New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 08:20 AM

Urdu Section ( 14 Apr 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Holy Quran is The Document of the Right and the Wrong صحیح اور غلط کی کسوٹی قرآن کریم ہے

A letter to Editor of Monthly Sautul Haq

مکاتیب 

فرہاد صاحب السلام علیکم

فرہاد صاحب ! چند سال قبل آپ نے ایک مضمون لکھا تھا کہ غار حرا میں روایت  کے مطابق جبرئیل  امین پہلی وحی کسی تختی پر لکھ کر لائے ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اقرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ( میں پڑھنے پر قادر نہیں ہوں) جب کہ برصغیر کے متزجمین مفسرین اس پر متفق  ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے زبانی کہا اقرا ......... کیا آپ آج بھی  اپنی بات پر قائم ہیں؟  اور آپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انپڑھ نہیں تھے جب کہ مولانا مودودی صاحب نبی امی کا ترجمہ انپڑھ کرتے ہیں ۔ جواب کا منتظر ۔

پیش امام جامع مسجد محلّہ گڑاں والامنڈی بھاولدین

محترم شمس الدین صاحب ! غلط بات کی ایک آدمی کہے یا بر صغیر و کبیر کے تمام اوادم ، وہ غلط ہوگی ۔ اور صحیح بات اگر ایک کہے مقابلے  میں لاکھ آدمی ہوں یہ تسلیم کرنی ہوگی صحیح  اور غلط  کی کسوٹی ہمارے ہاں قرآن کریم ہے۔  رہی آپ  کی یہ بات  کہ مودودی صاحب ‘‘امی’’ کا ترجمہ انپڑھ کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انپڑھ سمجھتے ہیں تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے تھے مگر اتنے نہیں جتنے مودودی صاحب تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تاجر تھے مصر، عراق ، یمن او رکہا ں کہاں  سامان تجارت لے کر جایا کرتےتھے اسی تجات میں ان صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت اور دیانت دیکھ کر خدیجہ رضی اللہ عنہ بنت خویلد نے ان صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی تھی ۔ تجارت کی کامیابی  کا دارو مدار کتابت پر ہوتی ہے ۔

اکثر دکاندار کہتے ہیں کہ دوسرے پھیرے میں آؤ تو دو تھان لٹھے کے اور ایک چھیٹ کا لیتے آنا، اونٹوں کا سفر ہوتا تھا دوسرے پھیرے میں چار چھ مہینے لگ جاتے تھے اس لئے دوسروں کی Demand  لکھنی پڑتی ہوگی یہ کام انپڑھ آدمی کے بس کا نہ تھا ۔ پہلی وحی سے بھی یہ چیز ثابت ہے، میرا موقف ہے ۔ ( جبرئیل کوئی لکھی ہوئی چیز لائے ہوں گے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ) ۔ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (96:1) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں پڑھنے پر قادر نہیں ہوں ۔ لغت میں ا س کا ترجمہ ہے To Read a book  قرآن کریم میں یہ کلمہ تین بار اسی شکل میں آیا ہے البتہ اس مادہ کے تحت لا تعداد  مقامات پر اعادہ  ہوا ہے حتیٰ کہ قرآن کریم کابھی یہی مادہ ( ق ر أ) ہے ۔ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (17:14) (کہا جائے گا کہ ) اپنا لکھا خود پڑھ لے آج اپنا ہی محاسبہ کافی ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ۔ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (96:1) پڑھ اپنے پالنے والے کے نام سے جو تمہارا خالق ہے ۔ تیسری جگہ ارشاد  ہے ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (96:3،4) پڑھ اور تمہارا رب کریم ہے جس نے تمہیں قلم سے لکھنا سکھایا ۔ مطالعہ کر  ...... اقرا ......... پڑھ ........ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ جوتمہیں قلم سے سکھیا گیا ہے ۔ یعنی اس زمانے میں پڑھی وہ چیز جاتی تھی جو قلم سے لکھی جاتی تھی ۔ ان تینوں مقامات سے واضح  ہے کہ ۔ اُردو کے پڑھ اور عربی کے اقرا میں فرق ہے ۔ اُردو کے پڑھ کے معنی زبانی بولنا بھی ہے جیسے شاعر  اپنی غزل  یا نعت پڑھ رہا تھا، حالانکہ وہ اپنے حافظے  کی طاقت  سے بول  رہا تھا کہ ( پرھ نہیں رہا تھا ) اس کے سامنے  کوئی لکھی  ہوئی تحریر  نہیں تھی ۔ اور بیاض  میں دیکھ کر غزل  سنانے کو بھی اردو میں پڑھنا کہتے ہیں ۔

 جب کہ عربی میں  اقرا کے معنی ہیں کوئی لکھی ہوئی چیز پڑھنا اور زبانی پڑھنے کے لئے  اعاد، کرر، تکرار ، مکرر اور قل ۔ وغیرہ کے الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ تو اگر جبرئیل آیت بول کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوانا چاہتے تھے تو اقرا  Read  نہ کہتے ۔ کیونکہ  سامنے جب کوئی لکھی ہوئی چیز نہ ہو تو وہ  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے  What I Read  ۔ البتہ دُھرا نا کوئی مشکل کام نہیں تھا اگر کوئی مجھے  عبرانی کلمات دھرانے کو کہے میں بلا دقت دھرادوں گا یہ  کبھی  نہیں کہوں گا کہ میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا ۔ کیا اللہ اور جبرئیل  کے علم میں یہ بات تھی کہ انپڑھ سے تین بار کہا کہ ‘‘ اقرا’’ پڑھ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا جانتے ہوں گے جب ہی تقاضہ تھا پڑھ ۔

جبرئیل امین ضرور کوئی لکھی ہوئی تختی وغیرہ لائے ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا کہ میں  پڑھنا نہیں جانتا ۔ اگر جبرئیل امین زبانی کچھ کہتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے دہرانے میں کیامشکل پیش آئی ؟ اُس صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ کیونکہ جبرئیل کچھ پڑھو ا تو نہیں رہے تھے کہلوا رہے تھے ۔ یہ پڑھنا نہیں دھرانا (Repetition) ہوا دہرانے کے لئے پڑھنا لکھا ہونا ضروری نہیں ۔ اردو میں آپ کہہ سکتے  ہیں کہ میرا بیٹا یورپ میں پڑھتا ہے ۔ مگر عربی میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابنی یقرأ فی الا روبا ۔اس کا ترجمہ بنتا ہے ۔ My son is reading in Europe  جو سراسر غلط ہے ۔ دوسرا کہے گا اگر گھر میں جگہ نہیں ہے تو چھت پر جاکر مطالعہ کرے یورپ کیوں گیا ؟۔ اسی لئےعربی میں کہتے ہیں ابنی یقرأ فی الا روبا ۔

میرا بیٹا یورپ میں تعلیم حاصل کرر ہا ہے ۔ پڑھ یا ( اقرا) نہیں  کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عربی میں عدالت  کے  Reader  کو قاری کہتے  ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں قرآن کریم کو گا کر لہک لہک کر پڑھنے والا قاری کہلاتا ہے ۔ اپنی اپنی زبان ہے اس معاملے میں ہم عربی کا کچھ  بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔

اللہ کا فرمان ہے ۔ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُون (39:9) کیا صاحبان علم او ربے علم یکساں ہوتے ہیں ؟  هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (6:50)کیا اندھا اور دیکھنے والا ایک برابر ہوتے ہیں تم اتنا بھی نہیں سوچتے  ۔ ثابت ہوا کہ اللہ نہ جاننے والے پر جاننے والے  عالم کو فضیلت دیتا ہے ۔ تو کیا نبی کو بے علموں میں منتخب کرتا ؟

ہم اپنی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ گاڑی  پیٹرول بہت کھانے لگی ہے ۔ یہ درست۔ مگر عربی میں ہم یہ بالکل نہیں کہہ سکتے  کہ  سیارتی یا کل بنزین کثیر ( میری گاڑی کھاتی ہے پیٹرول بہت )عربی میں آپ کہیں گے سیارتی یصرف بنزین کثیر ۔ میری گاڑی  خرچ کرتی ہے پیٹرول بہت ۔ ہم تو  وہ لوگ ہیں کہ سگریٹ بھی پانی کی طرح پیتے ہیں ، حالانکہ سگریٹ پینے کی چیز نہیں ہے ۔ کش لگانے کی چیز ہے ۔ تو ہر زبان کااپنا اپنا قاعدہ اور اسلوب ہے۔ یہی  حال اہل فارس کا ہے ۔ پوری دنیا روٹی  کھاتی ہے اور پانی پیتی ہے اہل فارس پانی کھاتے ہیں ۔  من آب می خورم ۔میں پانی کھاتا ہوں ۔ ان کے ہاں پینے کا لفظ ہی نہیں ۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم اردو والے سگریٹ پیتے ہیں حالانکہ سگریٹ پیا نہیں  جاتا اس کاکش لگایا جاتا ہے جیسے فارسی میں ہے ‘‘ من سگار نمی کشم ’’ عربی میں ہے ( مادوخ سجائر ) میں دھواں نہیں کھینچتا ۔ انگریزی  میں  I am not Smoking  ہمارے ہاں اس کا بہتر مفہوم  یہی ہے کہ میں تمباکو نوشی نہیں کرتا ۔

بلاشبہ اردو میں ثلث  الفاظ عربی زبان کے ہیں،  ان کا  احترام یہی ہے کہ ہم انہیں اسی معنوں میں لیں جو عرب لیتے ہیں ہم عربی کو پاکستانی چھری  سے ذبح نہیں کریں تو بہتر ہے ۔ تعجب ہے کہ یہ غلطی عام آدمی کے علاوہ مولوی حضرات یعنی عربی  جاننے کے دعویدار بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً عربی کو عزت  اور اردو کی عزت ایک نہیں ہے، عزت عربی لفظ  ہے معنی  ہیں غالب ، فتح مند، طاقتور ، قوی دو آدمی کشتی لڑرہے ہیں اور اوپر والا عزت مند ہو ا نیچے والا ذلیل ہوا ۔ جو اردو کی عزت ہے اسے  عربی میں اکرام کہتے ہیں  اور عزت دار کو عربی میں مکرم کہتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے آیت ۔إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (49:13) اللہ کے ہاں تم میں صاحب عزت وہ ہے جو متقی ہے ۔ اگلی آیت میں فرمایا  وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (17:70) میں  نے ہر بنی آدم  کو عزت دار پیدا کیا ۔

مگر قرآن کریم کی اس آیت ۔ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ (3:26) کا ترجمہ ہمارے ہاں یہ کیا جاتا ہے کہ ۔ اللہ جسے چاہیے عزت دے جسے چاہئے ذلت دے۔ اگر زید کو اللہ نے عزت دی ہے تو اس کی عزت کیوں کروں؟ اللہ مجھے عزت دے دیتا ۔ حامد اگر جرائم پیشہ ہے، نشئی ہے ، بدمعاش ہے، تو میں اس سے نفرت کیوں کروں؟ اللہ نے اسے اس راستے پر لگایا ہے۔ میں تو زید کی عزت اس وقت کروں گا اگر معاشرے میں بہتر کردار سے اُس نےاپنی عزت خود کمائی ہو اور میرے نزدیک حامد قابل نفرت اس وقت ہوگا جب وہ اپنی حالت کا خود ذمہ دار ہوگا ۔ اللہ کے متعلق ایسا سوچنا بھی گناہ  ہے کہ وہ جل جلالہ کسی کو تو غلط راستے پر لگا دیتا ہے اور کسی کو صحیح راستے پر ۔ اس آیت کامفہوم یہ ہے کہ اللہ نے انبیا ء علیہ السلام اور کتب کے ذریعے انسان کو نیک و بد سمجھا دیا ہے وہ آزاد ہے جو چاہے عزت حاصل کرے جو چاہیے ذلت اپنا لے ۔ اپنے عمل کا نتیجہ اسے مل کر رہے گا۔

مولانا شمس الدین صاحب ! اس ساری بخت کا نچوڑ یہ ہوا کہ اگر پہلی وحی  میں جبرئیل امین آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اقرا تو ان کے ہاتھ میں کوئی لکھی  ہوئی چیز ہوگی ۔ لیکن روایات میں لکھی ہوئی چیز کی نفی کی گئی ہے ۔ رہی یہ بات تو  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں امی ( انپڑھ) کہا گیا ہے ۔ تو کچھ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ مکہ میں قرآن کریم سے پہلے باقاعدہ کوئی کتاب نہیں تھی  پہلی کتاب قرآن ہی نازل ہوئی اس لئے یہاں والے امیون کہلاتے تھے ۔

لیکن میرا خیال ہے کہ مکہ کا نام چونکہ ‘‘ ام القرۃ’’  تھا بستیوں کی ماں تو یہاں والے ( امی) کہلاتے تھے چاہے وہ پڑھے لکھے ہوتے ہوں ۔ رہی یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو فرمایا کہ میں پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتا تو یہ بات درست نہیں ہے۔ عیسائی یہ ثابت کرناچاہتے تھے کہ مسلمانوں کے نبی کی نبوت بھی ہمارے دم سے ہے اگر ہمارے عالم ورقہ بن نوفل ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتاتے تو انہیں  صلی اللہ علیہ وسلم تو علم ہی نہ تھا کہ انہیں نبوت  سے نوازا گیا ہے ۔ عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ نبوت پر سرفراز ہونے کی مبارکباد دی ۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ وہ عیسائی  راہب بھی مسلمان نہ بنا! یا للعجب!!

اللہ نے بتانا مناسب نہیں سمجھا ، جبرئیل نے بھی یہ بشارت نہ دی اور جن صلی اللہ علیہ وسلم کی سر پرنبوت کا تاج رکھا گیا وہ بھی نہیں سمجھے اگر کچھ سمجھا تو اندھا عیسائی راہب سمجھا ۔ بلکہ اس روایت  کے مطابق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تجربے کی صحیح  ماہیت  کابھی اندازہ نہ تھا وہ تو خدا بھلا کرے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی واقعہ کی تفصیل جاننے کے بعد یہ یقین دلایا کہ  ھذا الناموس الذی نزل اللہ علی موسیٰ  کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ۔ ہمارے خیال میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو سند فراہم کرنے کے لئے ورقہ بن نوفل کی تصدیق  زیب  داستاں سے زیادہ نہیں ۔ اللہ نے نہیں بتایا جبرئیل  خاموش رہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ سمجھے کہ نبوت ملی ہے تو اگر ورقہ بن نوفل اندھا بھی نہ بتاتا تو غالباً ساری  زندگی  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ جان سکتے کہ وہ نبوت پر فائز ہوگئے ہیں؟ ۔ واقعہ نزول کے گرد ا ساطیری ماحول  کی تعمیر  میں ان روایتوں کا بھی بڑا دخل ہے جسے بعض سیرت  نگاروں نے بلا تحقیق  و تجزیہ اپنی تالیفات  میں جگہ دے دی اور جس نے گزرتے وقتوں کے ساتھ نقل در نقل  کے مرحلے  میں استناد کادرجہ حاصل کرلیا ہے ۔ ان روایتوں پر اگر اعتبار کر لیاجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت نصرانیوں کی مرہون منت ہے ۔

اپریل ، 2014 بشکریہ :  صوت الحق ، کراچی

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/holy-quran-document-right-wrong/d/66544

Loading..

Loading..