میم ضاد فضلی
جمہوری نظام حکومت میں ووٹوں
کی اہمیت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی تمام تر توجہ وہ عوامی مسائل یا پہلو ہوا کرتے
ہیں جس سے ووٹ بینک میں اضافہ ہو اور پروانہ وار رائے دہندگان کا ریوژان کی طرف بھاگا
چلاآئے۔یہاں عوامی فلاح وبہبود سے زیادہ ذاتی مفادات مرغوب ومقصود ہوتے ہیں۔ قابل غور
ہے کہ سیاسی مفادات کو ذہن میں رکھ کر عمل میں لائے جانے والی اسکیمیں اکثر وبیشتر
تنازعات کا شکار ہوجاتی ہیں۔جس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان اسکیموں کے مثبت پہلو
سے بھی وہ فوائد حاصل نہیں ہوپاتے جو کسی نہ کسی طرح مقصود ہوتے ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں
کو اپنے اپنے طور پر کہیں عوام کو ورغلا نے تو کہیں اپنے قریب کرنے کا فائدہ ضرور مل
جاتا ہے۔ سچر سفارشات کے بعد یوپی اے میں ترتیب دیئے جانے والے سینٹرل مدرسہ بورڈ کو
بھی اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ۔ کانگریس کیلئے روز اول سے مسلمانوں کے مفادات سے زیادہ
ان کے ووٹ زیادہ توجہ کاطالب رہے ہیں۔اس سلسلے میں کم وبیش دوسری جماعتوں کی کارکردگی
بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ مختلف نہیں رہی۔ انہیں بھی مسلمانوں کے دوٹوں کی جب
تک ضرورت رہی ان کے مفاد اور فلاح وترقی کی باتیں ان کی زبانوں پر تی رہی ،مگر جیسے
ہی ان جماعتوں کو سیاسی مفاد حاصل ہوگیا، مسلمان ان کے لئے متاع بے حیثیت قرار دے دیئے
گئے۔
مثال کے طور پر آر جے ڈی سپریمو
لالو پرساد کو ہی لے لیجئے ، لالو جی اپنے
سیاسی مفادات کے حصول کیلئے 15برسوں تک ریاست بہار میں مسلمانوں کی زبو ں حالی پر دکھاوے
کا ناٹک کر کے رجھاتے رہے ،جس سے انہیں وہ تمام مقاصد تو حاصل ہوگئے ۔ جس کیلئے انہوں
نے بہروپئے کا روپ اختیار کرلیا تھا۔15برس کے آر جے ڈی کے دور اقتدار میں مسلمانوں
کی غربت پر اشک بہانے والے یہ لیڈراور ان کےمصا حبین مالا مال ہوتے رہے وہ زمین سے
آسمان کی بلندی سرکرنے میں کامیاب ہوگئے مگر ریاست کے تقریباً 27فیصد مسلمانوں کی حالت
لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں بدلی ،وہ جہاں تھے اس سے بھی نیچے دھنستے رہے ۔مگر کیا کیجئے
گا کہ جمہوریت میں سیاست اسی کا نام ہے۔ یہاں لیڈروں کی تمام سرگرمیاں ان کے سیاسی
مقاصد کے حصول کے لئے وقف رہتی ہیں نہ کہ عوام الناس کو ترقیات سے سرفراز کرنے کے لئے۔
مگر کیا کیجئے گا کہ جمہوریت میں سیاست اسی کا نام ہے۔ یہاں لیڈروں کی تمام سرگرمیاں
ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے وقف رہتی ہیں نہ کہ عوام الناس کو ترقیات سے سرفراز
کرنے کے لئے ۔ اگر لالو پریادو کو مسلمانوں کی زبوں حالی اور مظلومیت کا حقیقی احساس
ہوتا اور مسلمانوں کیلئے ان کے ذہن وفکر میں کہیں ہمدردی کا جذبہ ہوتا تو وہ 1987میں
بہار مدرسہ بورڈ کے ذریعہ ملحق کئے گئے 2987مدارس کو منظور کر کے کم از کم دس ہزار
مسلمانوں اور مدارس کے فضلا کو روزگار مہیا کراسکتے تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ تقریباً
تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان ،لیڈران اور ان کی حکومتوں کا مسلمانوں کے ساتھ یہی
سلوک رہا ہے۔ ان کے ذریعہ وجود میں لائے جانے والے تمام منصوبے کا ماحصل سیاسی مفادات
رہے ہیں۔ انہیں اس سے کبھی بھی سردرکار نہیں رہا کہ مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کی خوشحالی
درحقیقت کن اسکیموں اور منصوبوں میں مضمر ہیں۔ان دنوں یوپی اے پر بھی مسلمانوں کو آسمان
کی سیر کرانے کا بھوت سوار ہوچکا ہے ، جسے مسلمانوں کو ووٹ بینک سے زیادہ کوئی اہمیت
نہیں دینی چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مدارس خالص دینی ادارے ہیں۔ ان کے قیام کا
مقصد دنیاکی منفعت سے زیادہ آخرت کی سرخروئی اور مسلم معاشرے کی اسلامی تربیت رہی ہے۔تاریخ
شاہد ہے کہ جن مدارس نے بھی اپنے اصلی مقاصد سے انحراف کی کوشش کی وہ مدارس نہیں رہے
بلکہ ان کی مثال اس مظلوم طوطے جیسی ہوگئی جس کی چونچ کاٹ دی گئی تھی اور اس کے پر
کی تمام سبز تیلیاں نوچ کر پھینک دی گئی تھیں ، پھر بھی اس طوطے سودا گر سر بازار یہ
بتاتا پھر رہا تھا کہ میں انسانوں کی بولی سمجھنے والاطوطا بیچ رہا ہوں ۔ ہم اس ضمن
میں جماعت اسلامی کے ان اداروں کا ذکر بھی کرسکتے ہیں جنہیں بانی جماعت شیخ ابو الا
علیٰ مودودیؒ نے دین کی بقا کی بنیاد قرار دیا تھا۔ ان کے پیشروؤں نےبعد میں ان اداروں
کی حیثیت یوں بگاڑ ی کہ ان کے کاموں کے ساتھ نام بھی بدلتے چلے گئے۔ ہمیں یاد آتا ہے
دربھنگہ کا درسگاہ اسلامی ،جسے اسلامی تعلیم کے لئے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا
مگر دنیا کی آمیز ش نے اس سے وہ خصوصیت چھین لی جو درسگاہ اسلامی کی خاص پہچان تھی۔
بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ درسگاہ اسلامی کا نام اس کے دروازے سے کھرچ دیا گیا اور
اس کا انگریزی نام ‘‘یونیور سل اکیڈمی’’ کنداں کردیا گیا۔
ہندوستان میں مدارس کی اہمیت
وضرورت کے حوالے سے مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ان مدارس کو ان
کی حالت پر چھوڑ دو، اگر اس میں تغیر وتبدیلی لاکر اس کی ہیئت وصورت بدل دی گئی تو
اسلام کا ہندوستان میں بھی وہی حشر ہوگا جو میں یوروپ وامریکہ اور اسپین میں دیکھ آیا
ہوں ۔ یہ بات ہمیشہ ملحوظ نظر رہنی چاہئے کہ مدارس کے قیام کا مقصد دنیا بالکل بھی
نہیں ہے، بلکہ ان اداروں کی حیثیت اس پاسبان کی ہے جو پوری رعایا کے سوجانے کے بعد
اس کی رکھوالی میں اپنی آنکھیں جلاتا رہتا ہے۔ تجربات ومشاہدات اس بات کے شاہد ہیں
کہ سرکاری اداروں میں اسلامیات پڑھنے والےطلبہ نے قابلیت تو پیدا ضرور کرلی، غرور علم
میں انہوں نے دفتر کے دفتر سیاہ کردیئے اور دنیا کے کلیجے پر اپنے علم کا سکّہ جمانے
پر ان کے قلم کو داد عیش بھی ملی ،مگر مساجد آباد کرنے والے ان اداروں سے شاید ہی کبھی
پیدا ہوئے ۔کالج سے اسلامیات کا درس لینے والے اپنے قلم کے زور پر منبع علم کہلانے
میں کامیاب ہوگئے مگر اسلام کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے والوں کی صف میں وہ کہیں بھی
نظر نہیں آئے ۔ جب کبھی اسلام اور حکومت کے درمیان کسی مذہبی معاملہ پر معرکہ آر ائی
کی نوبت آئی، سرکاری کالج کے اسلامی تربیت یافتہ حکومت کے موقف کی تائید کرنے والوں
کی صف میں پیش پیش رہے۔ اس کے برعکس مدارس کے یہی بوریا نشیں اپنی بضاعتی اور کسمپرسی
کے باوجود پیٹ پر پتھر باندھ کر سر بکف اسلام کی تعلیم کو سربلند رکھنے کے لئے مصائب
سے نبرد آزما رہے۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ
جہاں جہاں بھی دینی مدارس سرکار کے اثر ورسوخ میں آئے وہاں سے دین خاموشی سے رخصت ہوگیا
۔ ان ادارو ں میں نہ دین کی کوئی رمق باقی رہی ، نہ اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی زندگی
کھپانے والوں کی جماعت ۔سچر کمیٹی والوں کو شاید اس بات کا پتہ نہ ہو کہ یہ چار فیصد
بچے جو دینی مدارس میں قال اللہ اور قال الرسول کا درس لے رہے ہیں یہ ہمارے معاشرے
کی نگاہ میں آسمان کے فرشتوں سے بھی زیادہ محترم اور مقدس ہیں۔ ہم انہیں سرکار کی تحویل
میں دے کر اپنے معاشرے کو دین سے جدا کر دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔تجربات شاہد
ہیں کہ جہاں جہاں بورڈ کے مدارس قائم ہیں ، ان سے ملحق مدارس میں علم اور دین کا تصور
پیسوں کی بنیاد پر علم سے کوڑے سماج سے نکالے ہوئے ان افراد کا قبضہ ہوگیا، جنہیں دین
و ایمان ،کلمہ اور قرآن سے زیادہ متاع دنیا عزیز تھی۔ اس وقت ہندوستان کی تقریباً
8ریاستوں میں سرکار کے زیر انتظام مدارس بورڈ
کا م کررہے ہیں مگر آپ خود مشاہد ہ کرلیجئے ان مدارس میں اہل اللہ اور دین اسلام کی
سربلندی کے لئے گڑھنے اور تڑپنے والوں کی مسند یں آراستہ ہیں یا اپنی دنیا سجانے والوں
کی؟جن لوگوں کو مدارس بورڈ کے مخالفین پر یہ
اعتراض ہے کہ ان لوگوں کے اختلاف کی وجہ مدارس کے چندے میں خرد برد کا انکشاف ہوجانے
کا خوف ہے ، انہیں جان لینا چاہئے کہ یہ دینی ادارے سرکاری مدارس کے خرد برد کے مقابلے
میں آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہوسکتے۔اتر پردیش سے بنگال تک کا سفر کر لیجئے ۔سیکڑوں
بورڈ کے مدارس ایسے ہیں جہاں صدر مدرس سے لے کر ایک ادنیٰ ملازم تک وہی ہوسکتا ہے جو
مدرسہ کی کمیٹی کے ذمہ داروں کا عزیز واقارب ہو۔ اس کے برعکس ان مدارس میں جو سرکار
کی مداخلت سے آزاد ہیں وہاں منصب کے لئے تو اقربا کو فوقیت ہوسکتی ہے مگر تعلیم کے
لئے رشتہ داریاں نہیں دیکھی جاتیں ۔ وہاں انہیں افراد کو مواقع ملتے ہیں جن کے اندر
دین کاپختہ علم اور پڑھانے کا عملی تجربہ ہو۔ مگر سرکار کی تحویل میں ج انے کے بعد
پڑھانے والوں میں صلاحیتیں نہیں دیکھی جائیں گی وہاں تو پیسوں کی بنیاد پر جاہلوں کی
کھیپ مدارس میں داخل کردی جائیں گی ۔لہٰذا حکومت کو مدارس کے سلسلے میں کوئی بھی قدم
اٹھانے سے پہلے صلاح ومشورہ کے لئے مدارس کے ان بوریاں نشینوں کو دعوت دینی چاہئے جن
کی زندگی کا مقصد دین کی سربلندی ہے نہ کہ نام نہاد مسلم ممبران پارلیمنٹ کو جنہیں
یہ بھی معلوم نہیں کہ مدارس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟
قابل غور ہے کہ جو کانگریس مسلمانوں کا حق چھین لینے میں یقین
رکھتی ہو وہ مسلمانوں پر اپنے مفاد کے علاوہ کیانوازش کرسکتی ہے ؟اگر کپل سبل یا کانگریس
کے دیگر لیڈران کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے حقیقی ہمدردی ہے تو انہیں وہ ادارے مسلمانوں
کے حوالے کردینے چاہئیں جو کانگریس نے بدقسمتی سے مسلمانوں سے چھین لیا ہے۔ہم بات کررہے
ہیں علی گڑھ مسلم یونیور سٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کی ۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ
جو کانگریس ہماری بنی بنائی درسگاہ کو ظلماً چھین لیتی ہو وہ ہمیں دے کر خوشی کیسے
محسو س کرے گی ۔لہٰذا مدرسہ بورڈ کے پروپیگنڈے کو سیاسی منفعت کے حصول سے زیادہ کوئی
نام نہیں دیا جاسکتا ۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/formation-central-madrasa-board-organized/d/1918