ڈاکٹر اصغر انجینئر
روایتی علماء نے ہمیشہ سماجی
اصلاحات کا غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے ان کی شدید مخالفت کی ہے اور قرآن کی کچھ آیات
یا ا حادیث کے کچھ حصوں کو ان کے سیاق وسباق سے الگ کر کے بطور سند پیش کرکے عام مسلمانوں
کو اپنے حق میں ہموار کیا ہے اور ان کی حمایت حاصل کی ہے۔ انہوں نے اصلاح پسندوں کو
کافر، ملحد اور نیچر ی قرار دیا ۔ ایک مرتبہ جب اس قسم کا فتویٰ جاری ہوتا ہے تو مصلحین
عام معاشرے سے بالکل الگ تھلگ کردیئے جاتے ہیں اور ا ن کے لئے اپنی صلاحی تحریک کو
جاری رکھنا بے حددشوارہوجاتا ہے۔تاریخ میں ایسے بے شمار مصلحین کا ذکر موجود ہے جنہیں
اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا خاص طور سے انیسویں صدی میں جب مغربی ممالک نے اپنی
نو آبادیاں قائم کیں تب جدید مغربی سوسائٹی کے اثرات سے اسلامی دنیا میں بہت سی اصلاحی
تحریکیں شروع ہوئیں ۔
یہاں اس کی تشریح ضروری ہے
کہ سماجی اصلاح کیا ہے؟ جیسے ہی کوئی شخص سماجی اصلاح کی بات کرتا ہے ویسے ہی بلکہ
اسی لمحہ اس پر الزام لگ جاتاہے کہ یہ شخص شریعت میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔ شریعت خدائی
قانون ہے اور اس میں تبدیلی کا مطلب اللہ کی نافرمانی ہے۔ اس منطق سے ہر اصلاح پسندکی
شبیہ دھندلاجاتی ہے ۔ بہر حال آج کے اصلاح پسند یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے بنیادی
قوانین میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کئے بغیر ، ان اصولوں اور قاعدوں میں جو قدیم عہد
کے سیاسی سماجی تقاضوں کے مطابق بنائے گئے تھے ۔ اس حد تک تبدیلی کی جائے یا انہیں
وسیع کیا جائے کہ وہ دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ لفظ اصلاح یا ریفارم بذات
خود یہ اشارہ کرتا ہے کہ کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر ایسی شکل دی جائے جو عصری تقاضوں
کے مطابق ہو اورتمام صورت حال کا مقابلہ کرسکے ۔ جو بیندی اصول اور اساسی قدریں ہیں
ان میں تبدیلی ممکن نہیں جانی چاہئے کیونکہ اگر ان میں تبدیلی ہوئی تو یہ اصلاح نہیں
بلکہ کوئی اور شئے ہوگی جس سے فائدہ سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہوگا۔
مثال کے طور پر اس زمانے کے
علماء نے عورتوں کے تعلق سے قرآن کی آیات واحکامات کو ایک مخصوص طریقے سے سمجھا اور
اس تفہیم کی بنیاد پر شرعی احکامات قائم کئے گئے۔ آج کے حالات اگر کوئی اصلاح پسند
یاعالم قرآن کی انہیں آیات اور ان کے مفہوم کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرے تو اس
کا مطلب یہ تو نہیں ہوگا کہ وہ قرآن سے مختلف جارہا ہے یا کوئی نئی چیز پیدا کررہا
ہے۔ لیکن ہمارے علماء فوراً فتویٰ دیں گے کہ فلاح شخص قرآن میں تحریف کررہا ہے اور
شریعت کو منسوخ کررہا ہے۔ مولوی ممتاز علی ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں ۔ وہ دیوبند سے
فارغ تھے لیکن عورتوں کے حقوق کے سوال پر روایتی دیوبندی علماء سے شدید اختلاف رکھتے
ہیں۔ انہوں نے ’حقوق نسواں‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ۔ اس میں انہوں نے ’مردوں کی
