New Age Islam
Thu Sep 19 2024, 05:15 AM

Urdu Section ( 24 Nov 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

False Authority of Men over Women: Part 19 عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت:قسط 19

حقو ق النسواں مولوی ممتاز علی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1898میں لکھی گئی تھی۔ مولوی ممتاز علی علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے ہمعصر تھے۔ حقوق النسواں اسلام میں عورتوں کے حقو ق پہلی مستند تصنیف ہے۔ مولوی ممتاز علی نے نہایت مدلل طریقے سے قرآنی آیات اور مستند  احادیث کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ مردوں کی عورتوں پرنام نہاد برتری اور فضیلت اسلام یا قرآن کا تصور نہیں ، بلکہ مفسرین کےذہنی رویہ کا نتیجہ ہے ، جو مرد انہ اشاونیت (Chauvanism)کے شکار تھے۔ اس کتاب کی اشاعت نے آج سے 111سال پہلے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا تھا۔ کچھ نے اس کتاب کی سخت مخالفت کی لیکن بہت سے علما نے اس تصنیف کا خیر مقدم کیا اورکچھ نے خاموشی ہی میں بہتری سمجھی روز نامہ ‘‘صحافت’’ ممبئی اسے اس لئے سلسلہ وار شائع کررہا ہے کہ ایک صدی بعد بھی یہ تصنیف اور اس کے مضامین آج کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ امید کی یہ مضامین بغور پڑھے جائیں گے اور اس عظیم الشان تصنیف کا شایان شان خیر مقدم کیا جائے گا۔۔۔۔۔ایڈیٹر

کچھ ضروری نہیں ہے اور ذرا ذرا سی چیز کے لئے گھر والوں کو گھڑی گھڑی اس طرح تکلیف دینا کیا حاصل بہتر ہےکہ گھر کی عورتیں جس حال میں ہیں اسی میں رہیں تم پردہ کے پیچھے سے جو چیزمانگنی ہے مانگ لو۔ عموماً ہر شخص کو یہ امر پیش آتا ہے کہ گرمی کی شدت کے وقت یا کسی کام میں حد سے زیادہ مصروفیت کی وجہ سے گھر میں عورتوں کو یہ خیال نہیں رہتا کہ ان کے سر پر ٹھیک طور پر دوپٹہ ہے یا نہیں۔ یا بوجہ علالت یا کسی اور باعث سے وہ ایسی آزادگی کے ساتھ اپنے گھر میں لیٹی ہوئی ہیں کہ غیر کے روبرو وہ آزاد گی جائز نہیں ہوسکتی ایسی صورتوں میں اگر مردانہ مکان میں چند آدمی جمع ہوں جن کےلئے کبھی پان کے واسطے او رکبھی پانی کے واسطے اور کبھی حقہ یا کسی اورشے کے واسطے کسی مرد کو اندر آنے کی ضرورت پڑے تو اب کس قدر دقت ہے اگر ہر دفعہ وہ شخص اندر آنے کی اجازت طلب کرے اور ہر بار گھر کی سب عورتیں مودبانہ قرینہ سے بیٹھیں اس سےبہتر ہے کہ وہ پردہ کے باہر سے جو کچھ مانگنا ہو مانگ لے۔

یہا ں تک جو کچھ ہم نے لکھا وہ اس تفسیر کی بنا پر تھا جوہم خود الفاظ قرآن مجید کے سمجھتے ہیں ۔ اب یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے علما فقہ جن کا خاص کام قرآن مجید سے احکام کا استنباط کرنا ہے اس باب میں کیا لکھتے ہیں ۔فتاویٰ عالمگیری میں پردہ کی بحث کونہایت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اس کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اول مرد کا مردکو دیکھنا۔ دوم عورت کا عورت کو دیکھنا ۔سوم عورت کو مرد کو دیکھنا ۔چہارم مرد کا عورت کو دیکھنا پہلی تین صورتوں میں لکھا ہے  کہ جس قدر حصہ بدن مابین ناف وزانوں کے ہے اس کو دیکھنا ناجائز ہے ۔ اورصورت چہارم کے پھر چار اقسام کئے ہیں اول مرد کا اپنی بیوی و لونڈی کو دیکھنا ۔ثانی مرد کا اپنی ذوات محارم کو دیکھنا ثالث مرد کااجنبی آزادعورت کو دیکھنا۔ رابع مرد کا غیر لونڈیوں کو دیکھنا ۔ ہم صورت اول و رابع کو بیان کرنا غیرضروری سمجھتے ہیں ۔ صورت ثانی یعنی ذوات محارم کے دیکھنے کی نسبت فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ ذو ات محارم مثلاً ماں بہن وغیرہ کی ظاہری اور باطنی زینت کے مقام کو دیکھنا جائز ہے اور وہ یہ ہیں۔سر ، بال، گردن، سینہ، کان ، بازو، پہونچا،ہتھیلی ، پنڈلی ، پاؤں اور چہرہ ۔

صورت ثال کی نسبت فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے کہ اجنبی عورتوں کی طرف نظر کرنے کے باب میں ہماری یہ رائے ہے کہ ان کی زینت ظاہری کے مقامات یعنی چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔ (ذخیرہ میں اسی طرح لکھا ہے) اور حسن نے ابوحنیفہ سےروایت کی ہے کہ اجنبی عورتوں کے پاؤں کی طرف نظر کرنا بھی جائز ہے۔ اور انہیں سے ایک اور روایت میں یوں ہے کہ ان کے قدموں کی طرف نظر کرنا جائز نہیں ہے اور جامع البرامکہ میں ابو یوسف سے مروی ہے کہ اجنبی عورتوں کی بانہوں کی طرف بھی کسی چیز کے دھونے یا پکانے میں کھلی ہوں نظر کرنا جائز ہے۔ پھر فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ الکا فرۃ کا مسلمۃ ۔یعنی کافر عورت او رمسلمان عورت کا یکساں حکم ہے۔ فتاویٰ قاضی خا ں میں ذوات محارم کی طرف نظر کرنے کے باب میں لکھا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں کہ آدمی اپنی ماں اور بالغ بیٹی اور بہن اور ہرذی محرم کے بال، چھاتی ،سرپستان، بازو، پنڈلی کی طرف نظر کرے ۔مگر اس کی پشت اورشکم اور مابین ناف وزا نو نظر نہ کرے۔

پھر آگے چل کر اسی فتاویٰ میں لکھا ہے کہ جس جس عورت کی طرف نظر کرنا برا نہیں اس کے جسم کو بلا کپڑے مس کرنے میں بھی کچھ مضائقہ نہیں بشرطیکہ مس کرنے میں خواہش بد نہ ہو مگر یہ حکم اجنبی عورت سے متعلق نہیں کیو نکہ ان کے چہرے کو دیکھنا تو جائز ہے مگر چھونا مکروہ ہے۔

ہدایہ میں اس مسئلہ کو یوں لکھا ہے کہ جائز نہیں کہ مرد اجنبی عورت کا بدن سوائے چہرہ اور ہتھیلی کے دیکھے کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عورتیں اپنی زینت بجز اس قدر کے جو کھلی رہتی ہے نہ دکھلاویں ۔علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ کھلی زینت سرمہ اور انگشتری ہیں اور ا ن سے مراد ان کی جگہ ہے یعنی چہرہ اور ہتھیلی جس طرح زینت سے مراد زینت کی جگہ ہے اور اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ مردوں کے ہمراہ دینے لینے وغیرہ معاملات کی حاجت پڑتی ہے ۔ اس لئے یہ نص ہے اس بات پر کہ اجنبی عورت کے پاؤں کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔ اور امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ پاؤں کا دیکھنا بھی جائز ہے کیو نکہ اس میں بھی کچھ نہ کچھ ضرورت ہے اور امام ابو یوسف کا یہ قول ہے کہ اجنبی عورت کی باہوں کو دیکھنا بھی جائز ہے کیو نکہ عادۃ وہ بھی کھلی رہتی ہیں ۔لیکن اگر مرد شہوت سے مامون نہ ہو تو ضرورت کے سوا اجنبی عورت کے چہرہ کو بھی نہ دیکھی ۔

صاحب فتح القدیر نے ہدایہ کے اس استدلال پر جو قول علی و ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا گیا ہے سخت نکتہ چینی کی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ ظاہر ہے کہ اس مقام پر علی اور ابن عباس کا قول نقل کرنے سے یہ مقصود ہے کہ قولہ تعالیٰ الا ماظہر منہا کی تفسیر میں جو ان کا قول ہے اس کے ذریعہ سے اس امر کا استدلال کیا جائے کہ مرد کو اجنبی عورت کا چہرہ اور ہاتھ دیکھنا جائز ہے ۔کیو نکہ اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کے متعدد اقوال ہیں مگر۔(جاری)

بشکریہ :۔ روز نامہ صحافت ، ممبئی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part/d/2133


Loading..

Loading..