مولوی ممتاز علی کی مائیہ ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
بایں ہمہ کسی سورما سے سورما کی بھی ایسی لاٹھی نہ تھی کہ بلا مدد دیگر ہم جنسوں کے دنیا بھر کے بھینوں کو گھیر لاتی جس زمانہ میں انسان کو سلطنت یا سلطنت کے مشابہ کسی قسم کیے ادنیٰ درجہ کی حکومت کرنے کا سلیقہ حاصل ہوا تو اس وقت تک انسان نے محض وحشیانہ منفرد زندگی سےنکل کر اس قدر ترقی کرلی تھی کہ جماعت مدنی باقاعدہ طور پر قائم ہوگئی تھی اور اس کے حفظ کے قواعد منضبط ہوگئے تھے یا یوں کہو کہ لوگ ان کو سمجھنے لگے تھے اور ان کی پابندی پر لوگوں کو مجبور کرنے لگے تھے۔ گویا کہ حاکم وقت صرف اپنی قوت بازو سے حکومت نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے وفادار دوستوں اور جاں نثار ساتھیوں کے بھروسہ پر حکومت کرتا تھا۔
ہرقسم کی حکومت و سلطنت کا آج تک یہی اصول چلاآتا ہے ۔ اس قسم کی حکومت کی تخصیص مردوں سے ہونی کچھ معنی نہیں رکھتی اسی لئے باوجود اس امر کے کہ مردو کو ہمیشہ اپنی برتری کا خیال رہا ہے۔ اور استعمال اختیارات کے باب میں مردوں نے ہمیشہ عورتوں کے برخلاف اپنے تعصب کا اظہار نہایت اصرار کے ساتھ کیا ہے مگر پھر بھی مردوں نے ہی اس قسم کی حکومت میں اپنی تخصیص نہیں رکھی اور ہر ملک اور ہر قوم میں کسی نہ کسی زمانہ میں عنان حکومت عورت کے ہاتھ میں آئی ہے اور بعض عورتوں نے اس سلیقہ سے فرماں روائی کی ہے کہ طبقہ ذکور میں ان کے پلہ کا حکمران ملنا مشکل ہے۔ ہندوستان میں رضیہ بیگم کی سلطنت کازمانہ اگر چہ بہت مختصر تھا مگر پھر بھی اپنے امن وامان کے لحاظ سے بہت سے بادشاہوں کے زمانوں سے بہتر تھا۔ جہانگیر کا عہد حقیقت میں نور جہاں بیگم کا عہد تھا اور اپنے بے نظیر امن امان و انتظامات ملکی کے لحاظ سے تاریخ ہندوستان میں سنہری حرفوں سے چمکتا رہے گا۔ خود اس زمانہ پر غور کرنی چاہئے کہ جناب ملکہ معظمہ قیصر ہند کس خوبی و حسن انتظام اور امن وہ امان کے ساتھ کشور کشائی اور داد کستری رہی ہیں کیا اب بھی کہا جاسکتا ہے کہ سلطنت مردوں ہی کا حق ہے؟
علاوہ ازیں یہ خیال کہ سلطنت زور بازو کا نتیجہ ہے محض غلط خیال ہے۔ علم کی ترقی او رتہذیب کی اشاعت او رہمارے ملک پر سلطنت برطانیہ کی حکومت نے خوب سمجھا دیا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر طاقت علم کی ہے۔ او رعلم والے ہی خواہ وہ مرد ہوں خواہ عورت جاہلوں پر حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اصلی سچی فضیلت کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔پس ہمیں امید ہے کہ آئند ہ مرد اپنے چوڑے چکلے ڈیل ڈول اور سخت ہڈیوں پر فخر کرکے عورتوں پر فضیلت ثابت کرنے کا نام نہ لیں گے بلکہ کسی عمدہ معقول دلیل کی تلاش کریں گے۔
دلیل دوم محض دعویٰ بلا دلیل ہے اگر چہ تشریح دان نان زمانہ حا ل نے نہایت باریک فرق مرد اور عورت کی ساخت جسمانی میں پایا ہے اور عورتوں کے جسم کی بعض استخوانوں کو مردوں کے استخوانوں کی نسبت کسی قدر نازک بتایا ہے مگر اس قسم کا کوئی فرق جرم ودماغ اور ان مقامات دماغ کی نشو ونما میں جن پر خاص خاص قویٰ دماغی کا مدار ہے صاف طور پر آج تک نہیں پایا جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس حالت میں کہ باوجود اس کی تمدنی حالت نے عورتوں کیے جسمانی طاقت کو مردوں کی جسمانی طاقتوں سے بہت ادنیٰ کردیا ہے یہاں تک کہ ان کی ہڈیوں کے مقدار میں بھی فرق محسوس ہونے لگا ہے تاہم ان کے دماغ مردوں کے دماغوں سے کسی طرح کمتر نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اگر عورتوں کی جسمانی طاقتوں کو ان کی تمدنی حالت زیادہ نشو ونما وتکیل حاصل کرنے دیتی تو غالباً بلکہ یقیناً ان کی دماغی طاقتیں مردوں کی دماغی طاقتوں کی نسبت زیادہ شگفتہ ہوتیں۔
پہلی دلیل کی طرح اس دلیل میں یہ بھی بڑا بھاری سقم ہے کہ اس فرق کو جو عارضی اسباب سے پیدا ہوا ہے خلقی فرق سمجھا جاتا ہے ۔ حالانکہ بالفرض محال اگر عورتوں کے دماغ مردوں کے دماغوں کی نسبت علم تشریح کے رو سے کسی قدر ناقص بھی ثابت ہوں تب بھی یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ یہ لازمی نتیجہ ہے موجودہ تمدنی حالت عورت کا جن کے رو سے ان کی صحت جسمانی کی طرف سے کمال بے توجہی کی جاتی ہے ۔ اور ان کے نظام عصبی پر ایسے مضر اثر ڈالے جاتے ہیں جن سے ان کے قویٰ دماغی کے مختل ہونے کا اور ان کو بے صبر جلد ناز متلون مزاج زو درنج ۔ زود اعتقاد اور سخیف الرائے بنادنے کا ہمیشہ اندیشہ رہتا ہے۔
جس حالت میں مردوں اور عورتوں کو مساوی سطح پر نہیں رکھا گیا اور جس حالت میں ترقی علم کے میدان میں ان کی دوڑ ایک مقام سے شروع نہیں ہوئی تو مردوں کی سبقت کیو نکر اصلی سبقت قرار پاسکتی ہے۔ کیا اس بنا پر کہ زورلو قوم کے لوگ وحشیانہ پن اور جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔او رملک انگلستان کے لوگ علوم حکمیہ کی ترقی میں حکمائے یونان کو مات کررہے ہیں یہ نتیجہ نکالنا جائز ہوگا کہ انگلستان کے انسان او رزولو کے دماغ اورقویٰ دماغی میں کوئی فرق محسو س ہو بھی تو بھی کوئی نتیجہ عورتوں کے خلاف نہیں نکلتا ۔ او رکچھ شک نہیں کہ جب ہزار ہا صدیوں تک نسلا بعد نسل عورتوں کے دماغ کو بیکار رکھنے کے بعد بھی ہم ان میں مردوں کی نسبت کسی قسم کی کمی نہیں پاتے تو ضرور اس سے عورتوں کا قویٰ دماغی میں مردوں سے اعلیٰ و برتر ہونا بخوبی ثابت ہے۔
دلیل سوم میں جو مردوں کی فضیلت اس بنا پر ثابت کی ہے کہ فرقہ اثاث میں سے کوئی نبی نہیں ہوا اس کے تین جواب ہیں اولا اہل اسلام کا اعتقاد ہے کہ خدائے تعالیٰ نے خلقت کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں بھیجے مگر ہماری کتابوں میں صرف دس پندرہ نیبوں کا حال درج ہے اور تمام عہد عتیق کے انبیا بھی تعداد میں شاید تیس سے زیادہ نہ ہوں گے پس ظاہر ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار نوسو ستر انبیا کے حالات سے ہم محض ناواقف ہیں۔
اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا وہ سب مرد تھے یا سب عورتیں تھیں۔ یا کچھ مرد اور عورتیں صرف چند افراد کا حال معلوم کر کے ایسی کثیر تعداد کی نسبت حکم کلی لگا دینا یا کوئی قیاس ظنی قائم کرنا محض تحکم ہے۔ اورجب تک ہم کو سب انبیا کا حال معلوم نہ ہولے تب تک اس معاملہ میں لب کشائی کرنا مناسب نہیں ہے۔(جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
URL for this article: