وارث
مظہری
موجودہ
دور میں اسلامی ممالک میں جو انقلابی تحریکیں اٹھیں ، ان میں سے اکثر کے ایجنڈے میں
پہلی ترجیح اسلامی انظام یا اسلامی شریعت کے نفاذ تھی۔ اس وقت عرب ممالک کی بہت سی
اسلام پسند جماعتیں بھی یہ سمجھتی ہیں کہ اسلامی حکومت کا قیام اسلامی شریعت کے فی
الفور قیام کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسی جماعتوں کے نزدیک موجودہ دورکے وہ سارے مسائل
جنہوں نے مسلمانوں کو سیاسی زوال، مسلم سماج کو ضعف و انحطاط سے دوچار کر رکھا ہے اور
جن سے دوسری قوموں کے مقابلے میں اہل اسلام کی بے وقاری میں اضافہ ہورہا ہے ، ان سب
کے شاہ کلیداسلامی سماج میں بلاتاخیر اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔
یہ بلاشبہ
نری سادہ لوحی اور رومان پسندی ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اس میں
شک نہیں کہ اسلامی شریعت نافذ کیے جانے کے لئے بھی بھیجی گئی ہے۔ اس میں بھی شک پیدا
کرنے کی کوشش بے سود ہے کہ اسلام ایک نظام حیات ہے وہ محض چند رسمی عبادات کا مجموعہ
نہیں ہے جن کا شخصی طور پر بجالانا افراد کے لئے کافی ہو۔اسلامی زندگی کا اسلامی قانون
اور اخلاق کا پابند ہونا چاہئے۔ اگر ان پر عمل ممکن نہ ہو ، یا ان سے غفلت ہورہی ہو
تو کم از کم ان پر ایمان رکھنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے ۔ اس وقت مغرب خصوصاً امریکا
میں بڑے پیمانے پر یہ کوشش ہورہی ہے کہ اسلام کی ایسی تعبیر کی جائے جس میں شریعت کا
دخل کم سے کم ہو۔ یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے ۔ لیکن میرے خیال میں اس کا محرکات میں
سے ایک اہم محرک اسلامی شریعت کے نفاذ کا بلند آواز ی کے ساتھ لگایا جانے والا نعرہ
بھی ہے۔
اسلام
پسند حلقوں میں اس کے ایک پہلو پر تو گفتگو ہوتی اور سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر مغربی
دنیا اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوشش سے اس قدر خوف زدہ کردیا جاتا ہے کہ اس کے خوف کے
اسباب کیا ہیں اور ان کا از الہ کس طرح ممکن ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلام
کو رحمت کے نظام کی بجائے شدت اور جبر کے نظام کے طور پر نظریاتی یا عملی سطح پر پیش
کرنے کا سہرا موجود ہ دور کی بعض احیائی جماعتوں کے سرجاتا ہے۔ اس کی واضح مثال طالبان
کی جماعت ہے جس نے بے لچک روایتی فروعی فقہ کے حوالے سے غیر مسلموں اور مسلمانوں ،
دونوں کے تعلق سے بے جا شدت کا مظاہرہ کیا۔ اب ان کے جانشیں پاکستان کے نئے طالبان
اسلام کے نام پر جس درندگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس کی کوئی مثال دور جدید میں نہیں
ملتی ۔
سلمان
رشدی سے متعلق ایرانی انقلاب کے پیشوا علامہ آیت اللہ خمینی کے فتوے کا اس کے علاوہ
کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ اس نے رشدی کو ایک عظیم ہیرو بنادیا اور اسلامی نظام کو دنیا
پر لٹکتی ہوئی تلوار ۔ اس کے علاوہ اسلامی نظام کے نظریاتی علم بردار مصر اور الجزائر
میں جو تشدد پسندانہ حرکتیں کرتے رہے ہیں وہ اپنی جگہ ہے۔ بلا شبہ ان پر ظلم ڈھائے
گئے لیکن یہ ان کی طرف سے ظلم اور تشدد پسندی کا جواز نہیں بن سکتا ۔ اسلام جن اساسات
پر قائم ہے، ان میں صرف قانون ہی نہیں، اخلاق بھی شامل ہے اور اہم بات یہ ہے کہ رسول
اللہ نے خدا کی طرف سے اپنے بھیجے جانے کو اخلاق کی تکمیل کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس
لیے اسلام میں جنگ میں سب کچھ جائز ہونے کے فارمولے کو روا نہیں رکھا گیا بلکہ واضح
اصولوں سے اس کو منضط کیا گیا ہے۔
نفاذ
شریعت کا معاملہ کسی ایک اسکول یا کمپنی کے طلبہ یا مزدوروں کو ایک یا بعض ضوابط کا
پابندبنانے کے مسئلے کی طرح نہیں ہے جس کے لئے عام حالات میں صرف خوف یا لالچ دلانا
کافی ہوجاتا ہے ، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر نظام کے، مختلف مزاج اور نفسیات و خواہشات رکھنے
والے وسیع و متنوع معاشرے پر نفاذ کا معاملہ ہے۔ اس کے لئے معاشرے کے افراد کی جس سطح
پر تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہے،اس کیلئے ایک طویل عرصہ اور سلسلہ عمل (پراسیس) درکار
ہے جو مختلف مرحلوں میں طے ہوتا ہے۔ ان مراحل کو عبور کیے بغیر شریعت کے نفاذ کی کوشش
کے مترادف ہے ۔ برصغیر ہند کی پچھلی دوتین سو سالوں کی تاریخ کو سامنے رکھیے تو اندازہ
ہوگا کہ جب بھی ایسی کوشش ہوئی اس کا نتیجہ محض ناکامی اور تباہی کی شکل میں سامنے
آیا ۔ اس کی سب سے بڑی مثال سید احمد بریلوی (م:1831) اور اسماعیل شہید(م:1831)کی تحریک
شہید ین ہے۔ جس جلد بازی کے ساتھ اس تحریک نے پشاور کے علاقے میں اسلامی حکومت کے قیام
اور نفاذ شریعت کی کوشش کی اس کا نتیجہ اس تحریک کی تباہی و ناکامی کی شکل میں اتنی
ہی جلدی کے ساتھ سامنے آیا۔اس طرح کی کسی بھی کوشش کے لئے صرف اخلاص اور للّٰہیت ہی
کافی نہیں ہے۔ورنہ ہر دور میں مخلصین کی جو ش جماعتیں موجود رہی ہیں اور اب بھی دنیا
کی مختلف حصوں میں ایسے مخلصین موجود ہیں لیکن وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں دو قدم بھی
آگے نہ بڑھ سکے۔
نفاذ
شریعت کی کوششوں میں مختلف اسلامی اصولوں کو مرکز توجہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے
ایک تدریج کا اصول ہے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن میں ابتدا میں وہ سورتیں نازل
ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا یہاں تک کہ جب لوگ تائب ہوکر اسلام میں آگئے
(اور ان میں قبولیت کی استعداد پیدا ہوگئی) تو حلال اور حرام کے احکام اترے اور اگر
ابتدا میں یہ حکم اترتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم شراب کبھی نہ چھوڑیں گے اور
اگر ابتدا ہی میں یہ حکم اترتا کہ زنانہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی زنا نہیں چھوڑیں
گے (فتح الباری:655/8(
قرآن
میں شراب کو یکبارگی کے بجائے مختلف مرحلوں میں حرام قرار دیا گیا۔حضرت عمر بن عبد
العزیز سے ان کے بیٹے نے کہا کہ اگر آپ جب کہ حق پر ہیں، تو آپ ظلم وفساد کے خلاف کیوں
اٹھ کھڑے نہیں ہوتے؟ ضروری احکامات کا فوراً نافذ کیوں نہیں کردیتے ؟عمر بن عبد العزیز
نے جواب دیا کہ بیٹے جلدی نہ کرو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شراب کی دو مرتبہ
مذمت کی پھر تیسری مرتبہ اسے حرام قرار دیا ۔مجھے یہ خوف ہے کہ میں لوگوں کو پورے حق
کا پابند بنانے کی کوشش کروں گا ۔ تو لوگ پورے ہی حق کو ترک کردیں گے اور اس طرح بڑا
فتنہ پیدا ہوجائے گا ۔
رسول
اللہ کی سیرت میں اس کے نمونے بکثرت موجود ہیں ۔ اس طرح دوسرا اصول ترجیح کاہے۔ یعنی
یہ دیکھنا کہ کون سا کام مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے اور کون سا کام نتیجے کی ہے ۔ مکے
میں رسول اللہ نے صرف اسلام کی تبلیغ اور افراد سازی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ کعبے
میں جا کر نماز پڑھنے کے بعض صحابہ کے مطالبے کو آپ نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ نہیں ہم
ابھی تھوڑی تعداد میں ہیں۔ مدینہ میں آپ نے پوری توجہ اسلام کی خاموش دعوت اور اسلام
میں نئے داخل ہونے والوں کی ذہنی ،اخلاقی اور روحانی تربیت پر مرکوز رکھی تاکہ اسلام
کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ دار یوں کو اٹھانے والوں کی ایک جماعت تیار ہوجائے۔ اسی
طرح ایک اہم اصول تیسیر یعنی آسانی پیدا کرانے کا ہے۔رسول اللہ نے فرمایا کہ :دین آسان
ہے اور یہ کہ تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہونہ یہ کہ سختی اور مشکل پیدا
کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہونہ یہ کہ سختی اور مشکل پیدا کرنے والے بنا کر (بخاری)
۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے بعض لوگوں کو زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط کے بغیر بھی اسلام
میں شامل کرلیا۔اس طرح اصلاح اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے حوالے سے ایک اہم اصول دوبرائیوں
میں سے نستباً چھوٹی برائی کو گوارہ کرنے کا ہے۔
اس
وقت بنا ہوا کعبہ کا ایک حصہ ابراہیمی بنیاد سے ہٹا ہوا ہے ۔فتح مکہ کے بعد جب کہ آپ
کو مکمل اقتدار حاصل ہوچکا تھا،اس کا تذکرہ آنے پر حضرت عائشہ نے آپ سے کہا کہ آپ اسے
دوبارہ ابراہیمی بنیاد پر کیوں نہیں لوٹادیتے ۔رسول اللہ نے فرمایا کہ تمہاری قوم ابھی
جلدہی اسلام میں داخل ہوئی ہے۔ اگر میں ایسا کروں تو مجھے ڈر ہے کہ اس سے ان کے دلوں
میں ناگواری پیدا ہو گی(فتح الباری 513-14/3)ایک بے راہ فرد کو بھی راہ راست پر لانے
کے لئے طویل محنت اور صبر وبرداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک سوسائٹی اور پورے ملک کو بدلنے
کا معاملہ اس سے سینکڑوں گنا زیادہ پیچیدہ عمل ہے۔نظام اسلامی کے قیام کا مشن رکھنے
والی جماعتوں کے فکر کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اصل مسئلہ اقتدار
پر قابض ہونے کا ہے۔ اگر اقتدار کی کنجی ہاتھ میں آجائے تو نہ تو شریعت کے نفاذ میں
کسی رکاوٹ کا اندیشہ ہے اور نہ ہی ملک کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں کسی خطرے کا
کھٹکا ۔ بلکہ ان جماعتوں کے افراد کی اکثریت ، جو جذباتیت پسندوں پر مشتمل ہے ملک میں
شریعت کے نفاذ اور اس کا اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں کوئی فرق نہیں کرتی اور اس سوچ
کے مطابق اگر ملک میں اسلامی شریعت نافذ ہوگئی تو وہ ملک یا سماج خود بخود اسلام کے
سانچے میں ڈھل جائے گا۔اسلامی نظام کے قیام کے داعی ایک اسلامی مفکر نے لکھا ہے کہ
ملک کا اقتدار ٹرین کے انجن طرح ہے، اس انجن کے تحت چلائے جانے والے ڈبوں میں جس طرح
کے اور جس سمت کے بھی جانے والے لوگ بیٹھے ہوں، انہیں بہر حال خواہی نخواہی اسی سمت
میں جانا پڑتا ہے جس طرح گاڑی انہیں لے جارہی ہو۔ اس لئے سب سے پہلے اقتدار پر قبضہ
کرنا چاہئے۔یہ کمیونزم کی فکر تو ہوسکتی ہے اسلام کی نہیں ۔ یہ جبراور آمریت پسندی
کا طریقہ ہے اور جبر و آمریت اسلام میں سخت طور پر ممنوع ہے۔ اسلام جبر کے ذریعے نہیں
بلکہ صبر کے ذریعے ، قائل کرنے والے سلوب میں افراد کی فکری تربیت اور اخلاقی تزکیے
کی بنیاد پر سماج کی اصلاح کا خواہاں ہے کہ سماج دراصل افراد کے ہی مجموعے کا نام ہے۔
قرآن
کی آیت:’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہ بدلے‘‘(الرعد:11) کا مفہوم بھی یہی ہے۔ اس
وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر بعض ممالک میں اسلامی شریعت کا پوری طرح نفاذ عمل میں آجائے
تو اس کی مخالفت کرنے اور اس کو بوجھ سمجھنے والے لوگوں میں خود مسلمانوں کی بہت بڑی
تعداد پیش پیش ہوگی۔اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ نہ صرف متعلقہ
اسلامی ملک /ممالک کے عوام بلکہ عالمی رائے عامہ کو جب اور اس کا انسانیت کے حق میں
سراسر رحمت ہونا باور نہ کرالیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس اقدار کو باضابطہ کامیابی
سے ہم کنار کیاجاسکے۔یہ بات اصولی سطح پر اور عقل و منطق کے ہر پہلو سے بلاشبہ صحیح
ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ملک میں اپنے طرز کی حکومت قائم کرنے کا پورا پورا حق ہے ۔
مسلمہ
بین اقوامی قانون کی روسے بھی ان کے اس حق کو کوئی سلب نہیں کرسکتا ۔ لیکن جہاں تک
عملی امکان کا معاملہ ہے تو حقیقت میں اس کے لیے دنیا کے رائے عامہ کو اپنے حق میں
کرنا ضروری ہے، جب کہ اس وقت مغرب کے اسلامی فوبیا کے شکار سیاسی وسماجی حلقوں اور
مسلمانوں کی مختلف احیائی تحریکوں نے اسلامی شریعت کے تعلق سے لوگوں کو خوف میں مبتلا
کردیا ہے۔اس لیے عرب ممالک کی اسلام پسند جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سیاسی
ایجنڈے میں اسلامی شریعت کے نفاذ کو اخیر میں رکھتے ہوئے پہلے افراد کے تعلیم و تزکیہ
کو اپنی محنت کا عنوان بنائیں۔رائے عامہ کی ذہن سازی کریں۔
دوسری
سطح پرانہیں پہلے مرحلے میں سماج کی مختلف النوع خرابیوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے
جیسے : ناخواندگی ، معاشی استحصال ، طبقاتی امتیاز ، کرپشن ، عورتوں کے خلاف غیر منصفانہ
پرتاؤ ، لوگوں کے انسانی وسماجی حقوق کی پامالی وغیرہ جب تک پوری طرح ان کمزوریوں کو
دور نہ ہوجائے اس وقت تک اسلامی نظام کے قیام اور اسلامی معاشرہ مضبوط اساس پر قائم
نہ ہوجائے اس وقت تک اسلامی نظام کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوششوں کو قبل
ازوقت ہی ناکام سمجھ لینا چاہئے ۔تیونس میں حالیہ انتخاب میں کامیاب ہونے والی اسلامی
جماعت النھضہ اور مصر کی اخوان المسلمین کے قائدین کے اندر اس بات کا شعور پایا جاتا
ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اسلامی بصیرت کی بنیاد پر وہ خود کو مزید مضبوط کرتی ہیں یا ’دینی
جذبات‘ سے مغلوب ہوکر وہ حاصل مواقع کو ضائع کر ڈالتی ہیں۔
بشکریہ۔
جدید میل
URL: