زاہدہ حنا
میجر کلاڈ ایتھر لے ہیرو شیما
پر ایٹم بم گرانے والے طیارے کا پائلٹ تھا۔ وہ ایک نوجوان پر جوش اور پوش امریکی تھا۔
اسے بتایا گیا تھا کہ جمہوریت ، انسانیت، امن پسندی اور وطن پرستی ایسی اعلیٰ اقدار
کی ‘‘حفاظت’’ کے لئے اسے ‘‘ننہا لڑکا’’ نامی ایک بم ایک شہر پر گرانا ہے اور واپس آجانا
ہے۔ وہ اپنے نشانے پر پہنچا ،اس نے ایک نظر شہر کو دیکھا ،اپنے ساتھی کو اشارہ کیا
، بم طیارے سےجدا ہوا، طیارہ واپسی کے لئے مڑا تو میجر ایتھر لے نے نیچے پھیلے ہوئے
شہر پر نظر کی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔ چند لمحوں کے اندر اندر وہ جیتا
جاگتا شہر نابو د ہوچکا تھا۔ وہ اپنا ‘‘فرض’’ انجام دے چکا تھا۔ اس کے ساتھی اس بات
پر پھولے نہیں سمار رہے تھے کہ انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیار کو سب سے پہلے استعمال
کرنے کا اعزاز ا نہیں حاصل ہوا ہے جبکہ کلاڈ کا چہرہ زردتھا ، جبڑے بھنچے ہوئے تھے
۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ننھے لڑکے تو اپنی شرارتوں
سے لوگوں کو دل مو ہ لیتے ہیں، یہ بم کیسا ‘‘ننھا لڑکا’’ تھا جس نے چند سیکنڈ کے اندر
اندرایک ہنستے بستے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ وہ فوجی اڈے پر پہنچا تو ہیرو تھا
۔ اس کے ساتھی، اس کے اس سفر پر اسے مبارکباد دے رہے تھے ،فتح کا جشن منارہے تھے لیکن
وہ چپ چاپ ایک طرف کو جابیٹھا اور پھر اس نے کئی دن اور کئی رات کسی سے کلام نہیں کیا۔
میجر کلاڈ ایتھر لے بیسوی
صدی کی امریکی تاریخ کا وہ باضمیر انسان ہے جس نے 6اگست 1945کو ہی جان لیا تھا کہ سیاستداں
اور جرنیل ‘‘قرض شناسی’’ اور ‘‘وطن سے وفاداری’’ کے نام پر اس سے ایک ایسے بھیانک جرم
کا ارتکاب کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کے کرنے کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا
تھا۔ وہ جاگتا رہتا تو اس کی آنکھوں میں ایک شہر کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا منظر
کھنچا رہتا اور سوتا تو اذیت کے جہنم میں جھلستےہوئے ہزاروں چہرے اسے اپنی طرف تکتے
نظر آتے۔ ان کے کربناک چیخیں اس تک پہنچتیں اور وہ دیو انوں کی طرح سوتے سے اٹھ بیٹھتا
۔ انسانیت کا مجرم ہونے کا یہ احساس اسے دیمک کی طرح کھانے لگا ۔ تنگ آکر اس نے امریکی
فضائیہ کی شاندار ملازمت ترک کردی اور پیٹ پالنے کے لیے معمولی نوکریاں کرنے لگا۔ ذہنی
حالت بگڑی تو نفسیاتی معالجوں کے پاس گیا۔ ان ہی دنوں 1950میں امریکی صدر ٹرومین نے
ایٹم بم سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیار ‘‘ہائیڈروجن بم’’ بنانے کا اعلان کیا تو ایتھر لے
پر ڈپریشن کا اتنا شدید دورہ پڑا کہ اس نے نیند کی گولیاں کھاکر خودکشی کی کوشش کی۔
دوسری مرتبہ اس نے اپنی کلائی رگیں کاٹ لیں لیکن بچالیا گیا ۔ اسی دوران وہ ہیروشیما
کے ان ہسپتالوں کو وقتاً فوقتاً رقم بھیجتا رہا جہاں ایٹمی حملے کے متاثرین کا علاج
ہوتا تھا۔ اس نے جاپانی ڈاکٹر وں، صحافیوں اور دانشوروں کو خط لکھے اور انہیں یہ باور
کرانےکی کوشش کی کہ ہیرو شیما پر گرائے جانے والے بم کی ہولناکی اور تباہ کاری کی شدت
سے وہ واقف نہ تھا۔ نادانستگی میں اس سے جس جرم کا ارتکاب ہوا اس کی اذیت نہ اسے دن
کو چین لینے دیتی ہے اور نہ رات کو آرام کرنے دیتی ہے۔
ان ہی دنوں امریکیوں نے صدارتی
انتخاب میں دوسری جنگ عظیم کے ایک جرنیل جرنل آئزن ہاور کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔
اس کے ساتھ ہی ایتھر لے کو یقین ہوگیا کہ جنگی جنون کو ہوادینے والے عناصر امریکی عماج
میں روز بروز طاقتور ہوتے جارہے ہیں ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی امریکی عوام
کو اس سچ سے آگاہ کرنے کےلئے وقف کردے گا کہ اس کے جرنیلوں اور ساستدانوں نے ملک اور
قوم کے نام پر انسانیت کے خلاف کن جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ان کا جنگی جنون آئندہ
بھی امریکہ کی رسوائی اور بدنامی کا سبب بن سکتا ہے ۔ایتھر لے کا یہ عزم امریکی محکمۂ دفاع کے لئے باقابل برداشت تھا، چنانچہ وہ
گرفتار کرلیا گیا اور محض سرکاری ماہرین نفسیات کی گواہی پر اسے تیسرے درجے کا پاگل
قرار دے کر ٹیکساس کے فوجی ہسپتال میں قید کردیا گیا۔
پاگلوں کے اس وارڈ میں رہتے ہوئے
بھی اگر ایتھر لے کا ذہنی توازن برقرار رہا اور اگر امریکی محکمۂ دفاع اسے آزاد کرنے
پر مجبور ہوا تو اس کا سہرا آسٹریا کے فلسفی اور دانشور کنٹر اینڈ رز کے سر ہے جس
نے امریکی ہفت روزہ ‘‘نیو ویک’’ میں ضمیر کی ملامت کے عذاب میں گرفتار میجر ایتھر لے
کی قید کا قصہ پڑھا اور عالمی ضمیر کی عدالت میں اس کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔کنٹر
نے ایتھر لے کے نام پہلا خط 3جون؍
1959کو اور آخری 11؍جولائی
1961کو تحریر کیا۔ ان دو برسوں کے دوران وہ صرف ایتھر لے کو ہی خط نہیں لکھتا رہا بلکہ
اس نے امریکی اخبارات میں ججوں، وزارت انصاف، اٹارنی جرنل رابرٹ کینیڈی سے بھی مراسلت
کی اور ایک کھلا خط اس وقت کے امریکی صدر جان ایف ۔کینیڈی کے نام لکھا جو یورپ اور
امریکہ میں مختلف زبانوں میں چھپا اور جس کی کاپیاں متعدد قابل ذکر دانشور وں کو بھیجی
گئیں۔ یہ گنٹر تھا جس نے ایتھر لے کو فوجی پاگل خانے سے رہا کرنے کی اپیل پر برٹر نڈرسل
،البرٹو مور ادیا ایسے مشہور فلسفی اور ادیبوں کے علاوہ ہیرو شیما کے میرے دستخط بھی
حاصل کیے ۔ یہ کنٹر تھا جس نے اپنی اور ‘‘پاگل’’ ایتھر لے کی خط وکتابت شائع کرائی
اور دنیا پر یہ ثابت کیا کہ فوجی ڈاکٹر نہیں ‘‘دیوانہ’’ قرار دیں وہ کیسے ‘‘فرازانے’’
ہوتے ہیں۔
ایتھر لے نے ایک خط میں لکھا
تھا۔‘‘ میں سمجھتا ہوں وہ وقت آپہنچا ہے جب بطور فرد ہم اس بات کا ازسر نو جائزہ لیں
کہ سماجی ادارو ں یعنی سیاسی جامعت ، ٹرینڈیو نین ، مذہب او رمملکت کے سامنے کیا ہمیں
سپرد ڈال دینی چاہئے؟ اور کیا اپنے خیالات اور اپنے افعال ہمیں ان کے احکامات کے تابع
کردینے چاہئیں ؟’’ ایک دوسری خط میں اس نے لکھا ۔
‘‘انسانیت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ۔ دنیا بھر میں پھیلے
ہوئے انسانوں کو ہم خانوں میں نہیں بانٹ سکتے اور امن اس دنیا میں صرف بھائی چارے اور
مفاہمت کے ذریعے قائم کیا جاسکتا ہے’’۔
جاپانی عوام کے نام اس نے
ایک خط میں تحریر کیا۔۔۔‘‘ میں وہ فوجی ہوں جس نے ہیروشیما کو نیست ونابود کیا ۔ میرا
ضمیر اس جرم پر عذاب میں مبتلا ہے۔ میں معافی کا طلبگار ہوں۔ ہم ایک دوسرے کے خلاف
کیوں صف آرا ہوں؟ جنگ ایک وحشیانہ اور غیر انسانی فعل ہے۔ ہم اشرف المخلوقات ہوکر
خود ہی ایک دوسرے کو کیسے تباہ کرسکتے ہیں؟ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے ہیرو شیما کی راکھ
میں سونے والے ‘‘امن’’ کے لئے فریاد کرتے ہیں’’۔
یہ تن تنہا گنٹر کی ذات تھی
جس نے میجر ایتھر لے کو اس کے باضمیر ہونے پر مسلسل داد دی ۔ اس کے حوصلے پست نہیں
ہونے دیے اور عالمی ضمیر کو بیدار کر کے امریکی وزارت دفاع کو مجبور کیا کہ ان کی جنگجو
یانہ پالیسیوں پر اعتراض کرنے والے اور امریکی رائے عامہ کو ان پالیسیوں کے خلاف ہموار
کرنے والے اس صحیح الدماغ او رباضمیر شخص کو رہا کریں جسے انہوں نے پاگل قرار دے کر
قیدرکھا ہے۔
ہیرو شیما او رناگا ساکی کے
بے گناہ مقتول کی یاد منانے کے ساتھ ہی میجر ایتھر لے کے ضمیر کی خلش کو بھی یاد کرنا
چاہئے اور گنٹر اینڈ رز اس سے بھی زیادہ داد کا حقدار ہے کیو نکہ یہ اسی کے خطوط اور
تحریر یں تھیں جنہوں نے امریکہ اور یوروپ میں ‘‘حب الوطن’’ اور‘‘فرض کی ادائیگی’’ جیسے
محترم جذبوں کو اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لئے استعمال کرنے والے جرنیلوں اور سیاستدانوں
کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کیا ۔ آج کی جنگ زدہ اور تصادم آمادہ دنیا میں ایسے ہی
فلسفیوں اور دانشوروں کی ضرورت ہے۔
میجر کلاڈ ایتھر لے ایک عام
امریکی فوجی افسر تھا جو ضمیر کے اس عذاب میں گرفتار ہوا۔ اب ذرا اس شخص کا تصور کیجئے
جسے عزت ، دولت، شہرت، سب ہی کچھ حاصل ہے ۔ اپنے شعبے میں اس کا نام نہایت احترام سے
لیا جاتا ہے ۔ اس کا شمار ملک کے طبقہ اعلیٰ میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے میدان کا ‘‘نابغہ’’
تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں نے اس ملک کو ‘‘عظیم عالمی طاقت’’ بننے میں مدددی ہے۔
اور پھر آہستہ آہستہ رات
کے اندھیرے میں ، دن کے اجالے میں ، شام کے
جھٹپٹے میں صبح کے سرمئی دھند لگے میں ۔۔۔ اس کا نفس اس سے کلام کرتا ہے
۔۔۔ سوالات قائم کرتا ہے ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور اخلاقی
ذمہ داریوں کے درمیان ایک کشمکش ،ایک تصادم کو جنم دیتے ہیں ۔ اس کشمکش کا احوال خود
اس شخص کے الفاظ میں پڑھئے ۔۔
‘‘1953اور 1968کے درمیان میرے سماجی اور سیاسی خیالات میں بنیادی ارتقا
ہوا۔ بطور خاص 1953سے 1962کے درمیان جب میں
تھرمونیو کلیئر ہتھیار وں کی تیاری اور نیو کلیائی تجربوں سے متعلق معاملات
میں ذاتی طور پر حصہ لے رہا تھا ۔ مجھے اچانک ان اخلاقی مسائل سے دوچار ہونا پڑا جو
میری ان مصروفیات کے باعث پیدا ہورہے تھے۔یہ اس کا نتیجہ تھا کہ میں پانچویں دہائی
کے آخر ی حصے میں نیوکلیائی ہتھیار وں اور نیو کلیائی تجربوں پر مکمل پابندی یا ان
کی تعداد کو محدود کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوگیا۔ 1963میں فضا بالائے فضا اور سمندر
میں ایٹمی تجربوں پر پابندی کا معاہدۂ ماسکو، جن لوگوں کی کوششوں سے عمل میں آیا،
میں ان میں سے ایک تھا۔ ان معاملات سے متعلق سوالات روزانہ میرے ذہن میں سرآٹھاتے
تھے اور ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔’’
اس شخص کا ایک ضمیر سے مکالمہ
جتنا شدید ہوا، اتنی ہی شدت سے اس نے نیو کلیائی ہتھیاروں کے خلاف آواز بلند کی۔ اس
کا کہنا تھا کہ ہر نئے ایٹمی تجربے کے بعد فضا میں تابکار ذرات کا اضافہ ہوجاتا ہے
جو بے شمار اذیتناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے اور لاتعداد بے گناہ افراد ان بیماریوں
کے سبب لحظ لحظ مرتے ہیں۔ تابکاری سے متاثر ہونے والوں کے المیے کا ذمہ دار وہ خود
کو سمجھتا تھا اور یہ اتنی بڑی ذمہ داری تھی جس کے بوجھ سے دیوتاؤں کی ہڈیاں چٹخ جائیں
، وہ تو گدا ذدل انسان تھا۔
ضمیر سے ہونے والے ان مکالمات
نے اسے انسانوں کے اجتماعی دکھوں کی طرف متوجہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے ملک کے بہت
سے افراد اپنے بنیاد ی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ آزادی اظہار وافکار انہیں میسر نہیں
اور سرکاری نقطہ نظر سے اختلاف کے سبب ان کا مقدر تنہا ئی ، تذلیل اور تحقیر ہے۔ اس
نے ان معاملات پر صدائے احتجاج بلند کی تو وہ تمام لوگ چونک اٹھے جو صاحبان اقدار تھے
اور کل تک اس کے ہم نوالہ وہم پیالہ تھے۔ پہلے اسے سمجھایا گیا ،پھر روک ٹوک شروع ہوئی
اور جب اس پر بھی وہ باز نہ آیا تو وہ شخص جو دودہائیوں سے اپنے ملک کے خفیہ منصوبوں
پر کام کرتا رہا تھا،اسے ان تمام منصوبو ں پر کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس سے وہ تمام
سہولتیں اور مراعات واپس لے لی گئیں جو اس وقت تک اسے حاصل تھیں۔
وہ امن عالم ،تخفیف اسلحہ
، سفر اور رابطوں کی آزادی ،سزائے موت اور آزادی تحریر وتقریر کے بارے میں لکھتا
رہا، بولتا رہا ، روزانہ کسی نہ کسی ‘‘سرکاری معتو ب’’ کے حق کے لیے لڑتا رہا ۔ اور
تب سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس شخص کے خلاف ‘‘جہاد’’ کا آغاز کیا ۔ اس پر الزامات لگائے
۔وہ شخص جو امن، انسانیت، آزادی اور انسانی حقوق کے لیے لڑتا رہا تھا ۔ اس کے بارے
میں کہا گیا کہ وہ عالمی جنگ کا خواہاں اور انسانوں کا دشمن ہے۔ اسے ‘‘غدار’’ اور
‘‘بے ایمان ’’قرار دیا گیا۔
1975میں اسے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ یہ انعام اس بات کا اظہار
تھا کہ امن اور حقوق انسانی کے لیے اس کی جدوجہد کودنیا احترام کی نظروں سے دیکھتی
ہے ۔لیکن اس کے ملک میں اس اعزازات کیے گئے اور اس پر پابندی لگادی گئی کہ وہ ملک سے
باہر نہیں جاسکتا ،نوبل انعام نہیں لے سکتا ۔
صرف اسی پر بس نہیں ہوا، جنوری
1980میں اسے ان تمام اعزازات اور خطابات سے محروم کردیا گیا جو طبیعات کے میدان میں
اس کی خدمات کے صلے کےطور پر اسے دیئے گئے تھے اور پھر کسی قسم کی فرد وجرم عائد کیے
