New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 03:08 PM

Urdu Section ( 11 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Central Madrasa Board Is The Pressing Need of Time مرکزی مدرسہ بورڈ وقت کی اہم ترین ضرورت

فیروز بخت احمد

مدرسہ بورڈ کا ایشو ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ کوئی کہتاہے کہ یہ بورڈ بنے جب کہ کوئی کہتا ہے کہ یہ نہ بنے۔سوال یہ ہے ک آخر ملت کی بھلائی کس میں ہے اور وہ کیا چاہتی ہے؟

ہماری رائے میں مدرسہ بورڈ کے بننے سے کوئی بھی نقصان نہیں ہوگا، بلکہ کا فی فائدے ضرور ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پر آج مدرّس حضرا ت کی تنخواہ ہیں، جو کہ اقاف سے آتی ہیں، ان کا نہ توکوئی اسکیل ہوتا ہے ،نہ کوئی گریڈ اور نہ ہی کسی قسم کا انکریمنٹ ملتا ہے ۔ وہ تو بس ملت کے سہارے زندگی گزارتے ہیں ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اگر بورڈ بن گیا تو اس سے ہر مدرس کوباقاعدگی سے اچھی تنخواہ ملے گی اور رٹائرمنٹ کے بعد اگریچویٹی و پراوڈنٹ فنڈ بھی ملے گا۔

رہی بات نصاب کی تو ہر مدرسہ کانصاب تقریباً الگ ہوتا ہے۔ کل ہند پیمانہ پر مدارس کی تمام کتابیں یکساں ہونی چاہئیں ۔ دینی تعلیم کے بعد جو کہ مدارس کا بنیادی ڈھانچہ ہے، نصاب میں عصری علوم کی شمولیت بھی ہونی چاہئے۔ دراصل دینی وعصری امتزاج ہی ہمیں ایک ایسا میزان مہیا کرے گا ، جس سے بچہ دین ودنیا دونوں میں کامیاب رہے گا۔ مدرسہ کے بچہ کا دماغ بالکل ایک ایٹم بم کی مترادف ہے،جو قرآن کریم جیسی ضخیم کتاب کو بغیر زیرو زبر کے فرق کے حفظ کرلیتا ہے ۔ ایسے دماغ کا کیا کہنا! اگر یہی دماغ تھوڑا بہت عصری مضامین میں بھی لگالیا جائے تو اس سے بڑا فرق پڑے گا۔

علاوہ اس کے سلسلہ مدارس میں کچھ طلبہ کااستحصال بھی کیاجاتاہے، جیسے انہیں محترم مدرس صاحب کے گھر کا سامان لانا پڑتا ہے، دودھ لانا پڑتا ہے، ڈاک خانے ، بازار کے کام کرنے پڑتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کے پاؤں دبانے پڑتے ہیں۔

میدان تعلیم ، میدان عمل اور جدوجہد آزادی ہند کا جہاں تک تعلق ہے،مدارس اسلامیہ کا ایک نہایت اہم رول رہاہے۔ یہ الگ بات ہے کے حکومت مدارس کواتنی اہمیت نہیں دیتی ،جتنی دینی چاہئے ۔ دوسال قبل کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عاملہ نے اس ضمن میں 13و14مئی 2007کو ایک اہم اجتماعی اجلاس کا انعقاد کیا۔

دراصل مرکزی مدرسہ بورڈ کی بحث اس وقت شروع ہوئی ، جب اس سلسلہ میں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل کی جانب سے ایک میٹنگ کا دعوت نامہ مرکزی مدرسہ بورڈ ایجوکیشن بورڈ کے قیام کے لیے زیر غور موصول ہوا۔ اس میں اس وقت مسئلے مسائل شروع ہوگئے ،جب خود حکومت کی مدرسہ ماڈر نائزیشن کمیٹی کے چیئر مین مولانا ولی رحمانی نےسرکار کی نیت پر شک کرتے ہوئے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا۔حضرت مولانا موصوف تو  خود ہی یہ چاہ رہے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کی جدید کاری ہو اور جس کے لیے انہوں نے خود ایک تفصیلی رپورٹ وزارت کوبہت پہلے روانہ کردی ہے۔ ایک تو وہ مدارس اسلامیہ میں علوم جدید ہ کو شامل کرنے کی بات کررہے ہیں تو دوسری جانب نہ جانے کیوں وہ بورڈ کی مخالفت کررہے ہیں۔

یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جب بھی مسلم بچوں کی تعلیم کاسوال آتا ہے، چاہے وہ اردو میڈیم اسکول ہو یا مدارس اسلامیہ ،ہر مرتبہ ان کا ایک تماشا بنادیا جاتا ہے۔ اب کم از کم پانچ سال سے تو یہی ہورہا ہے ۔کبھی مدارس اسلامیہ کےمرکزی بورڈ کے خلاف مولانا ولی رحمانی مورچہ سنبھالتےہیں تو کبھی جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی آواز اٹھاتے ہیں۔

اس مرتبہ جب کپل سبل نے اس بل کو پاس ہونے کے لیے مسلم ممبران پارلیمنٹ کے پاس بھیجا تو اس بار مخالفت کی آواز مولانا ولی رحمانی کی جانب سے آئی ۔ ولی صاحب کے علاوہ اور بھی علما حضرات مدرسہ بورڈ کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے بغیر کسی تحقیق کے ، حکومت کی جانب سے بورڈ کے ضوابطہ جانے بغیر، کچھ علما حضرات آنکھ بند کر کے اس بل کی مخالفت کررہے ہیں۔

مدارس اسلامیہ کےمنتظمین عموماً اس بات پر برہم ہوجاتے ہیں کہ ان کا ایک مرکزی بورڈ تشکیل کردیا جائے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں، سب سے بڑی وجہ تو یہ کہ مدارس اسلامیہ ایک خاص قسم کا دینی کورس ،یعنی درس نظامی کی درس وتدریس کو اہمیت دیتے ہیں اور انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدرسہ بورڈ بن جائے اور ان کے معاملات درہم برہم ہوجائیں۔

بظاہر تو مرکزی مدرسہ بورڈ سے کوئی خدشہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا ،مگر جب جمعیۃ علما ہند کے صدر قاری محمد عثمان سے بات ہوئی تو انہوں نے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کل ہند مرکزی مدرسہ بورڈ بنادیا جاتا ہے تو اس سے مدارس کو بجائے مدد ملنے کے نقصان ہوگا، کیونکہ سرکار کی مداخلت کو یہ مدارس برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس سلسلہ میں قاری صاحب کو شاید اس بات کا بھی علم ہوگاکہ کپل سبل نےمدارس اسلامیہ کو اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ مدارس اسلامیہ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی اور جو نصاب وہاں پڑھایا جارہا ہے ، وہ بھی وہی رہے گا سوائے اس کے کہ پورا نظام منظم طریقہ سے چلے گا۔

سرکار اگر مدرسہ بورڈ بنائے گی، اس کے لیے ایک بجٹ کا تعین کیا جائے گا تو یہ ایک قدرقی بات ہے کہ سرکار اس کے بعد اپنی شرائط بھی رکھے گی۔ دراصل مدارس اسلامیہ اسی بات سے فکر مند ہیں کہ اگر مدارس سرکار سے گرانٹ لینا شروع کردیں تو اس کے بدلے انہیں نہ جانے کہا ں کہاں کمپر ومائز کرنا پڑے۔ کل ہند مرکزی مدرسہ بورڈ نہ بنانے کیا ایک وجہ مدارس اسلامیہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے تاکید کی تھی کہ مدارس حکومت سےکوئی تعاون نہ حاصل کریں، کیونکہ پہلے تو حکومتیں مالی تعاون کرتی ہیں اور پھر مدارس کے نظام میں مداخلت کر کے اپنی مرضی چلاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دارالعلوم دیوبند ،ندوۃ العلما لکھنؤ ،جامعہ سلفیہ، جامعۃ الہدایہ، جے پور وغیرہ سبھی کو یہ خطرہ ہے کہ سرکار کی مداخلت مدارس اسلامیہ کے لئے خوش آئیند ثابت نہ ہوگی۔

مدارس یہ بھی کہتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً مختلف سرکاریں ان کے اوپر الزامات لگاتی رہتی ہیں کہ طالبان کو پناہ دیتے ہیں، ان کے یہاں انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے۔ جہاد کے نام پر دہشت گردوں کو پنا ہ دی جاتی ہے وغیرہ ،یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مدارس ان باتوں کے علاوہ ہر وہ کام کرتے ہیں، جو تعمیر ی ہے، تعلیمی ہے او رملک وقوم کی بقا وبہتری اور برتری کے لیے ہے۔ عموماً ہم سرکار کی ہر ااس تجویز کو کالی عینک سے دیکھتے ہیں کہ جس میں وہ ہماری فلاح وبہبود کی بات کرتی ہے، مگر ساتھ ہی اس بات کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ تعلیمی نصاب وسلسلہ کہ جووقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، بچوں کو بجائے آگے لے جانے کے پیچھے دھکیل دیتا ہے ۔ شاید اس بات کو زیر نظر رکھ کر اب سے کچھ سال قبل وزیر تعلیم راجن سنگھ نے مدارس کی جدید کاری کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں ملک کے تین جانے مانے اکابرملت وعلمائے دین یعنی مولانا انظر شاہ کشمیری دیوبندی ، مولانا ولی رحمانی مونگیری اور مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی لکھنؤ کو پیش پیش رکھا گیا ۔

اس کے بعد ارجن سنگھ نے جسٹس ایم ایس اے صدیقی کی رہنمائی میں اس کمیٹی کی کئی تشستیں کرائیں ۔جسٹس صدیقی بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کے مدارس اسلامیہ کے لئے یہ بات اشد ضروری ہے کہ وہ تیز رفتار وقت موجودہ کی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ خود ہم آہنگ کریں، جسٹس صدیقی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آرہا تھا کہ اس اہم اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان کے پاس کوئی بلیو پرنٹ تیار نہیں تھا یا ان کا رابطہ ایسے تعلیم داں حضرات سے نہیں ہے کہ جو دینی وعصری تعلیم پر عبور رکھتے ہیں او رمعاملات کو سمجھتے ہیں۔ جسٹس صدیقی کا یہ مسئلہ اور اصل کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ سرکاریں آتی ہیں اور جاتی ہیں، مختلف اہم مقامات پر اپنے حامیوں کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ،بھلے ہی ان کے ممبران کیا کوئی اہلیت نہ ہو۔

ایک وقت مولاناابوالکلام آزاد نے بھی مولانا شبلی نعمانی کے ساتھ مل کر یہ کوشش تھی کے ایک کل ہند مرکزی مدرسہ بورڈ تشکیل دیا جائے تاکہ سبھی مدارس میں کورس کی یکسانیت ہو اور مدرسین حضرات کو بھی باقاعدگی کے ساتھ اچھی تنخواہیں ملیں، مگر ان کی اس تجویز کی ٹھیک اسی طرح مخالفت ہوئی کہ جیسے آج ہورہی ہے۔ اگر وہ مدرسہ بورڈ کی اس وقت مخالفت نہیں کرتے اور مولانا آزاد کا ساتھ دیتے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ بورڈ تو آزادی کے فوراً بعد ہی بن جاتا ۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مدرسہ بورڈ بنے اور اس کی تشکیل کے لیے حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی اسے سیاست سے جوڑا جائے۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/central-madrasa-board-pressing-need/d/1895

 

Loading..

Loading..