مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
ثانیاً عورت کی خلقت مقتضی
اس امر کی ہے کہ کوئی ایسا دشوار کام جس کے سر انجام کے لئے سالہا سال کی علی الاتصال
محنت درکار ہو اور گھر بار اور اہل وعیال سے کلی
علیحدگی ضرور ہو عورت کے فرائض میں داخل نہ کیا جائے۔ اس قسم کی خدمت گزاریوں
سے عورتوں کو بری رکھنا ان کی علوشان کوجتلانا اور اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ گومردعورتوں
سے راحت و آرام پانے کے لئے ہیں اور عورتیں مردوں سے ۔ الا عورتوں کا آرام و آسائش
خدائے تعالیٰ نے زیادہ مقدم سمجھا ۔
ثالثاً ہم ہر گز کل مردوں
او رکل عورتوں میں بالعموم مساوات کے قائل نہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ مرد او
ر عورت میں کوئی فرق ذاتی نہیں ہے۔ صرف عارضی اسباب سے کبھی بعض عورت بعض عورت پر او
رکبھی بعض مرد بعض مردوں پر او رکبھی بعض مرد بعض عورتوں پر او رکبھی بعض عورتیں بعض
مردو ں پر سبقت وفوقیت لے جاتی ہیں۔ پس چند افراد کی فوقیت سے ایک پورے طبقہ کی فوقیت
دوسرے پورے طبقہ پر لازم نہیں آتی ۔غایت مافی الباب یہ ہوگا کہ جس طرح ان مردوں کی
جو نبی ہوئے فوقیت یا فضیلت عورتوں پر بھی ثابت ہوگی اس لئے اس دلیل سے بھی غیر نبی
مردوں اور عورت میں کوئی ایسا اصلی فرق ثابت نہ ہو ا جو کل طبقہ ذکور کی فضیلت کے ثبوت
میں ذرا بھی کچھ مدد دے سکتا ۔ کیا جو عزت حضرت آمنہ کو حاصل ہے کہ ان کے شکم اور
کنا ر عاطفت میں فخر عالم وعالمیان نے پرورش پائی یا جو فضیلت ہر نبی کی والدہ ماجدہ
کو اس امر سے حاصل ہوئی کہ اس کے شکم سے نبی پیدا ہوا اور دنیا بھر کی تمام عورت کو
حاصل ہوسکتی ہے ۔ ہر گز نہیں۔ یہ عزت جن خوش نصیب عورتوں کے لئے روز اول سے مقرر کی
گئی تھی وہ انہیں ہی ملی۔ کیا ہوا کہ دنیا کی اور عورتیں بھی اسی طبقہ اناث سے ہیں
جس میں سے وہ تھیں۔اسی طرح کیا یہ صحیح ہوسکتا ہے کہ جو عزت انبیا کو حضرت احدیت سے
عطا ہوئی اس عزت کے کسی حصہ کو دنیا کے تمام مرد خاص اپنی طرف منسوب کریں محض اس وجہ
سے کہ ہماری صورت شکل ناک کان بھی نبیوں کے سے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ کار
پاکاں راقیاس ازخود مگیر ۔ورنشتن گرچہ ماندشیر وشیر۔
دلائل نقلیہ کا جواب:۔
دلائل عقلیہ مذکورہ بالا کے
بعد جو چند نقلی اقوال بیان کئے جاتے ہیں ان کی یا کچھ اصلیت ہی نہیں یا ان سے وہ مطلب
مستفاد نہیں ہوتا جو ان اقوال سے سندلانے والے نکالنا چاہتے ہیں۔
سب سے بڑا ثبوت جو ان کے پاس
مردوں کی فضیلت کاقرآن مجید سے نکل سکتا ہے وہ آیت ہے جس میں فرمایا ہے کہ الر جال
قوامون علی النسا بما فصل اللہ بعضہم علی بعض وبما انفقو من امو الہم ۔ جس کا ترجمہ
یوں کرتے ہیں کہ مرد حاکم ہیں عورتوں پر کیو نکہ اللہ ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت
دی ہے اور انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسر لکھتے ہیں کہ
مردوں میں دوقسم کی فضیلتیں ہیں۔ ایک وہ جو قوت نظریہ اور قوت عملیہ کے قوی ہونے کی
وجہ سے ان کو بالذات حاصل ہے۔ دوسری یہ فضیلت کہ مرد عورتوں کو مصارف مثلا روٹی کپڑا
وغیرہ دیتے ہیں۔مگر ہم کو اس تفسیر کے ساتھ اتفاق نہیں ہے کیو نکہ اولا تو ‘‘قوام’’
کا ترجمہ بلفظ حاکم کرنا ہماری رائے صحیح نہیں ہے اور سوائے مولانا شاہ عبدالقادر کے
کسی نے یہ ترجمہ اختیار نہیں کیا۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے ‘‘قوام’’ کا ترجمہ قیام رکھنے
والا کیا ہے۔ ان کے والد ماجد شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ نے تدبیر کا ر کنندہ ترجمہ
کیا ہے۔ایک اور فارسی ترجمہ میں جو سعدی کے ترجمہ کے نام سے مشہور ہے‘‘قوام’’ کا ترجمہ
کارگزار کیا گیا ہے ۔ثانیاً اس ترجمہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بعض کو بعض پرفضیلت دینے
کا کیا مطلب اگر پہلے بعض سے بعض مرد مراد ہیں اور دوسرے بعض سے بعض عورتیں تو سب مردوں
کی فضیلت سب عورتوں پر ثابت نہیں ہے اگر دونوں جگہ مردوں کی طرف اشارہ ہے تو اس بات
کے کہنے سے کہ بعض مرد بعض مردوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔مردوں کی فضلیت عورتوں پر کس طرح
ثابت ہوسکتی ہے ۔ثالثاً اگر ‘‘بعضہم ’’ میں ضمیر ‘‘بم’’ انسانوں کی طرف راجع سمجھیں
او رپہلے بعض سے اسی طرح کل عورتیں مراد ہوں تب بھی اس آیت سے مردوں کی کوئی اصلی
وخلقی وفطری فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیو نکہ اول اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس امر
میں فضیلت ہے۔ دوم اگر یہ ہی سمجھا جاوے کے
آیت کے پہلے حصہ میں قوت نظری اور عملی کی فضیلت مراد ہے اور حصہ موخر میں نان ونفقہ
دینے کی فضیلت مراد ہے تو تب یہ اعتراض ہوگا کہ یہ فضیلت اس خلقی فرق پر جو عورت کو
مرد سے متمیز کرتا ہے مبنی نہیں ہے۔ اس لئے ہم اس وجہ کو وجوہ فضیلت میں داخل نہیں
رکھ سکتے۔ مرد کی فضلیت عورت پر بلحاظ علم اکتسابی یا سخاوت یا دیگر صفات کے جو تعلیم
وتربیت سے پیدا ہوتی ہیں۔ دوسری چیز ہے اور مرد کی فضیلت عورت پر بلحاظ مرد ہونے کے
دوسری شے ہے۔ پہلا امر اکتسابی ہے اور دوسرا فطری ۔ بہت سی عورتیں اسی نکلیں گی جن
میں یہ اکتسابی فضائل نظریہ عملیہ مردوں سے زیادہ ہوں گے اور ایسی صورت میں ان عورتوں
کو مردوں پر فضیلت ہوگی۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ابوجہل کی قوت نظریہ عملیہ حضرت خاتون
جنت خدیجۃ الکبریٰ سے بڑھ کر تھی ۔ یا ابو لہب میں یہ صفات حضرت فاطمہ سے بدرجہ اتم
تھیں ۔ یا تمام مرد یا ان کا حصہ کثیر عرفان الہٰی اور خداشناسی کی صفت میں رابعہ بصری
سے فوقیت وفضیلت رکھتا ہے ۔ علیٰ بذالقیاس دیکھو باپ بیٹوں کو گذارہ دیتا ہے ۔ آقا
نوکر کو خرچ دیتا ہے پھر کیا اس سے یہ نیتجہ نکال سکتے ہیں کہ آقا کو نوکر پر ذاتی
فضیلت ہے ۔ہر گز نہیں اگر اتفاق زمانہ سے آقا نوکر اور نوکر اس کا آقا ہوجائے تو
یہ فضیلت بالکل برعکس ہوجائے گی۔ حالانکہ ایسا ہونا ذاتی ہونے کے لوازم کے خلاف ہے
۔پس اس آیت سے مردوں کی با لکل فضلیت ثابت نہیں ہوتی۔
آیت مذکورہ کے الفاظ نہایت
صریح وصاف ہیں ۔ قوم مبالغہ کا صیغہ ہے جو شخص بوجہ انتظام کاروبارو اہتمام معاملات
بیٹھنے کی مہلت نہ پاتا ہو اور اس کے زیادہ تر اوقات قیام میں گزرتے ہوں وہ قوام کہلاتا
ہے چونکہ مردوں کو حصول معیشت کے لئے دور دور
ملکوں میں پھرنا ۔۔(جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
URL: