New Age Islam
Sun Sep 15 2024, 03:25 AM

Urdu Section ( 12 Nov 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Maulana Abul Kalam Azad’s Politics Based on Religionمولانا ابو الکلام آزاد کی سیاستِ دینی

فیروز بخت احمد

12 نومبر ، 2012

مولانا ابوالکلام آزاد دین کی گود میں پیدا ہوئے اور سیاست کے ماحول میں پلے ۔ عربی ان کے لئے بہ منزل ِ مادری زبان تھی اور اردو فارسی ان کے قبضۂ قدرت میں اسیر دینی میلان نے ان کو علوم دینی سے قریب کیا اور سیاسی رجحان نے انہیں اکابرین سیاست کی صف میں لاکھڑا کیا۔ قرآن و حدیث سے اتنا باخبر شخص جب سیاست کے میدان میں اتر ا تو اس نے دکھا دیا ۔

در کفے جام ‘‘ سیاست’’ در کفے سندان عشق

ہر ہوس ناکے نہ داند جام و سندان باحنتن

مولانا آزاد کی نگاہ میں دین ِ اسلام ہمہ گیر ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے ۔ سیاست مختلف شعبہ جات زندگی میں سے ایک شعبہ ہے اور دین کی رہنمائی سے خالی نہیں ۔ اسلام نے نوع بشر کی رہنمائی کے لئے ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کیا ہے۔ جو قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے ۔ اس خدائے بر تر و بزرگ نے جب انسانی ضروریات کو محلوظ رکھا اور انسانی معاشرے سےمتعلق ایسے اصول و قوانین پیش کئے  جنہیں اپناکر روئے زمین کی ساری آبادی فلاح و کامرانی کی منزل تک پہنچ سکتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ تاج حکومت اور انسانی آبادی کے تحفظ کی خاطر فوج اور لشکر کشی کے بارے میں ان کے احکام نہ ہوتے لہٰذا طرز حکومت ، سیاسی تدبر ، فوجی حکمت عملی، انسانی آزادی کے اساسی پہلو اور ان پر خدائی قانون کی پابندیاں ان سب کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام نے ایک آئینی ڈھانچہ تیار کردیا ہے۔ مولانا آزاد مذہب اور سیاست کے اس اٹوٹ تعلق پر نظر رکھتے ہیں اور کسی بھی حال میں اس سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ۔ ہندوستان کی سیاسی آزادی کی تاریخ میں مولانا آزاد کے کردار کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

ادیان عالم نے ہمیشہ اہلِ سیاست کے بڑھتے ہوئے اقتدار کے خوف سے اپنے آپ کو رسوم و عبادات میں محدود کرلیا مگر اسلام  اس انداز فکر کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا اس لئے ہر عہد میں جب مسلمان مذہب کی بنیاد پر کنارہ کشی کی راہ اختیار کرنے لگے تو ان ہی کی صف میں کوئی مرد مجاہد ایسا کھڑا ہوا جس نے سیاست کو مذہب سے جوڑ نے کا نعرہ بلند کیا۔ جلال الدین افغانی ہوں یا علامہ اقبال یا مولانا آزاد ۔ ان میں سے ہر فرد سیاست اور مذہب کے امتزاج کا قائل تھا لیکن عام طور پر اہل کلیسا کے زیر اثر سیاسی اقتدار نے مذہب سے پیچھا چھڑا یا، مسلم علماء بھی سیاسی سر گرمیوں سے دور رہنے لگے۔ یہ سیاسی سر گرمیوں سے علمائے اسلام کی بے تعلقی کا ہی نتیجہ تھا کہ مولانا آزاد کو سیاسی سطح پر علمائے اسلام کی تنظیم کی ضرورت محسو س ہوئی ۔ ان کی نظر میں علمائے دین ہی احکام الہٰی کے اسرار و رموز پر نظر رکھتے ہیں اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ  اپنی ملت کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کی قیادت کے لئے آگے بڑھیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے جس اخلاص اور خدا خواہی کا مطالبہ کرتا اس کا تقاضا ہمیشہ دوسروں کی خیر اندیشی ہے۔ حرص و طمع اس کے دائرے سے خارج ہے۔ اسرار دین کے ایک واقف کار کی بلئے مولا کی خوشنودی  کے سوا کسی اور چیز کی حرص و طمع ہو ہی نہیں سکتی ۔ مولانا آزاد اسی موقف کو لے کر علماء کی ایک تنظیم قائم کرنا چاہتے تھے۔

اسی مطمع نظر کی بنا پر مولانا آزاد نے پان اسلام ازم کی بھی ہم نوئی کی ۔ دراصل پان اسلام ازم مغربی سیا سیاست کی ایک جدید اصطلاح ہے لیکن طنز و تعریض مغربیوں نے اس کو جو نام دیا ہو اور اس کی جتنی بھی مذمت کی ہو، واقعہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد اسلام کے اس ازلی پیام میں ہے جو روز اوّل سے اس کائنات میں جاری و ساری ہے، خالق ایک کائنات کی فطرت ایک اور نبی آدم کی سر شت ایک ہے تو پھر وحدتِ آدم کیوں نہ اصول قرار پائے اور  جب اس اصول کے ماننے والے خدا، رسول اور قرآن پر ایمان لے آئیں تو ان کی اور برادری کیوں نہ روئے زمین کی سب سے بڑی برادری ٹھہرے ۔ اسی نقطۂ نظر کو لے کر سب سے پہلے جلال الدین افغانی نے اہلِ مغرب کی سیاست کا توڑ پیش کیا تھا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نقطے پر مرکوز و متحد ہونے کی رائے دی تھی۔اہل مغرب نے عموماً اور انگریزوں نے خصوصاً جلال الدین افغانی کا مذاق اڑایا۔ اس کے ایک زمانے کے بعد علامہ اقبال بھی ان ہی خطوطِ فکر پر اپنے پیغام کو مرتب کرتے رہے مولانا آزاد نےبھی پان اسلام ازم کی حمایت کی جو ان کے خطبات (مرتبہ مالک رام ) حصہ اوّل میں ‘‘اتحاد اسلامی ’’ کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی افتتاح مدرسہ اسلامیہ، مجلس خلافت، آل انڈیا خلافت کانفرنس اور جمعیت العلمائے ہند کے زیر عنوان مولانا آزاد کے ان خطبات میں جو ساہتیہ اکادمی سے شائع ہوتے ہیں۔سیاست او رمغرب سے متعلق اور اسلامی اتحاد سے متعلق مولانا آزاد کے افکار سے شناسائی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مولانا آزاد اس بات پر صدق دل سے یقین رکھتے ہیں کہ مذہب کا تحفظ سیاسی اقتدار کے بغیر نہیں  ہوسکتا اور اس سیاسی اقتدار کے لئے عالم اسلام کا اتحاد ناگزیر ہے۔ عالم اسلام کے اتحاد کے بارے میں مولانا آزاد اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ اقوامِ مغرب کو پسند نہیں ہے اور تاریخ کے ادراق پکا ر پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اقوامِ مغرب کو موقع مل جاتا تو وہ اسلام کے ماننے والوں کو دنیا سے فنا کردیتیں اس لئے مولانا آزاد نے عالم اسلامی کے اتحاد کے لئے علم دین کے حصول پر زور دیا اور مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ مالی اور جانی جہاد کے لئے آمادہ کیا۔ اپنے زمانے میں مولانا آزاد نے دیکھا کہ مسلمانوں کے اتحاد کا مرکز سلطنت عثمانیہ ہے اور اسی لئے انہوں نے خلافت تحریک کی دل و جان سے حمایت کی۔ اس کا مقصود عالم اسلامی کے اتحاد کے سوا کچھ او رنہ تھا۔

خلافت کمیٹی ایک سیاسی تنظیم تھی جس کی تشکیل پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر داؤ ر میں عمل میں آئی تھی ۔ اس میں بلا امتیاز قوم وملّت ہر ہندوستانی شامل تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اربابِ حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدے شرمندۂ الفسانہ ہوئے تو ایک بار پھر تحریک آزادی کی تنظیمیں جاگ اٹھیں اور حکومت کے خلاف نعرے بلند ہونے لگے۔ پہلی بار خلافت کمیٹی نے ترک موالات اور عدم تعاون کا اعلان کیا اور حکومت کے خلاف صف آرائی ہوئی۔ مولانا آزاد کی نگاہ میں خلافت کمیٹی کے مقاصد میں مسئلہ خلافت کے لئے عوامی جدو جہد کو مہمیز کرنا اور حصولِ آزادی کے لئے مسلم طبقہ میں سر گرمیاں پیدا کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے لیکن ملک میں سیاسی صورت حال او رہندو مسلم عدم اتحاد نے مسلم طبقہ کو کبیدہ خاطر کردیا جس کی وجہ سے وہ عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے اور مرکزی کمیٹی کو ہی عام جد وجہد کے لئے کافی سمجھنے لگے۔

مسلمانوں کا  یہ رویہ مولانا آزاد کے لئے تشویشناک تھا۔ گزشتہ ایام میں تحریک خلافت نے اعتقاد و عمل کی جو فضا قائم کی تھی وہ محدود نظر آنے لگی ۔ مولانا آزاد کی نظر میں :۔

‘‘خلافت کمیٹی مسلمانوں کے کارکن حلقہ کی نمائندگی کرتی ہے، جس کے عقائد و اعمال کی چند خاص خاص خصوصیتیں ہیں اور ان ہی خصوصیتوں کی بنا پر اس کا ایک خاص حلقہ ملک میں قائم ہوگیا ہے۔ یہ حلقہ مسلمانانِ ہند کی جماعتی زندگی میں 1920 کی ایک نئی کڑی پیدا کرتا ہے جو 1912 سے 1920 تک کے دماغی تغیرات کا قدرتی نتیجہ تھی ۔ اگر یہ کڑی نکال دی جائے تو مسلمانوں کی سیاسی و عملی سر گرمی کی رفتار ترقی میں سے ایک منزل گم ہوجائے گی۔

دراصل حصولِ آزادی کا انحصار متحدہ قومیت پر تھا ۔ چنانچہ خلافت کمیٹی مسلمانوں کو اس نصب العین سےدست بردار ہوتے دیکھنا نہیں  چاہتی تھی۔مولانا آزاد کا خیال ہے کہ اگر مسلمانوں کو یہاں  کی اکثریت سے کوئی شکایت ہے تو انہیں کھل کر پوری قوت سےمنصفانہ طرز عمل کا مطالبہ کرنا چاہئے نہ کہ ان کے طرز عمل سے ناراض ہوکر ‘‘ اجنبی حکومت کی آڑ پکڑ نے لگیں اور ان کی ہستی ہمیشہ ملک کی قسمت کے لئے ایک دھمکی کی طرح استعمال کیا جائے ۔ ‘‘ ایسی صورت میں مسلمانوں کو اپنے حقوق اور حصول آزادی کے لئے کمر بستہ ہوکر جہاد کے لئے تیار رہنا چاہئے ، یہ عین دین ہے۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں:

‘‘اگر ہندوستان کے مسلمان اپنے بہترین شرعی اور اسلامی فرائض انجام دینا چاہتے ہیں ، تو بحیثیت ہندوستانی ہونے کے انہیں انجام دینا چاہئے ۔ یہ بھی ایک سچی حقیقت ہے ۔ مگر سب سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہونے کے مسلمانوں کا فرض ہے  کہ وہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ ہوجائیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ہندوستان میں ہندوستان کے مسلمان اپنے بہترین فرائض انجام نہیں دے سکتے جب تک وہ احکام اسلامیہ کے ماتحت ہندوستان کے ہندوؤں سے پوری سچائی  کے ساتھ اتحاد و اتفاق نہ کرلیں۔ یہ اعتقاد قرآن مجید کی نصّ قطعی پر مبنی ہے ۔ فی الحقیقت یہ وہ چیز ہے، جو اگر ایک طرف ترک موالات کے اصول کو ہمارے سامنے نمایاں کرتی ہے، تو دوسری طرف ہندو مسلمانوں کے مسئلے کو واضح کرتی ہے ۔’’

موجود عہد کے علما خود فراموش اور خواب غفلت کے نتیجے میں اپنی رفعت و عظمت اور وقار و جلال کھو چکے ہیں جو خدا وند قدوس نے انہیں عطا کیا تھا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں  خلافت دنیا کے لئے دنیا میں بھیجا تھا لیکن وہ اپنے اعمال و حرکات سے نہ صرف ذلیل و خوار ہورہے ہیں بلکہ دنیاوی جاہ وجلال کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور اپنے مالک حقیقی کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ مسرور ایام اور انقلابات و حوادث نے انہیں حقیر و بے مرتبت بنادیا ہے لیکن آج بھی وہ چاہیں تو ملت بیضا کی قیادت و ہدایت کی باگ ڈور سنبھا ل سکتے ہیں ، اپنی کوتاہیوں اور درماندگیوں سے نجات پاسکتے ہیں ۔ مولانا آزاد کی نگاہ میں علماء کا منصب یہ ہے کہ وہ زہد و تقوی ٰ کو اپنی اقلیم استغنا کا تاج  و تخت بنائیں ، فقر و فاقہ کو اپنی دولت تصور کریں اور بے نیازی و بے مراری کی متاع لازوال پر قانع رہیں اس لئے کہ بوریا ان کا تخت ، زہدان کی طاقت ، فاقہ ان کی شان اور بے نیازی اس کی شوکت ہے۔

مولانا آزاد علما سے اخلاص نیت اور صلابت عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے علماکے لئے لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اخلاص نیت کے باوجود صحت عمل کے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی ۔

12 نومبر ، 2012  بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/maulana-abul-kalam-azad’s-politics/d/9281

Loading..

Loading..