عورتوں پر جھوٹی فضیلت کے نام سے پورا ایک باب قائم کر کے علمائے دیوبند کو چیلنج کیا۔
انیسویں صدی میں سیاسی اور سماجی حالات تیزی سے تبدیل ہورہے تھے ۔کیا ہم مولوی ممتاز
علی کو کافر کہیں گے؟ یا مصلح ؟ مولوی صاحب سرسید احمد خاں کے پرجوش حامی تھے ۔ ان
کا نکتہ نظر اسلوب اور سوچنے کا اندازہ قابل ذکر حد تک جدت پسند ہونے کے باوجود قرآنی
احکامات کیا حدود کے اندرتھا ۔ عورتوں کے حقوق کے تعلق سے ان کا نظریہ تو اتنا ماڈرن
اورجدت پسند تھا کہ سرسید نے بھی مو لوی ممتاز علی کو شائچ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا
لیکن مولوی صاحب عزم کے پکے تھے انہوں نے اسے شائع کیا۔۰
سرسیداحمد خاں خود بھی بہت
بڑے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے مصلح تھے۔ وہ تفسیر
القرآن لکھ رہے تھے ۔ علماء نے ان کے خلاف لکھنا شروع کیا اور دھمکی دی کہ اگر انہوں
نے تفسیر القرآن کا سلسلہ جاری رکھا تو ایک جدید کالج کے قیام میں وہ ان کی حمایت نہیں
کریں گے۔ سرسید نے تفسیر لکھنا بند کردی اور پھر کسی مذہبی موضوع کو ہاتھ نہیں لگایا
۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کریں اور جدید تعلیم کا ذریعہ صرف
انگلش تھا۔علماء نے ان کی مخالفت کی اور جدید تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی کوشش کو کفر
اور سرسید کو کافرقرار دیا ۔ انہیں نصرانی اور یہودی کہا۔ ایک عالم صاحب نے تو مکہ
جاکر باقاعدہ ان کے قتل کا فتویٰ حاصل کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر
ان اصلاحی تحریکوں کی اتنی شدت سے مخالفت کیوں ہوتی تھی جو بہر حال مسلمانوں کیا فلاح
وبہبود کے لئے چلائی جاتی تھیں؟ یقیناًان کیا وجہ صرف مذہبی اعتقاد یا جذبہ تو نہیں
ہوسکتا ۔سماجی اصلاحات کی مخالفت کی گئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے
کہ تبدیلی سے خوف زدہ رہتے ہیں کیونکہ تبدیلی اپنے ساتھ غیر یقینی صورت حال اور اجنبیت
لے کر آتی ہے اور ان کے لئے تو خاص طور سے زیادہ تشویشناک ہوتی ہے جنہیں اس تبدیلی
سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں اور سماجی لیڈروں
کے علاوہ عوام بھی اپنے عقائد اور رسومات میں تبدیلی عموماً گوارہ نہیں کرتے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اسی رسوم
وروایات جن کا اسلامی تعلیمات اور قرآن سے کوئی واسطہ نہیں مذہب کا ایک حصہ بن چکی
ہیں۔ اب اگران کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو فوراً اسلام پر حملے کا نعرہ بلند
ہوتا ہے سرسید جدید تعلیم اور سائنسی رجحان کے زبردست حامی تھے اور سماجی سوالات کے
بھی سائنسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے اس نظریئے کو علماء نے دین میں مداخلت قرار
دیتے ہیں اور انہیں ٹیچر ی یعنی مظاہر قدرت کی پرستش کرنے والا کہہ کر پکارنے لگے
۔ گویا سرسید کو اللہ پر اعتقاد نہیں تھا کیونکہ وہ سائنسی توجیہات کی وکالت کرتے تھے۔سرسید
نے ان کے جواب میں اپنا مشہور قول دہرایا’’اللہ کے الفاظ اللہ کے کاموں کے خلاف نہیں
جاسکتے‘‘۔
قرآن اللہ کے الفاظ کا مجموعہ
ہے کائنات کی تشکیل اللہ کا کام ہے اور سائنس اللہ کا کاموں کی تحقیق کرتی ہے اور سرسید
سائنس کے ذریعہ اللہ کے کاموں کے منظم مطالعہ کی حمایت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے علماء
نے انہیں نیچری کہنا شروع کیا۔ علماء کے اس پروپگنڈے نے اتنی شدت اختیار کی کہ جب وہ
لاہور چندہ جمع کرنے گئے تو کوئی بھی شخص ان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر
میں مولوی نذیر احمد دہلی سے لاہور گئے انہوں نے لاہور کی جامع مسجد میں سرسید احمد
کو نیچری کہنے کی مذمت کی اور انتہائی مدلل انداز میں مسلمانوں کی تعلیم کے لئے سرسید
احمد کی تحریک کی حمایت کی تب کہیں اہل لاہور نے انہیں عطیات دینے کی کوشش شروع کئے
۔ یہ مثال یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ’’مسلمانوں کی نفسیات سے کیسے کھیلا جاتا ہے۔
آپ ان کے جذبات کو چھیڑ دیجئے اور جو چاہے کروالیجئے ۔ روایتی علماء انہیں طریقوں سے
کام لیتے آرہے ہیں ۔ عوامی نفسیات جذبات کے بابع ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو جذباتی طور
پر مشتعل کر کے مذہبی پیشوا اور قائدین ان کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں اور
انہیں سنجیدگی اور ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنے اور سمجھنے کا موقع نہیں دیتے ۔ حقیقت تو
یہ ہے کہ جو شخص صحیح طور پر مذہب سے لگاؤ رکھتا ہے وہ سنجیدگی سے سوچتا ہے غور وفکر
کرتا ہے اور توجیہات تلاش کرتا ہے ۔قرآن ہمیشہ اپنے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں
دونوں غور فکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ (سورہ الانعام آیت نمبر 50، سورۃ الاعراف آیت
نمبر 184) یہ پیشوا ء (اسلام میں مذہبی پیشوائیت کاکوئی وجود نہیں ہے۔) علما ء اور
چند سماجی اور ثقافتی ٹھیکداروں نے کشادہ ذہنی اور فکری رجحان کی ہمیشہ مخالفت کی کیونکہ
ان کی مذہبی ٹھیکداری پر اس سے ضرب پڑتی تھی۔ایک طویل عرصے سے یہ علماء عوام کے ذہنوں
پر حکومت کررہے ہیں اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اسی لئے وہ ہر قسم کی تبدیلی کی انتہائی
شدت سے مخالفت کرتے ہیں اور اپنی اس مخالفت کوجائز قرار دینے کے لئے دین کا سہارا لیتے
ہیں اور عوام کو متاثر کرنے کیلئے قرآن کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔
انیسویں صدی میں علماء نے
انگریزی تعلیم کی سخت محالفت کی کیونکہ ان کے خیال میں اس سے مدارس کی تعلیم کو خطرہ
تھا اور مسلم عوام کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے کا پہلا قدم تھا۔ جس طرح عربی تعلیم
کو اسلام کی طرف پہلا قدم سمجھا جاتا تھا اسی طرح انگریزی تعلیم کو عیسائیت کی طرف
پہلا قدم تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جدید تعلیم کی مخالفت کی علماء کے نزدیک ایک
اوروجہ تھی۔مغلیہ سلطنت میں علماء کو زبردست اہمیت حاصل تھی۔ وہ قاضی جیسے بڑے بڑے
عہدوں پر فائز تھے۔ جب انگریزی سلطنت کو عروج حاصل ہوا تو ان قاضیوں کی جگہ برطانوی
ججوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کو بطور منصف مقرر کیا گیا جو قانون کاگہرا
مطالعہ کرتے تھے ۔حکومت کے اس قدم نے علماء کو برا نگیختہ کردیا۔ انہوں نے اس سخت مخالفت
کی کہ انگریزی تعلیم ہر چیز ان سے چھین رہی ہے۔ان علماء کو ڈر تھا کہ جدید تعلیمی ادارے
مدارس پر بھی غالب آجائیں گے اور مدرسہ کے استاد کے طور پر بھی انہیں اپنے روزگار سے
محروم ہونا پڑے گا۔ ان کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا جس میں روشنی کی ایک کرن نہ
تھی۔
ان علماء کو عام مسلمانوں
کی حمایت ہمیشہ حاصل رہی۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ مسلمان انہیں اپنا دینی اور مذہبی
رہنما سمجھتے آئے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سارا مسلم معاشرہ انحطاط کا شکار تھا۔
کوئی بھی تبدیلی مسلمانوں کو مضطرب کردیتی تھی اور وہ بجا طور پر یہ سوچنے پر مجبور
ہوجاتے تھے کہ انگریز ان کے دشمن ہیں او را ن کی سیاسی بالادستی اور مذہبی عقائد کے
لئے شدید خطرہ ہیں۔ مستقبل نہ صرف تاریک تھا بلکہ غیروں کے اختیار میں تھا۔
تبدیلی ان کے لئے حسرت ویاس
کا پیغام لاتی تھی جو اس کی وجہ سے سب کچھ کھودیتے تھے اور جنہیں تبدیلی سے فائدہ ہوتا
تھا وہ خوشی کے شادیانے بجاتے تھے ۔ جن مصلحین کی نظر مستقبل پر تھی ان کا ساتھ دینے
والے بہت ہی کم تھے۔ مسلمانوں میں سرسید احمد خان ایک واحد ایسے شخص تھے جنہوں نے سب
سے پہلے جدید تعلیم کے لئے تحریک کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک ایسا
طبقہ وجود میں آگیا جو نہ صرف انگریزی تعلیم سے آشنا تھا بلکہ اس سے مستفید ہورہاتھا۔
مسلمانوں کے اس تعلیم یافتہ
طبقے کے پھیلنے کی رفتار اگر چہ کافی سست تھی لیکن یہ طبقہ تبدیلی کا نقیب ثابت ہوا
۔ اس طبقے میں ایسی بھی عنقری شخصیات پیدا ہوجائیں جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ نواب
محسن الملک مولوی چراغ علی، جسٹس امیر علی ،مولوی ممتاز علی خان اوردیگر بے شمار ۔
ان حضرات نے زندگی کے ایک نئے نظریے کی تشکیل کی اور مسلمانوں کے لئے بہتر زندگی کی
بنیاد یں استوار کیں۔ اس طبقے کے اکثر لوگوں نے سرکاری ملازمت پولیس اور دیگر انتظامی
شعبوں میں شمولیت کی اور اپنے تابند ہ نقوش چھوڑے۔
خوش آئند بات ہے کہ بہت سے
علماء کرام نہ صرف مسلموں میں اسلام کو متعارف بھی کررہے ہیں ۔ اب کلکتہ میں ایک ایسا
مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ جس زبان کو کافروں کی زبان کہا
گیا تھا آج وہ اسلامی دنیا میں جس کی علماء نے سختی سے مخالفت کی تھی اب ان کی بقا
ء کا ذریعہ بنتی جارہی ہے۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے علماء ہر تبدیلی کی مخالفت
کرتے ہیں اور وہ تبدیلی جب ناگزیر ہوجاتی ہے او را س کے بغیر چارہ نہیں رہتا تب ہی
اسے قبول کرتے ہیں۔ ہم وقت زبردستی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ہم چلتے ضرو ر
ہیں لیکن تبدیلی سے انکار کی بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد ۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam-social-reformation-/d/2299