New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 03:40 PM

Urdu Section ( 10 Jan 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Is It Required To Change The Curriculum Of Madrasas? مدارس کے نصاب میں تبدیلی کیوں ضروری؟


مفتی یا سرندیم قاسمی

مدارس عربیہ کے نصاب  تعلیم کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے اور بہت کچھ کہا بھی گیا ہے،لیکن ابھی تک اس بحث کو کوئی اطمینان بخش رخ نہیں مل سکا اور نہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا، جو لگ نصاب تعلیم کے مسئلے پر اظہار کرتے رہے ہیں ان میں ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو اس نصاب کو کسی بھی لائق نہیں سمجھتے ،دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو اس نصاب کو منزل من اللہ سمجھ کر ادنیٰ تبدیلی بھی گوارا نہیں کرنا چاہتے ، اس طرح یہ مسئلہ انتہا پسندی کے دوپالوں کے درمیان پھنس کر عقدۂ لایخل بنا ہوا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ دونوں گروہ اپنے اپنے نقطہ نظر پر مصر ہیں ، ایک طرف وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو اس بات پر اصرار کررہا ہے نصاب میں کچھ ایسی تبدیلی ہوکر مدرسے سے فارغ ہونے والے طالب علم کے سامنے تمام راستے کھلے رہیں، خواہ وہ ڈاکٹر بن جائے یا انجینئر ،یا پھر کسی دوسرے میدان کا انتخاب کرلے۔ ظاہر ہے اس طرح کی کوئی تبدیلی مدارس اور ان کے مقصد کے سراسر خلاف ہے۔ دوسری طرف اساتذہ مدارس کا ایک طبقہ اس بات سے خائف رہتا ہے کہ نصاب میں ترمیم وتبدیلی کی صورت میں ایسی کتابیں اور چند ایسےعلوم پڑھانے پڑسکتے ہیں جو انہوں نے خود نہیں پڑھے ،ایسی کتابیں پڑھانے کے لئے محنت کرنے سے بہتر یہ ہے کہ نصاب کو جوں کا تو ں رکھا جائے اور وہی پیچیدہ اور مشکل وادق کتابیں شروحات کی مدد سے رٹ کر طلبہ کے سامنے سنادی جائیں جو انہوں نے پڑھی ہیں، ان  دومتضاد نقطہ ہائے نظر کی وجہ سے ہی نصاب تعلیم کے تعلق سے ہونے والی بحث کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔ صورت حال یہاں تک آپہنچی کہ مدارس کے فارغین کی ایک بہت بڑی تعداد سے عصری علوم کو  سمجھنے کی تو کیا امید کی جاتی ، خود جس میدان میں انہوں نے آٹھ سال لگائے ہیں اس میدان کےعصری نقاضوں کو بھی پورا کرنے سے وہ قاصر ہیں۔

نئے نظریات ،نئی ایجادات او رمعاملات کی نت نئی صورتوں کے شرعی احکام سے ان طلبہ کی بھی ایک محدود ہی واقف ہوتی ہے جو تمرین فتاوی اور افتا جیسے شعبوں میں داخلہ لے لیتے ہیں ۔ اس صورت حال کے لیے فضلائے مدارس کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ اس نصاب کا ہے جو انہیں پڑھا یا جارہا ہے،الفقہ المیسر یا نوالایضاح سے شروع ہونے والا فقہی سفر جب ہدایہ پر ختم ہوتا ہے تو طہارت وصلاۃ کے مسائل انہیں ا س لیے از برہوتے ہیں کہ ان سے پہلے پڑھا ہی کیا۔ اور ہدایہ ثالث میں معاملات کے مسائل اس لیے سمجھ میں نہیں آتے کہ اس سے پہلے ساتھ آٹھ سالوں میں کبھی یہ مسائل دلائل کے ساتھ پڑھے ہی نہیں۔ اگر حقیقت یہ ہے تو اس کا منطقی نتیجہ وہی نکلے گا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب کا جائزہ لیں کہ آٹھ سالوں پر محیط اس کو رس میں فقہ کی کس کتاب میں کیا پڑھا یا جارہا ہے ، سال دوم میں جب فقہ کی تعلیم شروع ہوتی ہے تو نور الایضاح اور کچھ مدارس میں  اس کے ساتھ ساتھ مختصر القدوری کے ابواب العبادات پڑھائے جاتے ہیں۔ سال سوم میں قدوری کے ہی مابقی ابواب کی تعلیم ہوتی ہے۔ سال چہارم میں کنز الدقائق یا شرح الوقایہ شامل درس رہتی ہیں۔ ان کتابوں میں ابواب العبادات بھی بہ مشکل تمام ہی مکمل ہوپاتے ہیں ، بلکہ کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلاۃ ہی مکمل ہوجائیں تو یہ ایک بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ سال پنجم میں جب طالب علم پہنچتا ہے تو اس کے سامنے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کی جلد اول ہوتی ہے جس کا آغاز کتاب الطہارۃ سے ہی ہوتا ہے۔ اس کتاب میں بھی ابواب العیاد ات کی تکمیل شاید و باید ہی ہوپاتی ہے۔سال ششم کے دوران ہدایہ جلد ثانی میں کتاب النکاح سے شروع ہونے والا تعلیمی سال طلاق او ر عتاق سے ہوتا ہو اایمان پر ختم ہوجاتا ہے ۔ سال ہفتم میں ہدایہ آخرین سے معاملات کے ابواب کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس طرح فقہ کا نصاب  مکمل ہوجاتا ہے۔ اس طرح کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلاۃ کے مسائل طالب علم کے سامنے کم از کم چار مرتبہ آجاتے ہیں جب کہ دیگر ابواب پہلی مرتبہ مختصر قدوری میں بغیر  دلائل کے اور ہدایہ میں دوسری مرتبہ دلائل کے ساتھ آتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ فقہ کے اس نصاب میں کچھ ترمیم کی جائے تاکہ اس میں توازن قائم ہوسکے اور ہدایہ آخرین میں معاملات کے ابواب سمجھنے میں آسانی ہو۔

