اداریہ
(الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام)
ہمارے قارئین کی اکثریت کے لئے اسلامی جہادی تنظیم ‘‘داعش’’ ایک اسرار کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کے بارے میں عام عوام اور مقامی اور بین الاقوامی میڈیا پر انتہائی تحیّر خیز اور نا قابل یقین معلومات گردش کرتی ہیں جن کی بنا پر عوام اور خواص سبھی کثرت سے رائے زنی کا شوق پورا کرتےہیں ۔ کچھ مبصرین اس کا تعلق امریکی سی ۔ آئی ۔اے (C.I.A) سےملاتے ہیں جو ان کے مطابق اس تنظیم کو اس لئے عسکری او رمالی امداد دیتی ہے کہ دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے ذریعے دین اسلام کو بدنام کر کےاس کے خاتمے کی راہ ہموار کی جائے ۔ اور کچھ اسے شیعہ مسلک کے خلاف سعودی عرب کا قائم کردہ ایک عسکری محاذ گردانتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل سطور میں ہم داعش کی ایک مکمل تاریخ رقم کررہے ہیں تاکہ اس تنظیم کی ایک مستند شکل و صورت عوام کے سامنے آکر بہت سی قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہوسکے۔
داعش یا ‘‘ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ الشلام ’’ ( الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام) ایک لگ بھگ پندرہ برس پرانے سلفی جہادی عسکری گروہ کا موجودہ نام ہے جس کی جڑیں القاعدہ تحریک سے پھوٹتی ہیں ۔ اس گروہ نے جو 2014 میں ایک عالمی خلافت کا اعلان کیا اور ابوبکر البغدادی کو خلیفہ مقرر کیا۔ ایک خلافت کی حیثیت میں یہ گروہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر سیاسی اور عسکری حاکمیت کا دعویدار ہے۔ اس کا یہ بلند بانگ دعویٰ شدید نکتہ چینی کا ہدف ہے، اور یو۔ این ۔ او (UNO) ، بہت سی حکومتوں اور مسلمانوں کے مرکزی گروپس نے اس کا ریاست یا خلافت کا دعویٰ مسترد کردیا ہے۔تاہم دسمبر 2015 ء تک یہ گروہ عراق اور شام میں وسیع زمینی علاقے کا کنٹرول حاصل کرچکا ہے جس کی آبادی کا تخمینہ 28 لاکھ سے 80 لاکھ کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ یہ گروہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنی شریعت کے قوا نین کا نفاذ کرتاہے ۔ اس سے ملحق جماعتیں نہ صرف لیبیا، نائیجریا اور افغانستان میں کچھ علاقوں پر تسلط رکھتی ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سرگرم ہیں جن میں شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا کےکچھ علاقے بھی شامل ہیں ۔
اس گروہ کی بنیادیں 1999ء کے سال میں اُردن کے ایک بنیاد پرست ابو مصعب الزرقاوی نے ‘‘جماعت التوحید و الجہاد’’ کےنام سے قائم کیں ۔سال 2004 ء میں الزرقاوی نے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کی اور گروہ کا نام بدل کر ‘‘تنظیم قاعدۃ الجہاد فی البلاد الرافدین’’ رکھ دیا ۔ الزرقاوی کےتحت اس گروہ نے مارچ 2003ء کے عراق پر حملے کے بعد مغربی فوجوں کے خلاف جنگی محاذ قائم کیا اور اتحادی طاقتوں پر حملے کئے۔ نیز عراقی فوج کو ان کا الحاقی قرار دیتے ہوئے اس پر بھی حملے جاری رکھے ۔ 2006ء میں الزرقاوی مارے گئے جس پر کئی مجاہدین گروپ ایک باہمی اتحاد میں شامل ہوگئے اور ‘‘اسلامک اسٹیٹ آف عراق ’’ کےنئے نام سے جماعت قائم کی اور ابوعمر البغدادی اور ابو ایوب المصری کو اپناراہنما بنا لیا ۔ یہ دونوں راہنما بھی اپریل 2010ء میں مارے گئے او راس کے بعد ابو بکر البغدادی اس گروپ کے نئے لیڈر بن گئے ۔
