By Maulana Ghulam Nabi Kashafi
It may be mentioned here for your kind information that an article of Maulana Wahiduddin Khan entitiled’ Qayamat ka Alarm’ was published last year in May, 2010 edition of Al-Risala. This article was sent to me by email to know my views on it but when I went through this article I felt for the first time that I am not reading Maulana’s article but of Mirza Ghulam Ahmad Qadiyani’s writings. In this issue Maulana, distorting the Hadith has tried to prove himself as Masih Mouood and Mehdi Mouood. So, I talked to his special assistant Maulana Zaukan Nadvi and suggested not to publish this article but they refused my sincere advise and in a hurry published the article in the said issue.
Source: Jaam-e-Noor Monthly, Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/a-former-admirer-maulana-wahidudun/d/5354
مولانا وحید الدین خاں سے
میری علاحدگی
غلام نبی کشافی ،آنچار، سرری
نگر(کشمیر)
مکرمی مولانا خوشتر صاحب
! اسلام علیکم ورحمتہ اللہ
اس وقت یہ خط اس لئے لکھ رہا
ہوں کہ عصر حاضر کے معروف عالم دین اور نامور مفکر مولانا وحید الدین خان صاحب سے میری
قربت اور حلقہ الرسالہ سے گہری وفکری وابستگی کی وجہ سے میں دوسرے کئی رسائل کی طرح
آپ کے رسالہ میں بھی مولانا کے شدید مداحوں اور ان کے معتقد کے طور پر میرا ذکر بلکہ
بعض اوقات غیر مناسب الفاظ کے ساتھ بھی مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن عام
قارئین تو کیا بہت سے اہل قلم بھی اس حقیقت سے قطعی طور پر بے خبر ہیں کہ میں بھی ذاتی
طور پر پچھلے تقریباً پندرہ سالوں سے مولانا کے بہت سے ملی وقومی اور دینی حوالے سے
ان کے انتہا پسندانہ افکار ونظریات سے شدید اختلاف کرتا آیا ہوں اور ان کے نام درجنوں
تنقیدی نوعیت کی تحریریں بھی لکھی ہیں۔ لیکن یہ مراسلت میرے اور ان کے درمیان تک ہی
محدود رہی ہے اور میں نے اس طویل عرصے کے دوران باوجود یہ کہ مولانا کے مخالفین ومعاندین
کے تیر ونشتر کا نشانہ بنتا رہا، مولانا کے بارے میں اپنی تنقید نوعیت کی تحریریں شائع
کرنے کی غرض سے کسی دوسرے پرچے کا سہارا نہیں لیا۔ جبکہ ایسا کرنا آسان تھا اور مولانا
کے دیرینہ مخالفین ومعاندین ان کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے لئے تیار بھی ہوجاتے مگر میں
نے مناسب نہیں سمجھا ۔نیز اس دوران میں نے بہت سے رسائل اور کتابوں میں مولانا کے بارے
میں سیکڑوں تنقیدی نوعیت کی تحریریں دیکھیں مگر جارحانہ و معاندانہ اسلوب تحریر اور
غیر علمی تحریر کی وجہ سے مجھے اس طرح کی ایک بھی تحریر کوئی کتاب اپنی طرف مائل نہیں
کرسکی۔ شاید اس طویل عرصہ کے دوران مجھے صرف طارق ممتاز کی دو تحریریں کافی زیادہ معیاری
لگی جن میں انہوں نے علمی اسلوب اور طاقتور دلائل کی روشنی میں مولانا کے اوپر تنقید
کی ہے۔ (دیکھئے جام نور جولائی 2010،ص ۔29۔28اور جام نور فروری 2011،ص 29تا 31)
واضح رہے کہ یہ بات آپ کے
علم میں ضرور ہوگی کہ مولانا وحید الدین خاں کا ایک مقالہ ، قیامت کا الارم ،کے عنوان
سے پچھلے سال الرسالہ مئی 2010کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہ مقالہ اشاعت سے پہلے بذریعہ
ای میل میرے پاس اس کے متعلق میری رائے جاننے کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن میں نے جب
اس مقالہ کو دیکھا تو میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ میں مولانا کی نہیں بلکہ مرزا غلام
احمد قادیانی کی کوئی تحریر دیکھ رہا ہوں۔ اسی شمارے میں مولانا نے احادیث کو توڑ مروڑ
کر پیش کرکے خود کو اشاروں اور کنایوں کے ذریعہ مسیح موعود اور مہدی موعود ثابت کرنے
میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ چنانچہ میں نے مولانا کے معاون خاص مولانا ذکو ان
ندوی سے فون کے ذریعہ رابطہ کر کے اس مقالہ کو شائع نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر
انہوں نے میرے اس مخلصانہ مشورہ کو نظر انداز کردیا اور بڑی جلد بازی میں اس مقالہ
کو الرسالہ مئی 2010کےشمارے میں شائع کردیا۔ اور اسی شمارے کے آخر میں ایک ادارتی
نوٹ بھی دے دیا گیا ،جس میں بتایا گیا کہ اس مقالہ کے مندر جات سے مجموعی طور پر علما
اور تعلیم یافتہ افراد نے اتفاق کیا ہے۔ میں اس ادارتی نوٹ کو پڑھ کر عجیب کشمکش اور
سراسیمگی میں مبتلا ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ علما تو ویسے بھی مولانا کے کسی نقطہ نظر
سے اتفاق یا حسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں وہ کیسے اس مقالے کے حق میں اپنی رائے
اور تائید میں مہرثبت کردیے جب کہ اس بار تو انہوں نے تمام حدوں کو پارکر کے اپنے آپ
کو مسیح موعود ومہدی موعود ثابت کرہی دیا اور یہاں تک کہ الرسالہ جو ن2010کے شمارے
میں بالکل واضح کردیا ہے کہ مہدی اور مسیح کا ظہور ہوچکا ہے ۔ جیسا کہ تحریر فرماتے
ہیں: حدیث میں بیان کردہ علامتیں بتاتی ہیں کہ قیامت اب بہت قریب ہے۔ اس اعتبار سے
غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا ظہور ہوچکا ہے۔،(الرسالہ جون2010،ص
۔5)اس طرح اس الرسالہ مئی 2010کے خصوصی شمارے کے منظر عام پر آنے کے بعد میں نے اس
کے جواب میں ایک مفصل تنقیدی و تحقیقی نوعیت کا مضمون لکھا جو انہی دنوں مولانا کے
ایڈرس پرروانہ کردیا۔
پھر چند ر وز بعد مولانا کے
معاون خاص مولانا ذکو ان ندوی صاحب سے فون پر اپنے اس مضمون کے بارے میں دریافت کیا
تو انہوں نے کہا کہ مولانا نے اس مضمون کو قابل اعتنا نہیں سمجھا ، اس جواب کو سن کر
میں انتہائی مایوس ہوگیا اور اس حوصلہ شکن رد عمل کے بعد میرے صبر کا پیمانہ لبریز
ہوگیا۔ اور میں نے اسی مضمون میں مزید اضافے کے ساتھ اسے ماہنامہ الفرقان کے ایڈرس
پر روانہ کردیا اور اللہ کے فضل سے یہ مضمون ،دعویٰ مہدویت مولانا وحید الدین خاں،
کے عنوان سے الفرقان جنوری ،فروری 2011کے دوشماروں میں دوقسطوں میں شائع ہوکر منظر
عام پرآگیا ۔مضمون کی جمعیت وافادیت کو بہت سے علما اور تعلیم یافتہ افراد نے سراہا
اور بہت سے افراد کی جانب سے یہ اصرار بھی بڑھ گیا کہ اسے کتابی صورت میں شائع کیا
جائے، چنانچہ مدیر الفرقان مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب کی ذاتی دلچسپی اور
ان کے تعاون سے انہی کے ادارے نعمانی اکیڈمی نظیر آباد لکھنؤ سے میرا یہ مضمون کتابی
صورت میں بھی شائع ہوا ۔ اب یہ مضمون مولانا وحیدالدین خاں او ر دعوائے مسیحیت و مہدیت
کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ الفرقان آپ کے یہاں آتا
بھی ہے یا نہیں؟ اس لئے میں اس وقت اپنے اس خط کے ساتھ اس کتاب کی ایک کاپی آپ کی
خدمت میں روانہ کررہا ہوں اور ا مید کرتا ہوں کہ آپ اس کوضرور پڑھیں گے اور اگر ہوسکے تو اس پر خاص
علمی انداز میں تبصرہ بھی شائع فرمائیں گے۔ اللہ کرے آپ خیر وعافیت سے ہوں۔
اس بزم میں لوگ کہتے ہیں ہمیں موقع کے موافق
بات کرو
اور ہم نے دل میں ٹھانی ہے یا دل کہ کہیں یا
کچھ نہ کہیں
اس کتاب پرتبصرہ کل نیو ایج
اسلام ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں
بشکریہ: جام نور ماہنامہ،
دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/a-former-admirer-maulana-wahidudun/d/5354