مسلمانوں کا مرکز عقیدت امن
کی جگہ ہے، خدارا اسے تو سیاسی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائیں
ڈاکٹر غلام زرقانی
کہتے ہیں کہ اگر اپنے ہی اپنوں
پر زیادتیاں کرنے لگیں تو پھر غیروں کی ہمت بڑھ جاتی ہے ۔بلاشبہ عالم اسلام کے موجودہ
حالات کے تناظر میں یہ بات صد فیصد درست دکھائی
دیتی ہے۔ کہنے کو تو سعودی عرب میں ‘‘قانون اسلامی’’ کانفاذ ہے ، لیکن سچ پوچھئے تو
وہاں ‘‘قانونی مفاد پرستی ’’ ہی رائج ہے، جو یہ نہیں دیکھتا کہ حق کس کے ساتھ ہے ،
بلکہ توجہ یہ رہتی ہے کہ ‘‘ذاتی مفادات’’ کے لیے بہتر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی
عرب سے لوٹنے والے مزدور طبقے سے اگر گفتگو کی جائے تو ایسی ایسی روح فرسا داستانیں
پردہ سماعت سے ٹکراتی ہیں کہ آنکھیں اشکبار ہوے بغیر نہیں رہ سکتیں ۔اطلاعات کے مطابق
سعودی عرب میں آدھے سے زیادہ کام کرنے والے غیر ملکی ہیں۔ طے شدہ ضابطے کے مطابق کسی
بھی غیر ملکی کو اس وقت تک داخلے کا ویزہ نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے لیے کسی
ضمانت دینے والے کو تلاش نہ کرلے، جسے قانون
کی زبان میں ‘‘کفالہ ’’ کہا جاتا ہے اور جو ضمانت دے اسے ‘‘کفیل’’ کہتے ہیں ۔‘‘کفالہ’’
کے اس نظام کی وجہ سے ہونے والی زیادتیوں ،ظلم وتشدد او ربربریت کا سراغ لگائیں تو
روح پکار اٹھتی ہے کہ عصر حاضر میں ‘‘نظام کفالہ’’ دراصل ‘‘رواج غلامی’’ کی ایک ترقی
یافتہ شکل ہے۔ اپنے کو ‘‘آقا’’ کہتے ہوئے شرم لگی تو اسے تبدیل کر کے ‘‘کفیل’’ کردیا۔
اس طرح کے واقعات عام طور
پر سنائی دیتے ہیں کہ کفیلوں نے اپنے مزدوروں سے سخت محنت ومشقت کرانے کے باوجود انہیں
تنخواہ نہ دی اور جب انہو ں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو ظالموں نے پاسپورٹ بھی ان
کے حوالے نہ کیا۔ میں ایک نوجوان کو جانتا ہوں جو جمشید پور کے علاقے سے تعلق رکھتا
ہے ۔ اسے آٹو میکانک کی حیثیت سے بلایا گیا۔ وہاں پہنچنے پراسے تپتے ہوئے صحرا میں
اونٹوں کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری دے دی گئی۔
جب اس نے احتجاج کرتے ہوئے واپسی کا ارادہ کیاتو اس کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا۔ اس نے
تبایا کہ یہ صحرا اس قدر غیر آباد علاقے میں تھا کہ دور دورتک آبادی کا نام ونشان
نظر نہ آتا تھا۔مزید برآں کہ اس کا کفیل بلند وبالا چہار دیواری کو مقفل کردیا کرتا
تھا۔ ایسے خوفناک علاقے سے بھاگ نکلنا بھی آسان نہ تھا ۔نوجوان نے بتایا کہ جب محسوس
ہونے لگا کہ واقعی ہم ‘‘غلام’’ بنالیے گئے ہیں تو ہم نے ہمت کی اور ایک دن جان ہتھیلی
پر رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔بہر کیف کسی طرح ہندوستانی ایمبسی سے رابطہ ہوا اور وہ واپس
ہوسکے۔ اسی کے ساتھ اس حقیقت سے کو ن انکار کرسکتا ہے کہ وہاں ایسے ہزاروں مزدور مل
جائیں گے جنہیں اپنے مدت اقامت کی توسیع کے لیے کسی کفیل کی مددسےویزہ کی تجدید کرانی
پڑتی ہے۔
لہٰذا ان کا کفیل صرف دستخط
کرنے کے عوض ان سے بھاری بھرکم روپے وصول کرتا ہے۔ اس طرح وہ معاشرہ جسے ‘‘قانون اسلامی’’
کے نفاذ کی سرزمین کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے، وہاں رشوت پروان چڑھ رہی ہے۔ اس طرح
کے ایک دوواقعات ہوتے تو کہا جاسکتا تھا کہ
اچھے برے تو ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن اسے کیا
کہیے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کام کرنے والوں کے ساتھ تو اس طرح کی زیادتیوں
کی خبریں عام نہیں ہیں ، لیکن مزدو ر طبقے کے ساتھ یہ روز مرہ کے معمولات میں شامل
ہے۔ 2010کے حقوق انسانی کی رپورٹ کے مطابق فروری کے مہینے میں تیس نیپالی صفائی مزدور
وں نے تنخواہ نہ دیے جانے اور خراب رہائشی سہولیات کے خلاف احتجاج کردیا۔ نیتجے کے
طور پر ان کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور تین چار ماہ کی جیل کے بعد انہیں اپنے وطن واپس لوٹنا پڑا۔
مئی میں ظہران میں واقع جداول
انٹر نیشنل کمپنی جو کہ شیخ محمد بن عیسی الجار کی ملکیت ہے ، کہ مزدوروں نے تنحواہ
نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے کام کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا ان سب کے ویزے منسوخ کردیے
گئے ۔ اسی طرح ستمبر میں مکہ میٹرو کے مزدور وں نے اسٹرائک کردیا اور جون میں 200فلسپنی
مزدوروں نے انصار ہاسپٹل میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ اگست میں ایک سری لنکن خاتون
کے جسم سے ایک درجن سے زائد سوئیاں نکالی گئیں
جنہیں اس کے مالک نے لمبے گھنٹوں تک کام نہ کرنے کی پاداش میں مارتول سے جسم میں داخل
کیے تھے ۔ اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہر سال ظہور پذیر ہوتے ہیں ، جن کےعینی شاہدین
ایشائی ممالک کے وہ سفارت خانے ہیں جہاں کثرت کے ساتھ اس طرح کی شکایات موصول ہوتی
رہتی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ سعودی حکومت تو اپنے شہریوں کو بھی صرف ‘‘صدائے احتجاج’’
بلند کرنے کی سزائیں دیتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2010میں ایک جج نے فہد الجخید
نامی ایک اخباری رپوٹر کو جیل اورکوڑے کی سزا دی۔ ان کا جرم صرف اس قدر تھا کہ انہوں نے شہر قبا میں بجلی کی
عدم فراہمی پر احتجاج کرنے والوں کی تفصیلی رپورٹ اخبار میں دے دی تھی۔
ظاہر ہے کہ پورے ملک میں من
مانی کرتے ہوئے برسوں گزر جانے کے بعد بھی جب کسی نے ہاتھ پکڑا نہیں تو ہمت مزید بڑھ گئی اور ہاتھ جو
اب تک صرف اپنے شہریوں تک دراز ہوتے تھے ، اس کا دائرہ بڑھ رہا ہے ۔گذشتہ ہفتے ہونے
والا سانحہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق احمد الغزادی نامی مصری وکیل
عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین گئے ہوئے تھے۔ انہیں ائیر پورٹ سے گرفتار
کر لیا گیا ہے۔ ان کے غائبانے میں انہیں بادشاہ وقت کے خلاف توہین آمیز کلمات کہنے
کے جرم میں ایک سال کی قید اور بیس کوڑوں کی سزا سنائی تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ احمد
الغزاوی سعودی عرب میں کام کرنے والے مصریوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے
رہے ہیں اور حراست میں رکھے جانے والے مصریوں کے
حوالے سے سعودی عرب کے بادشاہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ آپ دیکھ رہے ہیں
