سید اطہر علی
کچھ غیر مسلم باشعور طلبہ
اور طالبات اسلامی نظام اور نظام مصطفیٰ پر بحث کررہے تھے ۔ معاملہ چونکہ یونیور سٹی
کیمپس کا تھا ان کی نظر مجھ پر پڑی اور انہوں
نے مجھ پر ہی اپنے سوالوں کی بوچھار کردی۔ ان دونوں میں یکسانیت اور فرق جاننے پر مصر
ہوگئے ۔ سوال بہت اچھا تھا لیکن موجودہ ماحول میں ان کو دونوں مرکبات کی تعریف بتانا
بڑا پیچیدہ کام تھا۔ تقریباً نصف گھنٹہ کی گفتگو کے بعد ان کو تو میں نے مطمئن کردیا
اور ان میں یکسانیت اور فرق واضح کردیا البتہ میں خود اس پوری طرح متفق نہیں تھا۔ تمام
کوششوں کے باوجود نہ تو میں ان میں یکسا ں پہلو تلاش کرپایا نہ ہی فرق کرپایا۔ نہ یہ
ایک دوسرے کی ضد ہیں نہ ہی مترادف اور نہ ہی متبادل ۔سوائے اس کے کہ ان الفاظ کا جس
قدر غلط اور ناجائز استعمال ہورہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ کل تک اسلامی
نظام کی بات کرنے والی یہ تنظیمیں بہت اچھی لگتی تھیں آج اچانک خراب لگنے لگیں ۔ جو
کل تک روس، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کررہی تھیں آج وہی پاکستان اور ایران
کے خلاف محاذ آرائی پراتر آئی ہیں۔مسلمانوں کا قتل عام کرکے ، مسلمانوں کو مار کر ،
ان کے گھروں کو تباہ وبرباد کرکے، اپنی ہی بہن بیٹیوں کو بیوہ کر کے، اپنے ہی بچوں
کو یتیم کرکے، آخر یہ کون سانظام مصطفیٰ نافذ کرنا چاہتے ۔ جس نظام میں سبھی لوگ لنگڑے
،لولے،اپاہج ،نابینا نظر آئیں گے۔اس نظام میں تمام عورتیں بیوہ اور بچے بے سہارا ہوں
گے۔ ایسے نظام کا تصور تو اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے نہیں کیا تھا ۔ ایسی خلاف تو
خلفائے راشدین کو پسند نہیں تھی، معمولی سے انتشار نے توشیر خدا مشکل کشا کو بھی مضطرب
کردیا تھا اور یہ مسلمانوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اسلام پرچم لہرانے کی بات کرتے ہیں۔
برسو ں سے جو واقعات ہورہے
تھے وہ اتنے خوفزدہ کرنے والے اور مشکل میں ڈال دینے والے نہیں تھے جتنے کہ نسبتاً
گزشتہ پندرہ دنوں کے واقعات نے کردیا ہے۔ اس وقت دنیا میں اسلام نظام کی بات کرنے والوں
کی توقعات صرف اور صرف پاکستان اور ایران کی جانب ہیں اور یہ اسلام کے نام ونہاد سپاہی
پاکستان اور ایران پر حملے کر کے یہ بتارہے ہیں کہ اصل میں امریکی اور اسرائیل کے ایجنٹ
یہی لوگ ہیں۔گزشتہ 15دنوں میں پاکستان میں 9بڑے حملے اورتین روز قبل ایران کے سرحدی
علاقے پر خود کش حملے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اب حالات بالکل بے قابو ہوچکے ہیں ۔ یہ ویسے
ہی حالات ہیں جیسے معظّمہ پر حملے کے وقت مروان کے شیطانی فوجیوں نے پیدا کئے تھے۔
جس طرح مکہ میں ان درندے فوجیوں نے اسلام کے نام پر اسلام کے ایک جانباز سپاہی حضرت
عبداللہ بن زبیرؓ کو قتل کیا اس صدمے سے ان کی والدہ حضرت اسمابنت ابوبکر ؓ فوت ہوگئی
تھی) یہ واقع تاریخ اسلام کا شہادیت حسینؓ کے بعد سب سے دردناک سانحہ تھا جس نے مردان
کی نام نہاد اسلامی حکومت کے خلاف تمام مسلمانوں میں نفرت بھردی تھی۔ یہی کام پاکستان
، عراق ،ایران میں یہ نام نہاد اسلامی گروپ کررہے ہیں جن کا نہ تو اسلام سے کوئی لینا
دینا ہے نہ ان کو نظام سے کوئی تعلق ۔ کئی بار یہ شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں یہی تو امریکہ اور اسرائیل کے دلال تو نہیں جو کہ مسلمانوں کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان نے تحریک
