مولانا ندیم الواجدی
حضرت حسین کی شہادت کا المناک واقعہ تاریخ انسانیت کا ایک ایسا سانحہ ہے جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ،جگر گوشہ رسول ﷺ اور سردار جوانان جنت کو جس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا وہ تاریخ اسلام کا خونچکاں باب بن چکا ہے ، جب ان کے خون کی سرخی سے کربلا کی زمین لالہ زار ہورہی تھی تو یہ دل دوز منظر دیکھ کر زمین وآسمان تک رو پڑے تھے ،ابن اثیر وغیرہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت حسین ؓ کے واقعہ شہادت کے بعد دوتین مہینوں تک فصائے آسمانی سرخ رہی، یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہوتا اور اس کی کرنیں درودیوار پر پڑتیں تو ایسا لگتا جیسے دیوار وں پر خون پھیر دیا گیا ہو۔
ہر سال محرم کا مہینہ آتے ہی ذکر غم حسینؓ اور یاد شہادت حسینؓ سے فضا ئیں گونجنے لگتی ہیں، کتنے ہی لوگ ہیں جو یاد حسینؓ میں سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں مگر انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ حضرت حسینؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں اور جاں نثار وں کی قربانی کیوں دی، وہ مدینہ چھوڑ کر کس مقصد کے لیے عراق جارہے تھے، شہادت کا واقعہ کس طرح پیش آیا ،کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے ،کس مقصد کے لیے ان کو شہید کیا گیا، وقت کے ساتھ ساتھ اس قصے میں بہت سی بے سروپا اور من گھڑت باتیں شامل ہوگئی ہیں اور اصل واقعہ دھندلاپڑتا جارہا ہے ،ضرورت ہے کہ اس واقعے کو اس کے حقائق کے ساتھ زندہ رکھا جائے اور اس مقصد کو بھی پیش نظر رکھا جائے جس کے لیے حضرت حسینؓ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، یہ واقعہ محرم ہی کہ مہینے میں کیوں بلکہ ہر وقت تازہ رہنا چاہئے کیونکہ اس واقعے سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ حق بہر حال حق ہے،حق کےلئے اپنی جان ومال اور اولاد سب کچھ قربان کیا جاسکتی ہے ،مرد کامل وہی ہے جو حق کی خاطر باطل کے مقابلے میں ڈٹا رہے، مصیبتوں سے نہ گھبرائے ،اللہ پر بھروسہ رکھے، جواں مردی کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرے، کتنے لوگ ہیں جن پر شہادت حسینؓ کے ذکر سے گریہ طاری ہوجاتا ہے لیکن صاحب واقعہ کی زندگی کی ادنیٰ جھلک بھی ان کے کردار اوراطوار میں نہیں ملتی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام سے اس واقعے کو جوڑ کر دیکھئے ،انہیں مختلف لوگوں کی طرف سے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنی زندگی ہی میں نظام خلافت کی بنیادوں کو اس طرح مستحکم کردیں کہ کوئی انہیں ہلا نہ سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد نامزد فرمادیں، عراق کے شہر کوفے سے چالیس مسلمانوں پر مشتمل ایک وفد نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ یزید بڑا قابل شخص ہے ،مملکت اسلامیہ کے امور پر اس کی گہری نظر ہے،بہتر ہوگا کہ آپ اپنی زندگی ہی میں عمائدین مملکت اور مخصوص افراد سے