New Age Islam
Wed Jan 22 2025, 11:06 PM

Urdu Section ( 18 Jan 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indian Student's Open Letter to Sarkozy about Hijab حجاب کے تعلق سے ہندوستانی طلبہ کا فرانس کے صدر سرکوزی کے نام مکتوب تازیانہ

سید علی

11ستمبر کے سنڈے ٹائمز آف انڈیا (دہلی ) میں ایک 16سالہ طالبہ کا ایک جرأ تمندانہ مکتوب شائع ہوا ہے جس نے عالمی شہرت حاصل کرلی ۔ یہ خط نوئیڈا کےپاتھ ویرز اسکول کی گیارہویں کلاس کے طالبہ نے لکھا ہے جسے تاریخی خط کہا جاسکتا ہے ،جس موضوع پر اور جس بڑے سربراہ مملکت کو یہ خط لکھا گیا ہے اس نے ہندوستان اور یورپ کے روشن خیال لوگوں کو چونکا دیا ہے اور موضوع کے تعلق سےان کے جدید مگر فرسودہ خیال اور خفیہ ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ یہ خط نہیں ایک پیغام ہے مغربی دنیا کے نام، ایک دعوت فکر ہے جمہوریت کے نام لیواؤں کے نام۔ اس لئے اس مکتوب کو خاصی اہمیت دی گئی ہے ۔قصہ یوں ہے کہ عام طریقوں کے مطابق نوئیڈا کے کےپاتھ ویز اسکول میں بھی طلبا وطالبات کےتحریری مقابلے ہوتے رہتے ہیں ۔ اس مرتبہ اسکول اسٹوڈنٹس سےکہا گیا کہ وہ کسی عالمی لیڈر کے نام باضابطہ ایک خط لکھے جس میں کسی عالمی مسئلہ سے بحث کی گئی ہو۔آج کے طلبا وطالبا ت کو ایسے غیر موضوعاتی مسئہ اظہار خیال کی دعوت دینا جونہ صرف اپنے ملکی مسائل سے تعلق رکھتا ہو بلکہ عالمی مسائل سے تعلق رکھتا ہو اور وہ عالمی لیڈر کے نام ہو، اسکول کے باشعور اساتذہ کی فکر بلندی کا مظہر ہے۔ ایک ذہن طالبہ نے جس موضوع کا انتخاب کیا۔ جس بڑے سربراہ مملکت کو منتخب کیا اور جس جرأتمندی سے اس کو مخاطب کرتے ہوئے ٹھوس رسائی سے بلند نظر آتی ہے بلکہ اس میں ایک معلم اور ریفامر کی شان نظر آتی ہے۔ طالبہ نے فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کے نام خط لکھا، یہاں تک تو کوئی خاص بات نہیں تھی۔

خاص الخاص بات یہ ہے کہ خط کا موضوع بڑا حیرت انگیز تھا۔ یوں تو عالمی مسائل کا انبار ہےجس سے بیشتر نئی نسل باخبر ہے اور ان کے تعلق سے ڈسکشن میں حصہ بھی لیتی رہتی ہیں ۔ آج کے عالمی مسائل میں عالمی معاشی بحران ،گلوبل وارمنگ ،حقو ق انسانی کی پامالی ،طلبہ اور بدامنی ،سماجی عدم مساوات ،رنگ ونسل کا امتیاز ،جوہری اسلحوں کا پھیلاؤ، سامراجی استعمار ،توسیع مملکت کا جنون اور سب سے پسندیدہ موضوع دہشت گردی کا مو ضوع بنایا جاسکتا تھا لیکن لیکن اس طالبہ نے ایک ‘‘دقیانوسی ’’ موضوع کا انتخاب کیا اور سرکو زی کو ایک غیر جمہوری اقدام پر لتاڑا ۔ اس طالبہ نے سرکوزی کے نام خط میں لکھا کہ ‘‘فرانس میں اسلامی برقعے پر پابندی کا قانون سراسر غلط اور غیر جمہوری ہے، یہ لباس کے معاملے میں خواتین کی پسند اور ناپسند پر قدغن ہے۔ آپ کی حکومت کا یہ اقدام یورپ میں اسلام فوبیا کو ہوا دینے کا سبب بنے گا اور عالمی سطح پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ میں فرانس کی شہری نہیں ہوں لیکن آپ کو یہ خط اس لئے لکھ رہی ہوں کہ آپ کے ملک کا یہ قانون دنیا کے شہر یوں کیلئےزبردست تشو یش کا باعث بن گیا ہے۔ انڈیا جیسے کثیر الثقافت ملک میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کی بنا پر اس مسئلہ کی پیچیدگی کو بخوبی سمجھ سکتی ہوں’’ ۔

پردہ جیسے مسئلہ کو عالمی مسائل کے زمرے میں لاکر سرکوزی حکومت سے ناراضگی کا اظہار حق گوئی اور جرأت وبیبا کی بہترین دلیل ہے۔ چند سطروں میں سمیٹ کر پردہ کی اہمیت ،حقوق خواتین کی پامالی ،اسلام فوبیا کے حوالے سے غیر جمہوری اقدام کی مذمت کسی نو عمر طالبہ کی تعمیری اور مثبت انداز فکر کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے ۔ اب میں بتاؤں کہ وہ طالبہل کون ہے، اس کا نام کیا ہے اور اس کے خط کا اثر کیا ہوا۔سرکوزی کے خط کا متن اور لب ولہجہ سے یقیناً یہ تاثر پیدا ہوتا ہے( یہ خط کسی باحجاب اور دیندار مسلم طالبہ کا ہوگا جس کے اندر مذہبی ومعاشرتی شعور کی گہرایئی ہے اور وہ دعوتی واصلاحی ذہن کی مالکہ ہے لیکن یہ جان کر لوگوں کو حیرت ہوگی کہ وہ لڑکی ایک غیر مسلم ہے، اس کا نام ‘آکانکشا’ ہے۔ آکانکشا نے یہ خط براہ راست فرانس کے صدر کو بھیج دیا تھا ۔سرکوزی اس ہندوستانی طالبہ کے خط سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آکانکشا کو فرانس آنے کی دعوت دے دی تاکہ اس ایشو پر اس سے تفصیل کے ساتھ گفتگو کرسکیں۔ آکانکشا نے یہ دعوت قبول کرلی ہے اور اب وہ اس ملاقات کی تیاری کررہی ہے۔

پردہ جیسے موضوع پر آج کے فیشن زدہ دور میں ایک غیر مسلم طالبہ کی اتنی شاندار وکالت نہ صرف فرانس اور یورپ کیلئے چشم کشا اورف چیلنج ہے بلکہ ہندوستان کیلئے بھی اس میں عبرت ہے۔ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں اس کی توقع نہیں کی جاتی کہ کوئی ماڈرن غیر مسلم طالبہ جو ماڈرن اسکول میں پڑھتی ہو وہ حجاب اور برقعہ کو موضوع بحث بنائے اورلباس انسانیت وشرافت پر پابندی عائد کرنے کے واسطے قانون سازی کرے اور اس کی مخالفت کرنے والوں پر جرمانہ اور قید کی سزا متعین کرے۔ جی ہاں ، یہ فرانس ہی ہے جس نے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعہ مذہبی رواداری ،جمہوری روایات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہے۔واضح رہے کہ فرانس نے تعصب کی انتہا کردی اور اس نے حجاب اختیار کرنے والی خواتین کے خلاف دوسال کی قید اور 30ہزار یورو تک کا جرمانہ مقرر کردیا ہے۔واضح رہے کہ یہ  وہی فرانس ہے جس نے انقلاب فرانس کے ذریعہ فرد کی آزادی کاپرچم لہرایا تھا اور آزادی مساوات اور بھائی چارگی کا نعرہ دیا تھا اور یہ وہی فرانس ہے جس نے انقلاب فرانس کے ذریعہ خواتین کی آزادی کاصور پھونکا تھا۔

 اسی نظریہ کی بنیادپر نئی مغربی معاشرت کی بنیادرکھی گئی اور دنیا کو تین اصو ل دیئے (1) عورتوں کو مردو ں کی مساوات ،(2) عورتوں کا معاشی استقلال اور (3) دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط ۔ ان اصولوں پر مبنی معاشرہ نے آزادی نسو اں کے مخصوص تصور نے عورتوں کو سربازارئیگا کردیا ۔ ان کو تجارتی جنس بنادیا اور لباس سے آزاد کر کے بکنی اور جانگیہ پہننے کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور حقیقت میں پتھر کے اس دور میں پہنچا دیا جب لوگ تہذیب وتمدن سے ناآشنا تھے، جنگلی جانوروں کیاطرح ننگے رہتے تھے اور جس سماج میں شرم وحیا اور عصمت وعفت کاکوئی تصور نہیں تھا ۔یورپی ممالک میں پردے کے خلاف ایک جارحانہ تحریک چلائی جارہی ہے اور بلجیم ،اسپین ، اٹلی  ،ہالینڈ، جرمنی، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں میں حجاب ایک اہم ایجنڈا بنا ہوا ہے لیکن فرانس کے سرکوزی کا یہ اختصاص ہے کہ اس تمام مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کا مذاق اڑاتے ہوئے حجاب پر قانونی پابندی عائد کر کے کھلی تہذیبی جارحیت اور دہشت گردی کا ثبوت دیا ہے۔ کیا دنیا کے کسی مذہب اور روادار قوم اور حکومت کو اس کا حق ہے کہ کسی ملک کا شہری کیا کھائے ، کیا پہنے اور کس مذہب اور نظریہ کی اتباع کرے؟ یہ دراصل اسلام فو بیا کا نتیجہ ہے اور اسلام کے خلاف اندھی عصبیت ہے۔

آکانکشا تعریف کی مستحق ہے۔ اس نے فرانس کے سرکوزی کو اس کی غیر جمہوری اور سراسر غلط قانون سازی پر ٹوکا ہے اور کہا ہے کہ یہ لباس کی آزادی میں بیجا مداخلت ہے اور کسی کثیر الثقافت ملک میں ایسی جبری پابندی غلط اور یہ اقدام اسلام فوبیا کو ہوا دینے والی ہے۔سرکوزی نے آکانکشا کو فرانس آنے اورف افہام تفہیم کیلئے دعوت دی ہے ۔یقینا ً آکانکشا نے بہت سوچ سمجھ کر سرکوزی کو ایک نازک موضوع پر خط لکھا ہوگا ، اس نے پردہ کے تعلق سے اسلام اور مسلمانوں کے توقف کا مطالبہ بھی کیا ہوگا اور وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنے مشن پر جارہی ہے ۔ وہ ایک غیر مسلم طالبہ کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ملک کی سفیر ، مسلمانو ں کی نمائندہ اور پردہ کی وکیل کی حیثیت سے جارہی ہے ۔اللہ اسے کامیاب کرے ۔پتہ نہیں کتنے مسلمانوں کو اس طالبہ کے مکتوب کے بارے میں علم ہے۔ ضرورت تو تھی کہ دہلی کے مسلم دانشور اس سے ملاقات کرتے اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور پردے کےتعلق سے اس کو تمام تفصیلات بتاتے ، برقعہ محض لباس ہی نہیں عورتوں کے تحفظ ،پاکیزگی اور تقدیس کا لباس ہے۔ اس کے برعکس بکنی پوش عورتیں عملاً عریاں ہوتی ہیں۔ شارع عام پر اورٹی وی پر لاکھوں افراد کے سامنے اپنے جسم کے انگ انگ کی نمائش کرتی ہے ۔عملی اعتبار سے وہ ایسی پبلک پراپرٹی ہے جو کسی کی نہیں لیکن سب کی ہے۔

مغرب میں عورت کا تہذیبی پیمانہ اس کی جنسی کشش ہے ۔کنیڈا کے مشہور مبصر ہنری مکاؤ جو مذہباً عیسائی ہیں لکھتے ہیں کہ ‘‘میں نے اپنے کمرہ میں دومختلف عورتوں کی تصویر یں ایک ساتھ لگا رکھی ہیں۔ ایک تصویر ایک برقعہ پوش خاتون کی ہے جو سر سے پیر تک اس طرح ڈھکی ہوئی ہے کہ کچھ حصہ نہیں دیکھ سکتا ۔دوسری تصویر میں ایک عورت کے جسم پر صرف بکنی ہے اورہر کوئی اس کا سب کچھ دیکھ سکتا ہے ۔ یہ دونوں تصویر یں تہذیبی کشمکش کی مظہر ہیں ۔کسی بھی کلچر میں عورت کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔میرے نزدیک برقعہ عورت کی پاکیزگی اور تقدیس کا غماز ہے۔مسلم عورتوں کا مرکز توجہ اس کا گھر ہے جسے وہ بناتی ہے اور چلاتی ہے ،بچوں کی پرورش اور بڑوں کی مدد کرتی ہے۔ اس کے برعکس بکنی پوش عورتیں عملاً عریاں ہوتی ہیں جس کے معدوم ہوتے ہی وہ منظر سے غائب ہوکر متعدد مصیبتوں میں گھر جاتی ہے۔ وہ لگا تار خودکر سربازار بیچتی رہتی ہے’’۔

بشکریہ۔اخبار مشرق

URL: https://newageislam.com/urdu-section/indian-student-open-letter-sarkozy/d/6401

Loading..

Loading..