طالبان کو مدد کرنے اور اس کو اسلحہ دینے کےلئے ہندوستان کی حکومت پر الزامات عائد
کئے تھے۔ اگر یہ الزامات صحیح ہیں تو یہ ہندوستان کے لئے بھی بہت خطرناک ہوگا،کیونکہ
بیت اللہ محسود جو کہ اب مرچکا ہے کوئی ولی نہیں
تھا نہ ہی کوئی اصولی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کا تعلق تو
کھلے طور پر تشدد سے تھا۔ وہ کسی بھی طور پر اسلامی نظام کا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔ اس
کی مدد کا بھارت پر الزام بہت سارے سوالات پیدا کردیتا ہے کہ ہم کس طرح کے پڑوسیوں
کو چاہتے ہیں ۔کمزور سری لنکا ، کمزور پاکستان یا پھر مضبوط جمہوری ریاستیں ؟ اس پر
بھارت کو بھی غور کرنا ہوگا کہ وہ افغانستان میں غلط طرح کے گروہوں کو شہہ دے کر اپنا
بھی نقصان کررہا ہے، کیونکہ اس کا پاکستان کا حشر دیکھ کر اس سے عبرت حاصل کرنے کی
ضرورت ہے۔ آج پاکستان کے لئے وہی تنظیمیں مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہیں جن کی اس نے پرورش
کی تھی۔ اگر ہندوستان بھی تحریک طالبان سے تعلق رکھتا ہے تو کل یہی اس کےلئےبربادی
کا سبب بنیں گی۔ اس سےقبل بھی اندرا گاندھی نے سکھ دہشت گرد لیڈر بھنڈرا والے اور ان
اس کی تنظیم کی حمایت کر کے دیکھ لیا انجام کیا ہوتا ہے۔ خود پاکستان بھی ابھی حال
میں اس تحریک طالبان کی حمایت کر کے اپنی ایک سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو کھوچکا
ہے۔ اب اس اور اس طرح کے خطرناک گروپوں سے بچنے اور ا ن کو الگ تھلگ کرنے کی مشترکہ
کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس پر پاکستان حکومت کو بھی سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان سے نمٹنے
کے لئے اس کو صرف ایک آپریشن ‘راہ نجات’ سے
کام چلے گا بلکہ اس کو بڑے پیمانے پر ان یزید ی تنظیموں سے سختی سے نمٹنا ہوگا
ورنہ کل یہی لوگ مردان اور حجاج بن یوسف بن کر مکہ بھی لوٹیں گے اورقتل عام بھی کریں
گے۔
1979میں تاریخ اسلام میں دوبہت اہم واقعات پیش آئے ۔ ایک ایران میں
اسلامی انقلاب کے ذریعہ امریکہ کےمنظور نظر بادشاہ رضا پہلوی کا تختہ پلٹ کر ملک میں
اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا ۔دوسرے افغانستان میں شاہ ظہیر شاہ کوملک بدر کر
کے ملک پر سویت یونین کی افواج نے اپنا قبصہ کیا۔ اس کے بعد دنیا میں حالات بہت تیزی
سے بدلے اور امریکہ نے پہلے تو ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف ایک عرب ملک عراق کو
تیار کیا اور ان دونوں کے درمیان مسلسل 8سال تک جنگ ہوئی۔ جب جنگ بندہوئی تو تمام عالم
میں مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی کہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل بند ہوگیا۔ سب
جانتے ہیں کہ اس ایران عراق کی جنگ میں عراق غلط تھا ا س لئے دنیا بھر کے مسلمانوں
خواہ وہ شیعہ ہو ں یا سنی سب کی حمایت ایران کے ساتھ تھی ۔ جنگ بندی پر ایران میں پھر
سے اسلامی حکومت نے مضبوطی سے کام شروع کیا اور کامیابی کے ساتھ آج نیو کلیئر طاقت
بننے کے لئے بالکل نزدیک ہے یا بن چکا ہے ۔ اسی طرح افغانستان میں تمام عالم کے مسلمانوں
نے افغانستان کے ان مجاہدیں کی حمایت کی جوسویت یونین کی ظالم افواج سے محاذ آرائی
کررہے تھے۔اس کے بعد ملک سے روسی فوجیں نکلنے پر مجبور ہوئیں اور وہاں مجاہدین نے حکومت
تشکیل دی۔ یہ حکومت بھی اسلامی تو نہیں تھی البتہ ایک اچھی حکومت ضرور تھی اگر چہ تب
بھی بہت سے گروپ اقتدار پر قابض ہونے کے لئے کوشاں تھے۔ تاہم حالات خراب نہیں تھے
۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ طالبان نامی تنظیم بڑی تیزی سے سیاسی افق پر آئی اور اس نے
بہت کم وقت میں افغانستان میں حکومت قائم کرلی جس کو دنیا کے تین ممالک سعودی عربیہ
، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے تسلیم بھی کرلیا جب کہ امریکہ اور دیگر یوروپین
ممالک اس کی مخالف کرتے رہے ۔ تاہم یہ کافی حد تک ایک اچھی حکومت کے طور پر کام کرتے
رہے۔ باوجود اس کے کہ اس کے کئی فیصلے بہت غلط تھے لیکن اس کی حمایت کرتے رہے امریکہ
نے 11/9کے واقعہ کو نشانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کیا تب بھی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے
تین ارب ہاتھ اس کے لئے دعا کے لئے اٹھے تھے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد اصل طالبان تو
روپوش ہوگئے کچھ نقلی لوگ اقتدار کی خواہش لے کر تشدد کے راستے پر چل پڑے ۔ ان کی قیادت
بھی ان سخت گیر قدامت پسند لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جو واقعتاً اسلام کی اصولی باتو
ں سے با لکل دور ہیں۔ یہ لوگ اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ تشدد مانتے ہیں ۔ ان کی نظر
میں اسلام کے بنیادی اصولوں ، اسلام کے اخلاص اور اصل نظام مصطفیٰ کی کوئی اہمیت نہیں
۔ تانا شاہوں کی طرح فیصلے سنارہے ہیں اور درندوں کی طرح برتاؤ ۔ ان کے عمل اسلامی
اصولوں کے با لکل برعکس ہیں ، یہ لوگ اسلامی ناموں اور نام محمدیؐ اور اسلامی اصولوں
کا کھلا مذاق اڑارہے ہیں ، یہ لوگ اسلام کی تصویر دنیا بھر میں مسخ کررہے ہیں۔ یہ لوگ
ان لوگوں کو صحیح کرنا چاہتے ہیں جو اب تک الزامات لگاتے رہے ہیں کہ دنیا میں اسلام
تلوار کے دم پر پھیلا جب کہ واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں اسلام اخلاص سے پھیلا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ
ان نام نہاد تنظیموں نے جس طرح اسلامی ناموں بالخصوص جیش محمد ،سپہ صحابہ، سپہ محمدی،
لشکر طیبہ ، جماعت الدعوۃ کا استعمال کیا ہے۔ اس پر پابندی ہونی چاہئے یا اس طرح کے
کسی بھی نام کو کام کرنے کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ ان پر بھی پابندی لگا کر ان کو
سخت سزادی جائے۔کسی کو اسلام کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس طرح سے فلسطین
کے حماس اور لبنان کے حزب اللہ جنگ لڑرہے ہیں ایسی ہی جنگ یہ بھی لڑسکتے ہیں لیکن ان
کےمقاصد تو کچھ اور ہی ہیں۔ یہ تنظیمیں چند غیر اسلامی اور مسلمان دشمن ممالک کے اشاروں
پر کام کررہی ہیں جو کہ بہت خطرناک کھیل ہے۔ اس آگ میں صرف پاکستان اور ایران ہی نہیں
چلیں گے بلکہ ان تنظیموں کو شہہ دینے والے بھی جائیں گے ۔ یہ سوال ان تنظیموں سے بھی
ہے کہ وہ اس تشدد کے ذریعہ کون سا اسلامی نظام کی تشکیل دینا چاہئے ہیں۔ اسلامی نظام
یا نظام مصطفیٰ کا تصور بھی اب بے معنی ہے لیکن ابھی بھی اسلامی اقتدار کا تصور باقی
ہے اور ایران جیسی حکومتیں اس کی مثال ہیں۔ ایسی ہی حکومت افغانستان میں بھی ہوسکتی
ہے یا پاکستان میں بھی ہوسکتی ہے ۔عرب میں لیبیا ، سوڈان، شام جیسی کئی دیگر مثالیں
ہیں لیکن یہ تنظیمیں جو قائم کرنا چاہتی ہیں وہ نہ تو اسلامی نظام ہے اور نہ ہی نظام
مصطفیٰ ۔
https://newageislam.com/urdu-section/islamic-system-that-talk-/d/1979