مولانا سید ارشد مدنی
مدارس اسلامیہ ہند اپنی بڑی
قیمتی تاریخ رکھتے ہیں ۔ ان کا میدان عمل اسلام کے عقائد کی حفاظت ،ملک کی آزادی اور
انسانیت کی بنیاد پر معاشرت کا پرچار ہے۔ چونکہ مدارس کی خدمت خالص مذہبی بنیاد پر
ہے، اس لیے حضرت نانوتویؒ نےاپنےمبارک قلم سے تحریر کردہ اصول ہشتگانہ میں کسی بھی
حکومت وقت کی امداد سے مدارس کی آزادی کو موجب خیر وبرکت قرار دیا ہے۔ چنانچہ ہمارے
اکابرنے دارالعلوم دیوبند اور ان نہج پر چلنے والے تمام مدارس کو اسی بنیاد پر رکھا
او رچلایا ۔ اور یہ صورت حال کم وبیش ڈیڑھ سوسال سے چل رہی ہے ۔ یہ بات ان قدسی صفت
نفوس کی کرامت ہی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے جہاں مدارس کے قیام کو اپنی زندگی کا مقصد
بنایا، وہیں پوری قوم کے دل ودماغ میں ان مدارس کی حفاظت وبقا کے لئے بالخصوص مالی
تعاون کر رچا بسا دیا۔چنانچہ ہندوستانی مسلمان دنیا کے چاہے کسی خطہ میں بسا ہو ، اپنی
آمدنی کے ایک حصہ کو مدارس اسلامیہ کی امداد کے لیے وقف تصور کرتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں
کی اپنے مدارس کے ساتھ اس مخلصانہ گردیدگی نے اس مدارس کو کسی بھی حکومت کے تعاون سے
مستثنیٰ بنادیا اور درحقیقت اسی استثنا کی بنیاد پر کوئی حکومت ان کے اندر ونی نظام
میں داخل انداز ی نہیں کرسکی۔
کم وبیش دوسال پہلے ہندوستان
کی مرکزی حکومت کے سابق وزیر برائے فروغ انسانی وسائل جناب راجن سنگھ جی نے مرکزی مدرسہ
بورڈ بنانے کی تجویز رکھی اور اس کے لئے ایک مسودہ قانون بھی مرتب کرایا ۔اس وقت فروغ
انسانی وسائل کے موجودہ وزیر جناب کپل سبل صاحب مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کے سلسلے
میں سرگرم عمل ہیں اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کی مہم چلارکھی ہے۔ چنانچہ 3اکتوبر
2009کو مسلم ممبران پارلیمنٹ کی میٹنگ بلائی اور ایک ماہ کے اندر مرکزی مدرسہ بورڈ
کے قانون کے مسودہ میں ان سے ترمیمات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا گہرائی سے مطالبہ کرنے
کے بعد یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس قانون کے بنانے والے حکومت کے لیے مدارس اسلامیہ
کے اندر دخل اندازی کا راستہ ہموار کررہے ہیں،تاکہ مدارس کی آزادی سلب ہوجائے ، ان
کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم دونوں حکومت کے رحم وکرم پر ہیں۔ اس طرح اسلام کی حفاظت کے یہ قلعے حکومت وقت کے دست
نگر نہ بن جائیں ۔ بے عمل ہوجائیں اور ان کی
روح نکل جائے ۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کو سیاسی ،تعلیمی اور اقتصادی میدانوں میں پیچھے
دھکیلنے کے بعد اب اس کو مذہبی اعتبار سے بھی کنگال بنانے کی اسکیم بنائی جارہی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ سیکولر زم کی علمبردار کانگریس پارٹی کی سربراہی میں یو پی اے
سرکار یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ جمعیۃ علما ہند اس کی صرف مدارس کے خلاف ہی نہیں، بلکہ
پوری مسلم قوم کے خلاف ایک سازش تصور کرتی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
مرکزی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2008کے مضمرات کو بھی سامنے لایا جائے تاکہ اس کا ہر پہلو واضح
ہوجائے۔
مرکزی مدرسہ بورڈ ایکٹ کے
صفحہ 6پر بورڈ کی ترکیب کے عنوان کےتحت لکھا ہے کہ بورڈ حسب ذیل افراد پر مشتمل ہوگا:
1۔ ایک معروف مسلم مذہبی اسکالردیوبندی مکتب فکر کا
2۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر بریلوی مکتب فکر کا
3۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر اہل حدیث مکتب فکر کا
4۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالرامام شافعیؒ کے مسلک کا
5۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر شیعہ مسلک کا
6۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر داؤد بوہرہ فرقہ کا
7۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر روایتی مدرسہ تعلیم کے میدان کا
8۔ ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر خاتون
ایک مسلم معروف مذہبی اسکالر
انسانیت نواز
10۔نفاذ کے وقت کسی بھی قانون کے تحت قائم شدہ کسی یونیورسٹی کے شعبہ
عربی اسلامک اسٹڈیز کا سربراہ جس کی تقریر مرکزی حکومت کی طرف سے کی جائے گی۔
اسی ترتیب کے ساتھ دس افراد
کا مجموعہ مدرسہ بورڈ کہلائے گا۔
اس مذکورہ بالا تحریر کے بموجب
یہ بات قابل لحاظ ہے کہ دیوبند ی مکتب فکر کے مدرسے ہندوستان میں90 فیصد ہیں۔ ان
90 فیصد مدرسوں کے نظام تعلیم، نصاب تعلیم، مسائل او رمشاکل اور ان کی ترجمانی کے لیے
بورڈ میں صرف ایک آدمی اور وہ بھی گورنمنٹ کا قائم کردہ نمائندہ ۔ کیا ارباب مدارس
اور مسلمانوں کو مطمئن کرسکے گا؟12اکتوبر کے ‘‘روز نامہ راشٹریہ سہارا’’ میں بورڈ کی
تائید میں ایک مضمون ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر محترم نے اس بات کی یقین دہانی
کرائی ہے کہ مدارس اسلامیہ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی اور جو نصاب وہاں پڑھا
یا جارہا ہے وہ بھی وہی رہے گا ،سوائے اس کے کہ پورا نظام منظّم طریقہ پرچلے گا۔
میرے خیال میں یہ بات سینٹرل
مدرسہ بورڈ 2008کامطالعہ کیے بغیر کہہ دی گئی ہے ۔(iv) بورڈ کے اختیارات واعمال
کے ضمن میں صفحہ 11پر دفعہ (ک) ملا حظہ فرمائیے:
‘‘نصابی نظام کی اہمیت اور قدر قیمت کاپانچ سال میں اندازہ لگانا، تاکہ
مدرسہ نظام تعلیم کو مسلمانوں کو تعلیمی لحاظ سے مستحکم کرنے کےلئے ایک موثر آلہ بنایا
جائے’’۔
ہمارے مدرسوں کا نصابی نظام
صرف قرآن وحدیث ہے، اس کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ بورڈ کا کام نہیں ہے۔یہ امت
