مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
پس تقسیم ترکہ میں حصص شرعی مردوں کی فضیلت کا ثبوت نہیں بلکہ عورتوں
کی فضیلت کی دلیل ہیں۔ ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا ۔ آدم کو پہلے
پیدا کرنے کی بنیاد پر جو دلیل قائم کی گئی ہے وہ اس قسم کی بات ہے جیسے بچے کھسیا
نے ہوکر باتیں کرتےہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا وندتعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ عورت
ایک دم بھی بے خدمت گزار کے رہنے کی زحمت اٹھائے ۔ اس لئے اس کے آرام کے لئے سب سے
اول آدم کو پیدا کیا پھر اس کی بیوی کو۔
اگر تحقیق پوچھو تو یہ عقیدہ
کہ پہلے آدم پیدا ہوئے۔ پھر حواّ نصرانیوں او ریہودیوں کا عقیدہ ہے۔ مذہب اسلام میں
اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے ۔قرآن مجید سے آدم اور اس کے جوڑے کے پیدائش میں کوئی تقدم
و تاخر ثابت نہیں ہے۔ مردوں کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں کا نکاح جائز ہونا اور اس
کا عکس جائز نہ ہونا محض غلط بیانی اور تحکم کی بات ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ الفاظ کی
پیروی پر مرتےہیں اور بجائے اس کے معنی سخن اورحقیقت مراد الہٰی تک پے لے جائیں اصطلاحات
کی بحث پسند کرتے اور مخالف کو ساکت کردینا غایت مناظرہ سمجھتے ہیں ۔ لوگو ں نے قرآن
مجید میں پڑھا کہ فانکحوا ماطاب لکم من النسا
مثنیٰ وثلاث ورباع او ر خوش ہوگئے کہ قرآن مجید میں چار بیبیاں تک نکاح میں لانے کی اجازت صریح موجود ہے۔ حالانکہ
اگر ذرا و تعمق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو قرآن
مجید سے کوئی اس قسم کی صریح اجازت نہیں نکلتی بلکہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ
نکاح کرنا بالکل جائزثابت ہوتا ہے اور کاس کا مرتکب حرام کاری ٹھہر تا ہے۔
اولا اس آیت میں سخت اجمال
ہے ۔ اس حکم خداوندی سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ چار عورتیں اس طرح نکاح پر جائز ہیں کہ ایک وقت میں ان سے نکاح لیا جائے ۔ یا اس طرح
کہ ایک کے مرنے کے بعد دوسری ہو اور دوسری کے مرنے کے بعد تیسرا نکاح اور تیسری کے
مرنے کے بعد چوتھا اور چوتھے نکاح کے بعد نکاح کی کلی ممانعت ہو۔ یا یہ مراد الہی ہوکہ
اگر اتفاقاً کسی حالت صحت جسمی کے نقص سے بیوی فرائض زوجیت کے پورا کرنے کے قابل نہ
رہے تو دوسرا نکاح اور اس کے معذور ہونے پر تیسرا نکاح۔ علی بذا القیاس نکاح تک جائز
رکھے گئے ہوں یا شاید یہ مقصود ہو کہ پہلی بی بی کو طلاق دے کر دوسری اور دوسری کو
طلاق دے کر تیسری اور تیسری کو طلاق دے کر
چوتھی بیوی سے نکاح کیا جاسکتاہے اس سے زیادہ نکاح جائز نہیں ہیں۔ یا شاید مقصو د قرآنی
یہ ہوکر ازدواج ثانی زوجہ اول کی یا اس کے عزیزوں کی رضا مندی کی شرط سے عمل میں آنا
چاہئے ۔ چونکہ آیت مذکورہ صدر میں کوئی امر ایسا نہیں جس سے ان مختلف معانی میں سے
کوئی معنی واحد یا التصریح ہوسکیں اس لئے ہم اس آیت کو مجمل قرار دیتے ہیں جو مفید
قطعیت نہیں ہوسکتی ۔ اور بدینو جہ وہ کسی حکم شرعی کے لئے نص نہیں ہے۔ ہمارے علما اس
کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر ہمیں یقین ہے کہ اغلب احتمال یہ ہے کہ پہلی بیوی اور
اس کے اقربا کی رضا مندی شرط ہے۔ اس یقین کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل
ہمارے لئے کافی دلیل ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے جس کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ حضرت علی نے باوجود موجودگی
حضرت فاطمہ کے ارادہ کیا تھا کہ ابوجہل کی لڑکی سے جس نے اسلام قبول کرلیا تھا نکاح
کرلیں۔چنانچہ اس لڑکی کے رشتہ داروں نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر
کی اجازت طلب کی۔ آنخصرت کو بہت غصہ آیا اور آپ نے منبر پر بیٹھ کر خطبہ پڑھا جس
میں بیان کیا کہ یہ لوگ مجھ سے اجازت چاہتے ہیں کہ میری بیٹی کے ہوتے کسی کواپنی نکاح
میں دیں سو میں نہیں اجازت دیتا۔ نہیں اجازت دیتا نہیں اجازت دیتا ۔ ہاں علی کو ایسا
ہی کرنا منظور ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دے اور دوسری بیوی کر لے یہ میری لخت جگر
ہے ۔ جو اس سے برائی کرے گا وہ مجھ سے برائی کرے گا جو اس کو ستائے گا وہ مجھ کو ستائے
گا ۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے حکم قرآنی سے یہ سمجھا تھا کہ نکاح
ثانی کےلئےاجازت از قسم مذکورہ بالا حاصل کرنی ضروری ہے۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ
وسلم کے انکار شدید سے ثابت ہوتا ہے کہ اجازت دینا نہ دینا فریق ثانی کی اپنی خوشی
پر منحصر ہے اگر حکم الٰہی بغیر رضا مندی زوجہ اول نکاح ثانی کی اجازت دتیا تو جناب
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل معاذ اللہ خلاف حکم خداوندی تعالیٰ ٹھہر ےگا
۔علاوہ ازیں ہم باب النکاح میں ثابت کریں گے ہمارے علما محدثین نے جائز رکھا ہے کہ
بروقت نکاح عورت یہ شرط کرلے کہ شوہر نکاح ثانی نہیں کرے گا۔ اس شرط کا جواز خود ظاہر
کرتا ہے کہ دوسرانکاح زوجہ اول کی رضا مندی پر موقوف پر ہے۔ اگر یہ رضا مندی شرط نہ
ہوتی تو وہ وقت نکاح بھی ایسی شرط ٹھہرانی جائز نہ ہوتی۔ اور نہ وہ بعد نکاح کے شرعاً
واجب النفاذ ہوتی۔
پس قرآن مجید سے کوئی اجازت بالعموم چار نکاحوں کی جس طرح
لوگوں نے سمجھ رکھا ہے نہیں نکلتی ۔بلکہ مسئلہ عام نکاح کے باب میں قرآن مجید کا بالکل
سکوت ثابت ہوتا ہے۔
ثانیا اس آیت میں صاف عدل
کی سخت اور ناممکن التعمیل شرط لگائی گئی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر خوف ہو کہ عدل نہ
ہوسکو گے تو صرف ایک نکاح لازم ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عدل میں کون کون سے امور داخل ہیں اور ا نسان سے عدل کا
ہونا ممکن ہے یا نہیں۔ قائلین تواز دواج نان ونفقہ ودیگر مصارف ومکان سکونت وشب باشی
کی نوبت میں مساوات مطلوب کے مدعی ہیں او رہم ان امور میں محبت قلبی و ہمدردی بھی جو
اصل اصول نکاح ہے داخل ہیں۔ ہم اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ اس قسم کا عدل انسان سے ناممکن
ہے۔ ہمارے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جو امر قابل تعمیل ہی نہ ہواس کے جواز کے ذکر
سے کیا فائدہ ملتا ہے اور اگر کچھ فائدہ نہیں تو حکم الہٰی لغو ٹھہرتا ہے۔ ہمارا جواب
یہ ہے کہ نکاح کی اصلی غرض یہ ہے کہ انسان اپنے لئے تمام عمر کے واسطے اپنا ایک سچا
ہمدرد ومونس و غمگسار پیدا کرے جو اس کے ساتھ رنج وراحت میں شریک ہونے والا اور دنیا
کے بکھیڑ وں سے فارغ ہونے کے بعد اس کی تسکین قلب کا ذریعہ ہو۔ (جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
URL: