New Age Islam
Sun Feb 09 2025, 10:42 AM

Urdu Section ( 21 Sept 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Great Thinker of Islamic Theology, Imam Ghazali (R.A) فکر اسلامی کے عظیم مفکر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ

شاہد عمادی

31 اگست ، 2012

صدی کے عظیم مفکر امام محمد بن احمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ  ایران میں خراسان کے ضلع طوس کے مشہور قصبہ طاہران میں 450ھ مطابق 1050ء میں پیدا ہوئے ۔ ابو حامد کنیت محمد نام اور غزالی عرف تھا۔ یہ وہ عہد تھا جب علوم و فنون کی فصل بہار سے اسلامی دنیا گل و گلزار تھی۔والد اوسط درجہ  کے اور صوفی منش آدمی تھے۔ وعظ  و پند کی مجلسوں میں شرکت کرتے  کہ اللہ ان کو ایسا بیٹا دے جو فقیہ ہو اور واعظ ہو۔اللہ نے ان کی  دعا سن لی اور دونوں لڑکوں میں امام غزالی عہد کے نامور فقیہ او رچھوٹے بھائی نامور واعظ ہوئے۔

عہد طفلی میں والد ایسا بیمار ہوئے کہ بچنے کی امید نہ رہی  تو اپنے ایک خیر خواہ صوفی درست کے حوالے اپنے دونوں لڑکوں کو اپنی زندگی بھر کی جمع کی ہوئی  پونجی کے ساتھ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ پونجی بے سروسامانی اور غربت سے آگاہ کرتے ہوئے مدرسہ میں داخلہ کا مشورہ دیا۔ چنانچہ دونوں بھائی  طوس کے ایک مدرسہ میں داخل ہوگئے ،جہاں غربت  اور بھی یتیمی  کی غربت کے ساتھ  ان کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ابتدائی کتابیں  اسی مدرسہ میں پڑھیں ۔ اخلاق اور کردار میں وہ اپنی  جماعت میں نمایاں  تھے۔ ذہین تھے  اور بلا کا حافظ رکھتے تھے۔

جماعت میں پوری توجہ سے پڑھتے اور درس کو پابندی سے نوٹ کر لیتے ۔ اس طرح نوٹس کا ایک مجموعہ جمع کرلیا جسے ان  دنوں تعلیقات کہا جاتا  تھا۔ ایک بار جب وطن جانے کے لیے وہ ایک قافلے کے ساتھ ہولیے تو ڈاکوؤں نے مسافر وں کو لوٹ لیا۔ امام صاحب کا سامان بھی چھین  لیا جس میں درس میں تیار کی ہوئی وہ نوٹ بک بھی تھی۔ اپنی اس متاع کی تلاش میں وہ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس پہنچے اور نوٹ بک واپس مانگی۔ سردار کم عمر لڑکے کے بات پر ہنس پڑا اور کہا ‘‘ آپ نے  خاک پڑھنا لکھنا سیکھا۔ ہم نے جب کتاب چھین لی تو آپ کورے رہ گئے۔ ایسا علم کس کام کا؟’’ اور نوٹ بک واپس کردی۔ غزالی رحمۃ اللہ علیہ  پر اس طعنہ کا اثر یہ ہوا کہ گھر پہنچ کر اسباق کو زبانی یاد کرڈالا۔

طوس سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور کا رخ کیا۔ ایشیا میں ان دنوں دینی علوم اور سائنسی  تعلیم میں نیشا پور اور بغداد کی یونیورسٹیاں اپنا ثانی  نہ رکھتی تھی ۔ ان وقتوں میں دو مشہور اور جید عالم اساتذہ  کی فہرست میں نمایاں  تھے جنہیں  جامع العلوم کہا جاتا تھا۔ ایک علامہ عبدالملک ضیاء الدین الحر مین اور دوسرے علامہ ابو اسحاق شیرازی ۔

غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے شہر نیشا پور کے مدرسہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور امام الحرمین کے درس میں شامل ہوئے۔ امام الحرمین کہا کرتے تھے کہ میرے شاگردوں میں غزالی علم کا دریا ئے ذخّار ہے۔ ان دنوں دستور تھا کہ ہونہار طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد کچھ مدت جماعت میں درس بھی دینے لگے ۔ ان کی خدا داد تدریسی قابلیت کی شہرت بہت جلد دور تک پہنچ گئی اور لوگ ان کی علمی صلاحیت کے قائل ہوگئے ۔  نیشا پور جہاں  ملک کا دارالخلافہ تھا وہیں اہل علم و دانش کی آماجگاہ اور وسیع و خوبصورت شہر تھا۔

یہ وہ عہد تھا جب ایشیا اور یوروپ میں سیاسی  اور معاشی تغیرات برپا تھے ۔ مشرق میں عباسیوں کی خلافت اپنے شاندار مادّی اور سیاسی اقتدار کو کھوچکی تھی اور بغداد کا خلیفہ اپنے  اسلاف کی مقدس یادگار اور تبرک سے زیادہ کچھ نہ رہا۔ ادھر مغرب خصوصاً اسپین میں بنی امیہ نے خلافت کے نام پر جو شاندار حکومت قائم کی پانچویں صدی ہجری میں اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا ۔گو مسلمان ابھی اسپین سے جدا نہیں  ہوئے تھے تاہم علاقہ کی سیاسی  قیادت غیروں کے قبضہ میں جانے لگی تھی۔ سائنس و حکمت میں مسلمانوں بے مثال بلندیاں حاصل کرلی تھیں۔ بغداد، غرناطہ اور قرطبہ کی یونیور سٹیاں پوری  دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ گو یوروپ میں ابھی پیدا نہ آئی تھی لیکن وہاں کے طلبا تعلیم حاصل کرنے اسلامی یونیورسٹیوں کا رخ کرنے لگے تھے۔

غزالی کے سامنے سرزمین  یوروپ پر ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جب عیسائیوں کا بادشاہ اذنونش اپنی طاقتور اور جرار فوج کے ساتھ یہ کہتے ہوئے میدان میں آیا  کہ ‘‘اس فوج سے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کو بھی شکست دے سکتا ہوں ۔’’لیکن  تاریخ نے یوروپ کی رسوائی رقم کی  اور مراکش کے یوسف بن تاشقین  انار اللہ برہانہ کی تلوار نے تین سو کے علاوہ کسی کوواپس ہونے کا موقع نہ دیا۔ کامل ابن اثیر نے لکھا کہ میدان لاشوں سے پٹ گیا۔

ادھر ایشیا میں بہادر اور جانباز سلجو قیوں کی وسیع حکومت ‘‘کا شغر سے بیت المقدس اور بحیرۂ قسطنطنیہ سے بحر ہند تک قائم تھی۔ یہ وہ سیاسی اور تمدنی حالات تھے، جب امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے میدان عمل میں قدم رکھا۔

عہد غزالی کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ سلجوقیوں کے نامور وزیر نظام الملک طوسی  کے دربار میں علم دین اور علما کے عزو وقار کو بلندیوں پر پہنچا دیا گیا تھا۔ ان بلندیوں میں ہی علم جو طبقہ کی ضمانت پوشیدہ تھی۔ امام الحر مین جب نظام الملک کے دربار میں تشریف لاتے تو وہ اپنی وزارت کی مسند کو چھوڑ کر امام الحرمین کو اس پر بٹھا تا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ امام الحرمین کی وفات پر ماتم کا جو منظر قائم کیا گیا تاریخ  میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔

نظام الملک طوری غزالی کی علمی قابلیت کا معترف تھا، وہیں غزالی بھی وزیر کے تدبر ک قائل تھے۔ چنانچہ دربار میں ہونے والی علمی بحثوں میں شریک ہونے لگے۔ اس  طرح امام غزالی نے اپنے عہد کی طاقتور اور وسیع و عریض مملکت کے سب سے اعلیٰ کار فرماوزیر کی نگاہوں میں اتنی وقعت حاصل کرلی کہ کرہ  زمین پر قائم سب سے بڑی یونیورسٹی دارالعلوم بغداد کی صدارت کا عہدہ 484ء میں 34 سال کی عمر میں ان کے سپرد کردیا گیا۔

 ابھی 40 سال کی عمر کو بھی نہ پہنچے تھے کہ ان کی فکر میں اچانک انقلاب برپا ہوا۔ جاہ وحشمت اور آرام و آسائش کی زندگی  بے کیف معلوم ہونے لگی اور  جو شہرت اور عزت حاصل تھی سبھی پر لات مار کر عہدے سے مستعفیٰ ہوکر سیاحت کو نکل پڑے۔

ایک دن دمشق میں جامع اموی  کے صحن میں بیٹھے تھے جب مفتیوں کی ایک جماعت صحن میں ٹہل رہی تھی ۔ ایک مسئلہ میں فتویٰ کا طالب ہوا اور یہ مفتیان  اس کا جواب نہ دے سکے۔ امام صاحب یہ دیکھ رہے تھے تو انہوں نے دیہاتی کو مسئلہ پر فتویٰ کا جواب دیا۔ دیہاتی  نے ان کی ہنسی  اڑائی کہ جب ان مفتیوں نے جواب نہ دیا تو یہ فقیر کیا جواب دے سکتا ہے۔ تمام مفتی  یہ دیکھ رہے تھے۔ دیہاتی کو بلا کر پوری بات سنی تو مفتیوں نے امام صاحب کو پہچان لیا۔ اسی رات امام صاحب وہاں سے روانہ ہوگئے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام صاحب ایک دن مدرسہ امینیہ میں تشریف لے گئے۔ مدرس امام صاحب کی کوئی  کتاب پڑھا رہا تھا۔ اس لیے اس نے کہا کہ ’’ امام غزالی نے یہ کہا ہے ۔’’  اس فقرہ کو سن کر امام صاحب کو دل میں غرور پیدا ہونے کا خوف لاحق ہوا اور وہ  دمشق چھوڑ کر چلے گئے۔

پہلے جہاں وہ قیمتی  عبا او رچغے میں بغداد کی شاندار علمی محفلوں کو زینت  بنتے تھے اب گرد سے اٹے بے سروسامانی کی حالت میں ایک لاٹھی اور ڈوری سے بندھا ہوا تام لوٹ پیٹھ پر لیے گلی کوچوں کی خاک چھانتے نظر آتے ۔ ملک شام میں جہاں مقامات مقدسہ کی زیارت کی ، 10 سال ریاضت اور مجاہدہ میں گزار کر فاقہ مستی میں وطن مالوف لوٹے۔کتاب  سے جو اجرت مل جاتی اسی پر قناعت کرتے۔ یہاں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کر کے درس و تدریس  کے سلسلہ کو جاری کیا ایک خانقاہ قائم کی اور باقی عمر یہیں  گزاری ۔ ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے علوم ظاہری و باطنی میں ناموری حاصل  کی۔

امام غزالی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :

‘‘ 20 برس کی عمر سےاور آج تک  جب کہ میری عمر 50 کے لگ بھگ ہے حق کی جستجو میں لگا ہوں۔ حقیقت طلبی کا یہ ذوق اختیاری نہیں بلکہ طبعی ہے۔ ثبوت و دلیل کی تلاش رہتی ہے ۔ تصوف کی تکمیل علم و عمل دونوں پر منحصر ہے۔ ضروری ہے کہ انسان زہدو ریاضت اختیار کرے۔’’

دربار وں کی زینت بننے سے انکار کر کے صرف کتابت کی اجرت پر قناعت کی اور کھرے کھرے اور تلخ و تند الفاظ کی ہتھوڑی سے امرا کی جھوٹی عزت اور شان و شوکت کے چھلکے کو یوں توڑ پھوڑ کر رکھ دینے کی ہمت پیدا کرلی ۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘اگر خدمت خلق مقصود ہوتو زرق برق لباس میں جذبۂ خدمت نا ممکن ہے۔ کیونکہ زیب و زینت  کا لباس ر عونت و خود ستائی موجب ہے۔’’

امام غزالی کی بڑھتی  شہرت و عزت سے مخالفین نے فرمانر و اسنجر شاہ کو بدظن کیا جسے ارکان دولت کی عیب  جوئیوں کا علم نہ تھا ۔ سنجر شاہ کو امام غزالی سے ملنے  کا اشتیاق ہوا۔ جواب میں امام غزالی سنجر شاہ کو اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:

‘‘ 20 سال سلطان شہید ( ملک شاہ سلجوقی) کے عہد میں  گزارے ۔ اصفہان اور بغداد میں ان کا اقبال دیکھا۔ کئی بار سلطان اور امیر المومنین کے درمیان اہم معاملات میں سفیر رہا۔علوم دین میں تقریباً 70 کتابیں تصنیف کیں۔ اس لحاظ سے دنیا کو کما حقہ دیکھ چکا ہوں اور اب ایک دم ترک دنیا  کرچکا ہوں ۔ ایک مدت تک بیت المقدس او رمکہ معظّمہ میں قیام پذیر رہا اور مشہد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر حاضر ہوکر عہد کیا کہ کسی بادشاہ کےدربار میں نہ جاؤں گا۔ کسی بادشاہ کا وظیفہ نہ کھاؤں گا۔ مناظرہ اور مباحثہ نہ کروں گا۔’’جناب عالی نے حاضر ہونے کا فرمان بھیجا ہے۔ فرمان کے مطابق مشہد رضا تک پہنچا ہوں۔’’

غزالی نے خود دربار نہ جانے کی اجازت مانگی تو سنجر شاہ کو اور بھی ملاقات کا اشتیاق ہوا۔ چنانچہ وزیر معین الملک کے ہمراہ دربار میں گئے ۔ سنجر تعظیم  کے لیے اٹھا اور تخت شاہی  پر جگہ دی ۔ غزالی نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےبارے میں  جو غلط باتیں شاہ کے دربار میں دشمنوں نے لگائی تھیں ان کے  جواب میں کہا کہ  ‘‘میرا یہ عقیدہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک جلیل القدر اور خاص فرد ہیں  اور معافی و مطالب فقہ کے حقائق کے ادراک میں خاص عبور حاصل ہے جو شخص میرے اس عقیدے کے علاوہ مجھ سے یا میری  کسی تحریر یا جملے کو میری منسوب کرے تو وہ جھوٹا ہے۔ میں ان کو فن فقہ میں انتخاب روزگار خیال کرتا ہوں۔’’

جب واپس دربار سے اعزاز و اکرام کے ساتھ طوس پہنچے تو آپ کے مخالفین پشیماں  ہوئے ۔ امام نے سنجر  شاہ کو لکھا:

‘‘ درخواست ہے کہ مجھے نیشا پور اور طور یا  دوسرے شہروں میں جا کر منصب تدریس  کو  سنبھا لنے سے معاف رکھا جائے۔ تاکہ میں گوشہ عافیت  میں زندگی  گزار سکوں ۔ آج کل کا زمانہ میری باتوں کو برداشت نہیں کرسکتا ۔’’

بغداد کی یونیورسٹی کے متعلق ایک جگہ رقمطراز ہیں:

‘‘ یہ امر مخفی  نہیں کہ مدرسہ نظامیہ  کی بڑی شان و منزلت ہے کیوں کہ باشاہ نے اپنے دارالخلافہ میں اس کی بنیاد رکھی ۔ یہ ایسا بابرکت مقام ہے جو علم دین کا معدن ، فضل و کمال کا سر چشمہ ،تعلیم  و تدریس  کا مرکز ، ائمہ و علما  کا ماویٰ ، طالبان فن  و تشنگان علم کا ملجا  و مرجع ہے۔’’ با کمال استاد اصل کا درجہ رکھتا  ہے علم کی ترو تاز گی اور درس کی گرم بازاری  استاد ہی سے وابستہ ہے۔’’  ‘‘ مدرسہ  میں خواہ بے شمار سازو سامان اور فراواں آلات و اسباب ہی کیو نہ ہوں ایک مدرس کی عدم موجودگی ان کو بے کاروعبث کردیتی ہے۔’’

 مختلف موضوعات پر بے شمار کتابیں تصنیف کیں جن میں ‘‘ کیمیائے سعادت ’’ اور ‘‘ احیا ء العلوم ’’ کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ہنر لوئٹس لکھتا ہے : ‘‘ یوروپ میں جدید فلسفہ اخلاق کے بانی ڈیکارٹ کے زمانہ میں اگر کتاب احیاء العلوم کا ترجمہ فرنچ زبان میں ہوگیا ہوتا ہر شخص یہی کہتا  کہ ڈیکارٹ نے احیا ء العلوم کے مضامین  چرالیے ہیں۔

غزالی  نے کسی بھی سطح پر عقل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا، بلکہ صرف یہ کہا کہ عقل کے لامحدود ہونے کے باوجود اس کے ذریعہ سبھی حقائق کا ادراک ممکن نہیں  ۔ اسی بات کو 8 سو سال بعد مشہور مفکر کانٹ کہتا ہے تو اسے نئے فکر ی و فلسفیانہ  مناہج اور رجحانات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔

غزالی نے یونانی دیو مالا اور دوراز کا ر غیر سائنسی اور غیر منطقی  عقلی موشگافیوں کو پامال کیا اور ایک زبردست تحلیلی مناہج کی بنیاد رکھی۔ کتاب  احیاء العلوم کے ذریعہ تمام اسلامی تعلیمات اور اخلاقی نظام میں ضابطہ بندی کی۔ اس طرح تصوف کو اسلام کا جزو الا نیفک اور اس کی روح قرار دیا۔ غزالی نے اسلامی دنیا کو داخلی ، دینی ،  روحانی اور سماجی انتشار سے  باہر نکالا ۔ سارے مسائل کو فلسفہ اخلاق کے دائرہ کار میں سمیٹ کر اسلامی متصو فایہ اخلاقیات سے مربوط کیا۔

ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

‘‘ اہل علم  کے لیے درحقیقت یہ بہت بڑی دشواری  ہے کہ علم و فضل کو جمع کرنے کا خطرہ مال کے خطرہ سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ مال کا تعلق دنیا سے ہے۔ یہ اسی لائق ہے کہ اس سے دنیا طلب کی جائے ،لیکن علم دین کا تعلق سراسر دین ہی سے ہے۔ جب یہ دنیا سازی کا وسیلہ بنایا جائے گا تو گناہ کبیرہ میں شمار ہوگا۔’’

ایک جگہ لکھتے ہیں :

‘‘ جس نے علم دین  کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنایا خود کو ذلیل و خوار اور اپنی شکل و صورت کو مسخ پایا۔’’

ارکان سلطنت امام صاحب کو بغداد بلانا چاہتے تھے کہ

‘‘آپ جہا ں تشریف رکھیں گے اسی جگہ  درسگاہ عام ہوجائے گی۔ آپ کی قیام گاہ وہی جگہ ہو جو تمام اسلام کا مرکز  اور قبلہ گاہ ہوتا کہ دنیا کے ہر حصہ کے لوگ بآسانی وہاں پہنچ سکیں  اور ایسا  مقام صرف دارالسلام بغداد ہے۔’’

 لیکن امام صاحب نے صاف انکار کیا اور گوشہ عافیت سے باہر نہ نکلے ۔ نیز بدستور تصنیف  و تالیف ، درس و تدریس اور ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ آخری وقت آپہنچا  اور 14 جمادی الثانی 505 ھ میں بہ مقام طاہران انتقال کیا اور وہیں یہ عہد وسطیٰ کا عظیم مفکر و فقیہ مد فون ہوا ۔ صرف چند لڑکیاں اپنی یادگار چھوڑیں  اور بے شمار کتابیں۔

31 اگست، 2012   بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/great-thinker-islamic-theology,-imam/d/8746

Loading..

Loading..