او رمقدمہ چلائے بغیر اسے شہر بدر کر کے ایک ایسے دور افتادو علاقے میں رکھا گیا جہاں
اس کا اپنے عزیزوں ،دوستوں اور ساتھیوں سے کوئی رابطہ نہ تھا۔
اس شخص کا نام آندرے سخاروف
تھا ۔و ہ سابق سوویت یونین کا شہری تھا ۔ ایک ایسا شہری جس پر اس کا ملک جس قدر ناز
کرے ، کم تھا۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آندرے سخاروف اسے عظیم سائنسداں کا نام
کچھ عرصے تک سابق سوویت یونین میں انتہا ئی تحقیر اور توہین سے لیا جاتا تھا ۔ کون
سے وشنام سے دومحفوظ رہا او رکون سی برائی تھی جو اس سے منسوب نہ کی گئی ۔ لیکن اس
شخص نے سرکاری دباؤ کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کردیا۔ برسوں پہلے وہ سچ کے
سفر پر روانہ ہوا تھا او رزندگی کے آخری لمحے تک وہ اسی سفر میں رہا ۔عرصہ پہلے وہ
اپنا مقدمہ اپنے کے ضمیر کی عدالت میں پیش کرچکا تھا اور اس ضمیر نے جو فیصلہ دیا تھا،
وہ آخری سانس تک اسی پر قائم رہا۔
سخاروف کے بارے میں ایک روسی
ادیب وکٹر ٹکراسوف نے لکھا۔۔۔
‘‘اس شخص کو کسی بات سے خوف نہیں آتا ۔ نہ کسی بات سے اور نہ کسی شخص
سے۔میراخیال ہے کہ وہ شخص خوف کے احساس سے قطعاً عاری ہے۔ تو کیا وہ اس بارے میں کبھی
سوچتا ہی نہیں؟ اس کے پاس تو دوسری اہم چیزوں کے بارے میں سوچنے کے لیے بھی وقت نہیں ۔ انسان ۔۔۔انسان ۔۔۔انسانی مقدرات
۔۔۔صرف یہی معاملات اس کا مسئلہ ہیں’’۔
آندرے سخاروف کو انسانوں
سے محبت تھی۔ وہ عشق بشر میں گرفتار تھا۔ اس کے لیے انسان سے زیادہ اہم کوئی چیز نہ
تھی۔ وہ ان کے دکھ بانٹنا چاہتا تھا ۔ ان کے آزار اسے اپنے ذاتی عذاب محسوس ہوتے تھے۔
اپنے گمنام وبے نام ہم وطنوں کے حقوق کےلیے جد وجہد کرتے ہوئے اس نے تنہا ئی اورتذلیل
کا ایک تاریک دور گزارا۔
اگست 1989میں ہیروشیما کے
مقتولین کی یاد منائی گئی تو ایک امریکی پادری جارج زبلیسکا نے ہلاک شدگان کے لیے خصوصی
عبادت میں شرکت کے لیے جاپان کا سفر اختیار کیا او رہیروشیما میں جب وہ اس خصوصی عبادت
میں زیر لب دعائیں پڑھ رہاتھا تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
یہ امریکی پادری کون تھا؟
یہ شخص اگست 1945میں جزیرہ
تنیان پر پادری کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ 6؍اگست
1945کو صبح سویرے جب ‘‘اینولا گے’’ نامی طیارو ایٹم بم لے کر ہیروشیما جانے کے لیے
تیار ہوگیا تو پادری جارج زبلیسکا نے صبح صادق کی خوشگوار خنکی میں اس طیارے کے عملے
کی ‘‘کامیابی ’’کے لئے خصوصی دعا کی تھی۔ اس نے دعا کی تھی کہ طیارہ دشمنوں کو نشانہ
بنانے اور پھر عملے کے ساتھ صحیح سلامت جزیرہ تنیان لوٹ آنے میں کامیاب رہے۔
پادری جارج بلیسکا پر جب ہیروشیما
کی ہولناک تباہی کی داستان اپنی المناکیوں کے ساتھ واضح ہوئی تو پھر اسے کبھی چین کی
نیند نہیں آئی ۔ اس کا کہنا ہے کہ اپنی خصوصی دعا کا مفہوم اور اس کی حقیقت جاننے
کے بعد میں ہر لمحہ جہنم میں رہا اور آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس جگہ جانا
چاہئے او روہاں ہلاک ہونے والوں کے لیے خصوصی عبادت میں شریک ہونا چاہئے ۔ شاید اسی