یزید کی خلافت پر بیعت لے لیں تاکہ آپ کی زندگی ہی میں یہ مسئلہ حل ہوجائے ، اور آپ کے بعد ملت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر نہ ہو، اس وقت یزید کی اخلاقی صورت حال بھی لوگوں پر خاص طور پر ان کے والد بزرگوار پر منکشف نہیں تھی ،شروع میں حضرت معاویہ ؓ کو یہ تجویز قبول کرنے میں کچھ تردو بھی تھا، لیکن مختلف جہتوں سے اصرار بڑھا تو وہ اس تجویز کو مسترد نہ کرسکے ،بالآخر یزید کی ولی عہد اور اس کی خلافت پر بیعت کا وہ حادثہ رونما ہوگیاجو شہادت حسینؓ کے انسانیت سوز سانچے کا سبب بنا۔فتنہ سازوں نے پوری منصوبہ بندی کررکھی تھی، چنانچہ مملکت اسلامیہ کے طول وعرض میں یہ خبر پھیلادی گئی کہ یزید کی خلافت کا اعلان ہوچکا ہے اور شام ،عراق ،کوفہ، بصرہ سمیت تمام بڑے شہر اس کی خلافت پر متفق ہوگئے ہیں اب صرف حجاز باقی ہے، وہاں کے لوگ بھی اگر بیعت کرلیں تو کوئی شخص کبھی ایسا نہ ہوگاجو یزید کی خلافت وامارت پر متفق نہ ہو، حضرت معاویہؓ نے مدینہ کے گورنر مروان کو لکھا کہ وہ یزید کی خلافت کا اعلان کرے اور لوگں سے بیعت لے، اس نے مسجد نبوی میں لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ دیا کہ امیر المومنین حضرت معاویہؓ اپنے پیش روخلفا حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ کی سنت کے مطابق یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بعد کے لیے انہوں نے یزید کا نام طے کیا ہے آپ حضرات بھی اس کی خلافت پر بیعت کرلیں، حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن ،مجلس میں موجود تھے انہوں نے کھڑے ہوکر مردان کی تردید کی او رکہا کہ یہ جھوٹ ہے ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ نےخلافت اپنی اولاد کو منتقل نہیں کی بلککہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک ایسے شخص کا نام تجویز کیا تھا جو نہ ان کے خاندان کا تھا اور نہ ان کا قریبی رشتہ دار تھا اور اس کے نام پر تمام لوگ متفق تھے، حضرت عمرؓ نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا، نہ کسی کے نام کا مشورہ دیا بلکہ چھ اصحاب رائے پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کردی کہ وہ کسی کو خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے منتخب کرلیں ، حجاز کےلوگ جن میں کئی صحابہ بھی تھے یزید کی خلافت پر متفق نہیں تھے، اول تو ان کی نظر میں یہ طریقہ ہی غلط تھا کہ باپ کے بعد خلافت کو وراثت کے طور پر اولاد کی طرف منتقل کردیا جائے، دوسرے وہ یزید کے حالات سے بھی بے خبر نہیں تھے، ان کی نگاہ میں وہ اس ذمہ داری کا اہل نہیں تھا، اس لیے مردان کی تقریر پر لوگوں کا رد عمل منفی رہا ،یہاں تک کہ حضرت معاویہؓ نے ۵۱ھ میں خود حجاز کا سفر کیا ،پہلے مدینہ منورہ تشریف لائے ،وہاں انہوں نے امیر المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضری دی اور عرض کیا کہ مدینہ کے فلاں فلاں حضرات میری مخالفت کررہے ہیں، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں نے سنا ہے آپ ان پر زبردستی کررہے ہیں اور انہیں قتل تک کی دھمکی دے رہے ہیں ، حضرت معاویہؓ نے اس کی تردید کی اورکہا کہ یہ محض افواہ ہے،البتہ یزید کی خلافت پر تمام شہروں کے باشندے متفق ہوچکے ہیں ،بیعت مکمل ہوچکی ہے، یہ چند حضرات مخالفت پر کمربستہ ہیں، کیا میں اس بیعت کو فسخ کردو، حضرت عائشہ ؓ نے انہیں صبر وتحمل ،رواداری ،احترام او رنرمی کامشورہ دیا،حضرت معاویہ ؓ اس مشورے پر عمل کا وعدہ کر کے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ۔مدینہ منورہ میں حضرت معاویہؓ کے قیام کے دوران حضرت حسین ؓ حضرت عہد اللہ ابن الزبیرؓ ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبد الرحمٰن ابن ابی ابکرؓ جیسے کبار صحابہ اس خوف اہل وعیال کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے کہ کہیں ان لوگوں کو یزید کی خلافت پر بیعت کرنے کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔حضرت معاویہؓ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو انہوں نے مؤخر الذ کر تینوں حضرات کو فرداً فرداً بلا کر گفتگو کی، مگر ان تینوں نے ایک ہی بات کہی کہ ہمیں یہ تجویز منظور نہیں ہے، اس کے بعد حضرت حسینؓ اور حضرت عبداللہ ابن الزبیرؓ وغیرہ کئی افراد نے حضرت معاویہؓ سے ملاقات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ آپ اس معاملے میں سرکاردوعالم ﷺ کا اسوہ ،یا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا طریقہ اختیار کریں،مگر حضرت معاویہؓ نے ان حضرات کا مشورہ قبول نہیں فرمایا اور حجاز میں یزید کی بیعت کا معاملہ اسی طرح معلق رہا یہاں تک کہ ۶۰ھ میں حضرت معاویہؓ وفات پاگئے، انتقال سے پہلے انہوں نے یزید کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرا گمان یہ ہے کہ اہل عراق حسینؓ کو تمہارے مقابلے میں لائیں گے، اگر ایسا ہواور تم مقابلے میں کامیاب ہوجاؤ تو حسینؓ سےدرگزر کرنا، سرکاردوعالمﷺ نے قرابت داری کی بنا پر وہ احترام کے مستحق ہیں، تمام مسلمانوں پر ان کا بڑا حق ہے۔تخت خلافت پ رمتمکن ہوتے ہی یزید نے پہلا کام یہ کیا کہ مدینہ منورہ کے حاکم ولید ابن عتبہ ابن ابی سفیان کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے بھی میری بیعت کی مخالفت کی ہے ان سب کو بیعت پر مجبور کیا جائے، خاص طور پر حضرت حسینؓ ،حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اور حضرت عبداللہ ابن الزبیرؓ کو کسی بھی حال میں مہلت نہ دی جائے ،یہ خط پڑھتے ہی اس نے ان حضرات کو مسجد بنوی ؐ میں بلا بھیجا ،حضرت حسین ؓ سمجھ گئے کہ اس مجلس کا مقصد یقینی طور پر یزید کی خلافت پر بیعت لینا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ اب حضرت معاویہؓ اس دنیا میں نہیں رہے ،حضرت حسینؓ دوسرے حضرات کے مشورہ سے ولید کے پاس پہنچے ، ولید نے ان کو حضرت معاویہؓ کی وفات کی خبردی اور یزید کی خلافت پر بیعت کا مطالبہ کیا،حضرت حسینؓ نے جواب دیاکہ بیعت کامعاملہ ہے، میں خفیہ طور پر کچھ کرنای یا کہنا نہیں چاہتا آپ عامۃ المسلمین کو جمع کرلیں میں اسی وقت جو کہنا چاہوں گا کہوں گا، یہ کہہ کر وہ مجلس سے اٹھ گئے اور خاموشی کے ساتھ مکہ مکرمہ چلے گئے ،یہی طریقہ حضرت عبداللہ وبن الزبیرؓ نے بھی اختیار کیا، اس طرح ولید کو ناکامی ہاتھ لگی جس کا خمیازہ اسے منصب حکومت گنوا کر بھگتنا پڑا ،اس کی جگہ عمر وبن سعید اشدق کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا گیا ،اس عبداللہ ابن الزبیرؓ کے بھائی عمر ابن الزبیرؓ کو ان حضرات کی گرفتاری پر مامور کیا، یہ شخص دوہزار نوجوانوں کو لے کر مکہ پہنچا ،اس نے ان حضرات کو گرفتار کرناچاہا مگر ناکام واپس ہوا ۔جن دنوں حضرت حسین ؓ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے ،اطراف واکناف کے لوگ ان کی زیارت وملاقات کے لیے حاضر ہوتےتھے ، اہل کوفہ کو یہ اطلاع مل چکی تھی کہ حضرت معاویہؓ وفات پاچکے ہیں اورحجاز کے سرکردہ حضرات نے یزید کی بیعت سے انکا رکردیا ہے، کوفہ کے کچھ لوگوں نے حضرت حسینؓ کو خط لکھا کہ آپ فوراً کوفہ تشریف لے آئیں ،ہم آپ کے دستِ حق پر بیعت کرنا چاہتے ہیں ،یزید کی خلافت پر ہم بھی متفق نہیں ہیں ،کوفہ والوں نے اسی ایک خط پر اکتفانہیں کیا بلکہ یکے بعد دیگرے متعدد خطوط لکھے۔ یہاں تک کہ ان خطوط سے دوتھیلے بھر گئے، تمام خطوط میں یہی بات تھی کہ ہم یزید کی خلافت سے اتفاق نہیں کرتے آپ خود یہاں تشریف لے آئیں ،کوفے کا بچہ بچہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہے ،خطوط کے ساتھ ساتھ کچھ وفود بھی آئے اور انہوں نے بھی یہی درخواست کی ،حضرت حسینؓ کا متاثر ہونافطری تھا، وہ ایک دانش مند اور زیرک انسان تھے، اس لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ کوفہ جانے سے پہلے کسی معتمد قاصد کو بھیج کر حالات معلوم کرلئے جائیں ،اس مقصدر کے لیے انہوں نے انے چچازاد بھائی مسلم ابن عقیلؓ کو کوفے روانہ کیا، مسلم ابن عقیلؓ نے اپنے چند روزہ قیام کے دوران یہ محسوس کیا کہ کوفے کے عام مسلمان یزید سے متنفرہیں اور حضرت حسینؓ کی بیعت کے لیے بے چین وبے قرار ہیں،یہ دیکھ کر انہوں نے حضرت حسینؓ کے لیے بیعت لینی شروع کردی اور ابتدائی چند دنوں میں بیعت کرنے والوں کی تعداد اٹھارہ ہزار سے تجاوز کرگئی ،مسلم ابن عقیلؓ نے یہ اطمینان بخش صورت حال دیکھ کر حضرت حسینؓ کو لکھ دیا کہ وہ کوفہ آسکتے ہیں ،مگر ابھی یہ خط حضرت حسینؓ تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اچانک تبدیل ہوگئے اورکوفے کے حاکم نعمان ابن بشیر نے مسلم ابن عقیلؓ کو آگاہ کیا کہ وہ بیعت لینے کا سلسلہ بند کریں ورنہ ان کے خلاف تلوار استعمال کی جائے گی، مگر نعمان ابن بشیر نے اس دھمکی پر عمل نہیں کیا کیو ںکہ وہ فطرتاً صلح جو قسم کے انسان تھے ،کوفے کے بعض لوگوں نے جن میں عمارہ ابن الولید اور عمر بن سعد ابن ابی وقاص وغیرہ حضرات شامل تھے یزید کو آگاہ کیا کہ اگر تم نے کوفے میں سخت اقدامات نہ کئےتو یہ علاقہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا،اس نے فوری اقدام کرتے ہوئے حضرت معاویہؓ ک مشیر خاص سرجوان کے مشورے سے نعمان ابن بشیر کو برخاست کردیا اور کوفے کی امارت پر عبیداللہ ابن زیاد کردیا کہ جہاں بھی خلیفہ وقت یزید کا کوئی مخالف پایا جائے اسے اسی وقت سولی پرلٹکا دیا جائے،جو لوگ مخالفین کو پناہ دیں گے یا ان کی مدد کریں گے وہ بھی اسی سزا کے مستحق ہوں گے ،اس اعلان کے بعدکوفے کے لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی ،جن لوگوں نے حضرت حسینؓ کی خلافت پر مسلم ابن عقیل سے بیعت کی تھی وہ کونوں کھد روں میں منہ چھپانے لگے، کچھ وقت گزرا تھا کہ مسلم ابن عقیلؓ تنہا رہ گئے ،ایک عورت نےانہیں اپنے دروازے کے باہر بیٹھا ہوا دیکھ کر پناہ بھی دیدی لیکن اس کے بیٹے نے لالچ میں آکر ابن زیاد کے آدمیوں کو بتلادیا ،مسلم ابن عقیلؓ گرفتار کرلئے گئے اور انہیں قصر امارت کی فصیل پرلے جاکر قتل کردیا گیا اور لاش نیچے پھینک دی گئی، ابن عقیلؓ کو جیسے ہی حالات کی تبدیلی کا اندازہ ہوا انہوں نے محمد ابن اشعث کے دریعے حضرت حسینؓ کی خدمت میں یہ پیغام بھجوایا کہ آپ راستے سے ہی واپس چلے جائیں کوفہ کا ہرگز قصد نہ کریں ،اہل کوفہ کے خطوط سے دھوکہ نہ کھائیں یہ وہی لوگ ہیں جن کی بے وفائی سے مایوس ہوکر آپ کے والد بزرگوار موت کی تمنا کیا کرتے تھے، محمد ابن اشعث نے اپنے قاصد کے ذریعہ یہ پیغام بھجوادیا، اس وقت حضرت حسینؓ اور ان کا قافلہ مقام زیالہ تک پہنچ چکاتھا، یہ پیغام سن کر بھی حضرت حسینؓ نے اپنا سفر جاری رکھنےکا ارادہ منسوخ نہیں کیا اور فرمایا‘‘ جو چیز مقدر ہوچکی ہے وہ ہوکر رہ گی’’ حضرت حسینؓ کواہل کوفہ کے ڈیڑھ سوخطوط ملے تھے اور وفود بھی بے شمار آچکے تھے ،ادھر مسلم ابن عقیل ؓ نے بھی کوفہ کے جو حالات لکھ بھیجے تھے وہ بھی مثبت او رامید افزا تھے، اس لیے انہوں نے کوفے کا ارادہ کرلیا اور تیاری شروع کردی، جب یہ خبر عام ہوئی تو حضرت عبداللہ ؓ ابن الزبیر ؒ کے علاوہ کسی نے بھی ان کو فے جانے کامشورہ نہیں دیا، حضرت عمر بن عبدالرحمٰن ،حضرت عبداللہ ابن عباسؓ وغیرہ حضرات نے یہی کہا کہ آپ ہر گز کوفے نہ جائیں ،اس شہر کے لوگوں پر بھروسہ نہ کریں، وہاں آپ کے لیے بڑے خطرات ہیں، حضرت ابن عباس ؓ نے تو یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر آپ مدینہ منورہ سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیں ،وہاں آپ کے والد کے مبعین بہت ہیں، محفوظ مقامات اور قلعے ہیں، آپ یمن میں امن وعافیت کے ساتھ رہ سکتے ہیں ،حضرت ابن عباسؓ نے تو آخر میں یہاں تک کہا کہ اگر آپ جانے کا ارادہ ہی کرچکے ہیں تو خدا کے لئے اپنی عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے کر نہ جائیں ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کو بھی عورتوں بچوں کے سامنے اسی طرح قتل نہ کردیائے جس طرح حضرت عثمانؓ کو قتل کیا گیا تھا، مگر حضرت ابن عباسؓ کے تمام مشوروں کے جواب میں حضرت حسینؓ نے یہی فرمایا کہ آپ ناصح مشفق ہیں مگر میں اب عزم کرچکا ہوں اس کو فسخ کرنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ حضرت حسینؓ نے ایک دینی ضرورت سمجھ کر یہ عزم کیا تھا اگرچہ متوقع خطرات سے وہ باخبر تھے، مگر مقصد کی اہمیت نے تمام خطرات کو ان کی نگاہوں سے اوجھل کردیاتھا۔
