New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 01:59 AM

Urdu Section ( 21 Aug 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Latest Incident of Contempt of Quran توہین قرآن کا تازہ واقعہ۔ توجہ طلب امور

محمد عمار خان ناصر

21 اگست، 2012

اسلام آباد کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک مسیحی لڑکی کی طرف سے مبینہ طور پر قرآن مجید کے اوراق جلائے جانے کے واقعے نے ایک بار پھر توہین رسالت کے قانون اور اس کے منفی  استعمال کو ملکی  وغیر ملکی میڈیا میں موضوع بحث بنادیا ہے۔ ابتدائی اخباری اطلاعات (20 اگست) کے مطابق مسلمانوں کے ایک ہجوم کی طرف سے ملزمہ کے گھر کے گھیراؤ کرنے اور اس پر قرآن مجید کے اوراق جلانے کا الزام عائد کر نے پر پولیس نے لڑکی اور اس کے والدین کو اپنی کسٹڈی میں لے لیا ہے اور صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایت پر اس ضمن میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

توہین رسالت یا توہین قرآن کا ارتکاب کرنے والے کسی شخص کو کیا سزا دی جانی چاہئے اور کیا اس نوعیت کے ہر مجرم کے ساتھ ایک ہی انداز کا معاملہ کیا جانا چاہئے؟ یہ ایک الگ بحث ہے اور اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل اخبارات و جرائد میں تفصیلی علمی بحثیں شائع ہوچکی ہیں۔ اسی طرح اس سوال کو بھی سردست ایک  طرف  رکھ دیجئے کہ اسلامی شعائر کے تحفظ و احترام کے تناظر میں کیا یہ رویہ از روئے حکمت مناسب ہے کہ کسی بھی کونے کھدرے میں رونما ہونے والے ہر واقعے کو مسلمان از خود منظر عام پر لاتے ہوئے اس کی تشہیر کریں  اور جس واقعے کی منفی تاثیر ایک مضافاتی علاقے کی کسی گلی تک محدود تھی،اس کو بڑھا چڑھا کر بین الاقوامی میڈیا کا موضوع بحث بنا دیں؟ان دونوں سوالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے سردست توہین قرآن کے اس تازہ واقعے کے حوالے سے اخباری رپورٹوں کی روشنی میں تین امور ہیں جن کی تحقیق قانون کے مطابق مقدمے کے اندراج اور اس پر  عدالتی کارروائی  کے لیے بالکل غیر جانب دارانہ طو رپر ضروری ہے:

سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ کیا واقعتاً قرآن مجید کے اوراق جلائے گئے ہیں؟ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کےمطابق ایک مقامی پولیس افسر قاسم نیازی  کا کہنا ہے کہ جب لڑکی کو تھانے میں لایا گیا تو اس کے پاس موجود ایک شاپنگ میں جزوی طور پر جلے ہوئے کچھ مذہبی  اوراق تو موجود تھے، لیکن ان میں قرآن مجید کے اوراق شامل نہیں تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر واقعے میں جنتی  سنگینی  پائی جاتی ہے ، اس کو اسی حد تک محدود رکھنا ملکی قانون اور اسلامی فقہ، دونوں کی روسے واجب ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ کیا ملزمہ کی ذہنی حالت درست ہے اور کیا شرعی ، اخلاقی اور قانونی طو رپر اس پرقانون کا نفاذ کیا جاسکتا ہے؟ یہ اس لیے ضروری ہے کہ لڑکی کے والدین کے بیان کے مطابق وہ ذہنی  طور پر ایک مخصوص دماغی بیماری کا شکار ہے۔ممکن ہے یہ بات خلاف واقعہ ہو، لیکن قانون کے منصفانہ نفاذ کے لیے اس پہلو کی غیر جانب دارانہ تحقیق بہر حال ضروری ہے۔

تیسری چیز ملزمہ کی عمر کا مسئلہ ہے۔  اخباری رپورٹوں کے مطابق ملزمہ مبینہ طو رپر نو عمر ہے اور اس کی عمر گیارہ سے سولہ سال کے درمیان ہے۔ اگر واقعتاً ایسا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ چلاتے ہوئے پاکستان کے قانون کے مطابق اس کی عمر کا لحاظ رکھنا اور بالغ او رنابالغ مجرم کے مابین جس فرق کو دنیا کا ہر قانون ملحوظ رکھتا ہے، اس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔

ان تینوں باتوں کی تحقیق نفاذ قانون کی بنیادی  شرائط میں سے ہے اور ان کو نظر انداز کرتےہوئے اگر محض عوامی جذبات یا مذہبی  طبقات کے سیاسی دباؤ کو اس معاملے میں اصل فیصلہ کن عامل کا درجہ دیا جائے گا تو یہ قانون اور انصاف کا خون کرنے کےمترادف ہوگا جو پاکستان کے عمومی حالات کے لحاظ سے کوئی نادر الوقوع چیز نہیں ۔

ایک مسلمان ریاست میں توہین رسالت یا توہین قرآن پر سزا کے قانون کا موجود ہونا اور جو مجرم فی الواقع سزا کے مستحق ہوں، ان پر اس قانون کا نافذ ہونا ہمارے نزدیک اسلام ، جمہوریت اور عقل عام ،تینوں کا ایک بد یہی تقاضا ہے ، لیکن اسلام اور عمومی اخلاقیات کا اس سے بھی بڑھ کر تقاضا یہ ہے کہ اس قانون کا نفاذ نہایت منصفانہ ، غیر جانب دارانہ اور کتاب قانون میں درج شرائط اور ضوابط کے مطابق ہو اور اس میں مذہبی  تعصب ، فرقہ واریت اور خاص طور پر اقلیتی گروہوں کے احساس تحفظ کو  ناروا طور پر مجروح کرنے کا عنصر کسی بھی درجے میں نہ پایا جائے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں نفاذ قانون کی اخلاقیات کے حوالے سےعمومی مذہبی رویے اس کے بالکل برعکس ہیں اور میں یہ بات نہایت ذمہ داری کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ اس نوعیت کے مقدما ت کی ایک بڑی تعداد کے پیچھے اصل عوامل اور محرکات وہی ہوتے ہیں  جن کاذکر کیا گیا ہے۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت اب تک ساڑھے تین سو کے لگ بھگ جن افراد کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے، ان میں  سے نصف سے زیادہ مقدمات میں ملزم غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں،  جبکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ کوئی مسلمان، اسلام پر قائم ہوتے ہوئے بقائمی ہوش و حواس اس جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا ۔ ایسے مقدمات عام طور پر یا تو کسی ایک فرقے سے وابستہ لوگوں کی طرف سے اپنے مخصوص عقائد پر تنقید کی بنیاد پر مخالف فرقے کے  کسی فرد کے خلاف درج کرائے گئے ہیں (مثلاً ایک واقعے میں دیوار پر لکھے ہوئے ‘‘یا رسول اللہ’’ کے الفاظ میں سے ‘‘یا’’ کا لفظ مٹادینے پر توہین رسالت کا مقدمہ درج کروادیا گیا) اور یا کسی ذاتی یا گروہی عناد اور مخاصمت کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے مخالفین  پر توہین رسالت کا الزام عائد کردیا گیا ہے۔  ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن میں ملزم کی ذہنی حالت درست نہیں ، لیکن نہ تو مدعی اس پہلو کا لحاظ کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ عدالتیں ہی عوامی دباؤ کا نظر انداز کرتے ہوئے خالص قانونی بنیادوں پر مقدمے کو نمٹانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

توہین رسالت پر سزا کا مسئلہ اس وقت مغرب اور مغرب سے متاثر فکری طبقات کا خاص ہدف ہے ۔ ان کی طرف سے اس قانون کی مخالفت کی بنیادیں فکری اور نظریاتی ہیں، لیکن اس کے خلاف استد لال کے لئے عام طور پر اس قانون کے غلط اور جانب دارانہ استعمال کی مثالوں کو نمایاں کیا جاتاہے۔ بد قسمتی سے ہمارے عمومی مذہبی و معاشرتی رویے اس استدلال کو جواز بھی فراہم کررہے ہیں اور مسلسل تقویت بھی پہنچا رہے ہیں ۔ میں اپنی نجی  مجالس میں  کئی دفعہ یہ عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے ہاں جس بے دردی سے کسی بھی شخص پر توہین رسالت کا الزام عائد کردینے کا رجحان فروغ پذیر ہے،اس کے نتیجے میں بعید نہیں کہ کچھ عرصے کے بعد خود مذہبی طبقات اور مذہب سےمخلصانہ وابستگی رکھنے والے عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اس صورت حال کے مقابلے میں اس قانون کو ختم یا عملاً معطل کردینا ہی باعث عافیت ہے۔ اگر نوبت یہاں تک پہنچی  ہے تو میں بلا خوف لومۃ لائم یہ کہوں گا کہ اس کی بنیادی ذمہ داری خو د اہل مذہب کے عیر متوازن رویوں پر عائد ہوگی، چاہے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے اسے ‘‘دشمنان اسلام کی سازش ’’ کا پر فریب عنوان دے دیا جائے۔

21  اگست ، 2012

مصنف ماہنامہ‘الشریعہ‘ گوجرا نوالہ کے مدیر ہیں۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-latest-incident-contempt-quran/d/8354

Loading..

Loading..