New Age Islam
Sun Oct 13 2024, 02:59 AM

Urdu Section ( 24 Nov 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Truthfulness of Chief Justice of India چیف جسٹس آف انڈیا کی حق گوئی

مولانا اسر ارالحق قاسمی

چیف جسٹس آف انڈیا شری کے جی بالا کرشنن کے اس بیان کی صداقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کی بڑھا چڑھا کر کی جانے والی میڈیا کو ریج سے ان لوگوں میں غیر معمولی غم وغصہ اور جذبہ انتقام پیدا ہوتا ہے جو اس سے متعلق نہیں ہوتے، لیکن چیف جسٹس آف انڈیا کے اس بیان کا دوسرا حصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے جب میڈیا دہشت گرد کی مذہبی شناخت بتاتا ہے تو اس سے بے قصور اور غیر متعلق افراد کے خلاف کمیونٹی میں جذبہ انتقام پیدا ہوتا ہے اور اس کے خلاف غیر معقول امتیازی سلوک ہوتا ہے ۔ بلاشبہ ان کے اس بیان کوبہت زیادہ اہمیت ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پچھلی دودہائیوں کے دوران رونما ہونے والے دہشت گرانہ واقعات کے بعد ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہو اور جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی زندگی کے باقی ایام گن رہے ہوں، چیف جسٹس کے بیان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ شری جسٹس بالا کرشنن نے بیان کے تیسرے حصہ میں بہت ہی انصاف پرور بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے دوران یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر بعض افراد کے ذریعہ اتنے سخت اور انتہائی رویہ کے پیچھے اسباب کیا ہیں۔

بلاشبہ ان کے بیان کے تینوں حصے سنہرے اور جلی حروف سے لکھنے کے لائق ہیں۔ ان کا بیان پولس اور انتظامیہ کے لئے بھی ایک تازیانہ اور ایک سبق ہے۔ ان کا بیان ان ہزاروں بے گناہوں کے لئے امید کی ایک کرن پیدا کرتا ہے، جو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور جن کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میڈیا اور خاص طو پر 24گھنٹہ جاری رہنے والا الیکٹرانک میڈیا  جب دہشت گردانہ واقعات کی کوریج کرتا ہے تو اس میں وہ خود بھی ایک فریق بن جاتا ہے اور واقعات کوبڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ وہ صرف وہی نہیں دکھاتا جو رونما ہورہا ہوتا ہے، بلکہ وہ اس کے پس منظر ،پیش منظر اور اپنے رپورٹروں کے ذہنی تخیلات پر مبنی آرا بھی پیش کرتا رہتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس وقت ایڈیٹنگ کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور ہر چینل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں ہر چہ آمد بیر گٹھلی سب ہضم کا مصداق بن جاتا ہے ۔ اس کے رپورٹر موقع سے جو کچھ بھیجتے ہیں، اسے دکھایا جاتا ہے اور وہاں سے وہ کچھ ‘ارشادات’ فرماتے رہتے ہیں، اس کو سنایا جاتا ہے۔

ہمیں چینلوں کے رپورٹروں کی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ،لیکن اس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں ہے کہ یہ رپورٹر جب کوئی ہنگامی اور غیر معمولی واقعہ کی رپورٹنگ کرتے ہیں تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور ان کی زبان آگ اور زہر اگلنے لگتی ہے۔ اکثررپورٹروں کے منہ سے جھاگ تک نکلتے دیکھے گئے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا  کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ بعد میں اپنی رپورٹنگ کو دیکھیں اور سنیں تو انہیں خود بہت سے الفاظ اور جملے غیر متعلق اور غیر پارلیمانی لگیں گے۔ ایسے میں اگر رپورٹر کو حساسیت کاعلم اور تربیت نہ ہو اور وہ متصب ذہن کا بھی ہو(جس کے امکانات زیادہ ہیں، اور خاص طور پر چینلوں میں تو ایسے ہی لوگوں کی بہتات ہے) تو اس کی بے ربط زبان سے بہت سے ایسے جملے نکل جاتے ہیں کہ جو فرقہ وارانہ حساسیت کے اعتبار سے بہت زیادہ قابل اعتراض اور نقصان رساں ہوتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے وزارت اطلاعات ونشریات نے تمام چینلوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ آئندہ 26نومبر کوممبئی پر حملوں کی پہلی برسی کے موقع پر جو پروگرام نشر کریں تو ان میں یہ خیال رکھیں کہ نہ تو بہت زیادہ ہیبت ناک مناظر کو دکھایا جائے اور نہ ہی ایسے الفاظ او رجملے ادا کئے جائیں کہ جن سے ماحول کثافت زدہ ہوجائے۔

وزارت اطلاعات ونشریات اس پر بھی غور کررہی تھی کہ چینلوں کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے ۔ اس سلسلے میں چینلوں کے ساتھ حکام کی بات چیت کے کئی دور بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا نہیں معلوم۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری چینلوں کو رپورٹنگ اور دیگر پروگرام نشر کرنے کے معاملے میں کسی ضابطہ اخلاق کا پابند ضرور بنایا جائے۔ چینل ہی نہیں بلکہ ہندی اور انگریزی کے بعض اخبارات کو اس کا پابند بنایا جانا ضروری ہوگیا ہے۔ مظفر نگر کے لیب سے ملنے والے ماموں بھانجی کے ایک فوٹو کے بارے میں یوپی اورپھر اس کے بعد دہلی کے بعض ہندی اخبارات نے دہشت گردی کے جو قصے گڑھے تھے وہ شاید قارئین کو ابھی تک یاد ہوں گے۔ یہا ں تک بتادیا گیا تھا کہ فوٹو کی یہ ریل دھلوانے کےلئے جو لڑکی آئی تھی وہ برقعہ اوڑھے ہوئے تھی اوراس کا نام شبانہ ہوسکتا ہے۔ جب کہ بعد کی پولس تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ وہ لڑکی شبانہ نہیں بلکہ وندنا تھی اور اس کے ماموں جمو ںوکشمیر میں فوج میں تعینات ہیں اور یہ فوٹوؤں کی ریل انہی کی تھی۔ اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند تک کو جوڑ دیا گیاتھا کہ دہشت گردوہاں چھپے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو کوئی ضابطہ اخلاق ضرور بنا دینا چاہئے۔

ممبئی کےدہشت گردانہ حملے انتہائی قابل مذمت اور ناقابل برداشت تھے۔ ان کے  ذمہ داروں کا پتہ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جانا بے حد ضروری ہے ۔ یہی نہیں اس وبا کاہمیشہ کے لئے سدباب بھی ضروری ہے ۔ لیکن اسی آڑ میں بے گناہوں کو پریشان کیا جانامناسب نہیں ہے۔ ادھر حملے ہوئے اور ادھر چینلوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ حملہ آوروں کو مقامی لوگوں کی حمایت اور اخلاقی مدد حاصل تھی ۔ آج کے اخبارات میں ممبئی حملوں کے چیف انوسٹی گیٹر راکیش ماریا کا بیان آیا ہے کہ حملہ آور وں نے اتنی خفیہ پلاننگ کی تھی کہ مقامی افراد کی مدد لیناان کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ چینلوں کے فرمان کے بعد جن مقامی بے قصور افراد کو پریشان کیا گیا تھا ان کی پریشانی اور ذہنی کلفتوں کی تلافی اب کیسے ہوگی؟کیا اس کی تلافی انہی چینلوں کو نہیں کرنی چاہئے؟ شاید چیف جسٹس نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ جب میڈیا دہشت گردوں کی مذہبی شناخت ظاہر کرتا ہے تو پھر اہل وطن کے ذہنوں میں اس مذہب کے بے گناہ اور غیر متعلق پیروکار وں کے خلاف نفرت اور انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان کے ساتھ انتہائی ،غیر معقول امتیازی سلوک ہوتا ہے۔

چیف جسٹس کا یہ بیان انتہائی ذمہ دارانہ بیان ہے۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی کے بیان کے مطابق یہ ان کے دن رات کے مشاہدہ کا نچوڑ ہے۔ اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے ۔ بنیادی طور پر ا ن کے بیان کا ایک حصہ بین الاقوامی سطح پر عدل وانصاف کے اداروں کے لئے ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات سے نبرد آزما ہوتے وقت عدل وانصاف کے محافظین کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان انتہائی واقعات کے پس پشت کون ہے عوامل اور اسباب کا رفرما ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے سدباب کےلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔حقیقت یہی ہے کہ ابھی تک عالمی سطح پر اس کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ آخر دہشت گردی کے یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟آخر کیوں کوئی بے وقوف انسان اور گروہ دوسرو ں کی جان لینے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی جان دے دیتا ہے ۔ میں پھر کہتا ہوں کہ دہشت گردی کا کوئی جواز قابل قبول نہیں لیکن یہ تو دیکھنا ہی چاہئے کہ دہشت گردی ہوتی کیوں ہے؟ چیف جسٹس آف انڈیا نے انتہائی جامع اور واضع الفاظ میں اسی ضرورت کی طرف موثر اشارہ کیا ہے۔ اس حق گوئی کے لئے ہم شری کے جی بالا کرشنن کو سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پولس اور انتظامیہ ان کے اشارات کو سمجھ کر راہ راست اختیار کرے گی۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/truthfulness-chief-justice-india-/d/2136

Loading..

Loading..