Irfan
Siddiquee is grief-stricken at the heinous attacks on the Data Darbar and
says that there are no words to describe
the barbarity and bestiality perpetrated by the terrorists at the shrine. The
shrine belongs to the great sufi saint Syed Ali Hijweri (R.A.) and serves as a
tree providing soothing shade and shelter to the men and women who come from far
and near in search of peace and solace. The full article in Urdu is presented
below.
Source:
Jung, Karachi
URL:
عرفان صدیقی
لغت عاری ہے اور بیان عاجز
کہ ان خونخواری کوکیا نام دیا جائے؟ اللہ کے گھر کا احاطہ ،مظہر نور خدا سید علی ہجویری
ؒ کیے بارگاہ فقر کا دالان ،دور ونزیک سے آئے زائرین ،غم ہائے روزگار کے ستائے ہوئے
لوگ ،دکھوں کا مدادا تلاش کرتے مردو زن اور آسودگی کی تلاش میں ایک شجر سایہ دار کی
چھاؤں میں بیٹھے مسافران خستہ حال، تو پھر وہ کون تھے جو اپنی پوٹیلوں میں یا اپنے
پیٹوں سے بارودھ باندھ کر یہا ں آئے ۔جنہوں نے پھولوں سے بھرے دالان اور خوشبوؤں
سے مہکتی فضاؤں کو چشم زدن میں آگ ،بارود اور لہو کی نذر کردیا؟ ایسے فعل کے ارتکاب
کا بیج کیس زمینوں میں اُگتا اور کس طرح پروان چڑھتا ہوگا؟
سید نا امام حسینؓ کے شجرہ
نسب سے تعلق رکھنے والے سید علی محمود کے ہاں 34ہجری میں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ ایران
کے شہر ز نجان سے تعلق رکھنے والے یہ بچہ تاریخ میں شیخ حسین زنجانی کے نام سے معروف
ہوا دل میں روحانیت کی جوت جاگی تو والد انگلی پکڑ کر اپنے عہد کے جید شیخ ،حضرت ابو
الفضل ؒ کی ملازمت میں لے گئے ۔نوعمر حسین زنجانی نے شیخ کی صحبت میں کئی سال گزارے
اور روحانی تربیت کے درجہ کمال تک پہنچے ۔شیخ ابو الفضل نے جب دیکھا کے حسین زنجانی
نے مقام مطلوب پالیا ہے تو ایک دن اپنے ہونہار شاگرد کو بلا یا۔ خرقہ خلافت عطا کیا
اور گویا ہوئے ۔
‘‘حسین!
جاؤ! میں تمہیں خدائے بزرگ و برتر کے حوالے کررہا ہوں ۔ یہاں سے دہار ہند چلے جاؤ
جو شرک وبت پرستی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ وہاں
حید ر الہٰی کا چراغ روشن کرو۔ اس راہ میں تمہیں شدید مشکلات اور کڑے مصائب کا سامنا
کرنا پڑے گا ۔ ایسی ہر آزمائش میں صرف اپنے اللہ کو یاد کرنا، صرف اسی سے مدد مانگنا
۔یقیناً تمہاری مشکل کشائی کرے گا کہ صرف وہی مشکل کشا بھی ہے اور دستگیر بھی۔’’
مرشد کا حکم پاکر سید حسین
زنجانی اپنے گھر پہنچے ۔ دوبھائیوں سید یعقوب زنجانی اور سید موسیٰ زنجانی کو ہمراہ
لیا۔ اڑتیس سالہ سید شیخ حسین زنجانی سبز وار، ہرات، غزنی ،جلال آباد اور پشاور سے
ہوتے ہوئے لاہور پہنچے اور دیار ہند کی مسکن بنالیا۔ لاہور کا جنوبی علاقہ اس چراغ
کا پہلا طاق بنا جو آج ‘‘شاہ علی’’ کے نام سے معروف ہے۔ شرک وبت پرستی کے اندھیروں
میں نور پاشی کا عمل شروع ہوگیا۔
اور کئی برس بعد ہیجویر کے
سید عثمان ؒ کے ہاں پیدا ہونے والا بیٹا بھی علم وحکمت کی ابتدائی منازل طے کر نے کے
بعد انہی شیخ ابو الفضل ؒ کی خدمت میں حاضر
ہوا۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کے سلسلہ روحانیت سے تعلق رکھنے والے شیخ ابو الفضل ؒ کی باطن
بیں نگاہوں نے جانچ لیا کہ ہجویر سے آنے والے سید علی ہجویر ی ؒ کی پیشانی پہ کیا
رقم ہے ۔ کیا کمال کے بزرگ تھے۔ممکن ہے اس میں مبالغہ ہولیکن تاریخ کی کتابوں میں آیا
ہے کہ سید شیخ ابوالفضل نے چھپن برس تک ایک ہی لباس زیب تن کیا جس میں جابجا پیوند
لگتے رہتے ۔ پیوند کاری کاکام خود اپنے ہاتھ سے کرتے ۔سید علی ہجویری کو اس مرد کامل
سے ایسی محبت ہوگئی کہ لمحہ بھر کی دوری بھی گوارا نہ ہوتی۔
وہ بھی کیا شام تھی جب شیخ
ابوالفضل نے شیخ حسین زنجانی ہی کی طرح اپنے اس ہونہار اور باکمال شاگرد کو بلایا اور
شفیق لہجے میں کہا ’’ علی! میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے قلب میں اب ایسی مضبوطی اور استقامت
آگئی ہے کہ تم کامیابی کے ساتھ اس خار زار بستی کا سفر کر سکتے ہو’’۔ سید علی ہجویریؒ
نے سرجھکا ئے مودب لہجے میں جواب دیا ۔‘‘ شیخ ! یہ سب اللہ کا کرم ہے اور آپ کی دعاؤں
کا فیضان ’’ شیخ نے کہا ۔ ‘‘یقیناً اللہ نے تمہیں ثمر بار کردیا ہے۔ اب اس ثمر شیرینیاں دوسروں میں بانٹنے کا وقت آگیا ہے ۔ تم
رخصت سفر باندھوں اور لاہور چلے جاؤ ۔ وہاں پیاس کی شدت سے بھٹکتی خلق خدا تمہاری
راہ دیکھ رہی ہے’’۔
فرقت کے تصور سے علی ہجویری
ؒ کی آنکھیں بھر آئیں ۔ادب سے عرض گزاری ’’ شیخ ! وہاں تو آپ کے مرید کامل قطب الاقطاب
سید شیخ حسین زنجانی پہلے سے موجود ہیں ۔ ان کی موجودگی میں میری ذات سے لوگوں کو کیا
فیض حاصل ہوگا؟’’
شیخ کے لہجے میں جلال نے انگڑائی
لی۔ ‘‘علی ! میں ساے حجت سمجھوں یا انکار؟’’
علی ہجویری ؒ شیخ کے لہجے
کی تلخی جان گئے ۔بولے۔ ‘‘نہیں شیخ ! مجال انکار کہاں ۔ فقط فرقت کے احساس سے آ زرودہ
ہوں۔’’
شیخ نے حتمی طور پر کہا ۔
‘‘ میری خدمت میں اپنا چاہتے ہوتو بلاتاخیر لاہور پہنچو’’۔
مرشد کے حکم پر سید علی ہجویری
نے رخصت سفر باندھا ۔ نہ سواری ، نہ رخت سفر، پاپیا دہ نکل کھڑے ہوئے ۔غزنی سے لاہور
پہنچتے انہیں دو ماہ لگ گئے۔ یہ صعوبتوں سے پرُ ایک کٹھن سفر تھا۔ ایک سوال سارے سفر
کے دوران چبھن سی پیدا کرتا رہا ۔‘‘ قطب الا قطاب سید شیخ حسین زنجانی ؒ کی موجودگی
میں میرا چراغ کہا جلے گا’’ ۔ نواح لاہور میں پہنچے تو شام گہری ہورہی تھی۔ شہر کے
باہر ہی شب بسر کی۔ صبح ،سورج ذرا اوپر اٹھا تو شہر میں داخل ہوئے ۔ دیکھا کہ بہت بڑا
جنازہ آرہا ہے او رلوگ زاری کررہے ہیں۔ آپ ہجوم سے جاملے اور زار وقطار روتے ایک
