سمیع الدین خان شاداب
ہندوستان کے قدیم فلسفے اور ادب میں دکھ سے نجات حاصل کرنے اور سکھ سے حصول کےموضوع کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ویدوں، اپنشدوں ، زرمیہ نظموں (رامائن او رمہابھارت) میں اس موضوع پر کافی مغز بحث موجود ہے ۔ وہ تمام عملی اور عملی ذرائع جن سے دکھ دور ہوں اور سکھ حاصل ہوں، ہندوستان میں جنم لینے والے مذاہب و مسالک کا اہم ترین موضوع رہے ہیں۔
ہندوستانی فلسفے میں سکھ کا مطلب مادّی یا جسمانی سکھ، عیش حصول ہے جو انسان کو تمام جنجالوں سے چھڑا کر نجات (موکچھ) کی طرف لے جاتا ہے ۔ ہندوستانی تاریخ میں کئی بار ایسے بھی موڑ آئے جب کہ ایسا لگنے لگا کہ ہم اس اصل مقصد کے حصول کی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ معاشرہ ایسے رسوم کو اپنے مذہبی فلسفے کا جز سمجھنے لگا جو کہ انسان کو موکچھ کے نام پر زوال کی طرف ڈھکیلنے لگے۔
مہابھارت کی جنگ عظیم کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ماحول تیار ہونے لگا ۔ ملک بھر میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا ۔ تعلیم ومذہب دونوں کا زوال شروع ہوا۔ ہندو جماعت پر ذات پات نے اپنا قبضہ جمالیا ۔ یگیہ کے نام پر پر وہت جانوروں کی قربانیاں کرنے لگے ۔ سیاسی اعتبار سے بھی مہابھارت کے بعد کا زمانہ ابتر رہا۔قدیام شاہی خاندان نیست ونابود ہوچکے تھے اور تمام ملک میں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں قائم ہوچکی تھیں۔ اس طرح شمالی اور مغربی ہندوستان کی اس معاشرتی اور سیاسی بدامنی کے نتیجے میں غیر ملکی حملہ آوروں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے ہندوستان پر حملے شروع کردیئے۔
اس افراتفری کے ماحول میں ہندوستان کی سرزمین پر دو ایسی صاحب غور وفکر ، ہستیاں بھی پیدا ہوئیں جن کو یہ ماحول ناپسند تھا۔ وہ معاشرے کی ان بدرسوم اور سیاسی عدم استحکام کو مٹانے کی کوشش میں لگ گئے اور زندگی کا دھارا دوبارہ راہ نجات (موکچھ) کی طرف موڑ دیا۔ یہ دونوں عظیم ہستیاں تھیں مہابیر سوامی اور مہاتما بدھ۔ ان کے ذریعے برپا انقلاب کا مقصد تھا مذہب اور سوسائٹی کی اصلاح ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی ریاضت اور مراقبے سے تلاش حق کی اور دکھ سے چھٹکارا پانے کی تدابیر کی تحقیق بھی کی۔
بالخصو ص مہاتما بدھ نے اپنی زندگی اور تعلیم کے زور سے ہندوستانیت کے منتشر اجزا کو جمع کر کے اس کو ایک عالمگیر بیداری تحریک کی شکل دے دی۔ گوتم بدھ کی پیدائش 557عیسوی میں شاکیہ خاندان کے دارالحکومت کپل وستو میں ہوئی ۔ یہ ذات کے چھتر یہ تھے ۔ ان کے والد کانام شدودھن اور والدہ کا نام مایا دیوی(مہامایا) تھا۔ مہاتما بدھ کا بچپن کا نام گوتم سدھارتھ تھا۔ یہ والدین کے اکلوتے فرزند تھے لہٰذا شدودھن کی وفات کے بعد وہی تختِ حکومت کے اکلوتے وارث تھے۔ جب یہ صرف سات دن کے ہی تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا لہٰذا راجہ شدودھن نے ان کو بہت ہی نازونعم سے پالا پوسا ۔
بدھ کی پیدائش کے موقع پر جب راجہ نے نجومیوں سے شہزادے کا مستقبل دریافت کیا تو انہوں نے ستاروں کی چال دیکھ کر صاف طور سے بتادیا کہ یہ شہزادہ یا تو چکر ورتی سمراٹ ہوگا یا ایک عظیم مذہبی واعظ بنے گا۔ اسی وجہ سے شدودھن نے شہزادے کی دیکھ بھال کا مخصوص انتظام کیا تاکہ اس کو کسی قسم کے رنج وغم کا احساس بھی نہ ہوسکے۔ ان کو چھتریہ خاندان کی روایت کے مطابق جنگی فنون کی تربیت دی گئی۔ ان کی شادی یشو دھرانام کی خوبصورت شہزادی سے ہوئی۔ ان سے راہل نام ایک لڑکا بھی پیدا ہوا۔ راجہ شدودھن کو بھی اب یہ امید ہوگئی کہ اب شہزادہ بیراگی نہ ہوگا لیکن سدھارتھ کی طبیعت ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ تمام باتیں ان کو دنیا داری کے جال میں گرفتار نہ کرسکیں۔
سدھارتھ نہایت پاک طبیعت تھے۔ ان کا دل فطرتاً ملائم تھا وہ کسی کی تکلیف تو دیکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ ایک مرتبہ سدھارتھ شہر میں گھومنے گئے تو راہ میں انہوں نے ایک نہایت ضعیف وناتواں شخص دیکھا ۔ وہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا، کمر اتنی جھکی ہوئی تھی کہ چلنا دوبھر تھا۔ وہ آنکھوں سے نابینا اور پیروں سے لنگڑا تھا۔ اس بے بس کو دیکھ کر سدھارتھ کے دل پر اتنی گہری چوٹ لگی کہ وہ بہت زیادہ اداس ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مریض اور ایک مردہ دیکھا ۔ یکے بعد دیگر ے اس طرح کے رنجیدہ نظارے دیکھنے کے بعد ان کا حال دنیا سے اچاٹ ہوگیا۔دنیاوی خوشیاں ،تفریحات اور لذتیں ان کے لئے بے معنی ہوگئیں اور وہ اس غور فکر میں ڈوب گئے کہ کیا کوئی صورت ہے جو انسان کو اس طرح کے مصائب سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ انہوں نے قصد کرلیا کہ بنی نوح انسان کو مصائب سے مخلصی دلانے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور ڈھونڈ نا ہوگا۔ غرض یہ کہ 29سال کی عمر میں گوتم نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور آدھی رات کو محل چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔
انہوں نے نجات کے لئے ریاضت کا راستہ اپنا یا لیکن ان کو وہ بات حاصل نہ ہوئی جس کی ان کو تمنا تھی۔ آخر کار انہوں نے مراقبہ کی طرف رخ کیا اور ان کو اس بات کا علم ہوگیا کہ حقیقی نجات نفسیاتی خواہشات پر غالب آنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ۔نجات صرف اسی کو حاصل ہوسکتی ہے جس کو کسی قسم کی خواہش نہ ہو۔ جب کوئی خواہش ہی نہیں تو دل کسی طرف راغب ہی نہ ہوگا اور پھر راحت اور تکلیف کاتصور ہی تبدیل ہوجائے گا۔انسان دونوں حالات میں یکساں رہے گا۔ مراقبے کی حالت میں ہی ان کو دریائے نرجنا کے کنارے عرفان سےہوا اور اس عرفان (بودھ) کے حاصل ہونے کے بعد وہ بدھ کہلانے لگے ۔ جسم کو ایذا دینے والی سخت ترین ریاضت او رانتہائی عیش وعشرت دونوں ہی نجات کے راستے کی رکاوٹیں ہیں۔ مہاتما بدھ کے مطابق زندگی ستار کے تاروں کی مانند ہے۔زیادہ کس دوگے تو بجاتے وقت تار ٹوٹ جائیں گے اور ڈھیلا چھوڑ دوگے تو ستار سے کوئی آواز ہی برآمد نہ ہوگی۔ درمیانہ راستہ ہی دراصل نجات تک جاتا ہے۔ مہاتما بدھ نے انے مواعظ میں اسی درمیانہ روی کو بنیاد بنایا ۔
انہوں نے بنارس کے نزدیک سارناتھ میں اپنا پہلا وعظ بیان کیا۔ یہ وعظ تمام بودھ تعلیمات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ بدھ نے عرفان حاصل ہونے کے بعد 45برسوں تک اپنی ضعیفی کے ایام تک پیدل گھوم گھوم کر بودھ مت کا پیغام لوگوں تک پہنچا یا۔ انہوں نے اپنے مبلغ شاگردوں کا ا یک جتھا تیار کیا جس کو سنگھ کہا ۔سنگھ کو حکم دیا کہ وہ جاکر لوگوں کو حقیقت (بودھ) کاعلم کرائیں۔
مہاتما بدھ اور ان کا سنگھ جہاں بھی گئے لوگوں نے ان کو عزت بخشی اور ان کی تعلیمات کو بخوشی قبول کیا۔ بو دھ مذہب میں زیادہ تر نیکی اور راست بازی پر زور دیا گیا ہے۔ یہ مذہب ذات پات کی بندشوں کو نہیں مانتا ۔مہاتما بدھ کا قول تھا کہ مذہب کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ دنیا میں اعمال کا درجہ زیادہ بلند ہے۔اس میں برہمن اور چھتریہ کا نہ کوئی لحاظ ہے اور نہ کوئی رعایت ۔
بودھ مذہب راست بازی کا مطلب ہے سچائی او رعدم تشدد ۔ جو شخص دل سے ، زبان سے یا عمل سے دوسرے جانداروں کو ایذا نہیں دیتا وہی راست باز ہے اور دراصل اسی طرح کا شخص دنیاوی دکھوں سے نجات پاسکتا ہے ۔ بودھ مذہب نے دنیا کو دکھوں کی زنجیر سے بندھا ہوا مانا ہے۔ انسان کی حرص وہوس اور نفسیاتی خواہشات ہی دکھوں کی اصل وجہ ہے۔اس لئے سکھ حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ خواہشات پر غالب ہو جائے جس نے خواہشات کو مغلوب کرلیا وہی نجات حاصل کرے گا۔ برہمن چھتریہ ،ویش اور شودر سب اپنے اعمال کے ذریعے سے نروان حاصل کرسکتے ہیں۔
بودھ مذہب کے اس سادہ اصولوں کی وجہ سے ہی عوام نےاس کو جوش وخروش سے قبول کیا۔ بودھ مذہب کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی تبلیغ عوام کی ‘‘پالی’’ زبان میں ہوئی۔ خود مہاتما بدھ کی شخصیت ،ان کا پاک وصاف کردار اور طرز عمل نیز ان کے تبلیغ کرنے کا طریقہ کار بودھ مذہب کی اشاعت میں معاون ثابت ہوئے ۔گوتم بدھ کی تعلیمات کا خلاصہ چار افضل حقائق میں ہے ۔ یہی وہ تعلیم ہے جو مہاتما بدھ نے عوام کو دی۔
حالانکہ ان تعلیمات کی تعبیر وتشریح میں مختلف اشکال پیدا ہوتے ہیں اوربہت سی باتوں کو سمجھانے میں دقت بھی آسکتی ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی یہ پیغامات بہت واضح ہیں۔
دکھ عام زندگی میں پوشیدہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ انفرادی تسلی وتشفی کی خواہش اور حصو ل کی تشنگی ہے۔ اس کا تدارک خواہش کے تدارک سے ہوسکتا ہےاور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ ریاضت اور تن پروری کے درمیانہ روی کا راستہ اختیار کیا جائے اور ہشتگانہ راہ خیر کے تحت ایک باقاعدہ منظم اوراخلاقی زندگی گزاری جائے۔مہاتما بدھ کو نور ایشیا ‘‘Light of Asia ’’ کہا جاتا ہے کیونکہ بدھ نے افغانستان کے مشرق میں پورے ایشیا میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور ان کے معاشرتی، اخلاقی اور روحانی (مذہبی ) ارتقا میں ایک خاص مدد دی۔
(بشکریہ اردو تہذیب ٹاٹ نیٹ)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/buddhist-teachings-assisting-character-building/d/1704