28 اپریل، 2015
جیسا کہ شہ سرخی سے واضح ہے، اسی طرح کے کئی سوالات پوچھے جاتے ہیں اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قرآن غیر مسلموں کے لئے سخت الفاظ کا استعمال کرتا ہے خواہ وہ یہودی، عیسائی یا مشرک ہی کیوں نہ ہوں جبکہ مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں۔ قرآن مسلمانوں کے درمیان ان لوگوں کے لیے سخت انداز کلام اختیار کرتا ہے جو بد کار اور بد طینت ہیں اور انہیں صرف اس لیے نظر انداز کر دیا گیا ہے کیوں کہ ایسے لوگوں کو قرآن میں منافق کے نام سے پکارا گیا ہے۔ قرآن مجید کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف سخت انداز کلام اختیار نہیں کرتا، بلکہ قرآن صرف انہیں لوگوں کے لیے سخت زبان استعمال کرتا ہے جو کسی مخصوص عمل یا کسی گناہ کے مرتکب ہیں۔ اب ہم ایسی ہی ایک آیت کا جائزہ لیتے ہیں جس کا حوالہ اکثر پیش کیا جاتا ہے۔
(98:6) 98|6|بیشک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے اور مشرکین (سب) دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں۔
اس آیت سے یہ باطل عقیدہ گڑھ لیا گیا ہے کہ قرآن نے تمام یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین کو ارزل المخلوقات قرار دیا ہے آخرت میں جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا! اس آیت سے واضح ہے کہ قرآن تمام یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین کو ارزل المخلوقات نہیں قرار دے رہا ہے، آخرت میں جن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، بلکہ اس آیت میں یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں کے درمیان صرف وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے۔ وہ کافر کون ہیں ان کا کفر کیا ہے جس کی اتنی مذمت کی جا رہی ہے؟
اب ہم مکمل سورہ 98 کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں یہ آیت وارد ہوئی ہے:
(98:1) اہلِ کتاب میں سے جو لوگ کافر ہو گئے اور مشرکین اس قت تک (کفر سے) الگ ہونے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل (نہ) آجاتی،
2 (وہ دلیل) اﷲ کی طرف سے رسول (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو (ان پر) پاکیزہ اوراقِ (قرآن) کی تلاوت فرماتے ہیں،
3 جن میں درست اور مستحکم احکام (درج) ہیں،
4 (ان) اہل کتاب میں (نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے اور آپ کی شانِ اقدس کو پہچاننے کے بارے میں پہلے) کوئی پھوٹ نہ پڑی تھی مگر اس کے بعد کہ جب (بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) روشن دلیل ان کے پاس آگئی (تو وہ باہم بٹ گئے کوئی ان پر ایمان لے آیا اور کوئی حسد کے باعث منکر و کافر ہوگیا)،
5 حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یک سُوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے،
6 بیشک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے اور مشرکین (سب) دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں،
7 بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں،
8 ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اﷲ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں، یہ (مقام) اس شخص کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا
یہاں مشرکین کے درمیان جن کافروں کا ذکر ہے ان کا تعین سورہ 37 کی مندرجہ ذیل آیات سے کیا جا سکتا ہے:
(159) اﷲ ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔
(167) اور یہ لوگ یقیناً کہا کرتے تھے۔
(168) کہ اگر ہمارے پاس (بھی) پہلے لوگوں کی کوئی (کتابِ) نصیحت ہوتی۔
(169) "تو ہم (بھی) ضرور اﷲ کے برگزیدہ بندے ہوتے!"
(170) پھر (اب) وہ اس (قرآن) کے منکِر ہوگئے سو وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے!
اس جملہ "اور یہ لوگ یقیناً کہا کرتے تھے" سے واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ مشرکین کے درمیان تمام نہیں بلکہ کچھ کافر ہی مراد ہیں۔ اہل کتاب کے درمیان کافر وہ لوگ تھے جو اپنے صحیفوں میں موجود پیشن گوئی کے مطابق عربوں میں سے کسی نبی کی آمد کے منتظر تھے۔
آخر ان کے صحیفوں میں مذکور قوانین اور حقوق کی باتیں سناتے ہوئے اس نبی کی آمد ہوئی جس کا انتظار بڑی بے صبری کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ اہل کتاب نے ان کے پاس واضح ثبوت پہنچ جانے کے بعد تفرقہ بازی کی، اگرچہ انہیں اس سے زیادہ کچھ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ: اللہ کی عبادت کرو؛ اللہ پر سچا ایمان رکھو؛ نماز قائم کرو؛ زکوة ادا کرو اور یہ مذہب سچا اور سیدھاہے۔
یہ ارزل المخلوقات ہیں اس لیے کہ یہ جس رسول کا انتظار پوری بے تابی کے ساتھ کر رہے تھے جب اسی رسول کی بعثت واضح نشانیوں کے ساتھ ہوئی توں انہوں نے اسے جھٹلا دیا۔ اور یہ لوگ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے۔ الفاظ پر دھیان دیں۔ یہ آخرت میں ان کے انجام کے بارے میں ان لوگوں کے لئے کوئی انتباہ نہیں ہے بلکہ ان کے لیے سزا کا حکم سنایا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی موت حالت کفر میں ہوگی۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس میں تمام مشرکین اور یہود و نصاری شامل نہیں ہیں بلکہ کچھ خاص لوگ ہی اس زمرے میں آتے ہیں اس لیے کہ اس کے بعد بہت سے یہود و نصاری اور مشرکیں بھی ایمان لے آئے تھے۔ یہ سورت ان ابتدائی مدنی ادوار میں نازل کی گئی تھی جب مسلمانوں کو لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ بدر کی پہلی جنگ کے بعد مسلمانوں کے لئے حالات بہتر ہونے لگے جس کے بعد موقع پرست منافقین بھی اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ اس سے پہلے تک مسلمان صرف وہی لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا اور یہاں تک کہ انہوں نے اپنے گھروں کو بھی چھوڑ دیا اور مدینہ ہجرت کر گئے تھے اور انصار نے ان کی مدد کی تھی اور انہیں پناہ گاہ فراہم کیا تھا۔ اور اسی لیے انہیں افضل المخلوقات کہا جاتا ہے اور اس کا تقابل بہترین ہے۔ اچھے لوگوں کو کبھی کسی نبی کی بعثت کا انتظار نہیں رہا، لیکن جب نبی کی بعثت ہوئی تو وہ ایمان لائے اور 13 سالوں تک مکہ میں مشرکین مکہ کے ظلم و تشدد کا سامنا کرتے رہے اور آخر کار وہ اپنے گھروں اور کاروبار کو چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ انصار مدینہ نے بڑی قربانیاں پیش کیں اور تارکین وطن کی حمایت کی اور انہیں اپنے وطن میں پناہ فراہم کیا۔ یہ لوگ سچے مومن اور نبی اور اللہ کے سچے پیروکار تھے جو واضح طور پر بے لوث اور مخلص مومن تھے جن کے افضل الخلائق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
اس کے برعکس، ایسے بھی کچھ لوگ تھے جو پوری بے تابی کے ساتھ ایک نبی کی آمد کا انتظار کر رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ وہ انہیں کچھ عظیم دنیاوی نعمتوں سے نوازیں گے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ یہاں تو قربانیاں پیش کی جا رہی ہیں اور فوری طور پر مستقبل میں کسی فائدے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے، اور اس میں ایک غیر یقینی اور تاریک مستقبل ہے تو انہوں نے اس نبی کو جھٹلا دیا۔ وہ خود غرض تھے جن کی دلچسپی صرف ان چیزوں میں تھی جو ان میں ان کے لیے تھیں، اور ان کے دل میں خدا یا "حق" یا کسی بھی نیک مقصد کے لئے کوئی حقیقی محبت نہیں تھی۔ ان کاتقابل کامل ہے اور انہیں بدترین مخلوق کہا گیاہے۔
اب یہ امر واضح ہو جانا چاہئے کہ"بدترین مخلوق" اور "بہترین مخلوق" سے مراد اِس زمانے کے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے کچھ خاص لوگ ہیں۔ لہٰذا، مومنوں یا مسلمانوں کے پاس اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ وہ ان آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو بہترین مخلوق سمجھیں اور دوسروں کو بدترین مخلوق سمجھیں جو رسول اللہ کے زمانے میں کچھ خاص لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہیں اور جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے تئیں مذکورہ بالا رویہ اختیار کیا۔
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/worst-creatures-quran/d/102785