شخص سے پوچھا ۔‘‘ یہ کس کی میت ہے’’ وہ بولا ‘‘حضرت شیخ حسین زنجانی انتقال فرما گئے
ہیں’’۔
سید علی کے آنکھوں سے آنسو
جاری ہوگئے ۔ اس احساس نے درد کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا کہ میں اپنے مرشد کا مل شیخ
ابو الفضلؒ کی مصلحت کو نہیں سمجھا اور لاہور آنے میں عذر تر اشتا رہا ۔ لاہور کے
لوگ حیران تھے کہ یہ اجنبی نوجوان کون ہے جو اس قدر گریہ کررہا ہے اور جو قبر سے جدا
ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔
حضرت شیخ حسین زنجانی جو اکیس
سال تک شرک وبت پرستی کی تاریکیوں میں توحید حق کا نور بوتے رہے ۔ اسے اللہ کی حکمت
ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس دن ایک چراغ گل ہوا ،اسی دن لاہور کے طاق میں ایک نیا چراغ
روشن ہوگیا۔ غزنی کے جواں سال درویش نے سب سے پہلے ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور
اس کی تعمیر میں جٹ گیا۔ مغل شہزادہ داراشکوہ
اپنی مشہور کتاب ‘‘سفینۃ الاولیا’’ میں بتاتا ہے کہ لاہور کے علما کو سخت اعتراض
ہوا کہ قبلہ کی سمت درست نہیں ۔ علی ہجویری نے سنی ان سنی کردی۔ مسجد تیار ہوگئی تو
نوجوان درویش نے علما کو دعوت دی۔ نماز پڑھائی ۔علما نے کہا ۔‘‘ہمیں اب بھی شک ہے کہ
سمت قبلہ درست نہیں ’’۔حضرت ہجویری نے مسجد کے میناروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’ ۔ آپ حضرات ملاحظہ فرمائیں ’’ علما نے آنکھیں اٹھائیں تو دیکھا کہ عین سامنے خانہ
خدا نور پاشی کررہا ہے۔
تین عشروں کے زائد عرصے تک
یہ چراغ ضیا پاش لاہور کی فضاؤں میں جگمگا تا رہا۔ شرک وبرت پرستی کی تاریکیاں سکڑتی
رہیں۔ تو حید کے اجالے پھیلتے رہے ۔لاکھوں انسان سید علی ہجویری ؒ کے فیضان سے مشرف
بہ اسلام ہوئے ۔ کتنے ہی افتاد گان خاک نے آسودگی پائی۔ کتنے ہی دلوں کی دنیا میں
انقلاب بپا ہوا ۔غزنی کا درویش ،داتا گنج بخش کے نام سے معروف ہوا۔ 1072میں رخصت ہوگئے
لیکن ‘‘ کشف المجوب ’’ باکمال صوفی کے فیضان نظر کا دائمی سرچشمہ بن گئی اور ا ن کی
بار گاہ پیہم خزانے بانٹتی رہی۔
لغت عاری ہے اور بیان عاجز
کہ وہ کون تھے جو اپنی پوٹلیوں میں اور اپنے پیٹوں سے بارود باندھ کر آئے اور خوشبوؤں
سے بھرے دالانا کو لہولہان کردیا؟ وہ جو غزنی ،شام ،عراق ، بغداد ،فارس ،قہستان ،آذر
یا نیجان خوزستان ، کرمان، خراسان ،مادری النہر ، ترکستان اور جانے کس کس نگر کی خاک
چھانتا ہوا لاہور پہنچا ۔ جس نے لاہور کو ایک نئی آن اور پہچان دی ۔ وہ کون کم نصیب
ہیں جنہوں نے اللہ کے گھر کے احاطے اور مظہر تو ر خدا ،سید علی ہجویری ؒ کی بارگاہ
فقر کے دالان کو قتل گاہ بنا دیا۔
ایسے فعل کے ارتکاب کا بیج
کیسی زمینوں میں اگتا اور کس طرح پروان چڑھتا ہے؟
(بشکریہ
جنگ ، کراچی)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/field-seed-violence-killing-grow/d/3112