بالآخر ذی الحجہ ۶۰ھ کی ابتد ائی تاریخوں میں آپ مکہ سے کوفے کے لیے روانہ ہوئے ، مکہ کے حاکم عمر وبن سعید ابن العاص نےانہیں واپسی پر آمادہ کرنا چاہا مگر انہوں نے واپسی سے انکار کردیا، راستے میں مشہور شاعر فرزوق ملا جو عراق سے واپس آرہا تھا ، اس نے اس سفر کا حال سنا توعرض کیا کہ اہل عراق کے قلوب تو آپ ک ساتھ ہیں مگر ان کی تلوار یں بنوامیہ کے ساتھ ہیں، عبداللہ ابن جعفرؓ نے جب یہ سنا کہ حضرت حسینؓ کوفہ جارہے ہیں تو انہوں نے ایک خط لکھ کر اپنے بیٹوں کے ذریعہ روانہ کیا، اس خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں آپ کو خدا کے واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ میرا خط پڑھتے ہی مکے کی طرف فواپس ہوجائیں ،مجھے آپ کی ہلاکت کا خطرہ ہے، اس وقت حضرت حسینؓ نےاپنے عزم مصمم کی ایک وجہ بیان کی، فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے اور مجھے آپ کی طرف سے ایک حکم دیا گیا ہے میں اسی حکم کی تعمیل میں پایہ رکاب ہوں ، خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے میں نے وہ خواب نہ اب تک کسی سے بیان کیا ہے اور نہ مرتے دم بیان کروں گا ۔راستے میں حضرت حسینؓ نے اہل کوفہ کے نام ایک خط بھی لکھا اور انہیں اطلاع دی کہ وہ اس کام کے لیے آرہے ہیں جس کے لئے انہوں نے بلایا گیا تھا، بہرحال یہ قافلہ اسی طرح چلتا رہا ، کوفہ دن بہ دن قریب آتا رہا، راستے میں ایک مقام پر عبداللہ ابن مطیع سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے بھی جب یہ سنا کہ وہ کوفہ جارہے ہیں تو بڑی لجاجت سے عرض کیا کہ اے ابن رسولؐ میں آپ کواللہ کا واسطہ دے کر اور عزت اسلام کاحوالہ دے کر درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس ارادے سے رک جائیں ،اگر آپ بنوامیہ سے اقتدار حاصل کرناچاہیں گے تو وہ آپ کوقتل کرڈالیں گے،مگر حضرت حسینؓ نے اپنا ارادہ ملتوی نہ کیا ،اور کوفے کی طرف روانہ ہوگئے ،مقام ثعلبیہ میں پہنچ کر حضرت حسینؓ کو مسلم ابن عقیلؓ کی شہادت کی خبر ملی، یہ خبر سن کر بعض ساتھیوں نے عرض کیا کہ ان حالات میں لوٹ جانا ہی بہتر ہےکیوں کہ کوفے میں آپ کا کوئی ساتھی اور غم گسار نہیں ہے، یہ سن کر بنو عقیل کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ابن عقیل ؓ کا قصاص لیں گے ،مقام زیالہ پر پہنچ کر یہ اطلاع بھی ملی کہ آپ کے رضاعی بھائی ابن لقیط بھی قتل کردیئے گئے ہیں، ان کو ابن عقیل ؓ کی خیریت معلوم کرنے کے لیے آگے روانہ کیا گیا تھا، اس موقع پر حضرت حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکا دیا ہے اب جس کا جی چاہئے وہ واپس ہوجائے، اس اعلان کے بعد وہ بدوی جو راستے کے مختلف مقامات سے ساتھ ہوگئے تھے ادھر ادھر ہوگئے اور صرف وہ ولوگ باقی رہ گئے جو مکے سے ان کے ساتھ چلے تھے۔ حضرت حسینؓ کا سفر جاری تھا ابن زیاد نے حربن یزید کی قیادت میں ایک ہزار نفوس پر مشتمل فوج حضرت حسینؓ سے مقابلے کے لیے بھیج دی، حضرت حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو مستعدرہنے کا مشورہ دیا ، جب وہ لوگ قریب آگئے تو ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اور تمہارے سامنے یہ عذر رکھتا ہوں کہ میں تمہارے بلانے پر یہاں آیا ہوں ،اگر تم اپنے وعدے پر قائم ہوتو کوفے کی طرف جاؤں گا اور اگر تمہیں میرا آنا پسند نہیں تو میں جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جاتا ہوں ،حضرت حسین ؓ نے مختلف خطبوں میں اس بات کا اعادہ کیا، ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حضرت حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ سوار ہوجائیں اورلوٹ چلیں، مگر حربن یزید نے انہیں جانے نہیں دیا اور یہ اصرار کیاکہ آپ ابن زیاد کے پاس چلیں ،مگر حضرت حسینؓ نے ابن زیادہ کے پاس جانے سے انکار فرمادیا ،کچھ دیر تک اسی طرح ردّ وکد ہوتی رہی، پھر طے ہوا کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو نہ کوفہ پہنچے اور نہ مدینہ بلکہ کسی وار راستے پر چلتے رہیں یہاں تک کہ ابن زیادہ کی طرف سے واضح حکم آجائے ، چنانچہ حضرت حسینؓ نے عذیب اور قادسیہ کے درمیان چلنا شروع کردیا ، چلتے چلتے نصر بن مقاتل تک پہنچ گئے، پھر مقام نینویٰ تک پہنچے ،حربن یزید بھی ساتھ ساتھ تھا، یہاں پہنچ کر ابن زیاد کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ تم حسینؓ پر میدان تنگ کردو اور انہیں اسی جگہ لے جاؤ جہاں پانی نہ ہو ،اسی دوران عمر بن سعد کی قیادت میں چار ہزار کا مزید لشکر بھی پہنچ گیا ، اس وقت بھی حضرت حسینؓ نے عمر بن سعد سے فرمایاکہ میں اہل کوفہ کی دعوت پر آیا ہوں اگر ان کی رائے بدل گئی ہے تو میں واپسی کے لیے تیار ہوں، عمر بن سعد نےابن زیاد کو لکھا کہ حضرت حسین ؓ واپسی پر آمادہ ہیں، مگر ابن زیاد نے جواب میںلکھا کہ ان کےسامنے یزید کے ہاتھ پر بیعت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اس نے عمر کو حکم دیا کہ حسینؓ اور ان کے رفقا پر پانی بالکل بند کردو، حضرت حسینؓ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ جنگ نہ ہو اور مسلمانوں کا خون رائگاں نہ جائے ،اسی لیے انہوں نے تجویز بھی رکھی مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے میں خود اس سے اپنا معاملہ طے کرلوں گا مگر زیاد نے یہ تجویز بھی نہیں مانی اور عمر بن سعد کو معطل کر کے شمر ذی الجوشن کو لشکر کی کمان سپرد کردی، اس نے قتال کا اعلان کردیا حضرت حسینؓ نے اس سے کہا کہ آج قتال نہ کروتا کہ میں آج رات وصیت ،نماز دعا اور استغفار کرسکوں ، اس کے بعد انہوں نے اپنے اہل بیت کو تسلی دی اور ساتھیوں سے کہا کہ دشمن صرف میری تاک میں ہے ، تم لوگ ادھر ادھر ہوجاؤ مگر کسی نے بھی ان کا یہ مشورہ قبول نہیں کیا، اس کے بعد انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم میری شہادت پر ماتم نہ کرنا، نہ کپڑے پھاڑنا ،نہ سینہ کوبی کرنا نہ آواز سے رونا چلانا ،دشمن کی فوجوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت حسینؓ نے فرمایاکہ ‘‘ اے لوگو! تم میرا نسب دیکھو میں کون ہوں، کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں ،کیا تمہارے لیے جائز ہے کہ مجھے قتل کرڈالو مجھے بتلاؤ ککہ کیا میں نے کیسی کو قتل کیا ہے، یا میں نے کسی کامال لوٹا ہے یا کسی کو زخمی کیا ہے ’’ جب یہ خطبہ طویل ہونے لگا توشمر نے تیراندازی شروع کردی ،اس طرح گھمسان کی جنگ شروع ہوئی، ظہر کے وقت تک حضرت حسینؓ کے اکثر رفقا شہید ہوچکے تھے، نماز کے بعد پھر جنگ شروع ہوئی، اسی دوران حضرت حسین ؓ کےبرے صاحبزادے علی اکبر شہید ہوچکے تھے، نماز کے بعد پھر جنگ شروع ہوئی ،اسی دوران حضرت حسینؓ کے برے صاحبزادے علی اکبر شہید ہوگئے، حضرت حسین ؓ بہادری کے ساتھ ڈٹے رہے، یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کے ایک شقی القلب مالک بن نسیر نے آگے بڑپ کر حضرت حسین ؓ کے سرپر تلوار چلائی، اس کے باوجود حضرت حسینؓ بہادری کے ساتھ لڑتے رہے ، اس وقت حضرت حسینؓ کی پیاس اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، آپ پانی پینے کیلئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے بدبخت حصین بن عمیر نے آپ کے منہ پر نشانہ لگا کر تیر پھینکا او رمنہ سے خون جاری ہوگیا، اس کے بعد شمردس آدمیوں کے ساتھ حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا مگر انہوں نے اس حالت میں بھی سب کا مقابلہ کیا، تاریخ جنگ کا یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس شخص کی اولاد اور رفقا اس کی آنکھوں سے سامنے قتل کردیئے گئے ہوں اور خود شدید طور پر زخمی ہو، اسے پیاس کی شدت نےبے چین کررکھا ہو اوروہ اس قوت اور ثبات قدمی سے مقابلہ کرے۔
شمر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت حسینؓ کسی طرح قابو میں نہیں آرہے ہیں تو اس نے اپنے کئی ساتھیوں کو للکار کہ کہا کہ وہ سب ملر یکبارگی حملہ کریں ،چنانچہ بہت سے بدنصیب آگے بڑھے اور انہوں نے نیزوں اور تلواروں سے حملہ کر کے ان کو شہید کرڈالا، آپ کی لاش کو دیکھا گیا تو تینتیس زخم نیزوں کے ، چونتیس زخم تلواروں کے بدن پر تھے، تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے ، ابن زیاد کا حکم تھا کہ قتل کے بعد لاشوں کو روندا جائے ،یہ کام بھی کیا گیا، اس کے بعد حضرت حسینؓ کا سرمبارک ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا ، پھر کوفے کے بازاروں میں گھما یا گیا ،پھر یزید کے پاس شام روانہ کیا گیا، جب یہ خبر شام پہنچی تو ہر طرف ماتم بپا ہوگیا ، خود یزید کا محل آہ وبکا سے گونجنے لگا ۔
(اس مضمون کی تیاری میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کی ‘‘شہید کربلا اور یزید ’’ حضرت مولانا محمد شفیع عثمانی ؒ کی ‘‘شہید کربلا’’ کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور ان کتابوں میں جن تاریخی کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں ان سے مراجعت کرلی گئی ہے)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/how-incident-imam-hussein’s-martyrdom/d/2282