صبیح احمد
31 اکتوبر، 2012
امریکہ کی قیادت میں پوری
دنیا جو کام نہیں کرسکی، وہ ایک 14 سالہ لڑکی نے کر دکھایا۔ آج عالمی رائے عامہ
طالبان کے خلاف ہے ۔ پاکستان کے سوات علاقہ سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی پر حملے
کے بعد صرف پاکستان یا بر صغیر میں ہی نہیں ، بلکہ عالمی سطح پر رائے عامہ طالبان کے
خلاف ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ طالبان کے تئیں ہمدردی رکھنے والے بھی اس معاملے میں عالمی
رائے عامہ کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ ایک معصوم بچی پر قاتلانہ حملے کا جواز گڑھنے کے لیے
طالبان قیادت جی توڑ کوشش کررہی ہے اور اپنی ا س مذموم حرکت کے دفاع میں مختلف تاویلیں
پیش کررہی ہے، لیکن ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگ رہا ہے۔
ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے
حملے پر رد عمل نے طالبان کو پریشان کردیا ہے ۔ شاید انہیں توقع نہیں تھی کہ ایک چھوٹی
سی لڑکی پر حملہ یہ رنگ لائے گا، جب کہ بڑے سے بڑے اور حساس ترین سرکاری دفتروں اور
یہاں تک کہ فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے بعد بھی انہیں اتنی ہزیمت کا سامنا نہیں کرنا
پڑا تھا ۔وہ ایک مرتبہ پہلے بھی اس معاملے پر وضاحت پیش کر چکے ہیں اور اس بار کالعدم
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے خود بھی وضاحت پیش کی ہے ۔ حکیم
اللہ محسود نے ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ایک ‘ چھوٹے سے واقعہ کو بڑھا چڑھا کر’
اسلامی شدت پسندوں کے خلاف ‘زہر یلا’ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ۔ اپنے پیغام میں حکیم
اللہ محسود نے کہا ہے کہ مسلم دنیا تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے ۔ مغرب کبھی
اسلام مخالف کارٹونوں اور کبھی فلموں کی آڑ میں مسلمانوں کو اشتعال دلاتا ہے۔آخر اس کے لیے موقع کون فراہم کرتا ہے؟
کیا طالبان جیسی تنظیموں کی ان حرکتوں سے امریکہ یا مغربی طاقتوں کو جواز نہیں مل جاتا
؟ حکیم اللہ محسود نے پاکستان کے خفیہ ادارہ آئی ایس آئی پر الزام لگایا ہے کہ وہ
عام شہریوں پر حملے کر کے ان کا الزام طالبان پر لگا دیتے ہیں تاکہ انہیں بد نام کیا
جاسکے۔ تو اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ کیا ملالہ پر حملے جیسی حرکتوں سے آئی ایس آئی
کی الزام تراشیوں پر روک لگائی جاسکتی ہے؟ قابل غور بات یہ ہے کہ ملالہ پر حملے کی
ذمہ داری خود طالبان نے لی ہے۔عوامی رائے کی تو شاید طالبان کو اب بھی پرواہ نہ ہو،
لیکن وہ اپنے حامی گروپوں کی ناراضگی دور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ طالبان کے لیے ہمدردی
رکھنے والوں نے بھی اس حملے پر ان کی تنقید کی
ہے ۔ ملالہ پر حملے کی ذمہ داری چونکہ طالبان قبول کر چکے ہیں، اس لیے اس کا
الزام وہ کسی کو نہیں دے سکتے ۔
امریکہ و دیگر کی اسلام دشمنی اپنی جگہ، پاکستان کا امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی
کے خلاف جنگ کا حصہ بننا بلاشبہ پاکستان اور مسلمانوں کے حق میں نہیں ۔ ڈرون حملے بے
شک بدترین دہشت گردی اور سیکڑوں معصوم انسانوں بشمول بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے قتل
کا موجب ہیں.... افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کے قبضے اور وہاں لاکھوں مسلمانوں
کے قتل عام میں پاکستان کا کردار یقیناً نا قابل قبول ..... فوجی آپریشن بھی کسی مسئلے
کا حل نہیں .... مگر 14 سالہ بچی ملالہ یوسف زئی کو جان سے مارنے کی کوشش کون ساجہاد
ہے؟ یہ اسلام کی کیسی خدمت ہے؟حکومت اور فوج کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنیاد پر اپنے
ہی ملک کی دفاعی صلاحیت کو نشانہ بنانا اور اس کو کمزور کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟
اگر بغیر کسی ٹرائل کے انتہا پسندی یا دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کرکسی بھی مسلمان کو مارنا
ناجائز ہے تو 40 ہزار پاکستانیوں بشمول عام شہریوں ، بچوں، عورتوں، سپاہیوں، فوجیوں
اور سیکورٹی سے متعلق افراد کو جن کا حکومتی پالیسیاں بنانے میں بھی کوئی کردار نہیں
، خود کش دھماکوں کے ذریعہ مارنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟
اسلام تو وہ مذہب ہے ، جو
اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی کسی مسلمان کا ہاتھ حتیٰ کہ ایسے کسی
غیر مسلم کے خلاف بھی نہیں اٹھ سکتا جو مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو۔بچوں، بوڑھوں اور
عورتوں کے ساتھ تو ویسے ہی رعایت سے پیش آنے کا حکم ہے۔ اسلام مذہب کسی معصوم غیر
مسلم کو بھی مارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ایک 14 سالہ بچی پر قاتلانہ حملہ محض اس لیے
کرنا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے یا کسی خاص سوچ کی داعی نہیں، کون سا
اسلام اور کیسا جہاد ہے؟ کوئی شخص یا گروہ یہ فیصلہ کرنے کا کیسے حق دار بن سکتا ہے
کہ کون اچھا مسلمان ہے اور کون برا اور یہ کہ کون بچہ مستقبل میں اچھا یا برا مسلمان
بنے گا اور کس کو جینے کا حق ہے یا نہیں؟ یہ فیصلے تو اللہ ہی کرسکتا ہے ۔ہاں، فرعون
نے خود کو خدا سمجھ کر بچوں کو پیدا ہوتے ہی مارنے کا کام ضرور کیا تھا اور اپنے اعمال
کی وجہ سے دنیا کے لیے نشان عبرت بنادیا گیا۔ ایک بچی کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش
کو اسلام دشمنی سمجھنے والوں اور اسے ‘سیکولر’ گرداننے والوں کو کیا یہ احساس ہے کہ
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم تمام مسلمانوں بشمول عورتوں کے لیے کس قدر ضروری
ہے۔
اسلام دشمنوں کا مقابلہ کرنے
کے لیے ہمیں دین کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی پڑھنا ہوگا اور یقیناً تعلیم مردوں کے ساتھ
ساتھ عورتوں کا بھی حق ہے۔ مسلمانوں نے کئی سوسال تک دنیا پر اپنے دینی اور دنیوی علم
کے زور پر راج کیا۔ بجائے اس کے کہ بچیوں کے
اسکول جانے پر پابندی لگانے کے لیے دہشت گردی کی جائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پر امن
جد وجہد کے ذریعہ اپنے تعلیمی نظام میں قرآن اور حدیث کی تعلیم کو دنیاوی تعلیم کے
ساتھ ساتھ ہر مسلمان بچے اور بچی کے لیے لازمی قرار دیا جائے، تاکہ جب کوئی بچہ گریجویٹ
ہوکرنکلے تو اس کو اسلام کے بنیادی فلسفہ کا علم ہوا۔ علم کاحصول تو اللہ کا حکم ہے
۔ اللہ کے اس حکم کو کوئی تحریک یا تنظیم یا کوئی دوسرا کیسے بدل سکتا ہے ۔ کون اچھا
مسلمان ہے اور کون برا، اس کا فیصلہ کوئی تحریک یا تنظیم یا کوئی دوسرا کیسے کرسکتا
ہے ۔ سوچ کے فرق کی بنیاد پر کسی دوسرے کو قتل کرنے کی اجازت کون سا اسلام دیتا ہے؟
تحریک طالبان پاکستان کی پرتشدد
کارروائیوں سے شدید اختلاف اپنی جگہ ملالہ یوسف زئی کے اس تازہ واقعہ کے بعد حکومت
او رفوج کو بھی اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ تحریک طالبان کی
دہشت گردی کے باوجود حکومت اور فوج کو ان اسباب کا ادراک بھی کرنا ہوگا ،جو پاکستان
میں دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کی وجہ بنے ۔ عام شہریوں اور بچوں کی جانوں کی خاطر
تحریک طالبان سے بات کرنی ہو گی۔ اگر بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کرنے والوں
سے بات چیت کی جاسکتی ہے تو طالبان سے بات کیوں نہیں ہوسکتی ۔ ایک طرف تحریک طالبان
کو اپنے مظالم روکنے ہوں گے تو دوسری طرف حکومت اورفوج کو ان پالیسیوں کو خیر باد کہنا
ہوگا جو پاکستان میں طالبا نائزیشن کا سبب بنیں ۔ اس سلسلے میں ان نامور علما اور مذہبی
رہنماؤں کی جن کا دونوں طرف اثر ورسوخ ہے،
ذمہ داری ہے کہ وہ موجود ہ فتنہ سےنجات دلانے اور مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے مارے
جانے کے سلسلہ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
31 اکتوبر ، 2012 بشکریہ :
روزنامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/how-long-muslims-kill-each/d/9148