کاشف حفیظ صدیقی
‘‘امریکہ سے کوئی نفرت نہیں کرتا ،یہ سب کہنے کی باتیں ہیں! ۔گوامریکہ
گو کا نعرہ مذاق ہے۔آج اگر امریکہ کی لاٹری اسکیم دوبارہ شروع ہوجائے او ر کھل جائے
تو تم دیکھو گے یہی امریکہ کی قدم قدم پر مخالفت کرنے والے ویزے کیلئے قطارو ں میں
سب سے آگے کھڑے ہوں گے۔ جس طرح تم کواپنے ملک سے محبت ہے اسی طرح امریکیوں کو امریکہ
محبت ہے ۔‘‘مرگ برامریکہ’’کانعرہ لگا کر تم کیا سمجھتے ہو کہ امریکی تم سے محبت کاسلوک
کریں گے۔ لاکھوں پاکستانی خاندان امریکہ میں مقیم ہیں تم ان کےلئے مشکلات کیوں پیدا
کررہے ہو؟۔ یادر کھوں اب وہ پاکستانی نہیں امریکی ہیں اور کوئی امریکی کیوں چاہے گا
کہ امریکہ تباہ ہوجائے۔ تمہارے چغادری امریکہ جاکر اعلان کرتے ہیں کہ جس طرح روس ٹوٹا
اور بکھرا امریکہ بھی ایسا ہی ہوجائے گا۔ بھائی عقل کے ناخن لو کوئی امریکہ کو کیوں
کر ٹوٹتے بکھرتے دیکھ سکتا ہے۔ جب کہ اس کی نسلیں امریکہ میں ہی مقیم ہو ں۔ آج کی
دنیا میں رہو اور حقیقت کو سمجھو۔’’یہ باتیں میرے اور نہایت محترم دوست کی تھیں جن
کے ساتھ میں ایک مفلر میں موجود تھا۔ یہ مفلن کچھ احباب کی تھی جو موجودہ حالات کو
سمجھنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔
اسی محفل میں امریکہ سے آئی
ایک شخصیت بھی موجود تھی جو امریکہ میں ایک مسجد کے امام اور امریکی مسلمانوں کی انجمن
کے ایک متحرک رکن ہیں۔ ان کا رد عمل ا س بات پر یہ تھا کہ ‘‘ میرے 7 بچے اور 9پوتے
پوتیاں امریکہ میں مقیم ہیں ۔ وہ وہیں پیدا ہوئے اور رہے۔ وہ سب امریکی ہیں اور امریکہ
کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھنا نہیں چاہتا ۔مگر ہاں میں امریکہ میں رائے عامہ کو منظّم کر
کے وہاں کی سول سوسائٹی کو یہ بات سمجھا سکتا ہوں کہ امریکہ نے عراق وافغانستان میں
غلطیاں کی ہیں اور اب پاکستان میں یہی غلطی دہرائی جارہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا
کہ وہاں کا عام آدمی معصوم اور حقوق کی جدوجہد میں ساتھی ہوتا ہے۔ مثلاً ان کو اگر
وہاں کوئی دھمکی ملتی ہے تو وہاں کی سول سوسائٹی ساتھ آکر کھڑی ہوتی ہےاور کہتی ہے
کہ تم نماز پڑھاؤ ہم دیکھتے ہیں کہ تم کو کون تنگ کرتا ہے۔
اس محفل میں شریک ایک اورصاحب
نے نہایت دلچسپ بات کی ان کا کہنا تھا کہ میں امریکہ کو ٹوٹتا اور ٹکڑوں میں تقسیم
دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہاں یہ ٹکڑے مضبوط اور مستحکم ہوں او رمعاشی لحاظ سے ترقی یافتہ
ہوں۔ مگر اس منہ ز ور قوت کو اب ٹوٹتا اور بکھرنا چاہئے ۔ یہ کیسی عام فرد کی معصومیت
ہے کہ جو حکومت کے ایوانوں میں پہنچ کر ایک عفریت میں تبدیل ہوجاتی ہے ،کچھ سے بالاتر
ہے’’۔
قارئین ! مسئلہ ذرا گھمبیر
ہے۔ نفرت کس سے، امریکہ سے یا امریکیوں سے؟ امریکی پالیسیوں سے یا امریکی حکومت سے
؟ امریکی فوج سے یا اس کے پالیسی ساز ادارو ں سے؟ کچھ ملغوبہ ہے۔ کسی جگہ گفتگو کے
دوران ایک نوجوان نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ امریکی پالیسیوں سے نفرت اور امریکہ
جاکر تعلیم یاروزگار حاصل کرنا متضاد چیزیں ہیں ان کو عکس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی
کرناچاہئے۔11/9کے واقعے کے بعد درحقیقت پاکستان ایک دلدل میں پھنسا چلا گیا جس سے چھٹکارے
کا بظاہر کوئی راستہ نظر بھی نہیں آتا ۔افغانستان کے خلاف امریکی کارروائی کیلے زبردست
امداد کے باوجود Do Moreکا
نعرہ ہمیشہ لگایا گیا۔پھر ساتھ ہی ڈرو ن حملوں کی بارش کی گئی جس نے رد عمل پیدا کرنا
شروع کیا جو بالآخر پاکستانی طالبان کے روپ میں سامنے آگئے ۔جن کا سخت گیر موقف انتہا
پسندی کی ایک نئی صورت لے کر سامنے آیا۔ پھر خود کش حملوں کی ایک لہر شرو ع ہوئی جس
