اے فیض الرحمان
11 جنوری 2013
( انگریزی سے تر جمہ۔ نیو ایج اسلام)
دہلی کورٹ کی وہ جج جنہوں نے جبراً شادی کے ایک معاملے میں ایک مولوی کی ضمانت کو مسترد کر دیا، اپنی اس بات میں درست تھیں کہ قرآن میں تعدد ازدوج کا کوئی جواز موجود نہیں ہے ۔
ایک اہم فیصلے میں گزشتہ ماہ (ریاست بنام ندیم خان کیس) دہلی کے ایڈیشنل سیشن جج ڈاکٹر کامنی لاؤ نے مذہبی سربراہان، پیشوؤں اور مولویوں پر زور دیا کہ ‘‘ اوہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مذہبی نصوص کی ترقی پسند تشریح کی گئی ہے اور اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے کہ یہی وہ فائدہ مند طرز عمل ہے جو انسانیت کے تمام طبقوں کے مفاد میں ہیں جس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور مشاہدہ کیا گیا ہے۔’’ وہ ایک ایسے مولوی کی پیشگی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر رہی تھیں جس پر ایک نوجوان مسلم لڑکی کا پہلے سے شادی شدہ ایک آدمی سے زبردستی نکاح کروانےکا الزام تھا جس نےنکاح کے فوراً بعد ہی اس کی عصمت دری کر دی ۔ ان کی جانب سے 14 صفحے کےآرڈر میں جج کے ریمارکس مولوی کے ذریعہ پیش کر دہ اس دفاع کے جواب میں تھے کہ اس نکاح میں قانون کی کوئی خلاف ورضی نہیں تھی اس لئے کہ شریعت ایک وقت میں چار بیویوں سے نکاح کی اجازت دیتی ہے ۔
ڈاکٹر لاؤ کے حکم کی اہمیت قرون وسطی کے عقیدے کے عالمانہ رد میں ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج کو جواز حاصل ہے ۔ مسلم صحیفوں کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے وثوق کے ساتھ یہ کہا کہ‘‘ تعدد ازدواج نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ صرف اجازت دی گئی ہے ۔ تعدد ازدواج کے متعلق قرآن پاک کی مشروط توثیق اس بات پر زر دیتی ہے کہ تعدد ازدواج کی وجہ ذاتی مفاد یا جنسی خواہش نہیں ہونی چاہئے ’’ اس کی اجازت کا اصل مقصد " کمیونٹی میں بیواؤں اور یتیموں کی سماجی اور مالی حیثیت کی حفاظت کرنا تھا ۔ "
تاریخی سیاق و سباق
ڈاکٹر لاؤ اپنے تجزیہ میں بالکل درست ہیں۔ بے شک، مشروط تعدد ازدواج کے علاوہ قرآن تعدد ازدواج کے ہر طرح کے ازدواجی اور غیر ازدواجی تعلقات سے نا پسندیدگی کا اظہار کر تا ہے۔ معنی خیز طورپر خود تعدد ازدواج کا ذکر پورے قرآن پاک میں صرف ایک بار (4:3) ملتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم مردوں نے اس استثنائی منظوری کے پیچھے کی روح کی قدر دانی کئے بغیر صدیوں تک اس کا غلط استعمال کیا جوکہ واضح طور پر ایسے وقت کے تاریخی حالات کے سایق و سباق سے مربوط ہے ، جب ایک بڑی تعداد میں خواتین بیوہ تھیں اور بچے یتیم تھے اس لئے کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو ابھرتی ہوئی ابتدائی اسلامی کمیونٹی کا دفاع کرنے میں بھاری جانی نقصان کا سامنا ہوا تھا ۔ قرآن کی آیات 127 اور 3،2 :4 کے ایک سرسری مطالعہ سے بھی یہ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ ایسے حالا ت تھے جب قرآن پاک نے مشروط تعدد ازدوج کی اجازت ایک استحصالی معاشرے سے یتیم بچوں اور ان کی ماؤں کی حفاظت کے لئے دی تھی ۔
آیت 4:2 نے اولیاء کو یتیموں کے مال کو اپنے مال میں ضم کر کے یا ‘‘اپنے برے مال کے ساتھ کسی اور کے اچھے مال کو ملا کر ’’ غصب کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے ۔اور اگر اولیاء کو اس بات کا ڈر لگتا ہے کہ وہ علیحدگی میں یتیموں کے مفادات کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے تو اگلی آیت انہیں ان کی بیوہ ماؤں سے شادی کرنے کی اجازت دیتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ موجودہ فیملی کے ساتھ ساتھ نئی فیملی کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کیا جائے گا ۔ اور جو لوگ اس کے لائق نہیں ہیں ان کے لئےقرآن پاک کی ہدایات یہ ہے کہ "پھر وہ صرف ایک [شادی] کریں ۔"
بیواؤں اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کی عظمت پر مزید آیت 4:127 میں زور دیا گیا ہے: "کہہ دو کہ خدا تم کو ان کے (ساتھ نکاح کرنے کے) معاملے میں اجازت دیتا ہے اور جو حکم اس کتاب میں(3 اور 2 :4) پہلے دیا گیا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جن کو تم ان کا حق تو دیتے نہیں اور خواہش رکھتے ہو ۔۔۔ " اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیت 4:3 کئی عورتوں سے شادی کرنے کے لئے لذت خواہ لائسنس نہیں ہے۔
مزید برآں، قرآن پاک شادی شدہ جوڑے کو دلچسپ انداز میں ‘‘ ازدواجی رفیق ’’ کے طور پر بیان کرتا ہے جنہیں ‘‘ ذہنی سکون ’’ حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے (7:189) اور ایک دوسرے کی صحبت میں "سکون میں رہنے کے لئے" (30:21) ۔ اصل میں، وہ آیت (7:189) جس میں انسان کی اصل کو ایک ہی خلیہ (نفس واحدہ ) بتایا گیا ہے ، بیوی کے لئے واحد لفظ زوجہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس طرح ایک شادی پر زور دیا گیا ہے۔ اس طرح، قرآنی تصور میں، شادی دو ذہنوں کا ایک ایسا جذباتی لگاو ہے جو ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ عورت کے ساتھ شادی کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔
کئی ممالک میں یہ ممنوع ہے
اسی وجہ سے تعدد ازدواج سختی کے ساتھ بہت سے مسلمان ممالک میں ممنوع ہے اور تیونس اور ترکی میں اس پر مکمل طور پر پابندی ہے، اپنے فیصلے کی حمایت میں ڈاکٹر لاؤ کے ذریعہ نشاندہی کی گئی ایک حقیقت ۔ مثال کے طور پر پاکستان، مسلم خاندانی قوانین آرڈیننس کے سیک 6 میں 1961 میں بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص موجودہ شادی کے باقی رہتے ہوئے ثالثی کونسل کی تحریری اجازت کے بغیر کوئی عقد نکاح نہیں کر سکتا ہے، ایک ایسا ڈھانچہ جو قانون کے تحت جس مسئلے سے نمٹا جا رہا ہے ان میں سے ہر جماعت کے ہر ایک نمائندوں پر مشتمل ہے ، خود کو مطمئن کرنے کے بعداس بات کی منظوری دےگی کہ مجوزہ شادی ضروری اور حق ہے۔
شاید پوری دنیا میں ہندوستا نی مسلم کمیونٹی ہی صرف ایک ایسا اسلامی معاشرہ ہے جہاں شریعت کی ایک مناسب تعریف کے تعلق سے مکمل تذبذب پھیلا ہوا ہے ۔ جج لاؤ نے کہا، "۔۔۔ جمہوری ہندوستان میں، اسلام کے بارے میں بعض غلط فہمیاں اور شبہ کے ازالے کا وقت ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ مسلم پرسنل لاءمرتب نہیں ہے یہ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو اس بات کا حق نہیں دیتا کہ وہ کسی ایسی تشریح کے ساتھ راہ فرار اختیار کرے جو ا س کی اپنی سہولت کے مطابق ہو ۔ " انہوں نے ایک بار پھر بالکل صحیح کیا ۔ یہ بات کسی کی بھی سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں مسلم علماء ہمیشہ قرآن پاک کے وقت سے بالاتر کثیر المعانی انداز بیاں کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے معانی کو قرون وسطیٰ کی فرسودہ تفسیروں میں محدود کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ قرآن میں ایک آیت (25:30) یہ تصور پیش کرتی ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قیامت کے دن خدا کی بارگاہ میں یہ شکایت پیش کریں گے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے پیروکاروں نے قرآن پاک کے جامع پیغام کو محدود کر دیا تھا ۔
اس تناظر میں، لوگوں کو 14 ویں صدی میں مسلم سپین کے عظیم فقیہہ ابو اسحاق الشاتبی کے ذریعہ حوصلہ مندانہ کوشش کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے جنہوں نے اپنے مشہور قانونی رسالہ الموافقت فی اصول الشریعہ میں مصلحت کے تصور کو ان کے نظریے کا ایک لازمی عنصر مقاصد الشریعہ کے طور پر فروغ دیا ہے جس میں انہوں نے اسلامی قانون کو سماجی تبدیلی کے مطابق کرنے کے لئے وضع کیا ہے ۔ شاتبی نے یہ کہا ہے کہ قرآن پاک کے احکامات اور نبی کی تعلیمات کا ایک استقرائی تجزیہ یہ ظاہر کرے گا کہ مصلحت ایک عالمگیر اصول ہے جو اسلام میں نفوذ کیا ہوا ہے اس لئے کہ معاشرتی شرعی (قوانین) کے پیچھے مقصد مصلحت لوگوں کے فی الفور اور مستقل دونوں کے (فوائد اور اچھائی ) ہے۔ لہذا، ہر وہ قانون جس کی بنیاد مصلحت پر نہیں ہے اسے قانون ساز سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
حیرت کی بات ہے، ابن قیم جیسے سخت روایت پسند نے بھی شاتبی کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ اپنے اعلام المواقعین میں انہوں نے لکھا: "شریعت تمام کی تمام انصاف، رحم دلی، مصلحت اور [حکمت] ہے۔ لہذا، جو بھی قانون انصاف کے بجائے ناانصافی ہو ، مصلحت کے بجائے مفسد ہو ۔وہ شریعت کا حصہ نہیں ہے ۔۔۔ "لہٰذا ا نتہائی وثوق کے ساتھ یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں اسلامی قوانین کا جمود قانون سازی میں عوامی مفاد کی افادیت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے ۔ اس وقت مسلم فقہاء کو یہ احساس ہوا کہ اسلام کی ایسی کوئی بھی تشریح جو غیر اخلاقی غیر منصفانہ ہو اور قدرتی انصاف اور سماجی اخلاقیات کے اصولوں سے متضاد ہو ا س کے بارے میں رضائے الٰہی ہونے کا دعوی نہیں کیا جا سکتا اور اس وجہ سے وہ شریعت کا مظہر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔
اے فضل الرحمن اسلامی فورم فار دی پرموشن آف ماڈریٹ تھاٹ کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔
ماخذ:
http://www.thehindu.com/opinion/op-ed/towards-a-progressive-interpretation-of-islam/article4295248.ece
URL
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/towards-progressive-interpretation-islam/d/9963
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/towards-progressive-interpretation-islam-/d/12130