شیخ منظور احمد ،نئی دہلی
کشمیر میں بعد از خرابی بسیار
امن ، ترقی اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز متوقع ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے
حالیہ دورہ کشمیر نے اس شورش زدہ ریاست کے عوام ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کیا
ہے ، جس سے سیاسی اور اقتصادی محاذہر مثبت استفادہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ماضی میں
اکثر ایسے ہی موقعو ں کو ضائع کرنے سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی آئی ہے جو امکانات
سے زیادہ اندیشوں کی تجارت پر یقین رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم نے حالیہ دورے میں
ایک طرف جہاں علاحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کے دروازے پھر سے کھول دیئے ہیں، وہیں
دوسری جانب پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ہمسایہ ملک کے ساتھ بھی تعلقات کا
ایک نیا باب کھولنے کا واضح اشارہ کیا ہے۔
ایسا نہیں کہ حکومت ہند کی
طرف سےاپنی نوعیت کی یہ پہلی کوشش ہے۔ ماضی میں بھی حالات کا رخ بہتری کی طرف موڑنے
کے لئے ایک سے زائد اقدامات کئے جاچکے ہیں ،لیکن وہ اپنے منطقی انجام تک اس لئے نہیں
پہنچ سکے کہ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر فالو اپ کی کارروائیاں موثر طور پر انجام
دینے میں کسی نہ کسی سبب سے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
اب جبکہ قومی، علاقائی اور
عالمی سطح پر سیاسی ، اقتصادی اور سفارتی انداز فکر کو مربوط انداز میں عمل میں لانے
اور دنیا کے سبھی متاثرہ خطوں کے مسائل کوکسی بڑے الٹ پھیر کے بغیر علاقائی یک جہتی
کے ساتھ مقامی امنگوں کوملحوظ خاطر رکھ کر پالیسیاں مرتب کرنے کو تمام تر محد ود عزائم
پر ترجیح دیا جانے لگی ہے، کشمیر کے محاذ پر بھی امید کی ایک شمع روشن ہوئی ہے ، جس
کی روشنی کو مدھم ہونے سے بچانے کی ذمہ داری ان سب پر عائد ہوتی ہے ، جو اس مسئلے سے
کسی نہ کسی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
ریاست جموں وکشمیر میں زائد
از دودہائیوں سے چلی آرہی شورش نے اس جنت نشان خطے کے بنیادی و ساختیاتی ڈھانچے کو
تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ نتیجے میں وادی میں سیاسی بدامنی کا ماحول وسیع تر ہوتا
گیا۔ حالات کے منفی رخ اختیار کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے لئے کسی کو تنہا مورد
الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور ایسی الزام تراشیوں سے حالات بدلے بھی نہیں جاسکتے
۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بہتری کی کوششوں میں بعض اوقات لاشعوری نقص بھی امکانات
کوموہوم کردیتے ہیں ۔ ایسے نقائص سے بچنے کے لئے جس سیاسی تدبر کی ضرورت ہے اس کا فقدان
ہرگز نہیں اور فریقین اگر معاملے سے جذبات کی جگہ فراست کے ساتھ نمٹیں تو عجب نہیں
کہ اتفاق رائے کا ایک ایسا ساز گار ماحول پیداہوجائے جو سب کو راس آجائے۔
بہتر حال اب جبکہ سبھی فریقین
تلخ تجربات سے پوری طرح گز رچکے ہیں ،ڈاکٹر سنگھ نے ہمہ جہت طریقے سے کشمیر کو وادی
امن میں تبدیل کرنے کے لئے اس کے دونوں حصوں کے درمیان اقتصادی اور تجاری تعلقات کو
مزید مستحکم بنانے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے، وہ لائق ستائش ہے، کیونکہ اس اقدام سےراست
طور پر مقامی امنگوں کی تکمیل ہوگی۔
سرزمین کشمیر پر کھڑے ہوکر
وزیر اعظم نے پاکستان کی طرف دوستی کا جو ہاتھ
بڑھایا ہے و ہ ان معنوں میں اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی
آزمائشی دور سے گزر رہاہے، جہاں اسے کسی ناکردہ گناہی کی سزا کا سامنا نہیں ،بلکہ اس
کی حالت خود کردہ را علاج نیست جیسی ہوچکی ہے۔وزیر اعظم کا یہ ادراک اس لحاظ سے بجا
ہےکہ پاکستان میں استحکام ہندوستان کے لئے بھی انتہائی مفید ہے۔
اسی کے ساتھ ڈاکٹر سنگھ نے
درون ریاست بھی ایسے کئی اقدامات کی طرف واضح اشارہ کیا ہے جن پر سنجیدہ عمل صورتحال
میں تبدیلی کی راہ آسان کرسکتا ہے ۔ریاست میں نیم فوجی دستوں کی تعداد میں کمی لانے
اور سیکورٹی اقدامات کے نتیجے میں زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ ختم کرنے میں پہل کا بھی
مثبت اثر مرتب ہوگا۔
شیر کشمیر اسٹیڈیم میں طویل
وقفے کے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ کا اہتمام بھی خوش آئند تبدیلیوں کی طرف ہی اشارہ کرتا
ہے۔ رنجی ٹرافی کے اس مقابلے میں سروسز کی ٹیم نہ بھیجنے کا فیصلہ تمام کئے کرائے پر
پانی پھیر سکتا تھا،لیکن بھلا ان ارباب شعور کا جن کی بروقت مداخلت سے ایک غیر ضروری
تنازعہ کھڑا ہونے سے بچ گیا۔ 1986کے بعد سے اب تک اس اسٹیڈیم میں کوئی ایک روزہ بین
الاقوامی کرکٹ میچ نہیں کھیلا گیا۔ حالات میں تبدیلی زندگی کے اس متحرک پہلو کو بھی
ساز گار طور پر متاثر کرسکتی ہے۔ جہاں تک حریت اور دوسری علاحدگی پسند تنظیموں کے رہنما
ؤں کے ساتھ بات چیت کا تعلق ہے تو اس کی ناگزیریت سے تو انکار قطعی ممکن نہیں ،لیکن
مسئلہ کشمیر کے حل کا یہ سار اس قدر الجھا
ہوا ہے، کہ اسے سلجھانے کی کوشش صرف احتیاط طلب ہی نہیں، انتہائی ہوش مندی کی بھی متقاضی
ہے۔ وزیر اعظم نے اس سمت میں قدم اٹھانے کا جو واضح عندیہ دیا ہے اس پر آنے والے دنوں
میں سب کی نظر ہوگی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس محاذ پر جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیا جائے
،تاکہ قیام امن کے خوابوں کی تعبیر پر اس کی تشہیر اتنی حاوی نہ ہوجائے کہ بدنگاہی
سے بچنا محال ہوجائے۔ سیاست اور معاشرت میں میڈیا کا بہر لحاظ اہم کردار بھی بعض اوقات اس وقت مضرت رساں
بن جاتا ہے جب اندازے اور قیاس کی بنیاد پر خبروں کو اعتبار بخشنے کی دوڑ شروع ہوجاتی
ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمام تر غیر پوشیدگی کے باوجود علاحدگی پسندوں کے ساتھ حکومت
کی بات چیت کا دائرہ ہر قدم پر پریس تک وسیع نہ کیا جائے۔ مسئلے کے حل کے اس اہم رخ
پر کسی بھی مفاہمت یاپیش رفت کو اس وقت تک صیغہ راز میں رکھا جائے جب تک اس کے اچھے
برے اثرات کا بخوبی اندازہ لگ جائے۔ بصورت دیگر ایک انتہائی مخلصانہ عمل بھی محض ناعاقبت
اندیشی کی وجہ سے رائیگا جا سکتا ہے۔
قومیں ناکامیوں سے ہی سبق
حاصل کر کے آگے بڑھتی ہیں۔ برصغیر میں امن کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ عوامی بہبود کے
وسیع تر مفاد کو ان تمام مفادات پر ترجیح دی جائے، جواب تک دلیرانہ اقدامات کے آڑے
آتی رہیں۔ اب علاقے فتح کرنا کامیابی کی ضمانت نہیں ۔ یہ دور گلوبلائزیشن سے عبارت
ہے، جس میں باہمی انحصار کے برھتے ہوئے دائرے کے آگے سرحدوں کی لکیر یں بے معنی ہوکر
رہ گئی ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/kashmir-issue-emotion-that-wisdom/d/2068