By A Faizur Rahman
(Translated from English By: Md Zafar Iqbal, NewAgeIslam.com)
January 14, 2011
There are several instances in the Prophet’s (PBUH) life, which show that he pardoned the foul language of even his sworn enemies. For instance, when a Jew, who was opposed to the reform movement of Islam, greeted him by saying “As-saamu-alalikum” (death be upon you) and the Prophet’s (PBUH) wife Hazrat Aisha responded with “As-saamu ‘alaikum wal-laa’na”(death and Allah’s curse be upon you too), he expressed his strong displeasure by saying, “Be gentle and calm, Aisha.” And when one of his companions sought permission to harm the Jew, the Prophet (PBUH) silenced him with an emphatic “No” (Sahih Bukhari). According to another tradition, a man demanded his debts from the Prophet (PBUH) in such a rude manner that his companions wanted to beat him up. But the Prophet (PBUH) said, “Leave him, for he (the creditor) has the right to demand it (harshly)” (Sahih Bukhari). Furthermore, the Prophet (PBUH) warned Muslims by saying, “Eeyakum wal ghulu fiddeen. Fa innahu ahlaka man kaana qablakum al ghulu fiddeen (Ibne Maaja). This translates as, “Eschew extremism in religion. For extremism has destroyed its practitioners in the past.” It is precisely this kind of fiendish behaviour that fuels Islamophobia across the globe. In fact, Muslim extremism and Islamophobia now enjoy a symbiotic relationship, feeding on each other’s fanaticism. This, of course, is not to condone organised attempts to malign religious personalities such as the publication of Danish cartoons in 2005. Such defamatory campaigns are, in reality, Machiavellian designs to incite communal hatred and, therefore, they deserve to be condemned by not just Muslims but all right-thinking people for the sake of world peace. Finally, one of the reasons behind Muslim extremism flourishing today is the unrestricted flow of petro-dollars into Muslim societies, which has resulted in the proliferation of prejudiced preachers and radical televangelists who populate the airwaves with their fanaticism.
URL of English Article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/is-blasphemy-a-capital-crime-in-islam?/d/3946
کیا اسلام میں توہین رسول
کی سزا موت ہے؟
اے۔ فیض الرحمٰن
سرزمین پاکستان میں پچھلے
دنوں توہین رسول کے معاملہ میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز
بھٹی کو بےدردی سے موت کے گھات اتار دیا گیا تھا۔ان دونوں نے توہین رسالت کی ایک ملزمہ
آسیہ بی بی سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے مخالفین سے ساتھ محبت والفت او رہمدردی وغمخواری کا ایسا مظاہرہ کیا کہ
شان رسول میں گستاخی کرنے والے بھی آناً فاناً مداح رسول بن گئے ۔لیکن پاکستانی علما
نے اپنے ملک میں ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ توہین رسالت کے ان ملزموں سے ہمدردی کا
اظہار کرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے جن کے خلاف کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں ہے کہ حقیقت میں
انہوں نے اس جرم کا ارتکاب بھی کیا ہے؟
اس بات سے کسی کو انکار نہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنا اسلام میں
بہت بڑا جرم ہے،لیکن محض شک کی بنیاد پر بغیر کسی دلیل کے کسی کو مجرم مان لینا اسلام
کو روح کے خلاف ہے۔ اب تک اس بات کا کوئی واضح ثبوت بھی نہیں ہے کہ آسیہ بی بی نے
شان رسول میں گستاخی کی بھی ہے؟ ۔ پاکستان کے اقلیتی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے بقول
آسیہ بی بی پر یہ محض ایک الزام ہے، کیو نکہ اس کے خلاف گواہی دینے او رشکایت کرنے
والے موقع پر موجود ہی نہیں تھے ۔ پاکستانی عدالتیں دائیں بازو کے دباؤ میں آکر ایسا کررہی ہیں۔
اسی طرح کا واقعہ 1947میں
بھی ہوا تھا جب لاہور ہائی کورٹ کے جج، عارف اقبال بھٹی کو اس جرم میں قتل کردیا گیا
تھا کہ انہوں نے 1995میں شان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کرنے دو عیسائی
شخص کو رہا کردیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی پینل کوڈ کے دفعہ 295-Cمیں
مذکورہ توہین رسالت کی سزا اسلامی احکامات کی روشنی میں ہے؟ مزید یہ کہ اس طرح کے معاملات
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا رد عمل رہا ہے؟ ،یقیناً ان سوالوں کے جوابات
غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ جہاں تک اسلامی شریعت کا تعلق ہے تو یہ بات روز روشن
کی طرح عیاں ہے کہ ہر وہ قانون جو اسلامی تعلیمات سے ٹکر اتا ہووہ اسلام میں ناقابل
قبول او رمردود ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ خود
قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب الزامات کا ذکر کر کے اس کی
تردید بھی کرتا ہے ، قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم نہیں
دیتا کہ آپ اپنے مخالفین کو کوئی دنیاوی سزا دیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو اعدائے اسلام کی ان باتوں سے تکلیف بھی ہوتی تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو قرآن کی آیت ‘‘ان کی باتوں پر آپ صبر کریں اور ان سب کو پوری طرح چھوڑ
دی’’(73:10)۔ اسی طرح ‘‘آپ اخلاق عظیم کے منصب پر فائز ہیں’’ سے آپ کو تسلی مل گئی
تھی۔
قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار وں کو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ معاف
اور نظر انداز کردیا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ایک
دوسری آیت سے پتہ چلتا ہے کہ جب برائی کا بدلہ بھلائی سے دوگے تو اس کے اور تمہارے
درمیان کی دشمنی ختم ہوجائے گی اور وہ تمہارا قریبی دوست بن جائے گا۔ (41:34)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس نصیحت کو اپنے خط میں بھی بیان کیا ہے۔ یہ قرآن کی مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے رحم دل تھے اور ہر گز سخت دل نہیں تھے۔ (3:159)۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے جانی
دشمنوں کی بدکلامی کو بھی معاف فرمادیا ۔ ایک یہودی شخص اسلام کے اصلاحی تحریک کا سخت
مخالف تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو السا م علیکم (یعنی آپ ہلاک فرمادیا)
کہا ، حضرت عائشہؓ نے اس کے جواب میں فرمایا ، تم ہی ہلاک وبرباد ہو، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا ، ‘‘خاموش رہو اور اچھا بنو’’۔
جب صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس یہودی کو سبق سکھانے کی اجازت
مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمادیا (صحیح بخاری)
ایک دوسری روایت کے مطابق
ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض اس بداخلاقی سے مانگا جس سے صحابہ
کرامؓ کو غصہ آگیا اور سب اس کی طرف سے لپکے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان
سب کو منع کردیا اور فرمایا قرضدار کو اپنی قرض (سختی سے ) مانگنے کا حق ہے۔ اس کےعلاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تنبیہ
کرتے ہوئے فرمایا کہ ، دین میں غلو (زیادتی) کرنے سے بچو، اس لئے کہ تم سے پہلے والے
لوگ اسی وجہ سے ہلاک وبرباد ہوئے ہیں۔
قرآن وحدیث سے کسی ایسی بات
کاثبوت نہیں ملتا ہے کہ شاتم رسول کی سزا موت ہے، جیسی کہ پاکستان کے قانون میں مذکور
ہے۔ذہن میں اس سوال کا آنا ایک فطری امر ہے کہ خود رسول اللہ علیہ وسلم اسلام کے کھلم
کھلا دشمن کو معاف فرماسکتے ہیں تو کیا پاکستانی علما ایک غریب خاتون کو نہیں معاف
کرسکتے ،جسے اسلام سے کوئی شکایت نہیں ہے، اور صرف شک کی بنیاد پر اس کی مجرم مان لیا
گیا ہے؟۔
ایک شخص نے یہ اعلان بھی کردیا
کہ آسیہ بی بی کو پاکستانی عدالت سے بری کئے جانے پر جوبھی اس کوقتل کرے گا، اس میں
چھ ہزار ڈالر انعام میں دونگا ۔ یہ عمل اس دین اور اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے نام پر انجام دیا جارہا ہے ، اور ایسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے
نام پر کیا جا رہا ہے جن کے رحمت العالمین ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے، کیو
نکہ خود قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خطاب سے سرفراز فرمایا ہے۔
مختصر اً یہ کہ اس طرح کا
گھٹیا عمل اسلا موفوبیا کو پورے عالم میں فروغ دے رہا ہے ۔ تشدد اوراسلامو فوبیا میں
گہرا ربط ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے قوت حاصل کرتے ہیں ۔ کیا 2005عیسوی میں ڈنمارک میں
کارٹون کی اشاعت مذہبی شخصیات کو بدنام کرنے کی منظم کوشش نہیں تھی؟ حقیقتاً اس طرح
کی منظم سازشیں صرف فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دیتی ہیں۔ لہٰذا نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ
اچھی سوچ رکھنے والے ہر شہری کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور
ان ناپاک کوششوں کی بھرپور مذمت کرنی چاہئے۔
میں یہ بھی بتادینا مناسب
سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں تشددکے فروغ کی واحد وجہ یہ ہے کہ مسلم سماج میں پیٹروڈالر
کی ریل پیل ہے۔ اور متعصب خطبا او ربنیاد پرست دیندار لوگ تعصب کی لہر کو بڑھاوا دے
رہے ہیں ۔ انہی لوگوں کے دام فریب میں آکر مسلمان آپسی تفریق کی ندی میں ڈوبتے اورفرقوں
میں بٹتے جارہے ہیں ۔ ہر فرقہ دوسرے فرقہ کو گمراہ کہتا ہے اور اسے کم تر سمجھتا ہے۔
اس انتشار وخلفشار کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان آپس میں مل بیٹھ کر اپنے اپنے خیالات
کا اظہار کریں اور اسلام کی صحیح ترجمانی پیش کرنے کی غرض سے محفلوں کا انعقاد بھی
کریں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر پوری طرح عمل کریں۔ اسی میں مسلمانوں
کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/is-blasphemy-capital-crime-islam/d/4812