طرح میرا احساس گناہ کچھ کم ہوسکے۔
اپنے احساس جرم کا شعوری سطح
پر اعتراف کرنے میں پادری زبلیسکا نے برسوں لگادیے لیکن یہاں ایک دلندیزی جنگی قیدی
کا ذکر کرنے کا جی چاہتا ہے جو اس وقت جاپانیوں کی قید میں تھا اور اس سے اس کے دوسرے
ساتھیوں سے ‘‘ناگا ساکی’’ کی بندر گاہ پر جبری مشقت لی جاتی تھی۔ جاپانی سپاہی اور
افسران جنگی قیدیوں کے ساتھ نہایت بے رحمانہ سلوک روارکھتے تھے۔ چنانچہ ولندیزی قیدی
روزانہ رات کو جب سونے کے لیے لیٹتا تو خدا سے گڑگڑاکر دعا کرتا کہ یہ پورا شہر ملیامیٹ
ہوجائے، جس نے ان لوگوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
اس ولندیزی قیدی کا کہنا ہے
کہ ناگا ساکی پر جب بم گرا ہے تو وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ جبر ی مشقت میں مصروف
تھا۔ اس سانحے کے بعد اس نے خون میں لتھڑے ہوئے ایسے جاپانی سپاہیوں کو دیکھا جن کی
کھال ان کے بدن الگ ہوکر جھول رہی تھی اور وہ اذیت سے چیخ رہے تھے، تڑپ رہے تھے۔ یہ
دلندیزی قیدی اور اس کے بعض دوسرے ساتھی جواس سانحے میں بچ رہے تھے ، اپنے کیمپ کی
طرف بھاگے ۔وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ان کا ایک ولندیزی افسر جو کہ خود بھی جاپانیوں
کی قید میں تھا، تمام ولندیزی سپاہیوں کو اکٹھا کررہا تھا پھر اس افسر نے اپنے سپاہیوں
کو حکم دیا کہ کیمپ میں موجود جتنے بھی جنگی قیدی زخمی ہوگئے ہیں ، یا ڈیوٹی پر موجود
جاپانی سپاہی یا افسر زخمی ہوئے ہیں ، ان سب کو پیٹھ پر لاد کر قریبی پہاڑی تک لے جائیں
تاکہ زخمیوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے محفوظ کیا جاسکے۔
ولندیزی قیدیوں کی سمجھ میں
چند لمحوں تک شاید اپنے افسر کی بات نہ آئی ان پر ظلم وستم رواں رکھنے والے جاپانی
اگر آگ کا ایندھن بن رہے تھے تو ٹھیک ہی تھا۔ لیکن افسر کا حکم ٹالا نہیں جاسکتا تھا
، اس ولندیزی قیدی کا کہنا ہے کہ جب میں نے اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والے جاپانی سپاہیوں
کو اپنی پیٹھ پر لاد کر انہیں محفوظ مقام تک پہنچا نا شروع کیا تو میرے دل سے ان کے
لیے تمام سپاہیوں کو اپنی پیٹھ پرلاد کر انہیں محفوظ مقام تک پہنچانا شروع کیا تو میرے
دل سے ان کے لیے تمام نفرت بھاپ بن کر اڑ گئی ۔ میں نے انسانی اذیت کے وہ ناقابل بیان
منظر دیکھے کہ میں جن لوگوں کی موت کی دعائیں کرتا تھا ،ان ہی کو بھاگ بھاگ کر بچانے
کی،انہیں کچھ آرام پہنچانے کی کوشش کرہا تھا، اس لمحے میرے لیے ولندیزی میں اور جاپانیوںمیں
کوئی فرق نہیں رہا تھا۔دوست دشمن کی تمیز مٹ گئی تھی ۔ہم سب انسان تھے، ہم میں کوئی
ظالم نہیں تھا، کوئی مظلوم نہیں تھا۔ سب ایک جیسی بھیانک تباہی سے دوچار تھے اور درد
کے رشتے میں منسلک تھے۔ ایک کی اذیت ،سب کا عذاب تھی۔ بم نے ہمارے درمیان تمام نفرتوں
کا خاتمہ کردیا تھا۔
امریکی پادری اورولندیزی جنگی
قیدی کے یہ محسوسات اس بات کا اشارہ ہیں کہ جہاں ایٹم بم نے دنیا کو خوف اور غیر یقینی
صورتحال کا اسیر کرلیا ہے، وہیں اس نے انسان کو ایک نئے رشتے کا احساس بھی دیا ہے
