یوسف رامپوری
’’قرآن مجید‘‘ خالق کائنات کی جانب سے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی
ﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتا ہے ۔ جس طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی بعث کے بعد انبیاء ورسل
کی بعث کا وہ سلسلہ جو حضرت آدمؑ سے شروع ہواتھا، ختم ہوگیا ، اسی طرح قرآن مجید کے
نزول کے بعد آسمانی کتب وصحائف کے نزول کا سلسلہ بھی مکمل ہوگیا۔ چنانچہ جس طرح قیامت
تک پوری انسانیت کے لیے حضرت محمد ﷺ آخری نبی ورسول ہیں، اسی طرح قیامت تک نبی نوح
انسان کے رشدو ہدایت کے لیے قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے ۔ چنانچہ اس بات پر ایمان
لانا ضروری ہے کہ محمد ﷺ کے آخری نبی ورسول ہیں ، آپ کے بعد کوئی اور نبی یا رسول نئی
شریعت کے ساتھ آنے والا نہیں ہے، اسی طرح اس بات پر بھی یقین لازمی ہے کہ قرآن کے بعد
اب کوئی کتاب نازل ہونے والی نہیں ۔ اس کتاب کے نزول کے بعد پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئیں
۔پیغمبر اسلام کے آخری رسول ہونے اور آپؐ کی رسالت اور آخری شریعت کو برحق ماننا اور
اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کے بارے میں ’’کتاب مبین‘‘ کہا ہے،
جس سے صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کے لحاظ سے بھی قرآن کی تعلیمات واضح ہیں اور
ان میں کسی طرح کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔اس لیے زندگی گزارنے کے لئے قرآن میں بیان
کردہ احکامات پر عمل ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ قرآن کی اہمیت وعظمت کا تقاضہ ہے کہ پوری
انسانیت اس کی طرف رجوع کرے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے ۔ قادار مطلق کے انسانیت
کے لیے متعین کردہ اصولوں میں سراسر کامیابی ہے اور اس کے خلاف کام کرنے میں کھلی ہوئی
ناکامی ہے۔
قرآن کریم کے علاوہ روئے زمین
پر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جو انسانی زندگی کا کامل طور سے احاطہ کرنے والی ہو
اور ایسا جامع نظام پیش کرنے والی ہو جو اللہ کی سب سے اہم مخلوق کے لیے ہر لحاظ سے
مفید و اہم ہو ۔ قرآن کریم کو چھوڑ کر دوسری کتابوں سے انسانی زندگی کے لیے کسی نظام
کا تعین کرنا اور اس سے پوری انسانیت کی بھلائی کی بابت امید رکھنا الجھنوں کا شکار
ہوجاتا ہے ۔ ہمیں تاریخ میں ایسی بہت سے مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں نے اپنے علم و تجربہ
کی بنیاد پر انسانی زندگی کے لئے نظام بنائے لیکن وہ سب یا تو اپنی موت آپ مرگئے یا
پھر ان کے بہت سے نقصانات سامنے آئے ۔ دراصل کسی بھی انسانی عقل کی بنیاد پر متعین
کردہ نظام کو نہ تمام انسانوں پر نافذ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے زیادہ لمبے وقت
تک چلایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ انسان کی عقل بہت محدود ہے اور اس کا علم بہت ناقص ہے۔
اس کا بنایا ہوانظام خطاؤں سے خالی نہیں ہوسکتا۔
باری تعالیٰ کا پیش کردہ نظام
ہی نقائص سے پاک ہے، وہی ساری انسانیت کے لیے ہے اور وہی قیامت تک کے لیے ہے ۔کیونکہ
اللہ کا علم محیط ہے ، وہ ہر جگہ کے لوگوں کے حالات ومزاج سے واقف ہے اور وہ پچھلے
واگلے تمام زمانوں کے انسانوں کے احوال وکوائف حتیٰ کہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اس
لیے اس نے دین اسلام کی شکل میں پوری نوع انسان کے لیے ایک کامیاب وعمدہ نظام پیش کیا،
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کو نازل کیا ،پھر دین اسلام
کیاپیروی کی تاکید کی اور قرآن پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کا واضح حکم کیا۔ساتھ
ہی متعدد آیات کے ذریعہ یہ بھی واضح کردیا کہ قرآن کے بارے میں کوئی بھی تردووشبہ کا
شکار نہ ہو۔ یہ محض اللہ کا کلام ہے اور اس میں کسی طرح کی ذرہ برابر بھی تحریف یا
ملاوٹ کا شائبہ نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے’’ یہ کتاب ہے، جس (کے کلام الٰہی ہونے ) میں
کوئی شک وشبہ نہیں ‘‘ (لبقرہ) ۔ خالص کلام الہٰی ہونے کے اثبات اور اس پر لوگوں کے
یقین کو مستحکم کرنا ہر حال میں ضروری تھا۔ کیونکہ ہر زمانہ میں شیطانی وطاغوتی طاقتیں
اس بات کے لیے سرگرم رہتی ہیں کہ نعوذ باللہ قرآن کو انسانی کلام ی ا کسی اورمخلوق
کا کلام ٹھہرادیا جائے یا اس کے بارے میں خلق خدا کو تردو میں ڈال دیا جائے ۔ تاکہ
وہ دین حق سے غافل ہوجائے اور قرآن کی روشنی سے کچھ حاصل نہ کرسکے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے
ہیں کہ ہر زمانہ میں اسلام کے مخالفین و معاندین قرآن کے خالص کلام الہٰی ہونے پر لوگوں
ک وشک وشبہ میں مبتلا کرتے رہے ہیں اور قرآن پر مختلف اقسام کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
قرآن کے کلام الہٰی ہونے کا
دعویٰ کرنے کے بعد اس کو ثابت کرنے کے لیے ایسی جامع دلیل دی گئی جس کو آج قریب چودہ
صدیاں گزرنے کے بعد بھی کوئی کاٹ نہیں سکا ہے۔ قرآن نے چیلنج کیا ’’ اور اگر تمہیں
اس کلام میں شک ہے، جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا تو اس کے جیسی کوئی ایک سورۃ لے
آؤ اور خدا کے سوا اپنے تمام شہدا کو بھی بلالو ، اگر تم سچے ہو‘‘ (البقرہ ۲۳)قرآن مجید کا یہ چیلنج اس
زمانہ میں بھی تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ مگر اس کاجواب نہ اس زمانہ میں
دیاگیا ،نہ آج اس کا کوئی جواب ہے اور نہ قیامت تک کوئی جواب آئے گا۔ اس مطلب یہ نہیں
کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرنے اور قرآن کے مانند سورتیں و آیتیں پیش کرنے کی کسی نے
کوشش نہیں کی، بلکہ اس طرح کی کوششیں متعدد بار مختلف زمانوں میں کی گئیں ،مثلا سب
سے پہلے لبید بن ربیعہ نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا دعویٰ کیا ۔ لبید بن ربیعہ اس زمانہ
کے معروف ومشہور ادیب تھے۔ انہوں نے جواب میں ایک نظم لکھی جو کعبہ پھاٹک پر چسپا کی
گئی ،مگر اس کے بعدجلدہی کسی نے قرآن کی ایک سورۃ لکھ کر اس کے قریب آویزاں کردی ۔
لبید بن ربیعہ نے جب اس سورۃ کو پڑھا تو وہ انتہا ئی متاثر ہوئے اور انہوں نے اعلانیہ
کہا کہ بلاشبہ یہ انسان کا کلام نہیں ہے اور میں اس پر ایمان لاتا ہوں‘‘ اس واقعہ کے
بعد بھی بڑے بڑے فصحا ء و وبلغا ء نے قرآن کی سورتوں و آیتوں کے مانند سورتیں بنانے
کی سعی کی ، مگر وہ اس ارادے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔
قرآن کے خلاف بغض وعناد کاسلسلہ
دور جدید میں بھی جاری ہے، اسلام ودشمن قومیں قرآن پر کئی طرح سے حملے کررہی ہیں۔ حال
ہی میں قرآن کے مقابلے میں ایک نیا قرآن لانے کا دعویٰ کیا گیا ہے،جس کے بارے میں مغربی
دنیا میں شور سنائی دے رہا ہے اور اس کو پڑھنے پر اکسایا جارہا ہے ،مگر حقیقت یہ ہے
کہ نئی کتاب سازش کے تحت لوگوں کو بھٹکانے اور انہیں قرآن مجید سے دور کرنے کے مقصد
سے سامنے لائی گئی ہے یہ کتاب کسی بھی جہت سے قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ
انسانوں کی تراشیدہ کتاب ہے اور قرآن خالص کلام الہٰی ہے۔ کلام الہٰی اور کلام انسانی
میں واضح فرق ہے۔ سبھی ماہرین عقلیات اس بات سے متفق ہیں کہ انسان غلطیوں کا سرچشمہ
ہے، اس سے مختلف مواقع پر غلطیاں و کمیاں ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس کا علم انتہائی محدود
ہے۔ انسان کے علم کو ہرگز ہرگز خدا کے علم کے برابر نہیں رکھا جاسکتا ۔انسان کے علم
کا حال تو یہ ہے کہ اسے پانچ ہزار سال پہلے کی بابت واضح معلومات نہیں ، ایسے ہی اگلے
پانچ ہزار سالوں میں کیا ہونے والا ہے، اسے اس کا بھی علم نہیں، پوری کائنات میں کتنی
مخلوقات ہیں، اس کا بھی انسان کے پاس حتمی علم نہیں ،کس کے ذہن میں کیا خیال آرہا ہے
اور کون کیا سوچ رہا ہے ،انسان یہ بھی نہیں جانتا ۔ حتیٰ کہ مختلف لوگوں کے چھپے ہوئے
حالات اور خفیہ مسائل کی بابت بھی انسان کو علم نہیں تو اس کی لکھی ہوئی کوئی بھی کتاب
کویں کر خطاؤں سے پاک ہوسکتی ہے اور کیسے وہ قیامت تک کے لیے نافذ کی جاسکتی ہے جب
کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیزپر محیط ہے، لاکھوں سال قبل کے حالات کو بھی وہ جانتا
ہے اور آگے ہزاروں و لاکھوں سال میں کیا ہونے والا ہے، اس کے بارے میں اسے نہ صرف معلوم
ہے بلکہ سب کچھ اسی کی منشا ء کے مطابق ہونے والا ہے۔ ہر شخص کے انفرادی مسائل سے بھی
وہ پورے طور پر واقف ہے اور قوموں و ملتوں کے اجتماعی مسائل کا بھی اسے مکمل علم ہے۔
قرآن مجید نے جو پیشین گوئیاں
کی ہیں اورو ہ جس طرح سے مکمل طور پر صحیح ثابت ہورہی ہیں، وہ بھی قرآن کے کلام الہٰی
ہونے کی تصدیق کرتی ہیں جبکہ عام مصنفین یا تو پیشین گوئیاں کرنے کی ہمت ہی نہیں کرپاتے
یا اگر کرتے بھی ہیں تو ان کی پیشین گوئیاں درست ثابت نہیں ہوتیں ۔ کیونکہ انہیں مستقبل
کا کوئی علم نہیں ہوتا، اگر کچھ اندازے ہوتے بھی ہیں تو وہ بھی ناقص اور محدود علم
کی بنیاد پر ، جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم یقینی ہے، اس میں کسی طرح کے تردد کی گنجائش
نہیں ہے۔ قرآن میں رومیوں کے مغلوب ہونے کی بابت پیشین گوئی کی گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ’’رومی مغلوب ہوگئے ملتے ہوئے ملک میں اور وہ اس مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب
ہوں گے چند برسوں میں سب کام پہلے اور پچھلے اللہ کے ہاتھ ہیں اور اس دن مسلمان اللہ
کی مدد کرتا ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے‘‘ (روم ۲تا۵)تاریخ گواہ ہے کہ یہ پیشین
گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ فارس نے رومیوں پر جب غلبہ پالیا تو مشرکین نے اہل
اسلام کو چڑھانا شروع کیا کہ اہل کتاب عیسائی مجوسیوں سے مغلوب ہوگئے ۔ مشرکین نے اہل
اسلام کو چڑھانا شروع کیا کہ اہل کتاب عیسائی مجوسیوں سے مغلوب ہوگئے ۔مشرکین مجوسیوں
سے انسیت رکھتے تھے اورعیسائیوں سے اہل کتاب ہونے کیا بنا پر چڑھتے تھے۔ اس وقت بڑے
بڑے پادری قتل کردیے گئے تھے اور عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب کو بھی ایرانی
فاتحین لے اڑے تھے اور رومی اقتدار پارہ پارہ ہوگیا تھا۔ اس پر مشرکین اہل اسلام کو
چڑھاتے تھے کہ جس طرح ہمارے بھائیوں نے تمہارے بھائیوں کو ختم کردیں گے ۔ ایسے وقت
میں جبکہ رومیوں کے دوبارہ بحران سے نکلنے کے بظاہر کوئی آثارنہ تھے، قرآن نے پیشین
گوئی کی کہ چند سالوں میں رومی غالب ہوں گے ۔قرآن نے یہاں لفظ ’’ضع‘‘ استعمال کیا ہے۔
اس کے بارے میں اہل لغات کی رائے ہے کہ یہ مدت محض تین سال سے نوسال تک کی ہے۔ یعنی
رومی محض نوسالوں کے اندر پھر غالب آجائیں گے۔ قرآن کی اس آیت نے چونکا دیا اور مشرکین
کسی بھی صورت میں اس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔مگر نوسال کے اندر عین بدر کے دن
جبکہ مسلمان مشرکین وکفار پر غالب آکر خوشی منارہے تھے یہ خبر سننے کو ملی ک ایران
کے مجوسیوں پر اہل کتاب نے غلبہ پالیاپ۔ یہ خبر سن کر اہل اسلام اور زیادہ خوش ہوئے
۔ غور کیجئے کہ قرآن نے جو پیشین گوئی کی تھی وہ متعینہ مدت کے اندر کسی طرح پوری ہوئی
۔ اس پیشین گوئی کو پورا ہونے ہوئے دیکھ کر بعض کفار ومشرکین نے اسلام بھی قبول کرلیا۔
قرآن نے ایک اور پیشین گوئی
کی کہ سارے عرب پر اہل اسلام کا غلبہ ہوجائے گا۔فرمایا گیا’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ
کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ اپنی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا، چاہے
منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول ؐ کو ہدایت اور دین حق کے
ساتھ بھیجا تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘(صف
۸۔۹)قرآن کی یہ پیشین گوئی بھی
بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ چند ہی سالوں میں پورا عرب اہل اسلام کے قدموں میں آگیا جبکہ
یہ پیشین گوئی اس وقت کی گئی کہ حالات مسلمانوں کے خلاف تھے، ان کی تعداد بھی انتہائی
کم تھی،مزیدوہ بے سرسامانی کے عالم میں تھے ، کوئی دینوی طاقت بھی ان کی پشت پر نہ
تھی، اس کے برعکس مشرکین مضبوط ومستحکم تھے، مالی اعتبار سے بھی عسکری لحاظ سے بھی
اور افرادو تعداد کے لحاظ سے بھی ۔ دنیا کا کوئی بھی مفکر اس وقت عرب میں اسلام کے
تابناک مستقبل یا غلبہ کی بات نہیں کہہ سکتا تھا ، مگر کیونکہ پیشین گوئی کرنے والی
وہ ذات تھی، جس کا علم ہر شے کو محیط ہے اور وہ قادر مطلق ہے، اس لیے اس کے پورا ہونے
میں کوئی ترددہی نہیں ہوسکتا تھا۔
قرآن کی صداقت اور کلام الہٰی
ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ چودہ صدیوں کے دوران ایک بھی ایسی بات
ظاہر نہ ہوسکی جو قرآن کے بیان کے خلاف ہو۔ قرآن میں زمین ،آسمان ، چاند، سورج اور
ستاروں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، سائنسی تحقیقات ان کو ایک ایک کر کے ثابت
کررہی ہیں۔ یعنی جو یسرچ وتحقیق ہورہی ہے وہ قرآن کے خلاف نہیں۔ حالانکہ قرآن نے بہت
سی چیزیں اس وقت بیان کی تھیں، جبکہ ان بارے میں انسانوں کے پاس یا تو علم تھا ہی نہیں
یا بہت محدود تھا اور لوگ محض اٹکلیں لگایا کرتے تھے، لیکن اب جبکہ سائنس نے ترقی کی
۔ خلاؤں میں سمندروں میں اور پہاڑوں میں کھوج کی ، تب بہت سی باتوں کے بارے میں حیرت
انگیز باتیں معلوم ہوئیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سی چیزوں کے بارے میں
سائنس دانوں نے صدیوں کی تحقیق ورریسرچ کے بعد جو معلومات حاصل کی ہیں، ان کے بارے
میں قرآن بہت پہلے بیان کرچکا ہے ، مثلاً چاند سورج اور ستاروں کے بارے میں سائنس دانوں
نے اپنی کھوج و تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سب گردش کررہے ہیں ۔ اس معلومات
کے حصول کے بعد سائنس دانوں نے بڑا فخر کیا، حالانکہ قرآن نے قریب چودہ صدیوں قبل ہی
فرمادیا تھاکہ’’سب کے سب ایک آسمان میں تیررہے ہیں‘‘ (الانبیاء ۳۳) تیرنے کی تعبیر سے قرآن کے
فصاحت و بلاغت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اگر قرآن میں انسانی علوم کی تلاش کی جائے
تو بلاشک وشبہ اس کتاب میں دنیا کے بے شمار علوم موجود ہیں ۔ کوئی بھی شخص اتنے سارے
علوم کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید اللہ ہی کی کتاب
ہے۔ کیونکہ وہی تمام علوم سے واقف ہے اور ہر چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے۔
جب دلائل کی روشنی میں یہ
بات ثابت ہوگئی کہ قرآن آسمانی کتاب ہے اور خالص کلام الہٰی ہے تو انسان پر لازم ہوجاتا
ہے کہ وہ قرآن کی بات کو سچا جانے ، اس پر ایمان لائے اور اسی کو قابل عمل سمجھے ۔
دنیا کی کتابوں میں کچھ بھی بیان کیا گیا ہو مگر قرآن میں جو بیان کیا گیا ہے، وہ سب
پر فائض ہے اور نقائص سے پاک ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو قرآن کی آیات پر بعض لوگ اعتراض
کرتے ہیں اور انہیں امن وانسانیت کے خلاف بتاتے ہیں ۔ عقل اسے تسلیم نہیں کرتی ۔ امن
کے تناظر میں قرآن کی جن آیتوں پر اعتراض کیا جارہا ہے ، وہ تو محض بغض وعنا کے سبب
ہے یا کم علمی کے سبب ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پوری نوع انساں کی سلامتی کے لیے باقاعدہ
پورا یک نظام پیش کرتا ہے اور ایسے احکامات صادر کرتا ہے، جن پر چل کر انسان امن و
سکون کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی بسرکرسکے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ لوگ انصاف سے کام لیں، قرآن
کی تعلیمات پر غور وفکر کریں، اس کے کلام الہٰی ہونے پر ایمان لائیں اور اسی کے مطابق
اپنی زندگی گزاریں ۔ یقیناًوہ اس دنیا کی زندگی میں بھی کامیاب ہوجائیں گے اور آخرت
کی زندگی میں بھی سرخردہوں گے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-qur-an-essential-survival/d/1752