مگر ترمیم کا مطلب ترمیم ہی  ہے نصاب تعلیم کی از سرنوتدوین مقصود نہیں ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے اکثر وبیشتر یہ مطالبہ ہوتا رہتا ہے کہ مدارس میں معاشیات کی تعلیم ہونی چاہئے ۔ یہ مطالبہ منبی بر خلوص اور درست ہوسکتا ہے مگر پھر بھی وضاحت طلب ہے کیوں کہ اگر مقصد یہ ہے کہ جس طرح کامرس اور فائنانس کی فیلڈ کے طالب علم کو اکنامکس کی تعلیم دی جاتی ہے اسی طرح مدارس کے طالب علم کو بھی یہ مضامین اسی تفصیل کےساتھ پڑھائے جائیں تو خلط بحث کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔البتہ اگر اس مطالبے کا مقصد مدارس میں اسلامی معاشی نظام کی تعلیم وتدریس ہے تو ہمیں بھی اس بات کااعتراف کرنے میں پس وپیش نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارے نصاب میں اگرچہ اسلامی معاشیات کے اصول ومبادی ضرور پڑھا ئے جاتے ہیں مگر اس مضوکن کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا یہ مستحق ہے۔ اس کے لئے اولاً بنیادی طور پر ضروری یہ ہے کہ فقہی نصاب میں کچھ اس طرح تبدیلی کی جائے کہ مدارس کے نصاب تعلیم کی روح بھی باقی رہے اور مقصد بھی پورا ہوجائے ۔ثانیانصاب تعلیم میں کچھ ایسے عصری مضامین کا بھی اضافہ کیا جائے جو اس دور کے معاشی مسائل ،مشکلات اور ان کے حل سمجھنے میں ممدو معاون ہوں لہٰذا (1)علم ریاضی (Mathametics ) کو داخل نصاب کیا جائے اور سال اول وسال دوم میں اس کے نصاب کومکمل کرلیا جائے، اس فن کی تعلیم کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ طلبہ کو اردو اصطلاحات کےساتھ ساتھ  انگلش اور عربی اصطلاحات سے بھی متعارف کرایا جائے ۔ اس لیے کہ اسلامک فائنانس پر زیادہ تر کام انگلش اور عربی زبان ہی میں ہوا ہے۔ اگر طلبہ آگے چل کر اس موضوع پر لکھی گئی تصنیفات سے استفادہ کرنا چاہیں تو یہ اصطلاحات ان کے لئے مانع نہ بنیں۔(2) الجبرا جس  کو علم ریاضی کی دوسری سیڑھی کہا جاتا ہے بھی کسی معاشی نظام کو سمجھنے اور اقتصادی مشکلات ومسائل کا حل تلاش کرنے میں بہت اہم ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں الجبرا کا بڑا کردار ہے۔ اس نظام کو سمجھنے اور اس کے عملی طور پر نفاذ کے لیے الجبرا کے بغیر آگے بڑھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ فن ہمارے مدارس میں ایک زمانہ تک نصاب تعلیم کا جزورہا مگر نظریہ سازی کے فقدان اور رجعت پسندی کے شوق کی بنا پر یہ فن بھی بہت سے دیگر علوم وفن کی طرح  بے دخل کردیا گیا ۔ گوکہ علم الجبرا خالص مسلمانوں کی ایجاد ہے اسی لیے ایک زمانے تک مختلف عربی اصطلاحات کے ذریعہ یہ فن براہ راست مقصود نہیں ہے،بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کی عملی طور پر تطبیق ہو اور انسانی معاشرے میں اس عظیم نظام کو نفاذ ہو اس لیے الجبرا کو تفصیلات کے ساتھ نہ پڑھا کر اس کے مبادیات پر اکتفا کیا جائے اور اس کا نصاب سال سوم میں مکمل کرلیا جائے ۔ درجہ ثالثہ کے طالب علم کے لیے اس فن کو سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس نے فن حساب کا نصاب مکمل کرلیا ہو ۔ اگر آسان زبان اور مناسب طریقہ تدریس اختیار کیا جائے تو جس طرح (C B S E ) بورڈ کا چھٹی جماعت کا بچہ الجبرا پڑھنے اور سمجھنے لگتا ہے اسی طرح ہمارے مدارس کے سال سوم کا طالب علم بھی اس فن کو سیکھ سکتا ہے ۔ (3)انگلش زبان کی تعلیم سال چہارم تک لازمی ہونی چاہئے ،انگلش زبان میں مہارت مدارس کے نصاب کا مقصود نہیں ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں ایک عالم دین اور مفتی کے لیے عصری تقاضوں کے مطابق شرعی مسائل کا حل تلاش کرنے کےلئے یہ زبان ممدومعاون ہے، وہیں دعوت وتبلیغ کےمیدان میں انگلش کا استعمال دیگر زبانوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہے۔ مدارس کے فارغین اور فضلا کو اتنی انگلش تو آنی چاہئے کہ اگر وہ دعوت دین کو اپنا میدان عمل بنانا چاہیں تو تھوڑی بہت محنت کے بعد ان کے لیے یہ ممکن ہوسکے۔ راقم خود مدارس کے نصاب تعلیم کے اس نقص کا شکار ہوچکا ہے، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جب میں ، بغرض تعلیم امریکہ گیا اور وہاں کے ایک کالج میں داخلہ کیا تو انگلش اور دیگر فنون کے ساتھ ساتھ ‘‘مبادیات علم الا قتصاد’’ کے نام سے ایک ششماہی کورس بھی کیا۔

کتاب کاپہلا باب سرمایہ دارنہ نظام کی تعریف اس کے آغاز وار تقا اور اس کے اغراض ومقاصد سے متعلق تھا۔ نیا فن تھا، مضمون سمجھ میں آرہا تھا ،اس لیے دلچسپی برقرار رہی ۔ دوسرے باب میں جدید علم الاقتصاد کی دو اہم اصطلاحوں مائکرو (جزوی) اور میکرو (کلی) اکنامکس کے بارے میں پڑھا یا گیا۔ تیسرے باب میں طلب ورسد (Demand & Supply)کی بحث تھی۔ اس مضمون کو جب مثالوں سے سمجھا یا گیا اور بار گرافس اور ڈائگر امز کی مدد سے مضمون کو آسان کرنے کی کوشش کی گئی تو علم ریاضی اور الجبرا سے عدم واقفیت کی بنا پر طلب ورسید جیسے آسان نظریے کو سمجھنا میرے لیے انتہائی مشکل ہوگیا۔ مدارس میں اگر معاشیات کی تعلیم کے لئے کوئی تجویز پیش کی جارہی ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ان علوم وفنون کو داخل درس کیا جائے جن کے بغیر جدید معاشیات کو نہیں سمجھا جاسکتا ۔(4)سال چہارم میں سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم اور اسلامی اقتصادی نظام کو صرف نظریاتی طور پر پڑھایا جائے اور ان تینوں نظاموں کے درمیان موازنہ کر کے طالب علم کو اسلامی معاشی نظام کی خصوصیات سے متعارف کرایاجائے۔(5)عام طور سے دیکھاگیا ہے کہ طالب علم اگر مختصر قدوری سمجھ کر پڑھ لے تو اس کے لیے بدایہ جلد اول سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا اس لیے شرح وقایہ اور کنتر الدقائق کی جگہ ہدایہ جلد اول ہی پڑھائی جانی چاہئے ۔ اس طرح جب سال چہارم کی تکمیل ہوگی تو ابواب  العبادات بھی متون ودلائل اور اصول وفروغ کے ساتھ مکمل ہوجائیں گے۔سال پنچم میں ہدایہ جلد اول کے بجائے کسی ایسی کتاب کو جگہ دی جائے جس میں ابواب المعاملات عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر دلائل کے ساتھ پیش کئے گئے ہوں۔مثال کے طور پر شیخ وہبہ زحیلی کی الفقہ الا سلامی وادلتہ کا نام  لیا جاسکتا ہے ، اس کتاب کے ابواب البیوع ،کتاب  التجارۃ ،کتاب الشرکۃ ،کتاب المضاربہ ، کتاب الرہن اور کتاب الصرف جیسے ابواب تفصیل سے پڑھا ئے جائیں ۔ مدارس میں کچھ فقہی ابواب اس انداز سے پڑھائے جاتےہیں کہ  طلبہ کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ یہ مسائل قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور ان کو سمجناج وسمجھانا ایک لا حاصل امر ہے ۔ بہ طور مثال کتاب المز ا رعۃ اورکتاب المساقات کو ذکر کیا جاسکتا ہے۔ آپ حضرات کے علم میں یہ بات یقیناً ہوگی کہ دنیا میں بہت سے ملکوں کی معیشت کا دارومدار صرف اور صرف ایگر یکلچرل انڈسٹری پر ہے۔ ایسے ملکوں میں زراعت وغیرہ سے متعلق نئے نئے مسائل سامنے آتے رہتے  ہیں مگر ان ابواب کی ناقص تعلیم کی بنا پر بہت سے مسائل ایسے ہیں جو فضلائے مدارس کے فہم سے بلا تر ہیں، اس لیے  ضروری ہے کہ ان ابواب کو موجودہ صورت حال اور ملکی قانون کی روشنی میں پڑھا جائے۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/required-change-curriculum-madrasas-/d/2355


Loading..

Loading..