۔ اس رشتے میں شمال وجنوب ،مشرق ومغرب میں رہنے والوں کی تخصیص نہیں ۔ نیوکلیائی خوف نے کرۂ ارض پر رہنے
والے تمام انسانوں کو ایک بہت بڑے خاندان میں بدل دیا ہے اور یہ خاندان نیوکلیائی ہتھیاڑوں
سے نجات چاہتا ہے۔
6اگست 1945سے پہلے ‘‘جنگ’’ بے شمار انسانوں کے لیے سرخوشی کا سبب بنتی
تھی کیو نکہ کسی بھی جنگ کے دوران یہ بات حتمی تھی کہ لڑنے والے فریقوں میں سے کوئی
ایک فاتح ہوگا اور کوئی ایک مفتوح ۔ جنگ کا فیصلہ ہونے تک دونوں فریق ‘‘فتح’’ کے خواب
میں مگن رہتے تھے لیکن اب فاتح ومفتوح کا جھگرا ختم ہوچکا ہے۔ نیو کلیائی ہتھیار وں
کے استعمال کا راستہ اول فنا اور آخر فنا ہے۔ آج انسان کے سامنے یا مکمل نیستی کا
راستہ ہے یا زندگی کے خوبصورت انسانی مستقبل کے خواب ہیں۔
جوہری اسلحے کی مخالفت ہیرو
شیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے جوہری بموں اور ان سے رونما ہونے والی ناقابل
تصو ر تباہ کاری کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی لیکن انسان ‘‘طاقت’’ کے سحر میں آسانی
سے گرفتار ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اس کے حصول کی آرزو اسے بیتاب رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ ایٹم بم کے پہلے استعمال کے فوراً بعد تنائج
سے بے پردا ہوکر اس بھیانک طاقت کو حاصل کرلینے کے لیے دنیا کی تمام بڑی طاقتیں بے
قرار ہوگئیں ۔ اپنی بالا دستی قائم کرنے کی خواہشمند چنداقوام کا ‘‘جوہری کلب’’ چند
برس کے اندر ہی وجود میں آگیا اور زیادہ سے زیادہ جوہری ہتھیار وں کی پیداوار ان دولتمند
اور ترقی یافتہ اقوام کی عزت نفس کا مسئلہ بن گیا۔ انسانیت کے شرمناک قتل کی اس دوڑ
میں 1970کی دہائی سے ہندوستان اور پاکستان جیسے غریب ملکوں نے شامل ہونا بھی اپنا فرض
سمجھا اور ان ملکوں کے رہنما بجائے اس کے کہ اپنے عو ام کو اس دوڑ میں شامل ہونے کے
سنگین نتائج سے آگاہ کرتے ، انہوں نے اپنے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے ان غریب ممالک
کے وسائل بھی اس جنون کی نذر کردیے۔
ایٹمی تجربات اور ان کے نتائج
کی بات کرتے ہوئے بے ساختہ اس شخص کی یاد آتی ہے جو بلاشبہ بیسویں صدی کی چند عظیم
ذہانتوں میں سے ایک تھا اور ‘‘انسان’’ بھی بہت بڑا تھا۔ اس شخص کا نام البرٹ آئین
اسٹائن تھا۔ وہ ایک صلح جو اور امن پسند انسان تھا۔ اس کی زندگی سائنس کی لیباریٹریوں
میں نت نئے تجربات کرتے ہوئے اور ان کے نتائج کا کھوج لگا تے ہوئے گزر ی ،اسے ابتدائی
زندگی میں سیاست سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن نازی جرمنی میں برھتے ہوئے جنگی
جنون اور نسلی نفرت سے اسے خوف آتا تھا ۔ اس خوف کے باوجود اس نے برلن کے ایک ایسے
انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر کے طور پر کام کرنے کی پیشکش قبول کرلی جسے نظریاتی طبیعات
کے موضوع پر تحقیق کے لیے بین الاقوامی اہمیت حاصل تھی۔
(جاری)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-voice-conscience-part-4/d/2377