مناظر حسن
نئی دہلی: سینٹرل مدرسہ ایجوکیشن
بورڈ بالکل مہمل اور غیر واضح ہے، ہمیں یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آرہی کہ مدارس اور
طلبہ پر حکومت کیوں اس قدر مہربان ہورہی ہے۔ ملک کے 96فیصد مسلم بچوں کی تعلیم وتربیت
پر سچر کمیٹی کی سفارشات کے باوجود حکومت کوئی دلچسپی نہیں ہے رہی ہے۔ ہم دن بہ دن
تعلیم میں پچھڑتے چلے جارہے ہیں اور مدارس کے وہ طلبہ جو فراغت کے بعد اچھی شہری کی
حیثیت سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں حکومت ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ یہ خیالات ہیں جنتا
دل (یو ) کے سینئر رہنما اور موجودہ رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر مناظر حسن کے۔ان کے بقول مرکزی
مدرسہ بورڈ کا قیام دینی مدارس میں ایک طرح سے مداخلت ہے جسے ہم قطعی برداشت نہیں کریں
گے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر واقعی قوم کے لئے فکر مند ہے تو پہلے وہ سچر کمیٹی
کی سفارشات کو نافذ کرے ورنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ وہ مدارسوں میں چور راستے سے داخل
ہوکر دین کونقصان پہنچانے کےدرپے ہے۔ڈاکٹر مناظر حسن نے مرکزی وزیر برائے فروغ وانسانی
وسائل کپل سبل سےمطالبہ کیا ہے کہ وہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے سلسلے مسلم ممبر پارلیمنٹ
کی کمیٹی بنائے جس میں ہر پارٹی کے لیڈران شامل ہوں گے اور یہ کمیٹی علما اور دانشور
ان قوم اور دینی تعلیم کے ماہرین سے بات کر
کے ملت کے اس حساس ترین مسئلہ پر رائے ہموار کرے گی۔اس کے بعد سبھی پہلوؤں پر غور فکر
کے بعد مدارس کے حق میں مفید ہوگا فیصلہ لیا جائے گا۔ رکن پارلیمنٹ بدرالدین اجمل قاسمی
نے مدارس کو بورڈ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اول تو اس طرح
سے مدارس کے نظام میں حکومت کی مداخلت ہوگی اور
حکومت اسے اپنے اندازے چلائے گی۔
مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا سب
سے برانتیجہ یہ ہوگا کہ دینی تعلیم کی طرف سے طلبہ کا رجحان کم ہوجائے گا اور وہ عصری
تعلیم میں ہی الجھ کر رہ جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مدارس کا تہذیبی
ڈھانچہ جو خالصتاً دینی امور پر قائم ہے متزلزل ہوجائے گا۔ قومی خدمت کی جگہ معاشی
حصول ان کا نصب العین ہوجائے گا۔مولانا بدرالدین اجمل نے بہار ،بنگال اور دوسرے مدارس
بورڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح بہار میں بورڈ کےنفاذ سےمدارس کے بنیادی نظام
اورتعلیم میں گراوٹ آئی ہے اسی طرح پورے ہندوستان میں یہ وبا پھیل جائے گی۔ انہوں نے
مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کے سلسلہ میں حکومت کی پالیسی پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔ دارالعلوم
ندوۃ العلما لکھنؤ کے استاذ حدیث مولانا سلمان الحسینی نے کہا کہ ہم مرکزی مدرسہ بورڈ
کے قیام سے متفق نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کے اس سلسلے میں ملک کے مقتدر علمائے کرام،
دانشوران قوم، ملی رہنما ؤں اور ملی تنظیموں ،بڑے تعلیمی اداروں کی رائے یہی ہے کہ
قیام بورڈ کے بعد مدارس کی روح اوردینی مزاج کا امتزاج تقریباً فنا ہوجاتا ہے اس لیے
ہماری رائے یہی ہے کہ مدرسہ جس نہج پر چل رہا ہے اس کے لیے وہی بہتر ہے، کسی بورڈ وغیرہ
کی قطعی ضرور نہیں ہے۔
مولانا نے کہا کہ جن ریاستوں
میں بورڈ کے مدرسے کام کررہے ہیں اس میں تعلیم کا جو معیار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں
ہے۔حکومت پالیسی ہوتی ہی ایسی ہے علما اس کا شکار ہوجاتےہیں اور غالباً حکومت کا یہی
منشا ہے کہ بورڈ ہے، بھلے ہی تعلیم پر بٹہ لگ جائے، مگر ہم لوگ دینی مدارس کو محض بورڈ
نہیں تعلیم کا مرکز اور دانشگاہ کی حیثیت سے جو اس شناخت ہے اس کی بقا کے لیے جدوجہد
کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ کا جو مسودہ حکومت کی جانب سے تیار کیا ہے اس کو
عام کرے تاکہ آزادانہ طور پر غور فکر کیا جاسکے۔بعد وہ قومی سطح پر قومی مناقشہ ہوا
اور پھر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے۔ مسجد فتح پوری کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم نے
کہا کہ دینی مدارس کے طلبہ میں اخلاقی اور تعلیمی دونوں انحطاط کا دور ہے اس لیے مدارس
کو اس معیار کا بنایا جائے کہ طلبہ کی اچھی کھیپ تیا ہو۔ مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام
کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ چونکہ ابھی میں نے اس فارمولہ کامطالعہ نہیں کیا ہے اس
لیے کوئی رائے غیر مناسب ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جب حکومت نے یہ کہہ دیا ہے کہ ہم
مذہبی تعلیم میں مداخلت نہیں کریں گے تو اس سلسلے میں غور وفکر کرنا چاہئے۔ انہوں نے
اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ جس طرح سے کیرالہ میں سرکاری بورڈ کے علاوہ مسلمانوں
کا بھی ایک بورڈ قائم ہے اور یہ بورڈ سرکاری بورڈ سے کہیں بہتر ہے، اسی طرح ہمارا اپنامشاورتی
بورڈ ہوتو زیادہ موزوں ہوگا۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/suggestions-central-madrasa-board—ambiguous-unclear/d/1916