سیف شاہین ،نیو ایج اسلام
انگریزی سے ترجمہ ،مصباح الہدیٰ،نیو
ایج اسلام
انتہائی قابل ذکرمصلح طارق
رمضان ‘‘Muslim
voices today’’آکسفورڈ
یونیور سٹی برطانیہ ، جنہیں کچھ لوگ ‘‘دہشت گرد تنظیمون کا حامی’’ کہتے ہیں اور کچھ لوگ
‘‘مغرب کا ایجنٹ’’ کہتے ہیں ۔وہ علمی اور عوامی دونوں سطح پر سر گرم ہیں ،اور سماجی
انصاف اور مختلف تہذیب و تمدن کے در میان مکا لموں پر پوری دنیا میں خطبات پیش کرتے
ہیں ،ابھی جلد ہی دوہا میں ایک کانفرنس بنام 'Innovations In Islam' میں شرکت کے دوران انہوں نے اسلامی بنیادپرستی کے
مصادر اور اسکی اصلا ح کے طریقۂ کا ر کے تعلق سے Qatar
Tribune کے لئے سیف شاہین سے با ت چیت کی ۔
سیف شاہین :آج اس دنیا میں
زیادہ تر دہشت گرد مسلمان ہیں ،جب کہ خود اسلام کا معنیٰ امن وآتشی ہے ،آخر ایسا کیوں
ہے ؟
اس میں پوری سچائی نہیں ہے کہ دہشت گردی اور تشدد کا تعلق
اسلام سے ہے ،عربوں عرب مسلم پر امن ہیں ،لیکن
ہاں،بہت چھوٹی اقلیت دو وجہوں سے اس میں ملوث
ہے۔پہلا، اسلامی تعلیمات کے تعلق سے ان کی سمجھ انتہائی محدود ہے ،جبکہ ان کی سیاسی
سوجھ بوجھ بھی غلط ہے ،اس چیز نے انہیں تشدد
کی طرف پھر دیا ،جس پر ہمیں قدو غن لگانے کی ضرورت ہے ۔
اب کچھ باتیں ان کے سیاسی فہم و ادراک کے تعلق سے ،مسلمانوں
کے مغرب سے بیزار ہونے کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
اس کی مختلف وجوہات ہیں ،پہلی
وجہ کا تعلق تاریخ سے ہے اور وہ یہ ہیکہ مسلم معاشرے پر مغرب کا قبضہ طویل اور شدید تھا ،جوکہ نو آبادیاتی
علاقوں میں کچھ ابھی بھی باقی ہے،پھر ہمارےپاس
آج کی اقتصادی استعماریت ہے ،اور اس کی ثقافتی اور انفرادی وجوہات بھی ہیں
۔نتیجتاً عام طور پر مسلمانوں کی نزدیک مغرب
کی شبیہ انتہائی منفی ہے ،ہم مظلومیت
کے ایک احساس کی آبیاری کرتے ہیں ،لیکن اسے بدلنا ہے،ہمیں اس ذہنیت کو ترک کرنا ہو
گا تا کہ ہم اپنے اصولوں پر عمل کر سکیں ،ہمیں مغرب کے خلاف اس متصادم نقطۂ نظر کو چھوڑنا ہو گا ۔
آپ کے نزدیک اسلامک اصلاح
کا کیا طلب ہے؟
اس کا مطلب ہمارے مقدس کتابوں
کے تئیں ایماندار ہو نا ہے ،اور مذہب سے متعلق ہماری فہم و فراست کو ظاہر کرنا بھی
ہے تا کہ ہم دورحاضر کے چیلنجز کا سامنا کر سکیں ،لہٰذا اسلام کے کچھ ایسے خاص نظریات
ہیں جو تبدیل نہیں ہو سکتے مثلاً ہمارے عقائد اور اسلام کی ضروری بنیادیں ،اس با ت میں تبدیلی لا نا ضروری
ہیکہ ہم معاشرتی اور سماجی طور پرمذہب کا نفا ذ کس طرح کرتے ہیں ، مسلم معاشروں کے
لئے زیادہ جمہوریت، زیادہ آزادی اوراس بات کی بہتر سوجھ بوجھ ضروری ہیکہ کہ دوسری تہذیب
اور ثقافتوں کے ساتھ کس طرح پیش آیاجا ئے ،ہمارے پا س اصول وضوابط ہیں مگر ہمیں ابلاغ
و ترسیل میں اصلاح کی ضرورت ہے ۔
آپ کا کہنا ہے کہ اصلاح کا
مطلب کسی چیز کو اختیار کرنا نہیں ہو نا چایئے
،بلکہ اس کا مطلب معاشرےمیں ابلاغ وترسیل ہے
جس میں مسلمان رہتے ہیں ،اورآپ کا یہ بھی کہنا
ہیکہ مغربی مسلمانوں کو پہلے مغربی بننا ضروری ہے ،اور اسلا م کے متعلق مغربی غلط فہمیوں
کو دور کرنے کایہی ایک راستہ ہے ،کیا یہاں کے انتشار پر آپ کی نظر نہیں ہے ؟
نہیں یہ دونوں ایک عظیم کام کی پیش قدمی ہیں ،پہلا قدم یقیناً
ان تمام حقائق کو قبول کرنا ہے جن کا ہمیں سامنا ہے ،بہتر افہام و تفہیم کے ساتھ یہی
ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعہ ہم ان حقائق کی ابلاغ و ترسیل کر سکتے ہیں ،مغربی افکار
و نظریات میں ان کے خواہشات کی تشکیل میں تعاون کے لئے،مغربی مسلمانوں کو تہذیب ،تاریخ اور اجتماعی نفسیات کو جا ننا چاہئے
،جو موجودہ حالات میں پہلی جگہ پیدا کئے گئے ہیں ۔صرف انہیں علوم کے حصول کے ذریعہ
ہی وہ انصاف اہمیت اور اخلاقیات کی ترویج و
اشاعت میں تعاون کر سکتے ہیں ۔
عالمی سطح پر وہ منصوبہ مسلمانوں
کے درمیان کس حد تک قابل نفاذ ہے ،جس کی ضرورت مسلم معاشرے کی اصلاح کے لئے ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ مرکزی دھارے میں شامل مسلمانوں کواس بات کا احساس
ہے کہ انہیں نئے منصوبے ،نئی سوچ و فکر اور نئی بصیرت کی ضرورت ہے۔ایسا کرنے کیلئے
اب ہمیں اپنے معاشرے کی قوت ،توجہ اور ان کی قابلیت کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے،زیادہ
مؤثر اخلاقیات پیش کرنے کیلئےمیری آنے والی کتاب
'Radical Reform: Islamic Ethics and
Liberation' میں
میری تجویز ،فیصلہ لینے میں کمیونٹی کی شمولیت کو فروغ دینا اور علمائے کرام کیلئے
ایک پلیٹ فارم تیار کرنا ہے ۔
آپ نے یہ بھی کہا کہ کہ ایک
‘خاموش انقلاب ’دستک دے رہاہے ،اس سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟
عوامی سطح پر پہلے سے ہی ایک تحریک موجود ہے ۔مگراب مسلم نوجوان
اس با ت کو پھیلا رہے ہیں کہ وہ مغربی ہیں۔اور یہ بہت تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے ۔دوسری
اور تیسری نسل کے مسلمان جو امریکہ ،کینڈا،یوروپ اور آسٹریلیا میں رہائش اختیار کر
چکے ہیں وہ اسلام کو اپنے مذہب اور مغربی تہذیب و تمدن کو اپنی سچا ئی کے طور پر آسانی
کے ساتھ قبول کر رہے ہیں۔اور میں سمجھ تا ہوں کہ یہ بہت اہم ہے۔
اسلامو فوبیا کا مسئلہ مغربی دنیا میں کتنا حساس ہے ؟
بالکل ایسا ہو رہا ہے ۔مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف
تفریق اور امتیاز موجود ہے ۔اور ہمیں اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے
۔لیکن اسکے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اسلان و فوبیا کے پیچھے کچھ جائز سوالات
ہیں ۔مثلاً،جب عورتوں کے ساتھ پیش آنے کےطریقے کے
تعلق سے وہ ہماری تنقید کرتے ہیں ،ہو سکتا ہے کہ وہ پوری طرح سے غلط نہ ہوں
۔
بہت سارےلوگ یہ چاچتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کے برعکس ہیں
،کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟
بالکل نہیں ۔بلکہ ہمیں اصول
و ضوبط اور مثالوں کے درمیان فرق پیدا کرنا
ہے ۔جمہوریت کے پانچ اصول ہیں ،قانون کے ضوابط،یکساں شہریت ،آفاقی حق رائے دہی ،جواب دہی اور عہدے سے بر طرفی اور ان میں سے کسی ایک
سے بھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔
لیکن آخر کار اصول ایک ہی
ہیں ۔ ہمیں کہنا یہ ہے کہ جمہوریت کی مثالیں
اسلام میں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ یہاں تک کہ مغرب میں بھی ،برطانوی اور فرانسیسی نمونے
بھی دو ممالک کے تاریخی افتراق کی وجہ سے ایک جیسے نہیں ہیں ۔لہٰذا یہ کہنے کی کہ ابھی
بھی مسلم معاشرے میں جمہوریت مختلف لگے گی ،بھی یہی وجہ ہے ۔
کچھ مغربی مفکرین نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسلامی دنیا سے تعلقات
بنانے کیلئے ہمیں معتدل مسلمانوں سے مراسم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔کیا ایسا کرنا درست ہو گا ؟
جب اعتدالیت اور بنیادپرستی کے تعارف کی با ت آتی ہے
تو میں محتاط ہو جاتا ہوں۔ Political
Islam اتنا ہی متنوع اور پیچیدہ ہے جتنا کہ عیسائیت۔میں نے یوروپ،ساؤتھ امریکہ
اوردوسرے عیسائی معاشرے میں وقت گذارے ہیں ،میں نے آزاد خیال علماءسے ملاقات کی ہے
جو بہت کم ہی political Christianity کا نظریہ رکھتے ہیں ۔اور میں نے متوسط جمہوری لوگوں
سے بھی ملاقات کی ہے ،اور ان لوگوں سے بھی ملاقات کی ہے جو بالکل ہی بنیاد پرست ہیں [US
President George W Bush] جو عام لوگوں کی طرح ہی ہے۔اسلامی معاشرہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے
۔آپ کے پاس ایسےاسلام پسند ہیں جو لوگوں کو
با اختیار بنانا چاہتے ہیں اور انہی کے درمیان
آپ بھی ایک شخص ہیں [Turkish Prime Minister
Recep TayyipErdogan]کی طرح۔وہ القاعدہ کے ایمن الظاہری کے ساتھ کچھ نہیں کرنے والے ۔اس
بارے میں ہمیں ہی بات کر نی ہو گی ۔
آپ اسلا م کا مستقبل کیسادیکھتے
ہیں ؟
مجھے اسلام کے مستقبل کے تعلق
سے کوئی تشویش نہیں ہے ۔ لیکن مسلمانوں کو اب بیدار ہونا چاہئےاور وہ اس تعلق سے جو
بھی کر سکتے ہیں انہیں کرنا چاہئے ۔خود کو اور اس دنیا کو بدلنا ہمارے اوپر ہے ۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/muslims-must-shed-victim-mentality--tariq-ramadan-/d/711
URL: