New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 04:49 AM

Urdu Section ( 14 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic Law Does not Permit Child Marriage اسلامی قانون بچوں کی شادی کی اجازت نہیں دیتا ہے

اے فیض الرحمن

13 جون ، 2012

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

لڑکیوں کے لئے شادی کی عمر کو 18 سال کرنے پر مسلم پرسنل لاء قرآن کے مطابق ہو گا

"محمڈن لاء" کی بنیاد پر  15 سال کی عمر میں شادی کرنے کے ایک مسلم لڑکی کے حق پرحال ہی میں دہلی ہائی کورٹ کا فیصلے بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتا ہے۔  لیکن اس میں ججوں کی غلطی نکالنا غیر منصفانہ عمل ہو گا۔ اپنے اس فیصلے پر پہنچنے کے لئے وہ موجودہ قوانین سے بالاتر نہیں جا سکتے تھے، جو  نافذ قانون ڈیزولیوشن آف مسلم میرج ایکٹ، 1939 (ڈی ایم ایم اے) کی دفع (VII) 2  پر  مبنی ہے۔  یہ کہتا ہے کہ ایک مسلم لڑکی کی شادی منسوخ مانی جائے گی، جب اس کے والد یا دیگر ولی نے  اس کی شادی  15 سال کی عمر سے پہلے کرا دی ہو  اور  18 سال کی عمر حاصل کرنے سے پہلے ہی طلاق ہو گیا ہو، بشرطہ  کہ شادی  کامل نہ ہوئی ہو۔ "

دوسرے الفاظ میں، یہ فرسودہ قانون فرض کرتا ہے کہ 15 سال کی عمر تک پہنچنے پر مسلم لڑکیاں قانونی طور پر باخبر ہو جاتی ہیں اور اپنے طور پر شادی کرنے کے  قابل ہو جاتی ہیں۔ اور اس طرح کے  ناقابل حمایت مفروضہ کو جائز ٹھہرانے کے لئے اسلام  کا نام لیا جاتا ہے  اور جس طرح سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مذکورہ بالا فیصلے  کا خیر مقدم کیا، اس  سے اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔  یہاں تک کہ دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے کو تقویت  دینے کے لئے ان فیصلوں کا حوالہ دیا جو  محمڈن لاء  اور طیب جی  کے مسلم لاء کے ملّا اصول پر انحصار  کرتے ہیں۔ یہ ہمارے سامنے بنیادی سوال پیدا کرتا ہے: کیا اسلام بچوں کی شادی کی اجازت دیتا ہے؟

فقہا کے ذریعہ حوالہ کے طور پر  پیش کی گئی روایات

یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ جہاں تک اس کے قانونی حیثیت کا تعلق ہے تو  اسلام میں شادی دو افراد کے درمیان تحریری معاہدہ ہے اور اس کے لئے دونوں کو بالغ ہونا چاہیئے جو اس طرح کے معاہدوں کی ذمہ داریوں اور پے چیدگیوں کو سمجھتے ہوں۔ یہ حکم جو بچوں کی شادی کے تصور کی بنیاد  پر چوٹ کرتی ہے اسے قرآن کی  آیت 4:6 سے  حمایت حاصل ہے  اور جو  شادی کی عمر  (بلغو النکاح) اور ذہنی پختگی کی عمر (رشد) کو برابر بتاتی ہے، یہ  ایک مرحلہ جو سن بلوغت کے بعد آتا ہے۔  اس کے باوجود فقہا کے ذریعہ بچوں کی شادی کو جائز ٹھہرانے کے لئے روایات کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے، اور وہ ایسے اشارے دیتی ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اجازت دی ہو، جس کے بارے میں قرآن نے واضح طور پر  حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ مثال کے طور پر، سنی قانون، کسی بھی قرآنی یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی بنیاد کے بغیر  والد کو نابالغ بچوں کے بہترین مفاد میں ان کے ولی  ہونے کا حق دیتا ہے۔

اصل میں ڈی ایم ایم اے قانون  کی دفع  (VII) 2 خود ایک  قدیمی، فرقہ وارانہ قانون پر مبنی لگتا ہے، جو کہتا ہے کہ کسی نابالغ کی جانب سے  والد اور دادا کے علاوہ کسی اور ولی کی طرف سے کیا گیا شادی کے معاہدہ  کو،  نابالغ بچہ خود  سن بلوغت کو حاصل  کرنے کے  بعد  منسوخ کر سکتا ہے۔  یہ نظریہ، جس کا  ذکر  دہلی ہائی کورٹ کے حکم میں بھی مل جاتا ہے، اسے خیار البلوغ یا بلوغت کے اختیار کے طور پر جانا جاتا ہے۔  یہ ابو داؤد کے مجموعہ حدیث  میں ایک رپورٹ پر مبنی ہے، جس میں  بتایا گیا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابالغ لڑکی کو شادی کو منسوخ  کرنے کا اختیار دیا جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  بتایا کہ اس کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی تھی۔ لیکن اس حدیث  کو  پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جس لڑکی کا ذکر ہے وہ نابالغ نہیں تھی اور اس کی وضاحت کے  لئے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ بکراً ہے  جس کا مطلب نوجوان، کنواری سے  ہے۔  اس کے علاوہ، رپورٹ میں بلوغت کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلاق کے حق کو استعمال کرنے کے لئے  اسے تب تک  انتظار کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے تھے، جب تک کہ  وہ سن بلوغت کو نہ پہنچ جائے۔

یہاں تک کہ اگر یہ قیاساً کر لیا گیا کہ بکراً سے مراد نابالغ سے ہے، ابو دائود حدیث  کے الفاظ واضح طور پر  ظاہر کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  لڑکی سے یہ جان کر کہ نکاح میں  اس کی رضامندی نہیں لی گئی تھی، اس  پر فوری طور پر شادی کو  فسخ  کر دیتے۔  صحیح بخاری میں اسی طرح کی ایک روایت کا ذکر ہے  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خنسہ  بنت  خیزام  کی شادی کو فسخ کر دیا  تھا،  جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس کے والد نے ایسی شادی کے لئے اسے مجبور کیا جو اس کی پسند کی نہیں تھی۔ ان رپورٹ سے صرف یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے  کہ اسلام میں  بچوں کی شادی  یا جبراً شادی کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ اس نتیجے کو ایک اور حدیث کی حمایت حاصل ہے، جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں پائی جاتی ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ، "ایک ایّم  (بیوہ یا مطلقہ)  کی شادی تب تک نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اس کی اجازت نہ دے اور نہ ہی ایک بکر  (کنواری) کی شادی ہو جب تک کہ اس کی رضامندی نہ لی جائے۔ اس لئے خیار البلوغ کا  تصور قانون میں برا ہے، کیونکہ یہ ایک غلط بنیاد پر مبنی ہے۔

اسلام میں بچے کی شادی کا بھی جواز حدیث کی بنیاد پر  دیا جاتا ہے جو دعوی کرتی ہے کہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ صرف چھ سال کی تھیں  اور شادی کو کامل  تب کیا جب وہ  نو سال کی تھیں۔  اس رپورٹ کی صداقت کئی وجوہات سے مشکوک ہے۔ سب سے پہلے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی اور ذہنی طور پر نادان بچی سے شادی کے لئے قرآن پاک کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔  دوسرے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا حساب ان کی بہن حضرت آسمہ  رضی اللہ عنہا  کی عمر سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے جو  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے 10 سال بڑی تھیں۔ مجموعہ حدیث مشکات کے مصنف نے راویوں کی ان کی سوانح عمری (آسمہ الرجال) میں لکھتے ہیں کہ حضرت آسمہ رضی اللہ عنہا 100 سال کی عمر میں ہجری سال 73 میں اپنے بیٹے عبد اللہ بن زبیر کی شہادت کے 10 یا 12 دن کے بعد انتقال کیں تھیں۔  یہ عام طور پر لوگوں کو معلوم ہے کہ اسلامی کیلنڈر ہجرت کے سال یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ ہجرت سے شروع ہوتا ہے۔

حضرت آسمہ رضی اللہ عنہا کے 100  سال میں وفات سے 73 نکالنے پر  آپ کی عمر نکل آتی ہے اور ہم آسانی سے  اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر 27 سال تھی۔ اس طرح اس وقت حضرت عائشہ کی عمر 17سال تھی۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام سوانح نگار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے ساتھ نکاح کو   2 ہجری میں کامل کیا اور اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ  وہ اس وقت ان کی عمر  19 برس کی تھیں  نہ کہ 9 سال کی۔

مذکورہ بالا حدیث کے ثبوت سے پتہ چلتا ہے بچوں کی شادیوں  کا ناجائز اور  مسلم لڑکیوں کی شادی کی عمر کو 18  کرنے کی مضبوط  بنیادیں موجود ہیں،  اور  اس طرح  مسلم پرسنل لاء  قرآن پاک اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوگا۔ اور یہ  دائیں بازو کی جماعتوں کو  بار بار متنازع عدالت کے فیصلوں  کا استعمال کر  مسلمانوں کو  یونیفارم سول کوڈ کی دھمکی دینے سے بھی روکے گا۔

اے فیض الرحمن، اسلامک فورم فار دی پرموشن آف موڈیریٹ تھاٹ کے جنرل سیکریٹری ہیں۔

 ماخز:  http://www.thehindu.com/opinion/op-ed/article3520569.ece

URL for English article:https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/islamic-law-sanction-child-marriage/d/7614

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-law-permit-child-marriage/d/7636

Loading..

Loading..