میں کئی بے گناہ مارے گئے ۔ اور اب مسئلہ بلیک واٹر کا گرم ہے۔
مگر اس سارے منظر او رکھیل
میں پاکستانی عوام اس حوالے سے متفق ہیں کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیچھے امریکہ
اور اس کے حواریوں کا ہی ہاتھ ہے۔ ہر سامنے آنے والا رائے عامہ کا جائزہ اس بات کا
مظہر ہے کہ امریکہ کے خلاف عوام کے جذبات یکساں ہیں۔ ناک کو کہیں سے بھی مروڑ ا جائے
اور جیسا بھی مرو ڑا جائے جواب ایک ہی ہے۔گیلپ پاکستان کی مدد سے 13اگست کو الجزیرہ
کا ایک سروے منظر عام پر آیا ۔ جس میں ترتیب کے لحاظ سے سب سے آخری سوال یہ بتایا
گیا جو ہمارے نزدیک سب سے اہم تھا۔ آپ کے خیال میں ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ کون ہیں،
پاکستانی طالبان ،امریکہ یا بھارت .....؟ تو
جواب میں بالترتیب 59فیصد نے امریکہ کو ہی سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔
18فیصد نے بھارت اور11فیصد نے پاکستانی طالبان کو خطرہ قرار دیا ۔ جبکہ
12فیصد کی کوئی رائے نہیں تھی۔ یعنی ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ عوام کی نظر میں امریکہ
کو ہی سمجھا گیا۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے رائے عامہ تقسیم ہے۔ مذاکرات کے حق
میں 43فیصد اور آپریشن کے حق میں 41فیصد لوگ ہیں۔ جبکہ 16فیصد کی کوئی رائے نہیں تھی۔
67فیصد لوگ امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہیں گویا ان کی ملّی غیرت وحمیت نہایت
عزیز ہے جس کا مظاہرہ کرنے میں حکمران ناکام ونامراد ہوچکے ہیں۔ صرف 9فیصد پاکستانی
ان حملوں کے حق میں ہیں۔ دوسری طرف سوات میں عسکری ایکشن کے حق میں 41فیصد عوام ہیں
مگر ساتھ ہی 24فیصد مخالف بھی ہیں۔ جبکہ 22فیصد نے کوئی رائے دینے سے اجتناب کیا۔ یعنی
اس حوالے سے قطعی یکسوئی نہیں، اختلاف رائے موجود ہے۔
13اگست کو ہی PEW گلو بل نے بھی پاکستان کے حوالے سے کئے گئے سروے
کے تنائج شائع کئے ہیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ ادارے ان اعداد وشمار میں اپنی مرضی
کے نمبر ز تلادی کرتے اوربتاتے ہیں۔ بات شروع اس طرح کرتے ہیں کہ ملک میں القاعدہ ،طالبان
اور انتہا پسندی کے حو الے سے ان تینوں کے خلاف رائے عامہ منفی ہوتی جارہی ہے۔2008میں
اسی ادارے کے ایک سروے میں القاعدہ کے خلاف 34فیصد کی رائے تھی جواب بڑھ کر 61فیصد
ہوگئی ۔طالبان کے خلاف 33فیصد کی رائے تھی جواب بڑھ کر 70فیصد ہوگئی اور انتہا پسندی
کے حوالے سے پریشانی کی رائے 70سے بڑھ کر 77فیصد ہوگئی ہے جب کہ امریکہ کے حوالے سے
مثبت رائے صرف 16فیصد افراد کی ہے۔ جبکہ اوباما پر اعتماد صرف 13فیصد لوگوں کو ہے۔
58فیصد کہتے ہیں کہ ڈرون حملے اور میزائل اٹیک غیر ضروری ہیں جب کہ 93فیصد کی رائے
ہے کہ ان حملوں سے معصوم وبے گناہ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ بھارت کو 83فیصد ، طالبان کو
73فیصد اور القاعدہ کو 61فیصد خطرہ سمجھتے ہیں ۔مغرب اور امریکہ کیلئے سوہان روح یہ
بھی ہے کہ اہل پاکستان کو اسلامی سزاؤں سے کوئی پریشانی نہیں ۔ 83فیصد لوگ زنا کار
کو سنگسار کرنے کے حق میں ہیں ۔ چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا کے حق میں 80فیصدلوگ
ہیں ۔ مرتد کی سزا یعنی موت کے حق میں 78فیصد اور قاضی عدالتوں کے قیام کے حق میں
71فیصد لوگ ہیں۔ مغرب کیلئے یہ بات بھی باعث حیرت ہوگی کہ اہل پاکستان لڑکے یا لڑکی
کی تعلیم میں فرق نہیں کرتے۔ 87فیصد کہتے ہیں کہ تعلیم دونوں کیلئے ضروری ہے۔ دلچسپ
بات یہ ہے کہ 2006میں 27فیصد لوگ امریکہ کے حوالے سے مثبت رائے رکھتے تھے جو اب گھٹ
کر صرف16فیصد رہ گئی ہے ،جو اہل پاکستان کے شعور کی غمازی کرتا ہے کہ وہ سمجھ سکتے
ہیں کہ ان کا دوست کون ہے اوردشمن کون ۔ وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر کیا ہے کہ وہ رائے
کے علاوہ کسی اور چیز پر قابو نہیں رکھتے اس لیے وہی دے دیتے ہیں۔
جولائی کے آخر میں ورلڈ پبلک
اوپیئن کی طرف سے بھی ایک سروے سامنے آیا۔جس میں افغانستان میں ناٹو افواج کی موجودگی
کو 72فیصد پاکستانیوں نے مسترد کردیا۔ 79فیصد پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ ناٹو افواج
کو آپریشن فی الفور بند کردینا چاہئے ۔ اور 86فیصد پاکستانی اوباما کی افغانستان میں
امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کےفیصلے کے مخالف ہیں۔اس طرح یہ بات توواضح ہو چکی
ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے انداز فکر میں گہرا فاصلہ ہے۔ جو روز بروز کم نہیں ہورہا
بلکہ بڑھ رہا ہے ۔مذکورہ اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ لوگوں نے تمام حالات پر گہری نظر
رکھی ہے۔ وہ سب دیکھ رہے ہیں مگر اپنے جذبات کو سینوں میں دبائے ہوئے ہیں۔
کیا اہل پاکستان نہیں دیکھ
رہے کہ اوباما کے نمائندے رچرڈ ہالبروک ہر دوسرے روز آدھمکتے ہیں اور سیاستدانوں اور
ارباب حکومت سےملاقاتیں کرتے پھرتے ہیں ۔ اور پھر ہم کو حکومتی فیصلے نظر آتے ہیں
جو امریکی ایما پر ہوتے ہیں ۔ ملکی معاملات میں امریکی مداخلت روز بروز بڑھتی جارہی
ہے۔
سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی
کے خلاف جنگ ہماری نہیں ۔ اس میں ہم صرف ایک ٹیلی فون کال پرکود پڑے تھے ۔ ہم نے لاجسٹک
سپورٹ کے نام پر اپنے ہوائی اڈے تک امریکہ کو دے دیئے جہاں سے کالے طیاروں نے اڑ اڑ
کر ہمارے ہی مسلمان بھائیوں کے جسموں کو گوشت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور پھر نہاد
القاعدہ کے تعاقب میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں امریکی بمباری سب پر عیاں ہے۔ اعداد
وشمار بتاتے ہیں کہ اہل پاکستان کو یہ تسلیم نہیں اور وہ اس صورتحال سے نالاں وپریشان
ہیں۔
وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اسلام
آباد میں امریکہ دنیا کا سب سے بڑا امریکی سفارت خانہ تعمیر کررہا ہے ۔ جہاں 1000کے
قریب امریکی میرین فوجی موجود ہیں۔ عوام اس صورتحال کو تشویش ناک سمجھتے ہیں ۔ ساتھ
ہی اسی پس منظر میں اور امریکین بلیک واٹر کی آمد کی بھی شنید ہے۔ جس پر اخبارات میں
بے تحاشہ لکھا جارہا ہے اور تفصیلات بتائی جارہی ہیں کہ جس کی خون آشامی کی داستانیں
عام ہیں۔ اس پورے پس منظر میں عوام امریکہ سے نفرت کرنے میں حق بجانب نہیں تو کیوں
نہیں ۔ عوام بے دست وپاہیں کچھ نہیں کرسکتے تو نفرت تو کرسکتے ہیں۔ ہاں مگر مایوسی
گناہ ہے امید کے دیئے کو ٹمٹماتے رہنا چاہئے ۔ بقول فیض صاحب۔
چند روز اور میری جان! فقط
چند ہی رو ز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے
پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں،تڑپ
لیں، رولیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور
ہیں ہم
جسم پر قید ہے جذبات پر زنجیر
یں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں
ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی
جئے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلسی کی قبا
ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند سے لگے
جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن
تھوڑے ہیں
ایک ذرا خبر کہ فریاد کے دن
تھوڑے ہیں
(بشکریہ امت ،کراچی)
https://newageislam.com/urdu-section/public-hatred-with-america-/d/1750