محمدیہؐ چودہ سوسال سے ان کی اہمیت اور قدر وقیمت کوجانتی ہی نہیں بلکہ اس پر ایمان
رکھتی ہے ۔ کسی فرد یا کسی جماعت یاکسی حکومت کو اس کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانے کی
ضرورت یا گنجائش نہیں .....ذرا آپ پیش کردہ عبارت کو دوبارہ پرھیں تو آپ کو اندازہ
ہوگاکہ اس عبارت کے ذریعہ بڑے خوبصورت انداز میں مدرسہ کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم
دونوں کا شکار کر نے کے لیے راستہ ہموار کرلیا۔ مزید حکومت کی نیت جاننے کےلئے اسی
صفحہ پر دفعہ (ن) پڑھیے:
‘‘اگر نصاب کمیٹی کی سفارشات ہوں تو ان پر غور وغوض کرنے کے بعد قوانین
و ضوابطہ کے ذریعہ نصاب ونصابی خاکہ اس کے بعد (یعنی نصاب کا جنازہ نکالنے کے بعد)
مطالعہ کا کورس اور الحاق شدہ مدرسہ میں مطالعہ کی کتابیں فراہم کرنا ، تاکہ بورڈ کے
ذریعہ امتحانات منعقد کیے جاسکیں ۔’’
ان دفعات کے ہوتے ہوئے وزیر
موصوف کی طرف سے ‘‘مدارس اسلامیہ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی’’ کی بات بالکل بےمعنی
ہوکر رہ جاتی ہے، بلکہ انتہائی خطرناک ہے،کیونکہ یہ نصاب کمیٹی کن افراد پر مشتمل ہوگی،
ان کوکون بنائے گا ، ان کا دین دھرم اور مسلک کیا ہوگا، کچھ معلوم نہیں اور ایکٹ میں
اس کا کوئی ذکر نہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ موصوف نے
مدرسہ بورڈ ایکٹ کو دیکھاہی نہیں ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں یگانگت
نہیں ہے۔ نصاب میں یگا نگت پیدا کرنا یہ بھی بورڈ کے مقاصد میں ایک مقصد ہے ، جبکہ
ہمارے مدار س کا نصاب تعلیم ساری دنیا میں ایک ہی ہے۔ ہندوستان سے لے کر امریکہ تک
آپ جہا ں جائیں گے ،آپ کو مدارس اسلامیہ میں قرآن وحدیث ،وفقہ، اصول فقہ نیز معافی
اور عقائد کی وہی کتابیں ملیں گی جو دارالعلوم دیوبند میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہاں تک
کہ ملک میں فی الجملہ اختلاف کے باوجود بھی
بریلوی مکتب فکر کے مدارس کے نصاب تعلیم میں بھی آپ کو یہی کتابیں ملیں گی۔ نصاب تعلیم
کے اس قدر منظّم اور مستحکم ہونے کے باوجود بورڈ کے ذریعہ استحکام و انتظام کی بات
کرنا بتارہا ہے کہ درپر دہ کوئی اور چیز ہے، جس کو ہم سمجھ رہے ہیں۔ بورڈ بنانے والا
ذہن اس کو چھپانا چاہتا ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ
مدارس میں طلبا کا استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ مہتمم حضرات ان سے خدمت لیتے ہیں۔میں سمجھتا
ہوں کہ ایسے لوگ مدارس کےمقاصد سے ناواقف ہیں۔ مدرسہ موجودہ زمانہ کےاسکولوں کی طرح
صرف تعلیم گاہ نہیں ہے، بلکہ تعلیم گاہ کے ساتھ ساتھ تربیت گاہ بھی ہے۔ یہاں طالب علم
کو آداب زندگی بھی سکھائے جاتےہیں ۔بزرگوں اور خوردوں کے ساتھ خادمانہ زندگی کا درس
دیا جاتا ہے ،تربیت دی جاتی ہے، خدمت خلق کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ ہمارا تو رونا