کہ سعودی حکومت کی نگاہ میں کسی پر ‘‘ظلم وزیادتی ’’ کرنا اس قدر سنگین نہیں جس قدر
بادشاہ وقت کے خلاف ‘‘زبان کھولنا’’ہے ۔ کیا اسے ہی اسلام کہتے ہیں؟ یہ وہ ‘‘اسلام’’
تو ہر گز نہیں جسے ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نسبت ہے؟ میں تو کہتا ہوں
کہ کسی بھی ظلم وزیادتی سے بڑا ظلم تو یہ ہے
کہ کسی سے ‘‘سسکنے ’’ ،‘‘رونے’’ اور ‘‘صدائے احتجاج بلند کرنے ’’کا حق ہی چھین لیا
جائے۔ اور اس میں شک نہیں کہ سعودی حکومت کے رائج شدہ خود ساختہ ضابطہ کے مطابق شہریوں
کو کسی بھی مسئلے پراحتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یعنی جو بھی ہورہا ہے خاموشی کے
ساتھ برداشت کیجئے اور برداشت کیجئے بس۔ یقین نہ آئے تو سعودی عرب میں ہونے والے حالیہ
احتجاج کے بعد وزارت خارجہ کی آفس سے شائع ہونے والا وہ بیان پڑھئے جو میڈیا کے ذریعہ
ساری دنیا میں سنا گیا۔
‘‘سعودی مملکت کے قانون کے مطابق کسی طرح کے مظاہروں ،جلوسوں اور دھرنوں
کی اجازت نہیں ، کیونکہ اسلامی شریعت ،سعودی معاشرے کی روایات او راقدار کے منافی ہیں۔’’
آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہوس اقتدار
کے نشے میں اسلامی شریعت کے دامن کو کس بے غیر تی کے ساتھ آلودہ کیا جارہا ہے؟ سوچتا
ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ ‘‘فرما نروائے حرمین’’ کاناجائز تسلط ‘‘عین شریعت ’’
اور ظلم و جبر ، قہر وغضب اور حق تلفی کے خلاف بلند ہونے والی سسکیاں ‘‘خلاف شریعت
’’!
صاحبو! اس واقعہ کا سب سے
خطرناک پہلو یہ ہے کہ حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جانے والے ایک مسلمان کو
‘‘ انتقامی سیاست’’ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ ہم سارے مسلمانوں کے لیے خطرے
کی گھنٹی ہے ۔ اسے معمولی سمجھنے کی غلطی سارے عالم اسلام کو مہنگی پڑسکتی ہے۔ سنا
تو یہ ہے کہ مذہبی پس منظر میں مکہ مدینہ کی عظمت وحرمت اس قدر ہے کہ یہاں بسنے والے
انسان ہی نہیں جانوروں تک کو نشانہ بنانا جائز
نہیں ، لیکن پھر وہی بات کہ سعودی معاشرہ میں ‘‘ذاتی مفادات ’’ کا خیال پہلے ہے پھر
‘‘مذہب اسلام’’ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں کہ سعودی حکومت تو ساری دنیا میں
مساجد او رمدارس کے قیام میں دل کھول کر مدد کرتی ہے ،لہذا ان کی خدمات کا اعتراف کرنا
چاہئے۔ اس حوالے سے یہ بات یادر کھئے گا کہ مساجدو مدارس کا قیام بہر حال ‘‘مستحیات
’’ کے زمرے میں آتا ہے جب کہ کسی پر ظلم وزیادتی کرنا ‘‘محر مات’’ میں شمار کیا جاتا
ہے ۔لہذاا رتکاب محرمات کو امر مستحبات کے دیدہ زیب لباس سے ڈھانپا نہیں جاسکتا ۔ہم
تو یہاں تک کہنے کے لیے تیار ہیں کہ سعودی حکومت کسی ایک بے قصور مسلم پر زیادتی کے
موقوف کرنے کے بدلے اگر دنیا کے سارے مسلمانوں کی امداد بند کرناچاہے تو شوق سے کرلے، ہمیں ‘‘امداد وتعاون’’ کے مقابلے میں
اپنے ایک مسلمان بھائی کی ‘‘عزت وحرمت ’’زیادہ عزیز ہے۔
مضمون نگار لون اسٹار کالج ہیو سٹن ،امریکہ کے ورلڈ لینگویج
ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں
بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL: