New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:26 AM

Urdu Section ( 16 May 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Society and the Importance of Curriculm and System of Education نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کی اہمیت اور مسلم معاشرہ

نشاۃ ثانیہ کے لئے معیاری اسکولوں ، کالجوں اور یونیور سٹیز کا ایک سلسلہ ضروری ہے

فضل الرحمن

16مئی 2012

نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کسی بھی ملک اور معاشرہ کا بے  حد بنیادی اور اہم حصہ ہوتا ہے۔ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم سے اس ملک اور سماج کی ترقی کو پرکھا جاسکتا ہے۔ سماجی ساختیات میں ان دو عناصر کا بے حد اہم رول ہوتا ہے ۔  اس سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کیسی ہوگی اور اپنے سماج اور پوری دنیا پر وہ کس طرح اور کس قدر اثر انداز ہوگی۔  مسلمانوں کے لئے تو نصاب تعلیم اور نظام تعلیم بے حد حساس موضوع ہے ، البتہ کہیں اس کی حساسیت کا احساس لوگوں کو ہے تو کہیں پر اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔  شمالی ہندوستان میں اگر اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں حالات بہت اچھے نہیں دکھائی دیتے۔  ایک طرف مدارس ہیں جو خالص دینی علوم کی تعلیم او ر دعوت دین کے لیے طلبہ کی کھیپ تیار کررہے ہیں تو دوسری طرف اسکولوں او رکالجوں کا وہ نظام ہے جہا ں دینی علوم کو ایک کنارے لگادیا گیا ہے، اس طرح جیسے کہ وہ کسی اور زمانہ کی چیزیں ہیں۔  ان دونوں کا سنگم تیار کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ سرکاری اسکولوں وکالج میں ظاہر ہے کہ اس کی گنجائش نہیں ہے، البتہ مسلمانوں کی طرف سے جو ادارے چلائے جارہے ہیں  ان میں ایسی کوشش کی جاسکتی تھی مگر عملی طور سے ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔   دینی مدارس کی جہاں تک بات ہے تو وہ روایتی ڈھرّے پر چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے فضلا کم ہی تیار ہورہے ہیں، جو جدید فلسفہ اور علوم میں مہارت رکھتے ہوں۔

  ایک طرف دین ودنیا کا یہ مصنوعی فرق ہے تو دوسری طرف کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو نصاب تعلیم کو منفی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی میں اپنی  پوری طاقت صرف کئے ہوئے ہیں ۔   امریکہ میں وہاں کے سینئر فوجی افسروں کے لئے مسلم دشمنی کا خاص کورس اسی زمرہ میں آتا ہے ۔ اس کورس کی تیاری اور اس کی منظوری میں ظاہر ہے ایک سے زیادہ ذہن لگے ہوں گے۔ یہ کورس کافی دنوں تک چلتا رہا اور اس پر اعترا ض ہونے کے بعد ہی اسے بند کیا گیا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ سماج کے لئے قابل اعتراض اور تباہ کن چیز کی نشاندہی کی فکر ہر کسی کو نہیں ہوتی ہے۔آج کے مادّہ پرست دنیا میں اکثر لوگ اپنی ‘زندگی’ میں مست رہتے ہیں اور شاطر عناصر اپنا کام کرتے رہتے ہیں تا کہ کوئی شخص انہیں ایسا کرنے سے روک دے۔ یہ کام اس وقت اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب شاطر عناصر پشت پناہی کرنے والی ایک جماعت موجود ہو جو ‘ایجنڈے’ کو آگے بڑھا تی رہتی ہے ۔گجرات کے ایکلو یہ ودیالیہ اور شمالی ہندوستان میں قائم سرسوتی ششومندروں میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی اسی زمرہ میں آتا ہے ۔ یہاں پڑھائی جانے والی کتابوں میں بہت سی ایسی قابل اعتراض باتیں ہیں جن کا پڑھا یا جانا ہندوستان جیسے کثیر تہذیبی سماج کی صحت کے لئے نہایت نقصان دہ اور دور رس منفی اثرات کا حامل ہے مگر شاید ہی کبھی ان نصابی کتابوں کے جائز ہ کی کوئی کوشش کی گئی ہو۔

این سی ای آرٹی کی کتابیں اس اعتبار سے قدرے بہتر ہیں مگر انہیں ریاستی بورڈوں کے اسکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔  نصاب تعلیم کی طرح نظام تعلیم بھی اتنا ہی اہم ہے مگر بدقسمتی سے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستحکم نظام تعلیم فروغ نہیں ہوپا سکاہے،ویسے ہی جیسے کہ زندگی کے دیگر شعبوں میں مسلمان پسماندگی میں مبتلا ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمانوں کے اپنے اسکولوں او رکالجوں کا ایک سلسلہ ہوتا اور اس میں کثیر تہذیبی پہلوؤں کا خیال رکھا جاتا، اسی طرح جس طرح کہ کرشچین مشنریز کے معیاری اسکولوں او رکالجوں کا سلسلہ ہے، مگر سلسلہ کی بات کیسے سوچی جائے، جب ایک معیاری اسکول تک کا نام زبان پراور ذہن میں نہیں آتا! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے قدیم ادارے کے بارے میں جب یہ بات کہی جارہی ہو کہ اس ادارہ نے معیار کو خیر باد کہہ دیا ہے تو پھر کیسے اور کس سے امیدیں قائم کی جائیں؟مسلم معاشرہ کی ترقی یا تنزلی کا دارو مدار بڑی حد تک مذکورہ بالا دونوں چیزوں پر ہے۔بے شک سائنس و ٹکنا لوجی کے علوم ہوں یا سماجی علوم اور جدید فلسفے ،ان سب کی معیاری تعلیم کے ادارے اور مسلم معاشرہ کی ترقی اور اس کا باوزن ہونا، لازم وملزوم ہے، ایک دوسرے سے مربوط ہے۔   دینی علوم کو بھی دنیا کی مروجہ زبانوں میں پڑھنا اور پڑھانا لازمی ہے۔ اس کا مقصد طلبہ کے ذہنی افق وسیع کرنا ہے۔  جب تک یہ بڑا مقصد پیش نظر نہیں ہوگا اس وقت تک مسلم معاشرہ کی ہمہ جہت ترقی کی عملی تعبیر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب بہت بڑے پروجیکٹ ہیں جس کے لئے بڑے سرمایہ درکار ہوگا۔  سرمایہ کا حصول مشکل نہیں ، اس فکر کو زمین پر اتار نا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے بڑا چیلنج ہے۔  اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے اعلیٰ دماغوں کو الجھا دیا گیا ہے۔

تمام طرح کے فتنے کھڑے کردئے گئے  ہیں اور پوری امت عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس بھنور سے نکلنے میں اگر کامیابی مل گئی تو مسلمانوں کے لئے یہ کسی انقلاب یا نشاۃ ثانیہ سے کم نہیں ہوگا۔اس کا آغاز اپنا مضبوط نظام تعلیم قائم کرنے سے ہوسکتا ہے۔   نصاب تعلیم اور نظام تعلیم پر مختلف ادوار میں غور ہوتا رہا ہے اور اس پر کام بھی ہوا ہے مگر آج اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ ایک مضبوط نظام تعلیم وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ فکری انحطاط کو اسی سے روکا جاسکتا ہے۔ مسلم معاشرہ میں جو بھٹکاؤدکھائی دیتا ہے اس کا ازالہ اسی سے ممکن ہے۔ وہ سرمایہ دار جو معاشرہ کے اس انحطاط کو محسوس کررہے ہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ اعلیٰ دماغوں کو اس بڑے کام کےلئے استعمال کریں۔  فی زمانہ رائج تعلیمی نظام اور مختلف کورسیز کے ذریعے جس سے مسلمانوں کو بھنور میں دھکیلا جارہا ہے، اس کی کاٹ اس کا متبادل قائم کرکے ہی کی جاسکتی ہے۔

اثر ونفوذ بڑھانے کی صلاحیت ایک ہمہ گیر معیاری نظام تعلیم کےذریعہ ہی نوجوان نسل میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ دیر پا فکری انقلاب جلسوں اور کانفرنسوں سے نہیں آسکتا ۔  کانفرنسوں اور سیمیناروں کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔   قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ موقوف ہوتی ہے۔  اس تخیل کی تعمیر تعلیمی نظام سے ہی ہوتی ہے۔ اعلیٰ دماغ تیار کرنے کے لئے ایسا متبادل تعلیمی نظام پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو دوسروں پر محتاجی کو ختم کردے، ایسا متبادل تعلیمی نظام جس میں تعلیم برائے نوکری نہ ہو بلکہ تعلیم برائے شخصیت سازی اور سماج سازی ہو۔ نصاب سازی اور نظام سازی کی سمت جو بھی کوششیں اب تک ہوئی ہیں ان کا دائرہ اثر بہت محدود رہا ہے ۔   اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ایسے سلسلے کی ضرورت مسلم معاشرہ کو ہے جو ان کے اپنے حالات اور تقاضوں کے مطابق ہو ، ورنہ گرداب دوراں سے نکلنا امت مسلمہ کے لیے آسان نہیں ۔

مضمون نگار انقلاب یوپی کے بیورو چیف ہیں

بشکریہ : انقلاب نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-society-importance-curriculm-system/d/7352

Loading..

Loading..