم 8252 اسکول فرضی یا غیر فعال (Ghost Schools) ہیں۔ ان میں سے 6164 صرف سندھ میں ہیں۔ کیونکہ اس ذریعے سےبڑے پیمانے پر مالی کرپشن کی جارہی ہے اور سب کو حصہ مل رہا ہے ، اس لئے حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ نہ ہی احتساب کے ادارے اس سلسلے میں کچھ کرسکتے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ حکومت نےالیکشن سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے پانچ سالوں میں تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا چار (4) فیصد مختص کریں گے ،پاکستان ابھی بھی اپنے جی ڈی پی کا صرف ایک اعشاریہ نو فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جو تعلیم پر بہت کم خرچ کرتے ہیں ۔ پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے 2003 ء میں 26 فیصد سے بڑھ کر 2013 ء میں 39 فیصد ہوگئے ہیں ۔ اس طرح اگرچہ پرائیویٹ سیکٹر تیزی سے پھیل رہا ہے، لیکن پھر بھی ملک میں اسکول کی اکثریت اب بھی حکومت ہی چلا رہی ہے ۔ اس طرح ملک میں پرائیویٹ اسکول 29 فیصد ہیں اور سرکاری اسکول 71 فیصد ۔ پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کی تعداد 39 فیصد ہے اور سرکاری اسکولوں میں 61 فیصد۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 ۔ اے (25-A) کےتحت یہ حکومت کی ذمہ داری ہےکہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر تک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے ۔ لیکن حالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئین ایک کاغذ کے پرُزے سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے او رہماری حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں ، جن میں آئین کی پابندی کو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے کا مقتدر طبقہ لوٹ مار ، کثرت مال و دولت کو اپنا ایمان بنا لیتا ہے تو اس طبقے کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ ملک کے مستقبل اور سلامتی کا کیا بنے گا ۔ عوام کو شعور و آگہی حاصل ہوگی یا نہیں ۔ وہ دو وقت کی روٹی کےلئے کوئی باعزت کام کرنے کے قابل ہوں گے یا مکاری اور فریب کی راہ چل پڑیں گے اور وطن دشمنوں کا آسان ہدف بن جائیں گے ۔ انہیں کچھ سروکار نہیں ہوتا کہ تعلیم کے فقدا ن کے باعث اخلاقی قدریں کو چہ وبازار میں نیلام ہونے لگیں گی اور گھناؤنے جرائم حشرات الارض کی مانند عام ہوجائیں گے۔ تہذیب نا پید ہوجائے گی اور حرام و حلال کی تمیز اٹھ جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے ایک صفت ‘‘عالم اور علیم’’ یعنی علم رکھنے والا بھی ہے۔ اور تحصیل علم کی اس سے زیادہ اہمیت اور کس طرح واضح کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تاکید فرمائی کہ اپنے رب سے دعا کریا کر کہ ‘‘رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ’’ (114۔20) اے میرے ربّ ،میرے علم میں اضافہ فرما شاید سب سے بہتر دعا ہے جو اللہ نے اپنے نبی جیسی جلیل القدر شخصیت کےلئے تجویز کی۔ اور اسی کےاتباع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی امت کے لئے جو اہم ترین نصیحت چھوڑی ہے وہ بھی شاید علم ہی کےضمن میں تھی او رجسے ان الفاظ میں درج کیا جاتا ہے : ‘‘ اطلب العلم ولو کان بالصین’’ یعنی علم کی طلب کرو خو اہ اس کے لئے تمہیں چین جیسے دور دراز کےمقام تک جانا پڑے۔ روئے زمین پر آج ایسی کوئی قوم موجود نہیں جو علم کےبغیر سائنس ، ٹیکنالوجی، ادب اور فنون میں ترقی او رمرفع الحالی حاصل کرسکتی ہو ۔۔۔ لیکن اقتدار اور دولت کےنشے میں بدمست ہمارے قابض حکمرانوں کو علم کی اہمیت اور اشد ضرورت کا احساس دلانا گویا بھینس کے آگے بین بجانا ہوگا۔ ہم اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں دعا ہی کرسکتے ہیں کہ وہ کسی بھی سبب سے ایک ایسی قیادت سامنے لے آئے جو قوم کو فروغ علم کی راہ پر لگادے ، تاکہ جہالت کے اندھیروں کے باعث قوموں کی برادری میں ہماری ذلت و رسوائی کا شرمناک سلسلہ ختم ہوجائے اور ہمارے نصف سے زیادہ فاقہ کش قوم کو عزت کی روٹی نصیب ہونے لگے ۔
بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق، کراچی، مئی 2016
URL: