مولانا ندیم الواجدی
26-27دسمبر 2009کو اسلامک فقہ ایکڈمی انڈیا اور دارالعلوم وقف دیوبند کے اشتراک سے ایک دورروزہ سمینار دیوبند میں منعقد ہوا، اس سیمینار کا موضوع تھا ‘‘دینی مدارس میں فقہ اسلامی تدریس ،مناہج اور طریقہ کار’’دیوبند اور بیرون دیوبند کے بہت سے اہل علم اوراصحاب قلم نے اس سمینار میں شرکت اور سامعین کے سامنے اپنے خیالات رکھے، ہمارے دینی مدارس میں جن علوم عالیہ کی تعلیم بہ طور خاص دی جاتی ہے ان میں فقہ کا نمبر تیسرا ہے،پہلے نمبر پر قرآن کریم کی تفسیر ہے ، دوسرے نمبر پر علوم حدیث ہیں اور تیسرے نمبر پر فقہ اور فقہ ہے ،مگر یہ ترتیب درجہ بندی کے لحاظ سے ہے، عملی طور پر فقہ کو باقی دونوں علوم پر اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ فقہ کی تعلیم کا سلسلہ تفسیر وحدیث کی تعلیم سے پہلے شروع ہوجاتا ہے اور آخر تک برقرار رہتا ہے ،یہاں تک کہ فیضیلت کے آخری سال میں بھی جس کو دورۂ حدیث کا سال کہتے ہیں حدیث کی جملہ کتابیں فقہی نقطۂ نظر سے پڑھائی جاتی ہے ،سیمینار کا موضوع اگرچہ فقہ کی تدریس تک محدود تھا، مگر کیوںکہ فقہ بھی نصاب تعلیم میں تبدیلی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، کچھ لوگوں نے کھل کر ، کچھ نے دبے لفظوں میںمدارس کے نصاب تعلیام کو عصری نقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیا، مگر کچھ ایسے حضرات بھی تھے جن کی نگاہ میں یہ آٹھ سالہ یا نوسالہ نصاب تعلیم بالکل مکمل ہے اور اس میں کسی تغیر یا تبدیلی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔مدارس کے نصاب میں بتدیلی کی ضرورت پر بحث ومباحثہ کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے، لیکن ابھی تک اس بحث کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بحث کے دوسرے ہیں ،ایک سِراان لوگوں نے تھام رکھا ہے جو اس نصاب کو بالکل ہی فرسودہ اور بے کار سمجھتے ہیں ، ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ اس نصاب کو تبدیلی کے بڑے عمل سے گزارنے کی ضرورت ہے اور یہ بڑا عمل اسی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے جب اس نصاب میں عصری علوم وفنون کی اس حد تک شمولیت ہو کہ مدارس کے فارغین عصری جامعات کے فارغین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر زندگی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں، دوسرا سراان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اس نصاب کو مقدس اور منزل من اللہ سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس میں ادنیٰ سی تبدیلی میں گوارا نہیں کرنا چاہتے بلکہ جو لوگ معمولی معمولی تبدیلیوں کا مشورہ دیتے ہیں ان کو بھی نظرحقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کی ہر تجویز پائے حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں ، ظاہر ہے یہ دونوں ہی نقطہ نظر غلط ہیں، پہلا تو اس لیے اس مدارس کی تعلیم کا مقصد اسلام کی ترویج ، اشاعت اور حفاظت ہے، ان میں وہی علوم پڑھے پڑھائے جاسکتے ہیں جن کے ذریعہ اس مقصد کی تکمیل ہوسکتی ہو ،یونیورسٹیوں میں جن علوم وفنون کی تعلیم دی جاتی ہے وہ مدارس کے مقاصد سے میل نہیں کھاتے ، کیونکہ مدارس کا بنیادی مقصد عالم پیدا کرنا ہے، ڈاکٹر یا انجینئر بنانانہیں ہے، دوسری طرف جو لوگ موجودہ نصاب تعلیم حصول مقاصد کا ذریعہ ہے، اور ذریعہ ہر زمانے میں تبدیلی ہوسکتا ہے ، اور اگر یہ تبدیلی اس حد تک ہو کہ اس تبدیلی کے ذریعہ مقصد رسائی آسان ہوجائے تب تو یہ تبدیلی بہت ضروری ہے۔ یہاں ایک تیسرا نقطۂ نظر بھی ہے، اسے ہم معتدل نقطہ نظر کہہ سکتے ہیں ،اس نقطہ نظر کا حاصل یہ ہے کہ نصاب میں اس حد تک تبدیلی ضرور ہونی چاہئے جو اسے دور حاضر کے تقاضوں کے ساتھ مربوط کرسکے ،علوم وفنون وہی پڑھا ئے جائیں ،مگر نصاب میں شامل کچھ کتابوں پر غور کرلیا جائے ،کچھ کتابیں ہٹادی جائیں، کچھ دوسری کتابیں ان کی جگہ رکھ دی جائیں ، کچھ کتابوں کا اضافہ کردیا جائے، کچھ کتابیں دور حاضر کے اسلوب میں از سرنو مرتب کر کے شامل کی جائیں ،کچھ علوم کا اضافہ کرلیا جائے ،طریقہ تدریس میں بھی طلبہ کے مزاج اور حالات کے اعتبار سے کچھ تبدیلی کی جانی چاہئے۔ یہ معتدل نقطۂ نظر بھی وقتاً فوقتاً پیش کیا جاتا رہا ہے اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ جو لوگ یہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں وہ سب مدارس ہی کے فارغ التحصیل اور مدرسوں کی فضاؤں ہی میں پرورش پائے ہوئے لوگ ہیں، مگر جب جب یہ معتدل نقطہ نظر پیش کیا گیا جمود پسند طبعیتوں پر گراں گزرا۔اس سیمینار میں بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال پیش آئی ، ایک بزرگ عالم دین نے جو اگرچہ تدریسی شعبے سے وابستہ نہیں ہیں مگر علوم دینیہ میں گہری بصیرت کے حامل ہیں بڑے محتاط انداز میں کچھ تغیرات کی تجویز پیش کی، انہوں نے خاص طور پر ابتدائی کتابوں کو عصری اسلوب میں مرتب ومدون کرانے پر زور دیا اور یہ بھی تجویز رکھی کہ مدارس میں تدریس کا جو طریقہ رائج ہے اسے بھی بدلنے کی ضرورت ہے، انہوں نے اپنے تحریری خطاب میں یہ عذر بھی رکھا کہ ان کا مقصد نصاب تعلیم میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا نہیں ہے کیونکہ وہ اسے مفید اور مکمل سمجھتے ہیں ،موصوف کو اس اعتذار کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اسٹیج پر کچھ حضرات ایسے بھی تشریف فرما تھے جنہیں تبدیلی کی بات کسی بھی قیمت پر گوارا نہیں ہوتی، راقم کو کچھ کہنے کا حکم ہواتو اس نے اپنے قدیم موقف کو دہراتے ہوئے عرض کیا کہ ایک طرف تو آپ لوگ نصاب تعلیم کو منزل مقصود –علوم شریعت میں مہارت اور بصیرت تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیتے ہیں ، دوسری طرف ذریعے اور وسیلے کو اصل مقصد قرار دے کر اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں ،حالانکہ ذرائع تو ہر دور میں ، ہر حال میں ضرورت کے وقت تبدیلی کے جاسکتے ہیں ، یہ راستے ہیں منزل نہیں ہیں، اگر منزل تک پہنچنے کا کوئی دوسرا راستہ آسان، مختصر ، آرام دہ اور دلچسپ مل جائے تو دنیا کا کون سا آدمی ہوگا جو اس کے مقابلے میں پیچیدہ ،مشکل ، تکلیف دہ اور پرُ خطر راستہ اختیارکرے گا ۔ جو نصاب تعلیم مدارس میں پڑھا یا جارہا ہے اسے درس نظامی کا نام دیا گیا ہے، لیکن یہ وہ درس نظامی نہیں ہے جو لگ بھگ تین سوسال پہلے ملا نظام الدین سہالویؒ (پیدائش :۱۶۷۷،وفات ۱۷۴۸)نے ترتیب دیا تھا، اس وقت اس نصاب میں منطق اور فلسفے کی کم وبیش ستائیش کتابیں داخل تھیں ،جب کہ حدیث کی صرف دوکتابیں تھیں، آج تبدیلی کے عمل کہ حدیث کی صرف دوکتابیں تھیں، آج تبدیلی کے عمل سے گزرتے گزرتے منطق اور فلسفے کی صرف چند کتابیں باقی رہ گئی ہیں اور حدیث کی تو صرف فضیلت کے آخری سال میں ہی نو بڑی بڑی کتابیں شامل ہیں، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۸۶۶میں دارالعلوم کی تأسیس کے بعد درس نظامی کو اختیار ضرو ر کیا لیکن اس میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں، اگر آپ دارالعلوم کے سن قیام سے آج تک دارالعلوم کی روداردوں میں ،یا نصاب تعلیم کے نقشے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ درس نظامی میں اس قدر تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں کہ اب یہ صرف نام کا درس نظامی رہ گیا ہے اس لیے تبدیلی کی کسی تجویز پر مشتعل ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کے لیے تجاویز پیش کرنے کا سلسلہ برابر جاری ہے، یہ تجاویز قابل عمل ہیں یا نہیں، افادیت اور نافعیت سے بھرپور ہیں یا نہیں ؟ اس طرح کے سوالات پر غور کیا جاسکتا ہے، بلککہ غور کیا جانا چاہئے ،مگر اس طرح کی تجاویز پر ناک بھوں چڑھالینا دانش مندی نہیں ہے اور نہ تجاویز پیش کرنے والوں کو مخالف سمجھنا منصفانہ عمل ہے، اس لیے کہ عموماً اس طرح کی تجویز وہ لوگ پیش کررہے ہیں جو نظام مدارس ہی سے وابستہ ہیں۔ اس سلسلے میں قدیم رنگ کے ممتاز عالم دین، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد رسید، شارح ترمذی ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کا نام قابل ذکر ہے،انہوں نے اپنے طویل تجربات کی روشنی میں یہ بات محسوس کی کہ ہمارے نصاب تعلیم میں تبدیلی ناگزیر ہے، اس سلسلے میں موصوف کا ایک مضمون آج سے تیس پینتیں سال پہلے دارالعلوم بنوری ٹاؤن کراچی سے شائع ہونے والے رسالے ‘‘بینات’’ میں شائع ہوا تھا، اس مضمون کا بڑا چرچا ہوا۔ دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ممتاز عالم دین اور بزرگ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی نے بھی اسے اپنے رسالے ‘‘الفرقان ’’(لکھنؤ)میں چھاپا ،یا د نہیں پڑتا کہ ہم نے یہ مضمون براہ راست پڑھا ،یا الفرقان میں نظر سے گزرا ،ہماری طالب علمی کا دور تھا ،مضمو ن اچھا لگا، ہم نے اسے اپنے دیواری پرچے ‘‘شعور’’ میں شائع کردیا، لیکن کچھ لوگوں کو ہماری یہ جرأت رندانہ سخت ناگوار گزری ،حالانکہ ہم صرف مضمون کے ناقل تھے ،اور مضمون بھی کسی ایسے ویسے کا نہیں تھا، حضرت مولانا بنوریؒ جیسے عالم ،بزرگ، مصنف ،محدث اور مدرس کا تھا،مگر اس کے باوجود دارالعلوم کی چہاردیواری میں اس مضمون کے خلاف سخت ردّ عمل ہوا، کئی مدرسین نے مخالفت میں تقریریں کیں، تعلیمات اور دارالاقامہ میں شکایا کی گئیں، جب نظما دارالاقامہ مضمون شائع کرنے والوں کے خ لاف کوئی اقدام نہ کرسکے تو معاملہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے گوش گزار کیا گی ۔حضرت نے ہمیں طلب فرمایا جس وقت ‘‘شعور’’ کی مجلس ادارت کے لوگ دارالا ہتمام میں حاضر ہوئے تو حضرت والا مضمون پڑھنے میں مصروف تھے، حضرت نے پورا مضمون پڑھنے میں مصروف تھے، حضرت نےپورا مضمون پڑھا جو بڑا طویل تھا، مضمون پڑھنے کے بعد سر اٹھایا اور فرمایا مضمون تو بڑا اچھا ہے، قریب میں پیش کار عبدالحق صاحب مرحوم بیٹھے ہوئے تھے ،اس سے فرمایا اسے پمفلٹ کی شکل میں چھاپ کر تمام اراکین شوری ، اور ذمہ داران مدارس کوروانہ کیا جائے، مضمون پمفلٹ کی شکل میں مطبوعہ موجود ہوگا۔ یہ واقعہ اس لیے عرض کیا گیا کہ تبدیلی کی سوچ نئی نہیں ہے، بلکہ بڑے بڑے لوگ بھی یہی سوچ رکھتے تھے، حضرت مولانا یوسف بنوریؒ ،حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ اور حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ جیسے بزرگوں کا نام آجائے تو کوئی بھی تجویز بے معنی نہیں رہ جاتی۔ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ نصاب مدارس میں حسب ذیل تین بنیادوں پر ترمیم ہونی چاہئے۔
(۱)تخفیف: یعنی نصاب مختصر ہو، یعنی اس نصاب نے فراغت اور اس کے ذریعے حصول علم میں بہت زیادہ وقت صرف نہ ہو۔
(۲)تیسیر: یعنی نصاب آسان ہو، اس میں وہ کتابیں شامل ہوں جو سہل ،سادہ اور سلیس زبان میں ہوں، پیچیدہ ،دقیق اور مغلق عبارات اور مضامین پر مشتمل نہ ہوں۔
(۳)محوواثبات :نصاب تعلیم میں سے بعض غیر اہم اور نسبتاً غیر ضروری فنوج ہٹادیئے جائیں اور ان کی جگہ جدید علوم وفنون کا اضافہ کردیا جائے۔
اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ اس قدر تغیرات کے بعد بھی ہمارے نصاب تعلیم میں ان کتابوں کو غلبہ حاصل ہے جو مشکل پسندی میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہیں، مثال کے طور پر نحوکی مشہور کتاب کافیہ ابن حاجب ہی کو لے لیجئے ،اس کی مشکل پسندی کا عالم یہ ہے کہ یہ کتاب علم نحو کے قواعد تو کیا سمجھاتی اس کے بجائے وہ خود ایک چیستاں کی حیثیت رکھتی ہے، چھوٹے چھوٹے بچے اس چیستاں کی مشکلات حل کرنے میں شب وروز مصروف رہتے ہیں اور اپنا سرکھپاتے ہیں ،کافیہ اس قدر مشکل اور پیچیدہ کتاب ہے کہ اس کی پچاس سے زیادہ شروحات تو عربی زبان میں ہیں، اردو میں بھی نے شمار شروحات ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس کی ایک شرح ہے ‘‘شرح جامی’’ یہ شرح کافیہ کے مشکل مقامات تو کیا حل کرتی خود حل کی محتاج بن گئی ہے اس لیے اس کی شروح وحواشی کا سلسلہ چل پڑا ،پہلے ملا عبدالغفور نامی ایک عالم نے اس کا حاشیہ لکھا اور اپنے طور پر انہوں نے پوری کوشش کی کہ کس طرح اس کے دشوار گزار مقامات حل کردیں، لیکن ناکام رہے، اس کمی کا احساس ملا عبدالحکیم سیال کوئی کو ہوا تو انہوں نے اس حاشیے کا تکمیلہ لکھ ڈالا ،ان دونوں کے بعد ایک اور بزرگ نے محسوس کیا کہ اب بھی شرح جامی کے غوامض تشنۂ تشریح ہیں، اس احساس نے انہیں ‘‘ وافع التوھمات’’ لکھنے پر مجبور کیا جو حاشیہ عبدالغفور اور تکملا ملاّ عبدالحکیم کی شرح ہے ،الفیۃ ابن مالک کا بھی یہی حال ہے، فن نحو کی اس کتاب کی شرح اشمونی لکھی گئی، پھر اس شرح کی شرح‘‘ صباں’’ لکھی گئی جو سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، کتاب کے حواشی اور شروح اور ان حواشی و شرح وحواشی اور شرح لکھنے کا معاملہ ان ہی دوکتابوں تک محدود نہیں ہے بلکہ نصاب تعلیم میں ایسی متعدد کتابیں ہیں جن کو حاشیے اور شرح کے بغیر سمجھنا بے حد مشکل ہے۔
مشکل پسندی کے اس رجحان پر حضرت مولانا بنوریؒ نے بڑا معقول اور مناسب تبصرہ فرمایا ہے کہ ‘‘ہمارے نصاب تعلیم میں جو کتابیں شامل ہیں ان میں زیادہ تر کتابیں اسلام کے دور انحطاط کی یادگار ہیں، اس زمانے میں کمال تالیف کا معیار قواعد کی تلخیص ،مسائل کی تنقیح ،عبارت آرائی ، متن نویسی ، ایجاز واختصار کے لیے نئے نئے اسالیب کی ایجاد اور لفظی موشگافی وغیرہ کو سمجھا گیا، یہی چیزیں علمی مسابقت کا میدان بھی بن گئیں، منظور قواعد تیار ہونے لگے، مبادی ووسائل مقاصد بن گئے،مثال کے طور پر علوم عربیت (صرف ونحو غیرہ ) کا مقصد قرآن وحدیث کی لغوی ،ترکیبی اور اعرابی مشکلات کا حل تھا، لیکن آگے چل کر یہ مقصد پس منظر میں جا پڑا ،اور جو علوم بطور مبادی پڑھائے جارہے تھے وہی مقاصد بن گئے، قرآن وحدیث کی تراکیب پر دھیان کی فرصت ہی نہ رہی بلکہ خود ان کتابوں کے مسائل اور عبارات کا حل ہی تمام ترتوجہات کا مرکز بن گیا’’ (ملخصا از مضمون مولانا یوسف بنوریؒ شائع شدہ ماہ نامہ ‘‘ترجمان دیوبند ’’ دسمبر ۲۰۰۹)حضرت مولانا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہر موضوع پر ایسی کتابیں موجود ہیں جو موجود ہ کتابوں کا نعم البدل بن سکتی ہیں ،مگر اس کو کیا کہا جائے کہ مشکلات میں سرکھپانے کو درس وتدریس کی معراج سمجھ لیا گیا ہے، آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ مشکلات کو مزید مشکل بنانا اور الجھے ہوئے مسائل کو مزید الجھا نا کمال ہے یا مشکلات کو آسان تربنا کر پیش کرنا کمال ہے؟ ظاہر ہے آپ اسی دوسرے سوال پر ہاں کریں گے، اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہے تو آج بھی ہمارے مدارس فلسفہ ،منطق اور کلام کی مشکل کتابوں کی دقیق ترین بحثوں میں کیوں الجھے پڑے ہیں جب کہ ان سے بہتر اور آسان کتابیں موجود ہیں، حضرت مولانا نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ درس نظامی میں متقدمین کی کتابیں شامل کرنے کے بجائے متأخرین کی کتابیں شامل کی گئی ہیں جب کہ متقدمین کی کتابوں میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی، حسن تعبیر بھی ہے اور جسن تفہیم بھی، جنہیں پڑھنا بھی اچھا لگتا ہے اور سمجھنا بھی سہل معلوم ہوتا ہے، اس کے برعکس متأخرین کی زیادہ کتابوں میں کاغذ بچانے ہی کو کمال گردانا گیا ہے، بلاشبہ انہوں نے کئی کئی صفحات کےمضامین ایک ایک صفحے میں سمودیئے اور جوبات دس بیس سطروں میں ادا کرنی تھی وہ ایک دوسطر میں ادا کردی، اس کے علاوہ بتلائیے انہوں نے امت پر کیا احسان کیا، ایک مدرس بےچارہ گھنٹوں کتاب کے اسرارور موز سمجھنے میں لگاتا ہے، اس کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھاتا ہے، اس کے باوجود حق ادا نہیں کرپاتا ، یہی حال طلبہ کا ہے شوقین اور محنتی طلبہ رات رات بھر خشک مضامین میں سر کھپا تے ہیں، اپنی صحت برباد کرتے ہیں۔ حاصل یہ نکلتا ہے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، حضرت مولانا بنوریؒ نے لکھا ہے کہ اگر ہمارے مصنف ایک سطر کے مضمون کو دو صفحوں میں پھیلادیتےاور اس طرح حل کرتے کہ وہ سرسری نظر میں ذہن نشین ہوجاتا تو کیا حرج تھا، بلاشبہ انہوں نے کاغذ ، روشنائی کم خرچ کی لیکن دماغ کا کچومر نکال کر رکھ دیا، اختصار ات اور ایجازات سے کاغذ پر تو رحم کیا گیا لیکن دماغ جیسے جو ہر لطیف اور وقت جیسے قیمتی سرمائے کو بے رحمی کے ساتھ برباد کرڈالا ،مولانا بنوریؒ نے مشکل پسندی ، ایجاز، اختصار اور ابہام ہی کو نصابی کتابوں کا امتیازی وصف سمجھنے والوں سے سوال کیا ہے کہ کیا غزالی ؒ ،رازیؒ ،تقی الدینؒ ،ابن دقیق العید ؒ، عزالدین بن عبدالسلام ؒ ،ابن تیمیہ ؒ اور ابن القیمؒ جیسے بابغۂ روزگار ان چیستانوں کی بہ دولت از کیا ئے امت میں شمار ہوئے ہیں؟ کیا ان بزرگوں کی کتابوں میں ان متأخرین یا قرون وسطی کی مشکل پسند طرز تعبیرکا کہیں پتہ چلتا ہے؟
مشکل پسندی کا یہ ذوق نحووصرف ،بلاغت ومعافی، فلسفہ ومنطق ہی کی کتابوں میں نمایا ں نہیں ہے، بلکہ فقہ وتفسیر کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے ،مثال کے طور پر ہمارے مدارس میں تفسیر قرآن کریم کے نام پر جو دوکتابیں پڑھائی جارہی ہیں وہ بھی اسی ذوق کا آئینہ دار ہیں، بیضادی اور جلالین دونوں ہی کتابیں اختصار اور اخلاق میں اپنا جواب نہیں رکھتیں ،حالانکہ تفسیری کتب کی نہ پہلے کوئی کمی تھی اور نہ اب ہے،اس کے باوجود ہم ان ہی دو کتابوں پر اکتفاکئے بیٹھے ہیں، یہی حال وقفہ کا بھی ہے، فقہ کے موضوع پر جو کتابیں ہمارے نصاب میں داخل ہیں ان میں ایک کتاب ‘‘ کنز الد قائق’’ ہے جو علامہ ابوالبرکات نسفی کی تصنیف ہے، اگر چہ اب یہ کتاب دار العلوم میں نہیں پڑھائی جاتی، مگر ایسے مدارس کی بھی کمی نہیں جو آج بھی اس کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، اس کتاب کی عبارتیں ،ایجاز ،اختصار اور اخلاق کی انتہا کو پہنچی ہوئیں ہیں،بعض مقامات پر تو فاضل مصنف نے حروف کے اشاروں سے کام چلایا ہے ،مصنف کی مشکل پسندی نےاس کتاب کو طلبہ ار استاتذہ دونوں ہی کے لئے ناقابل فہم بنادیا ہے، سیمینار میں جتنے بھی مقالے پڑھے گئے سب ہی نے بطور خاص ‘‘کنزالد قائق’’ کی مشکل پسندی کا شکوہ کیا، اس مختصر مضمون میں فقہ کی تعلیم پر زیادہ کچھ لکھنا مشکل ہے، یہ موضوع کسی اور موقع کے لیے اٹھا کر رکھتے ہوئے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ مدارس کے نصاب میں تیسیر اور محودواثبات جیسے دو محو روں کی بنیاد پر غور وفکر کرنا بے حد ضروری ہے ،تیسیر کا کچھ ذکر کیا گیا ،محو داثبات یعن ی کچھ فنوج کو ہٹا کر کچھ دوسرے علوم وفنون کا اضافہ کرنا بھی موجودہ حالات میں ناگزیر ہے، اس سلسلے میں بھی مولانا یوسف بنوریؒ نے بڑے کام کی باتیں لکھی ہیں، فرماتے ہیں ‘‘ علم کلام جدید ،فلسفۂ جدید، علم الاقتصاد اور بعض جدید علوم سے قدیم نصاب کا دامن خالی ہے اور آج اس کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، جس طرح جہمیہ ،حشویہ ،خوارج ،معتزلہ وقدریہ مسلک سے ہٹے ہوئے تھے اور باطل فرقے پیدا ہوئے اور جس طرح ان کے عقائد اور ا ن کی تردید دین کا اہم جز تھا اسی طرح آج لادینی نظام حیات ، اشتراکیت وفسطائیت وغیرہ مسائل پر قواعد اسلام کے پیش نظر نقدوتبصرہ دین کا اہم جزو ہے، آج اگر ہمارے اسلاف زندہ ہوتے تو جس طرح سے اس وقت فرق باطلہ کی تحقیق وتنقیح کے بعد امت کے لیے اسلحہ تیار کر کے دے چکے تھے اسی طرح آج بھی جدید اسلحہ دفاع کے لیے تیار کرتے اورعلوم کا بیش بہااضافہ فرماتے’’ اسی ضمن میں مولانا موصوف نے یہ بھی فرمایا ‘‘منطق قدیم، فلسفہ قدیم، قدیم کلام، قدیم ہیبت میں بہت سرسری معلومات بھی کفایت کرسکیں گی اور ان کی جگہ تکمیل کے لیے جدید علم کلام ،جدید علم ہبیٔت ،ریاضی واقتصادیات کو دینا چاہئے’’ یہ بعینہ وہی نقطہ نظر ہے جو ہمارے دوسرے اسلاف واکابر کا تھا، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اب علما کو قدیم فلسفہ وہبیت کے ساتھ جدید فلسفہ وہبیت بھی حاصل کرنا چاہئے’’(سوانح قاسمی :301/1)ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں ہے ک نصاب تعلیم میں تبدیلی کے مسئلے پر سنجیدہ غور وفکر ہو۔
تبدیلی کی بات پر بھڑک اٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ حالات کے تقاضوں سے بے خبر ہیں ، یا آپ اس نصاب کو مزید نافع بنانے میں اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرناچاہتے ہیں ، اس طرح کے سمیناروں سے احساس تو پیدا ہوتا ہے مگر عمل کاجذبہ پیدا نہیں ہوتا حالانکہ عمل کا جذبہ پیدا ہونا زیادہ ضروری ہے، اس کے بغیر سیمینار وں سے کوئی فائدہ ہونے والانہیں ہے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/changes-madrasa-curriculum-unavoidable-/d/2344