New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 11:09 AM

Urdu Section ( 8 Jan 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Will You do justice after the Elimination of the creatures? مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟

نثار احمد کھوڑو

پاکستان کی تاریخ ابتدا سے ہی محلاتی سازش کا شکارر ہی ۔نومولود ملک اپنے قیام سے 24سال کی عمر تک وینٹی لیٹر میں رہا اور بار ہا اس وینٹی لیٹر میں بھی آکسیجن کی فراہمی منقطع کی گئی جس نومولود کی عمر آج 62سال ہونی چاہئے ،وہ آج بمشکل 17سال کا ہے اور ان 17سالوں میں 9سال آئی سی یو میں رہا۔ سازشی عناصر نے ملک میں جمہوری اور ریاستی ادارو ں کو پنپنے نہیں دیا ۔ اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی خواہش نےاداروں پر تابڑ توڑ حملے کرائے جس کی وجہ سے ملک غربت، مفلسی، افراتفری،مذہبی اور لسانیت میں جکڑ ارہا۔ بانی پاکستان سے لے کر موجود دہ سیاسی قیادت کی اس قدر تذلیل کی گئی جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں جب فوج کے چدق افسران نے جناح صاحب سے ملاقات کی اور اپنی ترقیوں کے بارے میں دریافت کیا اور نئے ملک میں اپنے کردار کا ذکر کیا تو قائد اعظم نہ صرف ان افسران پر برہم ہوئے بلکہ انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کا دھیان صرف اور صرف ملکی سرحدوں کی حفاظت پر ہوناچاہئے۔

ہمارے ملک میں محلاتی سازشو ں کا پہلا شکار بانی پاکستان تھے اور ا ن کے قتل کے بعد ملک 24سالوں تک سیاسی استحکام سے محروم رہا۔ ان سازشوں کا دوسرا شکار پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بنے جن کے قاتلوں کا سراغ آج تک نہ مل سکا ۔1971سے 1977تک ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جس طرح 6سال کے قلیل عرصے میں ایک منتشر قوم اور ہاری ہوئی فوج کو مضبوط ومستحکم اور متحد کیا مگر ملک دشمن اور ترقی کے دشمنوں کو ترقی کرتا ہوا ایٹمی پاکستان قبول نہ تھااس لئے دواداروں نے ایک بیرونی طاقت کے گٹھ جوڑ سے ایک مقبول عوامی شخص کو تختہ دار تک پہنچادیا مگر تاریخ نے اس لیڈر کو حسینیت کا پیروکار اور اناالحق کا نعرہ لگانے والے منصور بنادیا۔ اسی سازشی ٹولے نے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی دینے والی بینظیر بھٹو کو اس کے دومظلوم اور جوان بھائیوں سمیت خون میں نہلا دیا مگر یہ چاروں شخصیات آج بھی کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ تمام قتل اسی سازشی ٹولے نے کئے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ بھٹو خاندان کا قتل ملکی سلامیت او ریکجہتی کا قتل ہے۔کیونکہ بھٹو خاندان کی پہچان پاکستان کی پہچان ہے ۔چار بھٹو کو مار کر یہ ٹولہ اپنی جانب سے نتیجہ اخذ کر بیٹھا تھا کہ خدانخواستہ یہ ملک ختم ہوگیا اور جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی ہے۔

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم مگر بینظیر کی شہادت کے باوجود 2008کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا کامیاب ہونا اور بعد میں آصف علی زرداری کا چاروں صوبائی اسمبلیوں سے منتخب ہونا، اس بات کی مضبوط دلیل ہےکہ پاکستان کے عوام آج بھی جمہوری قوتوں کے ساتھ ہیں۔ سازشی عناصر جتنی قوت سے بھٹو ازم پروار کریں گے ،عوام اس سے دگنی قوت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ میں آج اس کرسی پر بیٹھتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں جس کرسی پر بانی پاکستان بیٹھے تھےمگر ساتھ ہی ساتھ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان ملک دشمن قوتوں نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا اور 62سال گزر جانے کے باوجود یہ قوتیں گھناؤنی سازشوں اور ناپاک عزائم سےناز نہیں آتیں ۔ میں اپنی تحریر کے ذریعے ان قوتوں کو متنبہ کرتا ہوں کے ان کے یہ خطرناک عزائم کسی اور سقوط کا سبب نہ بن جائیں۔ آج جب ملک ایک حقیقی جمہوریت کیطرف گامزن ہے اور عوام قائد اعظم ،لیاقت علی خان ، علامہ اقبال ،ذوالفقار علی بھٹواور بینظیر بھٹو شہید کے خوابوں کی تعبیر قریب ہے، جب ملک کے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کررہے ہیں تو چند غیر جمہوری عناصر پارلیمنٹ کے ماتحت اداروں کو مادرپدر آزادی دینے کی بات کرتے ہیں۔ میں عوام کی توسط سے ان قوتوں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ ایک ہی ملک میں وہ دہرا معیار کیوں چاہتے ہیں۔

(1)ایک منتخب اور مقبول عوامی وزیراعظم کو غیر آئینی ،غیر قانونی ،غیر شرعی اور غیر اخلاقی سزا پر پھانسی دے دی جاتی ہے اور دھاندلی کے ذریعہ منتحب ہونے والے وزیر اعظم کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود سعودی محلات میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔(2)اگر جرنیل آئین کو مسخ کرکے ملک کو دولخت کردیں تو انہیں اعزاز ات اور تمغہ جات سے نوازا جاتا ہے اور ان کے ساتھی ان کی حمایت کے عوض بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعتکار بن جاتے ہیں (3)ضمیر کے قیدی آصف علی زرداری کو بغیر سزا کے قیدوبند کی صعوبتیں حصے میں آتی ہے جبکہ سزا یافتہ شخص کا مقدر سعودی محلات کے عیش وعشرت بنتے ہیں۔(4)نواز شریف اور مشرف کے درمیان این آر او طے پاتا ہے تو دانشور خاموش اور اگر ملک کی عوامی قیادت (بینظر ،نواز شریف ،الطاف حسین اور بلوچ رہنما) کو وطن واپس لانے اورملک کے جمہوری نظام کو بچانے کیلئے بینظیر اور مشرف کے درمیان اگر کوئی معاہدہ ہوتاہے تو اس میں منفی تنقید کی جاتی ہے۔(5)پیپلز پارٹی کی قیادت وطن واپسی پر گڑھی خدابخش بھیج دی اور نواز شریف رائے ونڈ کے محلات میں منتقل ہوجاتے ہیں۔(6) پاکستان بننے سے پہلے کے وزیر اعظم جونا گڑھ کے خاندان کے اثاثوں پر تو واویلا مچایا جاتا ہے مگر پاکستان بننے کے بعد بھکاری سے امرا بننے والے بڑے بڑے نامور لوگوں اور ان کے پیروکاروں کا ذکر تک نہیں ہوتا ،داستانوں میں ۔

پیمان جنوں ہاتھوں کو شرما ئے گا کب تک دل والوں گریباں کا پتہ کیوں نہیں دیتے 1990سے آصف علی زرداری پر بنائے گئے بے شمار کیسز میں سے کسی ایک میں بھی ان پر جرم ثابت کیا نہ جاسکا ۔ جہا ں تک آصف زرداری کی بے گناہی کا تعلق ہے تو تاریخ نے انہیں بے گناہ ثابت کیا۔غلام اسحاق خان نے ان پرجھوٹے الزامات لگائے اور بعد میں انہیں نگراں کا بینہ میں وزیر بنا کر اپنے ہی لگائے ہوئے الزامات کی نفی کردی۔1997میں سیف الرحمٰن نے آصف زرداری پر من گھڑت الزامات لگائے اور بعد میں ان سے سرعام معافی مانگ کر انہیں بے گناہ ثابت کیا۔ ملک قیوم نے انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر آصف زرداری کو سزا سنائی ،اسی ملک قیوم نے سوئیزرلینڈ میں پیش ہوکر آصف زرداری کے خلاف تمام مقدمات واپس لئے۔

آصف زرداری کی بے گناہی کا سب سے بڑا ثبوت اس ملک کے عوام نے دیا جو سب سےبڑے محتسب ہیں،جنہوں نے انہیں ملک میں سب سے زیادہ ووٹ دے کر اس کی بے گناہی پر مہر ثبت کی لیکن گھناؤنے عناصر کے بدبو دار ذہنوں نے اپنی روش نہ چھوڑی اور ایک مرتبہ پھر مائنس ون کی باتیں شروع ہوگئیں۔مائنس ون فارمولا دراصل قیام پاکستان سے ان گندے ذہنوں میں پروان چڑھا ۔اسی فارمولے نے ہم سے بانی پاکستان چھینا ،اسی فارمولے نے ہمیں لیاقت علی خان سے محروم کیا، یہی فامورلا ملک کے دوٹکڑے ہونے کا سبب بنا ، اسی بدنام زمانہ فارمولے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹوشہید جیسی خداداد صلاحیتوں کی حامل بین الاقوامی طور پر تسلیم کی ہوئی قیادت ہم سے چھینی گئی ۔ مائنس ون فارمولا دراصل عوامی قیادت کی جانب سے ‘‘انکار ’’ پر زندہ ہوتا ہے۔ آج جو قوتیں آصف زرداری کو صدر ماننے پر تیار نہیں ہوتیں ،یہ قوتیں بینظیر بھٹو کی زندگی میں اپنی لاعلمی کی وجہ سے آصف زرداری کو متبادل قیادت کے طور پر قبول کرنے کو تیار تھیں۔

آج یہ کند ذہن لوگ این آر او پر اسکرپٹ لکھ کر کلائمکس کی توقع کررہے ہیں۔ این آر او کے مخالفوں کا موقف ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اور احتساب ہونا چاہئے ۔جی ہاں بالکل احتساب ہونا چاہئے۔ میں تو  کہتا ہوں کہ قیام پاکستان سے اب تک اس ملک اور عوام کے ساتھ جو بھی انصافیاں ہوئی ہیں، سب کا حساب ہونا چاہئے ۔عوام بیزار ہوچکے ہیں، فلمی کلائمکس دیکھ دیکھ کر ،اب عوام لیاقت علی خان کے قاتلوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ قوم سقوط ڈھاکا کے ذمہ داروں کا احتساب چاہتی ہے۔قوم اب بھٹو شہید ،شاہنواز شہید، مرتضیٰ شہید اور بینظیر شہید کے قاتلوں کو تختہ دار پر دیکھنا چاہتی ہے۔آئی جےآئی بنانے کیلئے قومی دولت کی بندربانٹ کرنے والوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے۔

قوم پیپلز پارٹی کاووٹ بینک توڑنے کیلئے لسانی تنظیمیں بنانے والوں کا احتساب چاہتی ہے۔ اوجڑی کیمپ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے ۔قوم پانچ مرتبہ آئین تو ڑنے والوں اور ان اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے والوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے دیکھنا چاہتی ہے۔قوم 1985میں انفارمیشن منسٹری کے سیکرٹ فنڈ سے دوکروڑ روپے ایک لسانی تنظیم کو فراہم کر کے سندھ میں قتل عام کرانے والوں کا احتساب چاہتی ہے ۔12مئی کے ذمہ داروں کا احتساب چاہتی ہے۔ 19جون اور جناح پور کا اسکرپٹ لکھنے والوں کااحتساب چاہتی ہے ۔قوم اب نسیم حسن شاہ کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے جس نے میڈیا پر اقبال جرم کیا کہ ہاں ہم نے بھٹو ضیا کے کہنے پر پھانسی دی۔

قوم اب ملک قیوم کو ‘‘کنی سزا دیواں’’ کے اعترافی بیان پر انصاف چاہتی ہے ۔سیاستدانوں کا بہت احتساب ہوچکا ہے۔ABDO کے ذریعے تو کبھی نیب کے ذریعے ،کبھی دلائی کیمپ کے ذریعے تو کبھی احتساب بیورو کے ذریعے پیپلز پارٹی سے چار اقتدار کے عوض چار جانیں لی گئیں ،ہزاروں کارکنوں کو شہید کیا گیا، کوڑے برسائے گئے، ہیلی کاپٹر گن شپ کے ذریعے گاؤں گاؤں شہید کئے گئے ۔پیپلز پارٹی کی قیادت کچھ نہیں بھولی، ہمیں یہ قیادت کا سبق مجبور کرتا ہے کہ ‘‘جمہوریت بہترین انتقام ہے’’ ہم تو مٹی کی حرمت اور ملک کی بقا کے تحت خاموش ہیں۔بقول شاعر۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفقہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

پارلیمنٹ بھٹو کی پھانسی پرقوم سے معافی مانگ چکی ہے۔ عوام اب عدلیہ اور فوج کی طرف سے اعتراف اور معافی کے منتظر ہیں۔عدلیہ اور فوج پارلیمنٹ سے بلا تر تو نہیں ۔

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے تم اچھے مسیحا ہو تو شفا کیوں نہیں دیتے مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے منصف ہوتو اب حشر اٹھا کر کیوں نہیں دیتے آخر میں ملک کے تمام اداروں سےگزارش کرتا ہوں کہ یہ ملک قائم رہنے کیلئے بنا ہے اس لئے تمام اداروں پر فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ملک کی یکجہتی اور تعمیر وترقی کیلئے اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر متحدہوجائیں تاکہ ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلا کر ہم حقیقت میں ایک جمہوری اور مساوات محمدیؐ پر مشتمل معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں بھی معاف نہیں کریں گی۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/will-justice-after-elimination-creatures/d/2349

Loading..

Loading..