یہی ہے کہ طالب علم اور استاذ کا جو تعلق پچاس ساٹھ سال پہلےتھا ،وہ اب نہیں رہا ۔
جس کے نتیجہ میں طالب علم میں نہ پہلے جیسی توضع ہے اور نہ پختگی ہے ،نہ آداب ہیں اور
نہ خدمت خلق کا جذبہ ہی پہلے جیسا پایا جاتا ہے۔ نہیں تو مولانا سید حسین احمد مدنی
نور الہ مرقدہ نے اپنے استاد محترم شیخ الہند رحمتہ اللہ کے گھر کی گندگی نالیاں اپنے
ہاتھ سے صاف کیں اور شیخ الاسلام بن گئے اور مولانا محمود الحسن نے اپنے استاد محترم
مولانا نانوتویؒ کے والد محترم کے پاخانہ کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا اور شیخ الہند
بن گئے ۔غرض جس چیز کومدرسوں کا عیب بتایا جارہا ہے، ہم تو اس کو بحیثیت تربیت گاہ
مدرسوں کا اس زمانہ میں امتیاز سمجھتے ہیں۔
اب بھی جو تھوڑا بہت اثر مدرسوں میں پایا جاتا ہے، اس کا یہ کرشمہ ہے کہ موجودہ دور
کی تعلیم گاہوں کی طرح مدرسوں کے طلبہ کے ہاتھوں نہ اساتذہ کی پٹائی ہوتی ہے، نہ قتل
ہوتا ہے، نہ بسوں کو آگ لگائی جاتی ہے اور نہ شیشوں کو توڑا جاتا ہے ۔ ہاں یہ بچے ان
تربیت گاہوں سےنکل کر یتیموں کی دست گیری کرتے ہیں، نادار اور مفلس بچوں کو زیور تعلیم
سے آراستہ پیراستہ کرکے آدمی بناتے ہیں۔
بورڈ کے اختیارات واعمال کے
ضمن میں دفعہ (خ) میں ہے‘‘ معاشرہ میں مناسب بین مذہبی مفاہمت کے ذریعہ مذہبی او ر
ثقافتی تنوع کی نشاندہی کرتے ہوئے سوسائٹی کو باہم پیوست کرنے کے لیے پروگرام کا تصور
قائم کرنا اور اس کا آغاز کرنا’’۔ان خوبصورت الفاظ کو بار بار پڑھئے اور ان کی تہہ
تک پہنچئے اور غور کیجئے کہ شاید جو کام اسلام کی پوری زندگی چودہ سوسال میں نہیں ہوا،
اب بورڈ کے ذریعہ سے ہونے جارہا ہے۔
اسلام دنیا میں ہر جگہ پایا
جاتا ہے ۔کہیں اس کے ماننے والے کم ہیں اور کہیں زیادہ مذہب کی بنیاد پر لڑنا نہ ہمارے
ملک کی تاریخ ہے اور نہ دنیا کےدوسرے ملکوں کی۔ سب لوگ پیار ومحبت کے ساتھ زندگی گزارتے
تھے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے ،یعنی سوسائٹی باہم پیوست تھی ،معاملہ
میں صفائی تھی، امانت ودیانت تھی ، حسن اخلاق کا دور دورہ تھا، باقی کسی انسان کے مذہب
میں کسی کو کوئی دخل نہیں تھا، اگر چہ سماج میں مختلف برادریوں کے کلچر اور ثقافت مختلف
تھے۔ ہر شخص اپنے کلچر کو اپنانے میں آزاد تھا۔ مسلمانوں نے بھی اس میں کچھ دخل نہیں
کیا۔مسلم مدرسہ بورڈ ایکٹ میں مدرسہ دفعہ یہ بتارہی ہے کہ مدارس کی تعلیم کے نتیجہ
میں باہم پیوست سوسائٹی بکھر گئی۔ اب اس بورڈ کے ذریعہ پھر اس کو جوڑ ا جائے گا، حالانکہ
سوسائٹی کوپارہ پارہ کرنے کی ذمہ داری تو طبقہ کے لیے تو آپ نے کوئی بورڈ نہیں بنایا
۔ ان مدرسو ں کے لیے بورڈ بنانے آگئے، جو متصب ذہینت کا ڈیڑھ سوسال سے مقابلہ کررہے
ہیں اور اپنی پاکیزہ تعلیم کے ذریعہ کرتے رہیں
گے۔ انشا اللہ !
اسی طرح صفحہ 13دفعہ (ی ی)
کے ضمن میں تحریر کیا گیا ہے: ‘‘ی ی : اس طرح کے دوسرے کام جو بھی تجویز کیے جائیں
یا جو مدرسہ نظام کو بنانے کے لیے اور مدرسہ کی تعلیم کو قابل فہم شکل میں بنانے ،ترقی
دینے اور مین اسٹریم میں لانے کے لیے بورڈ کو ضروری معلوم ہوں یا ایسے دوسرے کام بھی
کرسکتا ہے جو بورڈ کی کسی ایک یا تمام اغراض کی تکمیل کا باعث یا اس کے ضمن میں ضروری
ہوں۔’’ اس دفعہ میں مدرسہ کی تعلیم کو قابل فہم شکل میں بنانے اورمدرسہ نظام کو معیاری
بنانے کے لیے الفاظ غور فرمائیے ۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بورڈ بنا کر
چند پیسے کی بھیک دے کر مدارس اسلامیہ کو مورڈ نائزیشن کے بہانے آگ لگانا چاہتی ہے
، کیونکہ موجودہ تعلیم کے نزدیک ناقابل فہم ہے اور نظام غیر معیاری ہے۔
صفحہ 21پر سنٹرل گورنمنٹ کی
طرف سے ہدایات کے ضمن میں (2)پر لکھا ہے:‘‘ اگر سینٹرل گورنمنٹ اور بورڈ کے درمیان
کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے، خواہ اس کا تعلق قومی مفادات سے متعلق پالیسی سے ہو یا نہ
ہو، سینٹرل گورنمنٹ کا فیصلہ قطعی ہوگا’’۔آپ غور کیجئے بورڈ کے وجود نے مجلس شوریٰ
کو ٹھکانے لگادیا تھا اور اس دفعہ نے خود بورڈ کے وجود کو گورنمنٹ کا تابع محض بنادیا۔ یا تو بورڈ حکومت کے
چشم و ابرو کو دیکھ کر فیصلہ کرے گا، نہیں تو جب وزیر تعلیم یا وزیر فروغ انسانی وسائل
‘‘ چاہے وہ بی جے پی ہی کے کیوں نہ ہوں’’ چاہیں گے بورڈ کے فیصلہ کو کالعدم کردیں گے۔
اس دفعہ کے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ حکومت مدارس کے نظام میں مداخلت
نہیں کرے گی۔
ایک بات یہ بھی قابل غور ہے
کہ مختلف صوبوں میں ملک کی آزادی سے پہلے ہی سے صوبائی بورڈ بنے ہوئے ہیں۔ کیا حکومت
نے وہاں مداخلت نہیں کی؟ کیا بورڈ نے اپنا نصاب تعلیم نہیں بنایا؟ اور کیا ملحقہ مدارس
میں اب بورڈ کا وہ کورس نہیں پڑھا یا جاتا؟ اور کیا ان ملحقہ مدارس میں وہ تمام بیماریاں
پیدا نہیں ہوگئیں جو اسکولوں میں پائی جاتی ہیں ۔ کیا مدرسو ں میں ملازمت کے لئے ،استقلال
کے لیے اور ترقی کے لیے شکشا ادھیکار ی کو رشوت نہیں دینی پڑتی ؟ جہاں رشوت کی بنیاد
پر نااہل بن جاتا ہے اور اہل نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہ مدرسہ بورڈ ایکٹ کی چند
دفعات ہیں، جن کو مختصر اً پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مضمرات مدارس کی آزادی کو سلب کرنا
ہے۔ ان کے نصاب تعلیم کوبدلنا ہے اور نظام
تعلیم کو مفلوج بنانا ہے۔ مدارس ہمارا دین ہیں ، ہماری دنیا نہیں ہیں۔ میں یہ بات باور
کرانا چاہتا ہوں کہ مدرسہ اور مسجد کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ اگر مسجد میں نماز
پڑھی جاتی ہے تو مدرسہ میں نماز پڑھنا سکھا یا جاتا ہے۔ اگر مسجد میں قرآن پڑھا یا
جاتا ہے تو مدرسہ میں قرآن پڑھنا سکھایا جاتا ہے ۔ غرض مدرسہ وہ بنیادی جگہ ہے جہاں
مسلمان کا رشتہ قرآن اور مسجد سے قائم ہوتا ہے۔ درحقیقت اس طرح کی چلنے والی تحریکیں
دنیا کے کسی گوشے سے بھی اٹھیں ،مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کےلیے اٹھتی ہیں۔مسلمانوں
کے ہر طبقہ کو ہوشیار رہنا چاہئے اور مالی امداد کے وعدہ پر اپنی آنے والی نسلوں کے
لیے دین سے محرومی کا ذریعہ نہ بننا چاہئے ،کیونکہ مسلمان اپنے مدارس کی حفاظت ڈیڑھ
سوسال سے کرتے چلے آئے ہیں اور سالانہ اربوں روپے اپنے بچوں کے دین کی حفاظت کے لیے
خرچ کررہے ہیں۔
https://newageislam.com/urdu-section/the-central-seminary-board-act/d/2026