اس گروپ کے تحت عراق جنگ کے دوران عام شہریوں ، عراقی گورنمنٹ اور سکیورٹی فورسز، غیر ملکی سفارت کاروں اور سپاہیوں اور امریکن فوجی کا نوائے پر حملے نہایت شدت سے جاری رکھے گئے ۔ القاعدہ کے اشتراک کےساتھ یہ منصوبہ عراقی جنگ کو پھیلانے کامقصد رکھتا تھا، جس کا ہدف امریکی فوجوں کو عراق سے انخلا پر مجبور کرنا، اسلامی حاکمیت کو ایک خلافت کےروپ میں قائم کرنا، جنگ عراق کے سیکولر ہمسایوں تک پھیلا دینا ا، اور اسرائیل سے محاذ آرائی کرنا شامل تھا ۔
مارچ 2011ء میں شام میں بشارالاشد کی حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیکورٹی فورسز اور مظاہرین میں تشدد آمیز جھڑپوں کے نتیجے میں یہ احتجاج ایک عسکری صورت اختیار کر گئے ۔ اگست میں البغدادی نے شامی اور عراقی گوریلا فوجوں کو شام میں بھیجنا شروع کردیا اور وہاں اپنی تنظیم کی بنیاد ڈالی ۔ ایک شامی ، الجولانی نے راہنما کے طور پر لڑکے بھرتی کرنے شروع کر دیئے او رملک کے طول و عرض میں خفیہ سیل قائم کئے ۔ جنوری 2012 میں اس گروپ نے اپنے نام ‘‘جبہت النصرۃ’’ کا اعلان کیا جو عمومی طور پر ‘‘النصرۃ فرنٹ ’’ کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو سرعت کے ساتھ ایک لڑاکا فوج کی شکل اختیار کر گیا ۔ اسد کی مخالف قوتوں نے اس کی حمایت کی ۔ اپریل 2013 ء میں البغدادی نے شام میں النصرہ فرنٹ کے قیام، اس کی مالی مدد اور اسلامی اسٹیٹ آف عراق کی جانب سے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا او رکہا کہ دونوں گروپ ‘‘آئی۔ ایس۔ آئی ۔ایس’’ کے نام کےساتھ باہم الحاق کررہے ہیں ۔ فرنٹ کے لیڈر الجولانی نے اس الحاق سے انکار کیا او رکہا کہ فرنٹ کے کسی لیڈر سے اس سلسلے میں کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ۔ جون 2013ء میں الجزیرہ نے رپورٹ دی کہ اس نے القاعدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کا ایک خط حاصل کر لیا ہے جو ان دونوں لیڈران کو لکھا گیا تھا جس میں اس الحاق سے منع کیا گیا تھا ۔ اسی ماہ البغدادی نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں الظواہری کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے الحاق کے معاملے میں آگے بڑھنے کے فیصلے کا اعلان کیا ۔ اکتوبر 2013ء میں الظواہری اسلامک اسٹیٹ آف عراق کو توڑنے کااعلان کیا، اور النصرہ فرنٹ کو شام میں جہادی کوششوں کا انچارج مقرر کردیا۔ تاہم البغدادی نے الظواہری کے فیصلے کی اسلامی فقہ کے اصولوں کی بنیاد پر مخالفت کی اور اس کا گروپ شام میں آپریشن میں مصروف رہا ۔ فروری 2014ء میں ، آٹھ ماہ کی اقتدار کی رسہ کشی کے بعد ، القاعدہ نے ‘‘اسلامک اسٹیٹ ’’ کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرلئے ۔
نومبر 2013ء میں چیچن لیڈر ابوعمر الشیشانی نے البغدادی کا ساتھ دینے کاحلف اٹھایا ، جس سے ان کا گروپ جے ۔ ایم ۔ اے ۔ دوحصو میں بٹ گیا ۔ شیشانی کے حامیوں نے ‘‘اسلامک اسٹیٹ ’’ میں شمولیت اختیار کر لی اور باقیوں نےاپنے گروپ کو خود مختاری کے ساتھ چلانے کےلئے نئی لیڈر شپ چن لی ۔ مئی 2014 ء میں الظواہری نے النصرہ فرنٹ کو اپنے حریف ‘‘ اسلامک اسٹیٹ ’’ پر حملوں سے روک دیا ۔ اسی دوران النصرۃ کی شامی شہر البوکامل برانچ نے ‘‘اسلامک اسٹیٹ’’ کے ساتھ اتحاد کرلیا ۔ جون 2014 میں ‘‘اسلامک اسٹیٹ ’’ نے اُردن اور عراق کے مشترکہ بارڈر طرابل پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد ‘‘اسلامک اسٹیٹ’’ کو اُردن میں بھی محدود حمایت حاصل ہوگئی ۔ اسلامک اسٹیٹ نے سعودی عرب میں فوجی بھرتی شروع کر رکھی ہے جہاں کے شمالی قبائل مغربی عراق اور مشرقی شام کے قبائل سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں ۔ جون 2014 ء ہی میں اسلامک اسٹیٹ نے اپنی عالمی خلافت کے قیام کا اعلان کیا ۔
3 اگست 2014 ء کو اسلامک اسٹیٹ نے شمالی عراق میں زومر، سنجر اور وانا نامی شہر فتح کر لئے ۔ ہزاروں یزیدی فرار ہو کر کوہ سنجر پر پناہ گزین ہوگئے کیونکہ وہ حملہ آور فوج کے تشدد سے خوفزدہ تھے ۔ اگست 2014ء میں عراق پر امریکی مداخلت اور فضا سے بمباری کرنے کی وجوہات میں پناہ گزین یزیدیوں کو خوراک اور پانی کی فراہمی ،عراق میں امریکی شہریوں کی امداد اور عراقی حکومت کی حمایت شامل تھیں ۔ اکتوبر 2014ء کے اواخر میں 800 عسکریت پسندوں نے لیبیا کے شہر درنہ ( Dernah) کا جزوی کنٹرول حاصل کر لیا اور ابو بکر البغدادی کی حمایت کا اعلان کردیا ۔ اس طرح شام اور عراق سے باہر درنہ وہ پہلا شہر تھا جو اسلامک اسٹیٹ کی خلافت کا حصہ بن گیا ۔ بعد ازاں فروری 2015 میں اسلامک اسٹیٹ نے لیبیا میں صبہا (Sabha) کے مغرب میں کچھ علاقہ قبضے میں لے لیا جو سرتی ( Sirte) اور نو فولیا نامی شہر وں کو کنٹرول کرتا ہے ۔ ان دونوں شہروں کے نزدیک ایک ملٹری بیس بھی قبضے میں لے لی گئی ۔ درنہ کے مغرب میں ایک اور شہر بھی حاصل کرلیا اور سرتی کے نواح میں مزید علاقے بھی قبضے میں لے لئے ۔ نیز بن غازی کے قرب و جوار میں اور طرابلس کے مشرق میں بھی کچھ علاقے زیر تسلط کرلئے ۔۔۔ نومبر 2014ء میں ایک مصر ی عسکری گروپ ‘‘انصار بیت المقدس’’ نے بھی اسلامی اسٹیٹ سے الحاق کا اعلان کیا ۔ وسط جنوری 2015 ء میں ایک یمنی عہد یدار نے کہاکہ اسلامک اسٹیٹ کے پاس یمن میں درجنوں ممبر ہیں اور یہ گروہ جزیرۃ العرب میں القاعدہ کے ساتھ راست مقابلہ کررہے ہیں ، اور اپنی جماعت میں لوگوں کو بھرتی کررہےہیں ۔ جنوری 2015ء میں افغان ذمہ داروں نے بھی تصدیق کی کہ اسلامک اسٹیٹ نے افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی پیدا کرلی ہے۔ تاہم فروری 2015ء میں اس کے 65 عسکریت پسندوں کو طالبان نے قتل کردیا ۔ اس کا چیف افغان بھرتی آفیسر ، ملا عبدلرؤف ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا ۔ مارچ 2015ء میں ‘‘بوکوحرام’’ نے بھی اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ دینے کا حلف اٹھایا ، جس سے نائیجریا ، نائجر، چاڈ او رکیمرون میں اسلامک اسٹیٹ کی سرکاری سطح پر موجودگی ثابت ہوگئی ۔ مارچ میں ہی ازبکستان میں ایک گروپ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ الحاق کا حلف لیا ۔
سال 2015ء اور 2016ء میں اسلامک اسٹیٹ نے عراق اور شام سے باہر بہت سے بڑے پیمانے کے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں تیونس کے ایک ٹورسٹ مرکز میں بڑی فائرنگ کا واقعہ ، جس میں 38 یورو پین مارے گئے، ترکی میں سوروق کا دھماکہ (33 جانوں کا ضیاع) ، تیونس نیشنل میوزیم کا حملہ ( 24 غیر ملکی سیاح اور تیونسیوں کا قتل ) صنعا کی مسجد کا دھماکہ (142 شیعہ شہریوں کا قتل )، میٹرو جیٹ کریش ، فلائٹ 9258 (224 جانوں کا اتلاف ، زیادہ تر رشین ٹورسٹس) ، انقرہ کا دھماکہ (102 کردش حامی او ربائیں بازو کے کارندے ہلاک) ، بیروت دھماکے (43 شیعہ شہری ہلاک) ، نومبر 2015ء پیرس حملے (130 شہری ہلاک) ، عدن کے گورنر جعفر محمد سعد کا قتل اور 2016 ء میں استنبول دھماکہ (11 غیر ملکی ٹورسٹ ہلاک) ۔
اسلامک اسٹیٹ ایک سلفی وہابی گروپ ہے۔ یہ اسلام کی ایک انتہا پسندانہ تعبیر کی پیروی کرتاہے، مذہبی تشدد کو فروغ دیتا ہے اور اس ان مسلمانوں کو جو اس کی تعبیرات کےمتفق نہ ہوں، کافر او رمرتد مانتا ہے ۔ اس کا سیاہ جھنڈا نبی کی مہر کانشان رکھتا ہے او ریہ نعرہ کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ۔ کچھ مبصررائے دیتے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ نے اخوان المسلمون کے نظریات سے جنم لیا ہے جو کہ عثمانی سلطنت کے بعد پہلا اسلامی گروپ تھا جو 1920 ء میں مصر میں نمودار ہوا ۔ یہ عالمی جہاد ی اصولوں اورالقاعدہ کی متشدد پالیسیوں کا اتباع کرتا ہے ۔ تاہم کچھ مبصر اس کی جڑوں کو ‘‘وہابی ازم’’ سےملاتے ہیں ۔ اسلامک اسٹیٹ کے لیڈران اپنے راہنما اصولوں کے حق میں بہت کھلے اور واضح ہیں جو سب سنی اسلام کی وہابی تحریک کی طرف جاتے ہیں ۔ یہ گروپ جو بھی مدارس کنٹرول کرتاہے وہاں ‘‘وہابی مذہب’’ کی کورس کی کتابیں پھیلائی جاتی ہیں جو سعودی عرب سے حاصل کی گئی ہیں ۔ تمام کے تمام بارہ (12) جج جو اس تحریک کا عدالتی نظام چلاتے ہیں ، سب سعودی ہیں ۔ وہ سعودی وہابی طریقہ کار جن پر یہ گروپ چلتا ہے اس میں مذہبی پولیس کا قیام بھی شامل ہے جس کا مقصد برائی سے روکنا اور نماز کی ادائیگی میں حاضری کی پابندی کروانا ، وسیع پیمانے پرموت کی سزا دینا غیر سنیّ عقائد پر مبنی عمارتوں کو منہدم کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ اسلامک اسٹیٹ کا مقصد اسلام کے ابتدائی زمانے میں واپس لوٹ جانا ہے، جس کی بنا پر مذہب میں تمام جدت پسندی کو مسترد کرتے ہیں او ریہ مانتے ہیں کہ ایسا عمل مذہب کی بنیادی روح کو برباد کرتا ہے ۔ یہ بعد ازاں آنے والی خلافتوں اور عثمانی سلطنت کی مذمت کرتےہیں، اس بنا پر کہ یہ خالص اسلام پر مبنی نہیں تھیں ۔ یہ بنیادی وہابی منصوبے کو از سر نو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو خلافت کی سلفی فلسفے کے مطابق بحالی کرنا چاہتا ہے ۔ سلفی وہابی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اسلامک اسٹیٹ سیکولر قانون کو کفر قرار دےکر اس کی مذمت کرتاہے، او رموجودہ سعودی گورنمنٹ کو بھی اسی درجہ بندی میں دیکھتا ہے ۔ اسلامک امام مہدی کی واپسی پر یقین رکھتا ہے او ریہ بھی مانتا ہے کہ یہ روم کی فوجوں کو دابق کے شہر میں شکست سے ہمکنار کرے گا جیسا کہ پیشن گوئی کی گئی ہے۔
جہاں تک داعش کے مالی و سائل کاسوال ہے جس کے متعلق بھی بہت سے قیاسات گھڑے جاتےہیں ، تو باوثوق امریکی اور وسط ایشیائی ذرائع کے مطابق یہ تنظیم عراقی اور شامی تیل کی فروخت سے روزانہ ایک ملین ڈالر کی آمدنی وصول کرتی ہے ۔ صرف عراق میں ہی یہ 300 تیل کے کنویں کنٹرول میں لے چکی ہے ۔ تاریخی نوادرات کی فروخت اس کی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ رپورٹس کے مطابق تنظیم عوام سے بھی بالجبر رقومات وصول کرتی ہے او ربینک اور زیورات کی لوٹ میں بھی ملوث ہے ۔ افغان ہیروئن کی اسمگلنگ بھی اس کی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے جس کا سالانہ تخمینہ ایک ارب ڈالرز لگایا جاتا ہے ۔ ماضی قریب میں سعودی عرب ،قطر اور کویت کی حکومتیں بھی اس تنظیم کی بھاری مالی مدد کرتی رہی ہیں ۔
اپریل، 2016 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/daesh-isis-/d/108629