سید شہاب الدین
مسلمانوں کے مدرسے سنگھ پریوار کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتے
رہے ہیں۔ جو انہیں مسلمانوں کی شناخت کے لئے دفاعی لائن کے طور پر دیکھتا اور
مسلمانوں کی ہندورنگ میں رنگنے کے سلسلے میں رکاوٹ سمجھتا ہے ۔ این ڈی اے کی حکومت
کے دور میں خاص طور سے سرحدی علاقو ں میں مدرسوں کو دہشت گردوں کی تربیت گاہ اور
جنگجوؤں کی گاہ قرار دیا جاتا تھا۔ جس کے نتیجے میں ندوۃ العلما لکھنؤ سمیت بہت
سے مدرسوں کی تلاشی لی گئی۔ 11ستمبر کے بعد امریکی حکمرانوں نے اپنی لغت میں ایک
نئے لفظ ‘‘دیوبندی ’’ کا اضافہ کرلیا ۔کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ طالبان کی
ٹریننگ پاکستان کے ‘‘دیوبندی مدرسوں’’ میں کی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مدرسے
دارالعلوم کے فارغین نے قائم کیے تھے لیکن ان کا دیوبندسے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس
کے باوجود تمام سفارتخانوں او رانٹلی جنس ایجنسیوں نے دارالعلوم اور دوسرے مدرسوں
کواپنے راڈ ر پررکھ لیا ۔ حالانکہ وزیر داخلہ اڈوانی نے تسلیم کیا تھا کہ ملک بھر
میں کسی بھی مدرسہ کے منیجر ،مہتمم یا استاذ کے خلاف تخریبی سرگرمی کی بنیاد پر
مقدمہ قائم نہیں کیا گیا ہے۔لوکل پولیس نے ان کو ہراساں کرنے کاسلسلہ جاری رکھا
۔پھر ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی بند ہوگیا لیکن ان کے مقصد وجود اور سرمایہ کی
فراہمی کے سلسلے میں شکوک وشبہات کاسلسلہ جاری رہا۔ ایک موقع پر حکومت نے مدرسوں
کی ‘‘جدید کاری’’کے نام پر ان میں اپنے ٹیچر مقرر کرنے کی کو شش کی اس جال میں صرف
چند مدرسے ہی پھنسے ۔مجوزہ سینٹرل مدرسہ بورڈ کے پس پشت یہی تصور کار فرما ہوسکتا
ہے۔
تاریخی پس منظر:
تعلیم سے متعلق قومی پالیسی 1984نے جسے 1992میں وقت وحالات
کے مطابق ڈھالا گیا تعلیمی طور پر پس ماندہ اقلیتوں کے علاقوں میں پرزور پروگرام
چلانے اور مدرسہ تعلیم کو ماڈرن بنانے کی غرض سے سرمایہ فراہم کرنے کےلئے مرکزکی
طرف سے 94۔1993کےدوران دو اسکیمیں چلائی گئیں ۔ دسویں منصوبہ میں ان دونوں اسکیموں
کو علاقائی پروگرام اور مدرسوں کو مارڈن بنانے کے پروگرام میں ضم کردیا گیا ۔ ان
اسکیموں کی جگہ اب سینٹرل مدرسہ بورڈ کو رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا مقصد ملک
بھر میں تمام مدرسوں کی تعلیم کو کنٹرول کرنا ،انہیں باہم مربوط کرنا اور ضابطہ کے
تحت لانا ہے۔ جب کہ بعض ریاستوں میں کام کرنے والے ریاستی مدرسہ بورڈوں نے
مسلمانوں کو بیزار ومایوس ہی کیاہے۔
مرکزی حکومت نے کبھی مدرسوں کو ماڈرن بنانے کےاپنے پروگرام
کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا جس کا بنیادی مقصد انگلش ،میتھ میٹکس، سائنس اور سو شل
اسٹڈیزجیسے جدید موضوعات کے لیے مدرسوں کو ٹیچروں کی فراہمی تھا لیکن موجودہ بل اس
حد کو پار کرگیا ہے۔
سنٹرل مدرسہ بورڈ بل یوپی اے کے پہلے دور حکومت( 09۔2004)
میں تیار کیا گیا تھا وہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لئے تیار تھا۔ لیکن اسے پیش
نہیں کیا گیا۔ سرکاری طور پر اس کی وجہ کچھ بھی قرار دی جائے، لیکن ملک کے تقریباً
تمام مشہور ومعرو ف جامعات ،دارالعلوم اور مدرسوں نے جن میں دارالعلوم ندوۃ العلما
لکھنؤ اور دارالعلوم دیوبند شامل ہیں سنٹرل مدرسہ بورڈ ،مدرسہ تعلیم کو سرمایہ کی
فراہمی ، یکسا نصاب تعلیم ، (حتی کہ غیر مضامین کے لئے بھی ) نافذ کرنے اور مشترکہ امتحان کے اہتمام کے تصور کی ہی مکمل طو ر پر
مخالفت کی کہ یہ ایک حکمت عملی کی بنیاد پر چلائی گئی مہم تھی کیونکہ 2009کے جنرل
الیکشن میں یو پی اے کے لئے مسلمانوں کی حمایت پر اس سے منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ
تھا۔
اب جبکہ یو پی اے کی دوسری حکومت نے اپنے سودن پورے کر لیے
ہیں ۔بل کو نکال کرلے آیا گیا ہے۔ اور مسلم ممبران پارلیمنٹ کے سامنے ان کے
نظریات کا پتہ لگانے کی غرض سے پیش کردیا
گیا ہے ۔تاہم یہ بل ابھی بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے اور قومی سطح پر
ممتاز مسلم تنظیموں جمعیۃ العلما ہند ،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ، جماعت اسلامی
ہند، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،جماعت اسلامی ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
،مرکزی جمعیۃ اہل حدیث اور آل انڈیا شیعہ کا نفرنس وغیرہ کے سربراہوں کو بھی
اعتماد میں نہیں لیا گیاہے۔ نہ ہی مسلم ماہرین تعلیم اورنظریہ سازو ں کے نظریات ہی
معلوم کیے گئے ہیں۔ مقصد سب سے پہلے مسلم ممبران پارلیمنٹ کو تسلی دینا ہے، کیونکہ
صرف یہی لوگ پارلیمنٹ میں شور مچاسکتے ہیں ۔
متنازعہ پہلو:
مسلمان مجموعی طور پر اس حرکت کی ضرورت یا اہمیت سے مطمئن
نہیں ہیں۔ وہ جو سب سے پہلا سوال اٹھاتے ہیں وہ یہ ہے کہ آخر حکومت تمام مدرسوں
کو کسی ایک مرکزی انتظامیہ کے تحت لانے کے لئے کیوں بے چین ہے، حالانکہ وہ اچھی
طرح جانتی ہے کہ اس طرح کا کوئی سنٹرل بورڈ سنسکرت پاٹھ شالاؤں کے لئے موجود نہیں
ہے، جن کی تعداد مدرسوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر اس کا مقصد مذہبی ودھارمک
اداروں میں تعلیم کا معیار بہتر بنانا او ران کے فارغین کو ان کی روایتی حیثیت سے
زیادہ قابل روزگار بنانا ہے تو یہی تصو ر پاٹھ شالاؤں پر لاگو ہوتا ہے ۔ریاستی
مدرسہ بورڈوں نے اپنے وجود میں آنے یا کم از کم آزادی کے بعد سے قومی شہرت و
اہمیت کا کوئی بھی مذہبی عالم پیدا نہیں کیا ہے۔ وہ پاٹھ شالاؤں کی طرح کرپشن
،دولت کے ناجائز استعمال اور اقربا پروری میں لت پت ماتحت اور الحاق شدہ سرکاری
دفاتر کے طور پر کام کررہے ہیں۔بعض ریاستوں میں جیسا کہ بہارمیں ہے مدرسو ں میں
سرکاری مداخلت سیاسی اغراض کی بنیاد پر کی جاتی ہے تاکہ ہر بستی یا محلّہ میں وقت
کی حکومت یا برسر اقتدار پارٹی نقار چیوں کے ایک دستہ کی خدمات حاصل کرسکے۔ لیکن
ان سرکاری مدرسوں کا معیار اور ان سے نکلنے والوں کے لیے ملازمت کے امکانات اس قدر
کم ہوتے ہیں کہ مسلمانوں میں وہ کوئی وقار دیا اعتبار حاصل نہیں کرپاتے ۔بڑی حد تک
یہ آزاد (غیر الحاق شدہ)مدرسوں کے فارغین ہی ہوتے ہیں جو امداد سے انکار کرتے۔
اپنی آزادی وخود مختاری بر قرار رکھتے او رعلما ودینی امور انجام دینے والے پیدا
کرتے ہیں۔
لیکن مسلمان اس ضرورت کو بھی سمجھتے او رمحسوس کرتے ہیں کہ
دینی علما جو روایتی امور انجام دیتے ہیں ملک اور دنیا کے بارے میں کم سے کم ضروری
معلومات انہیں لازمی طور پر ہونی چاہئیں اور ان سمتوں کے بارے میں ان کا کوئی
نظریہ ہوناچاہئے ،جس طرف ملک اور دنیا بڑھ رہی ہے۔ اس لیے دینیات میں کلا سیکل
تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ انہیں غیر دینی مضامین اور حالاتِ حاضرہ کا بنیادی علم ہونا چاہئے ۔ اس
تصور کو تقریباً تمام ممتاز مدرسوں نے تسلیم کیا ہے اور گذشتہ دو تین دہائیوں کے
دوران اس نے فروغ حاصل کیا ہے اور کئی دارالعلوموں نے غیر دینی مضامین جو جدید
حالات میں لازمی ہیں پڑھانے او ر عصری تعلیم کے فروغ کے لئے قدیم نصاب پرنظر ثانی
اور قطع وبرید کا کام کیا ہے تاہم انہوں نے علم کی دونوں شاخوں کے درمیان ایک لائن
کھینچ رکھی ہے اور وہ ہمیشہ مدرسوں کے بنیادی مقصد پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں ۔
جو انتظامیہ کے افسران یا انجینئر یا ڈاکٹر پیدا کرنا نہیں بلکہ دینی عالم پیدا
کرنا ہے اور عصری مضامین کے لئے اکیڈمک وقت کا صرف 25فیصد ہی دیتے ہیں ۔ دوسری طرف
انتہا یہ ہے کہ مغربی بنگال میں الحاق شدہ تمام مدرسے ریاستی مدرسہ بورڈ کے تحت
ہائی اسکولوں اور سکنڈری اسکولوں میں تبدیل کردیے گئے ہیں ۔ انہوں نے اکیڈمک وقت
کا دس فیصد بھی کم اس کام کے لئے مخصوص کیا ہے
جسے ‘‘ اسلام کا تعارف’’کہا جاتا ہے جس میں دینیات کی تمام شاخیں تفسیر،
حدیث، سیرت اور فقہ شامل ہیں ۔ اس صورتحال سے ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کے بگڑی
ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی تعلیم سے برائے نام بھی کوئی اسلامی عالم پیدا نہیں ہوسکتا ۔
اس طرح مغربی بنگال نے مدرسہ تعلیم کا پوری طرح ستیاناس کرڈالا ہے۔ (جاری)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/madrasas-be-saved-all-cost/d/1957